
خواتین کا استحصال بی ایل اے کی مکروہ حکمت عملی – قادر خان یوسف زئی
خواتین کا استحصال بی ایل اے کی مکروہ حکمت عملی – قادر خان یوسف زئی
بلوچستان، جو اپنی ثقافت، روایات اور خوبصورتی کے لیے مشہور ہے، آج ایک ایسے المیے کا شکار ہے جو نہ صرف اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ پورے پاکستان کی سالمیت کو بھی چیلنج کر رہا ہے۔ اس المیے کی جڑیں کئی دہائیوں پرانی ہیں، جہاں سرداری نظام، محرومیوں اور ملک دشمن عناصر نے مل کر ایک ایسا زخم دیا ہے جو آج بھی بھرنے کا نام نہیں لے رہا۔ خواتین کا استحصال، سرداری نظام کی جابرانہ گرفت، اور کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) جیسے ملک دشمن عناصر کے گھنائونے عزائم، یہ سب عوامل مل کر بلوچستان کو ایک مسلسل بحران کی حالت میں رکھے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کی سنگلاخ وادیوں میں، جہاں ہوا کی سرگوشیاں قدیم کہانیوں کی محافظ ہیں، وہاں کی مٹی آج ایک اور داستان رقم کر رہی ہے، ایک ایسی داستان جو نہ صرف دل دہلا دینے والی ہے بلکہ نام نہاد قوم پرستوں کی اجتماعی بے حسی کا ماتم بھی کر رہی ہے۔
یہ داستان خواتین کے استحصال کی ہے، ان کی معصومیت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ہے، اور اس کے مرکزی کرداروں میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) جیسا گروہ شامل ہے، جس نے دہشت گردی کی بدترین اور مکروہ شکل اپنائی ہے اور سماج کی سب سے زیادہ احترام کے قابل رشتے کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ خواتین، جو کسی بھی معاشرے کا وقار اور امید ہوتی ہیں، ان کے خوابوں کو مٹی میں ملا کر انہیں ایسی جنگ کا ایندھن بنایا جا رہا ہے جو نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ ایک اجتماعی جرم بھی ہے۔ بی ایل اے کی جانب سے خواتین کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے بھرتی کرنا محض ایک عسکری حکمت عملی نہیں بلکہ ایک گہری سماجی سازش ہے، جس کا مقصد بلوچستان کے قدامت پسند معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ یہ گروہ سوشل میڈیا کے ذریعے معصوم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنساتا ہے، جعلی اکاونٹس، جھوٹے وعدے اور نفسیاتی دبائو ان ہتھکنڈوں میں شامل ہیں جو ان کی زندگیوں کو تاریکی میں دھکیل دیتے ہیں۔
\
بلوچستان، جو اپنی ثقافتی روایات اور غیرت کے لیے مشہور ہے، بد قسمتی سے آج ایسے عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہے جو خواتین کے وقار کو اپنے گھناؤنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو نہ صرف ہماری اجتماعی اخلاقیات پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ ہمارے ریاستی نظام کی بے بسی کو بھی عیاں کرتا ہے۔ شاری بلوچ جیسے واقعات ان مکروہ عزائم کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں تعلیم یافتہ اور باشعور خواتین کو دہشت گرد حملوں کا حصہ بنایا گیا۔ تربت کی 27سالہ خاتون کی کہانی بی ایل اے کے مظالم کی ایک اور زندہ مثال ہے، جہاں اسے نفسیاتی دبائو کے ذریعے خودکش حملے پر مجبور کیا گیا۔ یہ واقعات اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ خواتین کو بھرتی کرنے کی یہ حکمت عملی نہ صرف ایک دہشت گرد چال ہے بلکہ ایک نفسیاتی اور سماجی حربہ بھی ہے، جو معاشرتی تانے بانے کو بکھیرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ عالمی رپورٹس، جیسے ’’ مور ٹو ہر اسٹوری‘‘، ’’ ولسن سینٹر‘‘ اور’’ نیو لائنز میگزین‘‘، یہ واضح کرتی ہیں کہ خواتین کو ان کے نفسیاتی مسائل، سماجی دبا اور غربت کے باعث آسان ہدف بنایا جا رہا ہے۔
خواتین کو دہشت گرد کارروائیوں میں شامل کرنے کا رجحان محض بی ایل اے تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ داعش، بوکو حرام اور دیگر دہشت گرد گروہوں نے بھی خواتین کی معصومیت اور ان کے سماجی مسائل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔’’ فارن پالیسی‘‘ اور’’ جامسٹائون فائونڈیشن‘‘ کی تحقیقات کے مطابق، خواتین حملہ آور زیادہ توجہ حاصل کرتی ہیں اور ان کے حملے نہ صرف زیادہ تباہ کن ہوتے ہیں بلکہ میڈیا میں زیادہ اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں خواتین کی مبینہ بھرتی کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے نفسیاتی حربے انہی عالمی رجحانات کا حصہ ہیں۔ بی ایل اے کی حکمت عملی محض ایک دہشت گرد گروہ کے عزائم تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک سماجی زہر ہے، جو بلوچستان کے قدیم اور مضبوط خاندانی نظام کو کمزور کر رہا ہے۔
کالعدم بی ایل اے کی جانب سے خواتین کو بھرتی کرنے کی حکمت عملی محض ایک دہشت گرد چال نہیں بلکہ ایک گہری نفسیاتی اور سماجی سازش ہے۔ بی ایل اے جیسے ملک دشمن عناصر کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی ضروری ہے۔ سب سے پہلے، سوشل میڈیا پر ان کے پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے ایک موثر سائبر سیکیورٹی نظام قائم کیا جائے۔ دوسری طرف، ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں جہاں بی ایل اے کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ ان تنظیموں کے جال میں نہ پھنسیں۔ سول اور فوجی قیادت کو مل کر ایک ایسی حکمت عملی بنانی ہوگی جو نہ صرف ان تنظیموں کا خاتمہ کرے بلکہ ان کے نظریاتی اثر کو بھی ختم کرے۔
بلوچستان کے عوام، خاص طور پر خواتین، آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ تعلیم اور روزگار کے مواقع کی کمی نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔ ایک ایسا خطہ جو معدنی وسائل سے مالا مال ہے، وہاں کے لوگ غربت اور محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ محرومی نہ صرف ان کے جسموں کو بلکہ ان کی روحوں کو بھی زخمی کر رہی ہے۔ کالعدم بی ایل اے جیسے عناصر اس محرومی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور ریاستی ناکامیوں نے ان کے کام کو اور بھی آسان بنا دیا ہے۔ حکومتی سطح پر کیے گئے اقدامات، جیسے خواتین سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی اور تعلیمی اداروں کی نگرانی، مسئلے کو حل کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جامع حکمت عملی اپنائی جائے ، جو نہ صرف بی ایل اے بلکہ کالعدم تنظیموں سمیت فتنہ الخوارج کی جڑیں بھی کاٹے ، بلکہ بلوچستان کے عوام کو ایک بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کرے۔ خواتین کے لیے تعلیمی ادارے، ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز، اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ناگزیر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے ایک مضبوط سائبر سیکیورٹی نظام قائم کرنا ہوگا۔ مقامی قیادت اور سول سوسائٹی کو اس عمل میں شامل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ معاشرتی مسائل کا حل جڑ سے نکالا جا سکے۔
بلوچستان کی سرزمین، جو صدیوں سے غیرت اور وقار کی علامت رہی ہے، آج ہم سے سوال کر رہی ہے۔ کیا ہم اپنی معصوم بیٹیوں کو ان دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں بے یارو مددگار چھوڑ دیں گے؟ یا ہم ایک ایسا نظام تشکیل دیں گے جہاں ہر بلوچ لڑکی اپنی تعلیم مکمل کر سکے، اپنے خوابوں کو پورا کر سکے، اور اپنی زمین کے لیے ایک روشن مستقبل کا حصہ بن سکے؟ ۔