Chitral Times

اظہار تشکر! – اہالیان شوگرام و لواحقین سابق سفیر پاکستان محمد اسلم خان مرحوم 

Posted on

اظہار تشکر! – اہالیان شوگرام و لواحقین سابق سفیر پاکستان محمد اسلم خان مرحوم

حقیقت ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہوجاۓ

ہم اہالیان شوگرام بالعموم اور پورا خاندان بلخصوص ان تمام افراد کو شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے میرے چچا سابق سفیر پاکستان محمد اسلم خان کی بیماری سے لیکر انکی وفات تک ہمارے ساتھ کسی بھی طریقے کی مدد کی۔ہم کویت میں الکبیر ہسپتال کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف، کویت میں مقیم پاکستانی کمیونٹی، پاکستان ایمبیسی کویت، کویت میں ہمارے چترالی بھائی خصوصی طور پر عطاالرحمن بھائی ریشن، انثار احمد بھائی موردیر، عبد الخالق بھائی چترال اور الکبیر ہسپتال میں نرسنگ اسٹاف میں چترالی بہنوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے انکی بیماری کے دوران وقت نکال کر ہر روز ان سے ملاقات کی اور ہر قسم کی مدد فراہم کی۔اسکے علاوہ میں PSO ٹو DIGاسلام آباد ندیم طاہر صاحب، اسلام آباد ائیر پورٹ پاکستان کسٹم شفقت قاضی صاحب، ہاروں احمد صاحب شفٹ انچارج پاکستان کسٹم اسلام آباد ائیر پورٹ جنہوں نے انکی دوائی کویت پہنچانے میں ہماری مدد کی۔اسکے علاوہ انکی وفات کے بعد انکی تدفین اور پاکستان روانگی میں مدد کرنے پر ہم پاکستانی کمیونٹی کویت اور پاکستان ایمبیسی کویت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔اسکے بعد اسلام آباد ائیر پورٹ پر انکو اسپیشل پروٹوکول دینے پر ہم فارن سیکریٹری سائرس قاضی صاحب اور انکی اہلیہ، ایڈیشنل سیکریٹری محمد سلیم، ایڈیشنل سیکریٹری احمد امجد علی، ڈائریکٹر رمان وزیر، ڈی سی پی سعد، ابرار حسین، برہان حسین اور دوسرے احباب کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ہم ڈی سی اپر چترال، ڈی سی لوئیر چترال، کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ذاتی دلچسپی کے ساتھ انکو پروٹوکول کے ساتھ انکے آبائی گاوں پہنچانے کا بندوبست کیا۔ہم ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے انکے جنازے میں شرکت کی۔آپ تمام افراد کا شکریہ جنہوں نے ذاتی طور پر انکی تعزیت کی، فون کرکے میسیج یا سوشل میڈیا کے زریعے تعزیتی پیعامات بھیجے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے

منجانب:
اعجاز احمد
محمد علی
طارق اقبال
خالد احمد
محمد عقیل
طریق اللہ
شھریار احمد

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوط
86451

 سپاس تشکر ۔ فخر عالم اینڈ فیملی چترال

Posted on

 سپاس تشکر ۔ فخر عالم اینڈ فیملی چترال

ہمارے والد محترم  الحاج  شاہ عالم کے گزشتہ ہفتے اس دار فانی سے انتقال کرنے کے غمناک موقع پر ہمارے دوست احباب اور رشتہ داروں نے ہمارے ساتھ بہت ہی ہمدردی کا اظہار کیا اور غم کی ان گھڑیوں میں وہ ہمارے ساتھ رہ کر ہمیں حوصلہ دیتے رہے۔ ہمارے ساتھ اظہار تعزیت کے لئے وسیع دائرے میں پھیلے ہوئے ہمارے دوست احباب اور رشتہ دارنماز جنازے میں اہتمام کے ساتھ شرکت کی اور تعزیت کے لئے خود ہمارے غریب خانہ میں تشریف لائے، شہر سے باہر رہنے والے حضرات ٹیلی فون کال، ٹیکسٹ مسیج اور سوشل میڈیا کے ذریعے تعزیت کی اور اپنے نیک خواہشات کا اظہار کرتے رہے۔ ہم زندگی بھر آپ سب حضرات کا احسان مند رہیں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور جزائے خیر کے لئے  دعاگو ہیں۔چونکہ فرداً فرداً آپ تمام معزز ومحترم خوا تین و حضرات کا شکریہ ادا کرنا بہت ہی مشکل کام ہے، اس لئے میں میڈیا کے ذریعے آپ کا شکریہ ادا کرنا اپنا خوشگوار فریضہ سمجھتے ہیں۔
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین
منجانب: 
 فخر عالم، سی ای او عالم انٹرپرائزز، شاہی قلعہ روڈ چترال 
میر عالم، پروپرائیٹر، عالم میڈیکوز، چترال 
میجر ممتاز عالم، حال بکرآبادچترال 
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged
77794

سگریٹ تمباکو کے نقصانات۔ عالمی تمباکو سے انکار کا دن ۳۱ مئی‎‎

سگریٹ تمباکو کے نقصانات- عالمی تمباکو سے انکار کا دن ۳۱ مئی‎‎

سلام علیکم ایڈیٹر صاحب
عالمی “تمباکو سے انکار “کے دن ہمیں یہ عہد کرنا ہے۔کہ سگریٹ جیسے نقصاندہ اور زہر سے اپنے آپ اوراپنے خاندانوں کو بچائے۔
سگریٹ پینے سے مختلیف قسم کی جان لیوا بیماریاں جنم لیتی ہیں جیسا کہ

۱۔دل کے شریانوں کی بیماری جو کہ ہارٹ اٹیک کا سبب بن سکتاہے۔تحقیق سے ثابت ہے ۱۰۰ میں سے ۵۰ فیصد سگریٹ پینے والوں کو دل کی بیماریہوسکتی ہے۔خون کے سرخ ذرات میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے خون گاڑھا ہوتا ہے۔جو دل کے شریانوں میں خون کی روانگی کو متاثر کرتی ہے۔

۲-دماع کے شریانوں کی بیماری جس کی وجہ سے فالج کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔اور یاد داشت کمزور ہوتا ہے

۳۔سگریٹ پینے سے پھپڑوں کی نلیوں میں سوزش کے علاوہ اور مستقل نقصان ہوتا ہے۔پھپڑوں کے کنسر ،دمہ کی بیماری یہ زیادہ تر سگریٹ پینے سے آتی ہیں۔

۴-سگریٹ پینے سے جگر اور دوسرے اہم اعضاء کو خون کی روانگی متاثر ہوتی ہے۔جس سے یہ اعضاء کو نقصان پہنچتاہے۔

اس کی علاوہ سگریٹ پینے سے تحقیق کے مطابق جوڑوں کی بیماری،آنکھوں کی بیماری اور دوسرے بہت ساری بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔
تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ سگریٹ نہ پینے والے ایسے افراد جو سگریٹ پینے والوں کے پاس موجود ہوتے ہیںں اور پیسیو سموکنگ کرتے ہیں۔ وہ بھی برابر نقصان اٹھاتےہیں۔۔امریکہ میں پیسیو سموکنگ سے مرنے والوں کی سالانا تعداد چالیس ہزار سے ذیادہ ہے جن میں شیرخوار بچے بھی ہیں۔ جو سگریٹ خود نہییں پیتے بلکہ سگریٹ پیتے وقت سگریٹ پینے والوں کے آس پاس ہوتے ہیں۔
آج سے ہم عہد کرے کہ ہم سگریٹ پینا چھوڑدے اور اپنی صحت کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی بچائے۔اور یہ مضر صحت چیز سے دور رہے۔گھر میں بچوں کے سامنے سگریٹ پینے سے پرہیز کرے۔

شمس علی شاہ

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
75110

اپر چترال کے ہیڈ کوارٹر بونی میں پینے کا پانی ندارد، مکین پانی کے بوند بوند کو ترس گئے

Posted on

اپر چترال کے ہیڈ کوارٹر بونی میں پینے کا پانی ندارد، مکین پانی کے بوند بوند کو ترس گئے

محترم ایڈیٹر صاحب سلام علیکم!

آپ کے معتبر آن لائن اخبار کے ذریعے حکام کو اگا ہ کرنا چاہتے ہیں کہ برائے نام ہڈکوارٹر بونی میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ ایک این جی او کے تحت چلنے والا پانی کا سکیم بھی ٹھپ پڑا ہے۔لوگ بوند بوند پانی کو ترستے ہیں۔اس طرح سرکاری نلکوں میں بھی پانی نہیں ہے۔دو سال پہلے پانی کے بلا تعطل سپلائی کا جھانسا دے کر مقامی حکومت کے کارندوں نے پیسے بھی وصول کئے ۔لکین کوئی بہتری نہیں آئی۔لوکل میو نسپلیٹی کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرے۔لیکن ان کو کوئی احساس ہی نہیں ہے۔

ہم اہالیان بونی خصوصا لشٹ کے عوام حکومت سے بھر پور اپیل کرتے ہیں کہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرے۔

شمس علی بونی اپر چترال

chitraltimes upper chitral booni water supply 3 nalka totti rotated

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged
73774

کھلا خط – بنام ڈپٹی کمشنر لوئر چترال

کھلا خط – بنام ڈپٹی کمشنر لوئر چترال

جناب ڈپٹی کمشنر صاحب

السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
اميد ہے کہ آپ بخير و عافیت ہوں گے۔ اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے!

میں اس تحریر کی وساطت سے آنجناب کی توجہ ایک عوامی مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی واحد سڑک چترال ٹو پشاور روڈ پر جغور سے چمرکن تک تین یا چار کلومیٹر کافی عرصے سے آں محترم کی نگاہ عنایت کی منتظر ہے۔ ہماری معلومات کی حد تک سڑک پر مرمت کا کام کوئی چار مہینے پہلے شروع کیا گیا تھا مگر تا حال کام ناقص، غیر مرتب اور سست روی کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی اور نہیں بلکہ آپ کے اپنے اہل چترال و دیگر عوام شدید اذیت اور ذہنی کوفت سے دو چار ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر مریض، خواتین، بزرگ شہری اور اسکول کے معصوم طلبہ و طالبات کو سڑک کے اس مخدوش صورتحال کی وجہ سے سخت مصیبت جھیلنی پڑتی ہے۔

 

مکرمی! مرمت کے اس کام میں تاخیر ٹھیکیدار کی غفلت اور مسلسل لا پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس پر مستزاد یہ کہ عوام کے ساتھ یہ مذاق ضلعی انتظامیہ کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ ہم اس بے حسی پر آپ ہی بتائیے کس سے شکوہ کناں ہوں؟ اور کس سے منصفی چاہیں؟

 

اس سڑک پر کام کی ابتدا دیکھ کر جو خوش کن امید بندھی تھی اور اب سراب ہوتی جا رہی ہے۔ اگر عوام کو اس روڈ کے بن جانے بعد ملنے والی فرحت بخش عافیت کے مقابلے میں موجودہ صورت حال کی اذیت زیادہ ملی تو سوچیے کہ اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

 

جناب عالی! آپ جیسے قابل افسران سے ہی سے اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ آپ اس سلسلے میں اپنے ہر قسم کے اختیارات کو بروئے کار لا کر اس دیرینہ خواہش کی تکمیل اور اس انتہائی اہم فریضے کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ آپ میری اس عرضداشت کو قابل اعتناء سمجھ کر عوامی نوعیت کے اس حساس مسئلے کو مکمل طور پر اور پوری ذمہ داری سے جلد از جلد حل کروانے کیلئے مؤثر اقدامات کریں گے، اور متعلقہ ذمہ داران کو اس شارع عام پر ادھورا کام مکمل کرنے کا پابند بنائیں گے۔
اللہ پاک ہر کار خیر میں آپ کا حامی و ناصر ہو اور ہر شر سے آپ کو محفوظ رکھے۔ آمین!

 

والسلام
فقط آپ کا خیر اندیش
عبدالحی چترالی

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
68116

چترال کی خدائی خدمت گار ۔تحریر: احسان الحق وفا اپر چترال

چترال کی خدائی خدمت گار۔ تحریر: احسان الحق وفا اپر چترال

دنیا میں ایسے انسان بہت ہی کم ملتے ہیں جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں ان کا جینا مرنا صرف انسانیت کے لئے ہی ہوتا ہے جنہوں نے خدمت انسانیت کو اپنا شیوا بنایاہوتا ہے۔
انہی میں سے ایک مرد درویش چترال کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے سماجی مذہبی شخصیت حضرت مولاناقاری فیض اللہ صاحب دامت برکاتھم عالیہ ہیں
جن کا دل صرف چترال کے لئے ہی دھڑکتا ہے وہ ہر وقت اہالیان چترال کے لئے کچھ کرنے کے تگ ودو میں ہوتے ہیں۔ چاھے وہ میٹرک کے پوزیش ہولڈر کے لئے نقد انعام اور شیلڈ کی صورت میں ہو یا مساجد کے لئے ٹین کی چادروں کی صورت میں ہو یا مختلف پیکچ کی صورت میں ہو یا سب سے بڑے دینی خدمت حلقہ قرآنی کی صورت میں ہو یاچترال کے سخت سردی میں مختلف مدارس کے بچوں اور بچیوں کے لئے گرم سویٹر کی صورت میں ہو یاعلماء پیکچ کی صورت میں گندم کی تقسیم ہو اور ناگہانی آفت کی صورت میں قاری صاحب محترم کی طرف سے امدادی ٹیم کاسب سے پہلے پہنچنے کا اعزاز بھی قاری صاحب کے پاس ہے۔
رواں سال کے تباہ کن سیلاب میں حضرت قاری صاحب کی سیلاب متاثرین کی جو امداد کی گئی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے آج بھی سیلاب متاثرین کے گھروں کے لئے جستی چادریں دی جارہی ہیں یہ سب استاد محترم کی اہالیاں چترال کے لئے ایک غیرمعمولی خدمت ہے۔
ابھی سردیوں کے دن شروع ہوگئے تو حضرت قاری صاحب کی طرف سردی سے بچاؤ کے لئے لوئرچترال/اپرچترال کے غرباء اور مدارس کے بچوں/بچیوں میں گرم سوئٹر اور پجامے تقسیم ہورہے ہیں
اور میں یہ کہنے پرحق بجانب ہوں کہ حضرت قاری فیض اللہ چترالی صاحب چترال کے خدائی خدمت گار ہیں
اللہ تعالی استاد محترم کے علم وعمل مال و اولاد میں برکت عطاء کریں اور ان کاسایہ تادیرہمارے سرپرقائم ودائم رکھے آمین ثم آمین
احسان الحق وفا اپر چترال
chitraltimes qari faizullah relief upper chitral4 chitraltimes qari faizullah relief upper chitral2 chitraltimes qari faizullah relief upper chitral1 chitraltimes qari faizullah relief upper chitral
Posted in تازہ ترین, خطوط, مضامین
67887

اپرچترال کے زمہ داران کے نام – تحریر : عبداللہ شہاب

اپرچترال کے زمہ داران کے نام – تحریر : عبداللہ شہاب

عزت مآب تحصیل چیرمین سردار حکیم صاحب, ڈپٹی کمشنر اپرچترال, تحصیل میونسپل آفیسر اپرچترال

میں پاکستان کا ایک عام شہری جسے بہت چیزوں میں نہ مداخلت کا حق ہے اور نہ ہی بولنے کا آپ تمام کی توجہ ایک مسلہ جو عوامی نقطہ نظر سے بہت بڑا اور انتظامی نقطہ نظرسے بہت چھوٹا ہے, کی طرف دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہےکہ چترال ٹو بونی روڈ جو جونالی کوچ کے مقام پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے خراب ہوچکا ہے دیکھا جائے تو ایک ادھ کھنٹے کا کام ہے کئی ہفتوں سے جوں کا توں پڑا ہے۔ بظاہر دیکھنے سے آپ صاحباں کی گاڑیوں کے لیے مسلہ ہے نہ چھوٹی پرائیویٹ گاڑیوں کے لیے۔ لیکں عوامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کبھی بھی کسی بڑے حادثے کا سبب ہوسکتا ہے کیوں کہ اس روڈ سے روزانہ کی بنیاد پرمتعدد تعلیمی اداروں کی  بسیں گزر رہی ہے جس میں سینکڑوں طلبہ سفر کررہے ہوتے ہیں۔

 

یہ روڈ اب بسوں کے لیے ناقابل استعمال ہوچکا ہےایک تو بس دوسری گاڑیوں کی نسبت بڑی ہیں دوسرا یہ کہ اس میں زیادہ تعداد میں طلبہ سفر کررہے ہوتے ہیں اس روڈ سے گزرنا ناممکن کے قریب ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے اس مقام میں پہنچ کر بسوں سے طلبہ کو اتارا جاتا ہے اور بس مشکلوں سے گزر جاتی ہے تو اس میں دوبارہ سوار کیا جاتا ہے اس میں طلبہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

اس لیے آپ صاحبان سے التماس ہے اس کے پہلے کہ کوئی حادثہ رونما ہوجائے اس طرف نظر کرم کرکے عوام کی سہولت کی خاطر اسے قابل استعمال بنایا جائے۔
ہم عوام و خواص کسی حادثے کے منتظر ہوتے ہیں جب تک کوئی حادثہ رونما نہ ہوجاتا ہے ہم آنکھیں بند کئے ہوتے ہیں اور ماضی میں ہمارے سامنے ایسے بہت ناخوشگوار تجربے موجود ہیں۔

 

اس روڈ میں کام کی نوعیت محض ایک گھنٹے کی ہے اس کے لیے نہ کسی بڑی مشینری کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی پراجیکٹ کی ایک اکسکیوٹر اگر مہیا کیا جائے تو ایک ادھ گھنٹے میں اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ کام صرف اتنا ہے کہ ڈھلوان سائیڈ سے مٹی سلائیڈنگ والی جگہے میں بھرنی ہے۔

 

اس ایک چھوٹے سے کام میں درخواست, حادثے یا احتجاج کا انتظار کرنا نری جہالت ہے۔ لہذا آپ سے التماس ہے کہ ان سب حوالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس روڈ کو سکول و کالجز کی بسوں کے لیے قابل استعمال بنایا جائے۔ ورنہ آنے والے دنوں میں طلبہ گھر بیٹھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ لہذا اس نوبت کا انتظار نہ کیا جائے۔

chitraltimes junalikoch road upper chitral

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
67697

ڈسپنسری بغیر ڈسپنسر کے ۔ فرمان عجب اپر چترال

Posted on

ڈسپنسری بغیر ڈسپنسر کے ۔ فرمان عجب اپر چترال

آج سے تقریباً بارہ سال پہلے محکمہ صحت خیبر پختونخواہ کی جانب سے چرون اویر اپر چترال میں باقاعدہ ڈسپنسر ی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی عوام کی چیک اپ اور مفت ادویات کی فراہمی کا عمل بھی شروغ کیا گیا۔ اس طرح ۲۰۱۰ سے۲۰۲۰ کے پہلے سہ ماہی تک یہ ڈسپنسری یہاں کے عوام کو صحت کے بنیادی سہولت فراہم کرتی رہی جسے علاقے کی عوام کافی حدتک مطمیئن تھیں اور آپنے فرسٹ ایڈز یہاں سے لیتے تھے اور پیچیدہ امراض کی علاج کے واسطے ڈسپنسرز حضرات کی مشاورت سیدوسرے ہسپتالوں کا رح کرتے تھے۔جسے ان کی اخراجات کم پڑتے تھے – رفتہ رفتہ اس طبی مرکز کی فعالیت نان لوکل ڈسپنسرز کے آئے دن ٹرانسفر کے باعث کمی ہوتی گئی یہاں تک کہ گذشتہ ڈھائی سال سے ڈسپنسری ھذا بغیر ڈسپنسیر کے عوامی خدمات سے عاری ہے اس کا ضلعی سطح پر کوئی پرسان حال ہے نہ صوبائی سطح پراسکی کوئی وارث ہے- بس عوام کی ٹیکس سے عمارت کھڑی ہے اور پانچوں عملے صبح سے چھٹی کے وقت تک بیٹھے صرف دیہاڑی لگا کرمہینہ پورا ہونے پراپنے تنخواہ وصول کرتے رہتے ہیں وقتی طور پراس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں لیکن ستم طریفی یہ ہے کہ ہمارے ڈسٹرکٹ ہیلتھ انتظامیہ او رمانیٹرنگ ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے افراد ڈھائی سال کے دوران کئی بار اس ڈسپنسری کا وزٹ کر چکے ہونگے اورر اس تناظر میں حکومتی ریسورس کا استعمال کیے ہونگے اور اپنے لیے ٹی اے ڈی اے کا تقاضا بھی کرچکے ہونگے اس بارے میں وہ خود بتا سکتے ہیں۔ پھر بھی ان کی ان وزٹز کی ضامن میں چند سوالات ذہنوں میں گردش کر رہی ہیں جو ان حضرات کی گوش گزار کی جاتی ہیں کہ کیا آ پ لوگوں کی زمہ داری صرف کلاس فورز اور عمارات کی منیٹیرنگ تک محدود ہیں؟کیا ڈسپنسرسے آپ کا کوئی تعلق نہیں؟ کیا ڈسپنسر کے بغیر ڈسپنسری کیا مغی رکھتاہے؟ کیا جس مقصد کے لّے یہ ڈسپنسری بنی تھی کیا وہ مقاصد بغیر ڈسپنسر کے حاصل ہو پا رہیہیں؟ اگر یہ درست ہیں تو پھر آپ صاحباں کی یہ وزٹز بچوں کے کھیل کے متراف نہیں جو کسی نتیجے کے بغیر اختیتام پذیر ہوتے رہتے ہیں۔

جب بھی ہم اس ڈسپنسری کی صورت حال پر غور کرتے ہیں تو فی الحال یہاں پانچ ملازمیں کی تنخواہ، بجلی کی بل، پانی کا بل، مرمت اور دیگر اخراجات کی مد میں خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود بھی علاقے کے عوام اب بھی علاج معالجے کے بابت دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ڈسپنسر کی عدم موجودگی میں اسے ڈسپنسری کا نام دینا بھی ذیادتی ہے۔ ان اخراجات کے باوجود بھی اس ڈسپنسری میں ڈسپنسرکی عدم تعیناتی سمجھ سے باہر ہے۔

 

یہاں فرضی ڈسپنسری کے ہوتے ہوئے بھی علاقے کے عوام بلڈ پریشر کی چیک آپ کی غرض سے تحصیل ہید کواٹر ہسپتال بونی جانے پر مجبور ہیں اور روزانہ چار سو روپے گاڑی کی شخصی کرایے کی مد میں فی کس خرچ کر رہے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۰ کے اوائل تک بیار لوکل سپورٹ ارگناًزیشن بونی اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام چترال کی اشتراک سے اس علاقے میں ایک کمیونٹی بسیڈ ہیلتھ سنٹرکا قیام عمل میں لایا گیا تھا جسے یہاں عوام مستفید ہورہی تھی موجودہ ڈسپنسری کی منظوری کے بعداسے ختم کیا گیاجس کی تمام انتظامی امور کمیونٹی خود انجام دی رہی تھی اور بحثیت سیکریرٹری ہیلتھ سنٹر مجھے یاد پڑتا ہیکہ اس سنٹر میں روزانہ اوسط پشنٹ فلوپانج تھی۔ اگر اسی زمانے کے اسی پشنٹ فلو کوہی مدنطر رکھ کرآج کل کی عوام کی اخراجات کا تحمینہ لگایا جائے تو پانچ افراد کی یومیہ شخصی کرایہ آنے جانے کا دو ہزارروپے بنتی ہے۔ بونی جاکر ایک وقت کا کھانا کھانا پڑتا ہے اس طرح پانچ افراد کی ایک وقت کی کھانے کی اخراجات ایک ہزار روپے سے ذیادہ ہوگی۔ اگر مریض یا مریضہہکمزور ہے تو اس کے ساتھ اٹینڈینٹ کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے اسپیشل گاڑی بک کرانا پرتی گاڑی کی بکنگ دو ہزار روپے ہے۔ اگر روزانہ ایک ہی اٹینڈینٹ بھجیا جائے تو اس کی ایک دن کی کمائی کم از کم ایک ہزار روپے ہو گی ان سب کو ملا کر پانچ افراد کی روزانہ کم ازکم اخراجات چار سیپانچ ہزرارروپے تک پہنچتی ہے- مہینیمیں ۱۳۵۰۰۰ روپے جبکہ ایک سال میں یہ اخراجات سولہ لاکھ بیس ہزار روپے بنتے ہیں۔اس تخمینے کے مطابق یہاں کے عوام اب تک چالیس لاکھ روپے خرچ کر چکے ہیں اور ڈسپنسر کے تعناتی طول پکڑنے کی صورت میں یہ اخراجات مزید بڑھ سکتی ہیں جو کہ اس علاقے کے عوام کے ساتھ سراسر ظلم ہو گی جسے یہاں مکین کبھی معاف نہیں کریں گے-

 

ایک طرف گورنمنٹ کی جانب سے اس ڈ سپنسری پر ماہوار خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے تو دوسری جانب علاقے کے عوام اپنی جمع پونچی اپنے اور اپنے عزیزواقارب کی صرف بلڈ پریشر کی چیک آپ کے واسطے دور دور کی ہسپتالوں کی چکر لگاتے ہوًے خرچ کر رہے ہیں۔ اس طرح دونوں جانب سے قومی دولت خرچ ہو رہی ہے۔ اس کا کسی کو احساس ہے اور نہ کسی کی ضمیر مذمت کرتا ہے۔ ڈ سپنسر کی عدم موجودگی کو علاقے کے عوام باربار دسٹرکٹ ہیلتھ کے زمہ دار افراد کے نوٹس میں لا چکے ہیں انھوں نے ہر بار ڈسپنسر کی اسامیوں کی کمی کابہانہ بناکر اس ڈ سپنسری کو ڈ سپنسر دینے سے گریزان ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں گورنمنٹ کی جانب سے کوئی محکمہ قائم کی جاتی ہے سب سے پہلے فنانس ڈپارنمنٹ سے مطلوبہ اسامیاں منطور کرائی جاتی ہیں اور پھراس کے مطابق ملازمین کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری ڈسٹرکٹ ہیلتھ انتیظامیہ کے پاس پہلے سے منظور شدہ ڈسپنسری کے لیے ڈسپنسرکی اسامی دو سالوں سے خالی ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ ایک طرف محکہ صحت کے حکام کی اس بے حسی کو دیکھ کردل خون کے انسو رو رہا ہے تو دوسری طرف ریاستی اداروں کی صحت سے متعلق بلندوبالا دعویٰ اور حب الوطنی پر سوال اٹھتا ہے کہ عوام کو بیرونی اور اندرونی خطرات جن میں بیماریاں بھی شامل ہیں سے حفاظت دلوانیکا حلف اٹھائے ہوئے لوگ اپنے حلف کی پاسداری کیوں نہیں کر رہے –کیا وہ اس امر کوبھلا بیٹھے ہیں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا ؟

 

Posted in تازہ ترین, خطوط, مضامینTagged
67536

 اپر چترال ڈسٹرکٹ کو پبلک سروس کمیشن کےمجوزہ زون چھ میں شامل کیا جایے۔۔عوامی حلقے

Posted on

 اپر چترال ڈسٹرکٹ کو  پبلک سروس کمیشن کےمجوزہ زون چھ میں شامل کیا جایے۔۔عوامی حلقے

خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت اپنی ماتحت تمام محکموں خصوصاً خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن کی وساطت سے بھرتیوں کے عمل میں ایک نیا زون متعارف کرنے جا رہی ہے جسے زون چھ کا نام دیا جا رہا ہے ۔ اس زون میں پسماندہ اضلاع کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ ان علاقوں کے نوجوانوں کو بھی سرکاری محکموں میں ملازمت کے خاطر خواہ مواقع مل جائیں ۔
ضلع اپر چترال بھی ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں تعلیمی سہولیات کی فقدان ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ بدقسمتی سے مجوزہ زون چھ میں اپر چترال کا نام شامل نہیں کیا گیا ہے اور بدستور زون پانچ جس میں قدرے ترقی یافتہ اضلاع موجود ہیں رکھا گیا ہے ۔ زون پانچ کے تقریباً تمام اضلاع میں اعلیٰ تعلیمی ادارے یعنی جامعات قائم کی گئی ہیں لیکن اپر چترال اس سے  ہنوز محروم ہے اور مستقبل میں شاید کبھی کوئی ایک آدھ یونیورسٹی یہاں پر قائم ہو۔  فی الحال اس تناظر میں وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی جناب وزیر زادہ صاحب اور ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان صاحب سے گزارش ہے کہ اپر چترال کو مجوزہ زون چھ میں شامل کروانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
شکریہ

اکبر حسین برایے عوام اپر چترال

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged
66159

گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول بانگ یارخون کی ایس ایس کی خالی آسامیاں بلا تاخیر پُر کی جائیں۔شیر ولی خان اسیر

Posted on

گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول بانگ یارخون کی ایس ایس کی خالی آسامیاں بلا تاخیر پُر کی جائیں۔شیر ولی خان اسیر

جب بانگ یارخون میں ہائیر سیکنڈری اسکول قائم ہوا تو عوام خوش تھے کہ ان کے بچوں کو انٹر تک مفت تعلیم حاصل ہوگی۔ علاقے کی پسماندگی اور دور افتادگی یہاں کے بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ رہی تھی۔ ان کی اس مشکل کو حل کرنے کے لیے راقم نے 2009 میں یہاں انٹر میڈیٹ کالج قائم کیا تھا۔ بعد میں اسے ڈگری کالج کا درجہ دیا گیا تھا۔ بہت ہی معمولی فیس بچوں سے لی جاتی تھی وہ بھی ان کے والدین ادا کرنے سے قاصر تھے۔

گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول بانگ کو جب ترقی دی گئی تو ہمیں لگا کہ عوام کا بڑا مسلہ حل ہوگیا۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔
سال روان کے دوران مجھے دو مرتبہ اسکول کی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ پچھلی دفعہ یوم والدین کی تقریب تھی۔ اس کی روداد میں نے لکھی تھی۔ اس وقت تدریسی عملے کی کل منظور شدہ اسامیوں میں سے صرف 13 آسامیاں پر تھیں۔ 17 آسامیاں خالی تھیں۔ میرا خیال تھا کہ تعلیمی سال کے شروع ہونے کے ساتھ خالی آسامیاں پر کی جائیں گی۔ آج پتہ چلا کہ مزید دو پوسٹیں اور خالی کر دی گئی ہیں۔ ایک مقامی سبجیکٹ اسپیشلسٹ نے یہاں سے اپنا تبادلہ کرایا ہے جب کہ ایک غیر مقامی ایس ایس ٹی کو بھی یہاں سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس وقت صرف ایک ایس ایس موجود ہے جسے تدریسی کام کے ساتھ اسکول کا نظم و نسق بھی سنبھالنا پڑ رہا ہے۔ محکمہ تعلیم ایلمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے پی کا یہاں کے طلبہ کے ساتھ یہ بھونڈا مذاق ہے۔ بچوں کی تعلیمی زندگی برباد کی جا رہی ہے۔ اسکول میں موجود پست کلاسوں کا تدریسی عملہ انٹر کلاسوں کی پڑھائی جاری رکھنے کی اپنی سی کوششیں کر رہا ہے تاہم درست معنوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسکول ہذا میں طلبہ کی تعداد 600 ہے۔ گیارہ اساتذہ محض ان کے نظم و ضبط کی نگرانی مشکل سے کر سکتے ہیں۔

اس مختصر رپورٹ کے ذریعے سیکرٹری تعلیم ، ڈائریکٹر تعلیم(ای اینڈ سی) پختونخوا اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اپر چترال سے گزارش ہے کہ خدا را جی ایچ ایس ایس بانگ یارخون میں ایس ایس کی خالی آسامیاں بلا تاخیر پُر کی جائیں۔ طلبہ مزید تعلیمی خسارہ برداشت نہیں کر سکتے۔ عوام اور طلبہ کے سڑکوں پر آنے سے پہلے اسکول میں اسٹاف کی کمی دور کی جائے۔

شیرولی خان اسیر
پرنسپل (ر) یارخون ضلع اپر چترال

Posted in تازہ ترین, خطوط, مضامینTagged
64322

اپیل بنام – چیف جسٹس اف پاکستان اسلام اباد، پشاور۔ خورشید احمد لاوی

ادارہ یا ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں!

 

 

اپیل بنام – چیف جسٹس اف پاکستان اسلام اباد

۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ پشاور

 

عنواں: عدالتی حکم کی تعمیل میں انتظامیہ کی ناکامی/عدم دلچسپی

 

جناب عالی:

پاکستاں میں عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ لیکں عدالتی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اگر مقامی انتظامیہ اس حکم کی تعمیل میں رخنہ ڈالے تو خود کشی کرنے کے علاوہ لوگوں کے پاس کوئی اور چارہ باقی نہیں بچتا۔  یہی دردناک کہانی انجناب کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں۔ جس میں 30 سال کی طویل جوجہد کے بعد عدالتی ڈگری حاصل کی گئی۔ لیکں اس ڈگری کی اجرا میں جو رخنہ دروش پولیس نے ڈالی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ڈگری کی اجرا کے بعد بھی دروش پولیس اور انتظامیہ بدستور اس فریق کی ہمایت کررہے ہیں۔ جس کے خلاف عدالتی ڈگری ائی ہے۔ اور وہ فریق بد ستور اس معاملہ میں مداخلت کررہی ہے۔ جو اس کے خلاف عدالت نے حکم صادر کی ہے۔

 

ائے روز گاوں میں تصادم ہوتا ہے۔ اور جب ہم پولیس یا دروش انتظامیہ کے پاس جاتے ہیں۔ تو وہ اس فریق کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کرتے جس کی وجہ علاقے میں بدامنی اور خوف ہراس پھیل رہا ہے۔

 

اس حوالے سے ہم نے ڈی پی او چترال سے بھی درخواست کی ۔ لیکں اس نے بھی کوئی کاروائی نہیں کی۔

دروش کے اسسٹنٹ کمشنر صاحب کو درخواست دی ۔ اس نے بھی معاملہ کا کوئی خاص نوٹس نہ لی۔ کیونکہ عالاقے کے مافیا اس فریق کو سپورٹ کر رہے ہیں جو عدالتی حکم اپنے پاوں تلے روند ڈالتا ہے۔

 

ہم نے سیٹیزن پورٹل اور ائی جی کمپلینٹ سیل میں بھی اس حوالے سے شکایات درج کی۔ جس کا بھی کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ کیونکہ پولیس کے اندر کچھ عناصر ہیں۔ جو کہ اس بندے کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اور عدالتی حکم کی کوئی اہمیت نہیں۔

 

لاوی ایک پرامں گاوں ہوا کرتا تھا۔ ابھی گاوں کی حالت ایسی ہوئی ہے۔ جس میں کوئی قانوں نام کی چیز ہی نہیں۔ پولیس کی اس قسم کی جانبداری اور جرائم پیشہ افراد کی ہمایت نے گاوں کے بچوں اور عام افراد کے دل سے بھی قانون کی احترام ختم کی ہے۔ اب چترال کا یہ گاوں جرائم کے اعتبار سے دنیا کے خطرناک تریں علاقوں میں سے ایک ہے۔

 

اندریں حالات درخواست پیش کی جاتی ہے۔ کہ ڈی پی چتراال، اور اسسٹنٹ کمشنر دروش سے یہ پوچھا جائے۔ کہ وہ عدالتی حکم کی تعمیل میں کوتاہی کیوں دیکھا رہے ہیں۔ اور جو جرائم پیشہ افراد عدالتی حکم کی تعمیل میں راکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ اں کے خلاف انتظامیہ سخت قانونی کاروائی کیوں نہیں کر رہا ہے۔ اور جو درخواست ہم نے متعدد بار مختلف انتظامی اہلکاروں کی دی ہے۔ اں پر عملدارامد کیون نہیں کررہے ہیں۔

 

مقامی انتظامیہ کی غفلت سے اگر گاوں لاوی میں کسی قسم کی خوں خرابہ یا بڑے پیمانے پر تصادم ہوا۔ تو اس کی ساری زمہ داری دروش انتظامیہ اور پولیس پر ہوگی۔ کیونکہ ہم بار بار اں کے نوٹس میں یہ مسلہ لاتے ہیں۔ لیکں وہ اس مسلے کو حل کرنے اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔ لہذا اس کی ساری زمہ داری بھی اں پر عائد ہوگی۔

 

چیف جسٹس صاحباں سے یہ گزارش ہے۔ کہ 30 سال کی طویل اور صبر ازما انتظار کے بعد بھی اگر مقامی انتظامیہ عدالتی حکم کی تعمیل میں راکاوٹ ڈالے۔ تو پھر اں عدالتوں کا کیا فایدہ۔ اور لوگ اپنے ٹایم اور پیسہ اس مقدمہ بازی میں کیوں ضایع کریں۔ کیوںکہ یہاں تو عدالتی حکم کی بجائے ، “جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی” فارمولہ چل رہا ہے۔

 

خدا را کوئی بڑے تصادم سے پہلے فوری ایکشن لی جائے۔ اگر تصادم سے کوئی جانی نقصاں ہوا ۔ تو پولیس اور انتظامیہ اس کی زمہ دار ہوگی۔ اور یہ مسلہ ہم عوام الناس کے نوٹس میں بھی لانا چاہتے ہیں۔ کہ عنقریب گاوں میں کوئی بڑا تصادم ہوگا۔ اگر فوری قدم نہ اٹھایا گیا۔

:  پشاور ہائی کورٹ کمپلنٹ سیل/سپریم کورٹ اف پاکستاں اسلام ابادکاپی

 

 

خورشید احمد ولد کمال خان

گاوں لاوی تحصیل دروش ضلع چترال۔

khursheed lavi

 

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
63963

خانہ بدوش تھانہ  مستوج ۔ شیرولی خان اسیر

خانہ بدوش تھانہ  مستوج اپر چترال ۔ شیرولی خان اسیر

عام طور پر پولیس تھانہ جائے مجرمان کہلاتا ہے۔ تھانہ جانے والا یا مجرم ہوگا یا جرم کے خلاف درخواستی۔ اس لیے مجھ جیسے سفید ریش اور سفید پوش لوگ تھانے کا رخ کرکے بڑی ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ اس بندے کو کیا مصیبت پیش آئی ہے جو تھانے جا رہا ہے۔ اس طرح پولیس کا باوردی جوان کسی کے گھر جائے تو اس کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں۔ قسم قسم کی جھوٹی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔ اس تمام کےباوجود تھانہ جانے کی ضرورت پیش آتی ہی ہے۔

ایک دن اتفاق سے مجھے بھی مستوج تھانہ جانا ہوا۔ ریاست کے زمانے سے مستوج تھانہ جس عمارت میں قائم تھا وہ مستوج کی وسطی جگہ تھی۔ اس زمانے کی تعمیر کے لحاظ سے کافی شاندار عمارت تھی۔ سامنے باغ بھی تھا اور پارکنگ بھی۔ پھر کیا ہوا کہ یہ عمارت کھنڈرات میں بدل گئی۔ تھانہ قریب واقع تحصیل انتظامیہ کی رہائشی عمارت میں منتقل ہو گیا۔ یہ غالباً 2003 کا واقعہ ہے۔ کل جب اس مقام کا رخ کیا جہاں ایک دھائی پہلے عارضی عمارت میں تھانہ چل رہا تھا تو اسے خالی پایا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کوئی ایک کلومیٹر دور پرانی یارخون سڑک کے کنارے توق گاؤں میں کسی کرایے کے مکان میں منتقل ہوا ہے کیونکہ تحصیل انتظامیہ کو اپنی عمارت کی ضرورت پڑی تھی اس لیے پولیس سے واپس لی گئی۔گاؤں کے اندر راہگیروں سے پوچھ پوچھ کر تھانہ پہنچ ہی گیا۔

ایک پرانی کچی بوسیدہ عمارت جو کبھی پرائیویٹ پرائمری اسکول کی عمارت ہوا کرتی تھی اس وقت تھانہ تھی۔ تھانہ دار کو برآمدے میں دفتر لگائے پایا۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ عمارت ناکافی ہے۔ ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو مجھے خانہ بدوش قبیلوں کی رہائش گاہ ہی لگی۔ مجھے بےحد افسوس ہوا کہ 19 سال گزرنے کے بعد بھی ایک مرکزی تھانے کی عمارت نہیں بن سکی۔ ایس ایچ او صاحب سے اس بارے پوچھا تو انہوں نے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پایا۔
مشاہدے سے معلوم ہوا کہ یہ عمارت نہ دفاتر کے لیے مناسب ہے اور نہ جوانوں کی رہائش کے لیے کافی ہے۔ ایسے حالات میں پولیس سے بہتر کارکردگی کی امید رکھنا کم عقلی بھی ہے اور انتہائی ناانصافی بھی۔

سوچا کہ جس محکمے کو طاقتور خیال کیا جاتا ہے اس کے پاس اپنا تھانہ تعمیر کرنے کو فنڈ ندارد۔ کیا محکمہ پولیس سرکار سے اپنی بنیادی ضرورت کے لیے فنڈ حاصل نہیں کر سکتا ہے؟

میں بحیثیت ایک سوشل ورکر وزیر اعلے صاحب خیبر پختون خواہ اور انسپکٹر جنرل آف پولیس سے گزارش کرتا ہوں کہ مستوج تھانے کی تعمیر کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فنڈ مختص کیا جائے۔ یہ سب سے پرانا اور تاریخی پولیس اسٹیشن ہے۔ اسے ایک بوسیدہ عمارت میں کس مہ پرسی کی حالات میں چلانا نہ صرف محکمہ پولیس کے لیے باعث شرمندگی ہے بلکہ علاقے کے لیے بھی باعث ندامت ہے۔

 

شیرولی خان اسیر
( ریٹائرڈ پرنسپل، سکینڈری ایجوکیشن کے پی کے)
سوشل ورکر، یارخون اپر چترال

پولیس اسٹیشن مستوج پولیس اسٹیشن مستوج

Posted in تازہ ترین, خطوط, مضامینTagged
62421

وادی ارکاری اورکریم آباد کی خستہ حال سڑکیں اورٹرانسپورٹ مسایل ۔۔۔تحریر آمیرالدین ارکاری ویلی

Posted on

وادی ارکاری اورکریم آباد کی خستہ حال سڑکیں اورٹرانسپورٹ مسایل ۔۔۔تحریر آمیرالدین ارکاری ویلی

پاکستان کو وجود میں آئے 75 سال بیت گیے اور ملک عزیز کے کونے کونے پر سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور بہت سے علاقوں میں اب بھی سڑکوں پر کام جاری ہیں حال ہی میں این ایچ اے کے زیر نگرانی چترال گرمچشمہ اور شندور گلگت روڈ پر کام جاری ہیں مگر افسوس ارکاری روڈ اینڈ کریم آباد روڑ این ایج اے اور سی اینڈ ڈبلیو کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ان سڑکوں پر کام نہیں ہورہاہے اسلیے آرکاری کے عوام سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ارکاری لٹکوہ کریم آباد ھمیشہ سے سیاسی جماعتوں اور اداروں کی جانب سے نظر انداز ھوتا آیا ھے شاید یہاں بسنے والے لوگ پرامن ،محب وطن اور سادہ لوح ہیں جس کی وجہ سے انہیں سزا دی جا رہی ھے آج لوئر چترال کے گاؤں آرکاری اور کریم آباد تک خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے مسافر جان ہتھیلی پر رکھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں
بڑھتی ہویی آبادی کے ساتھ ساتھ اس روڈ پرٹرانسپورٹ کے مساہل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔سالانہ اس روڈ پر کئی ٹریفک حادثات رونما ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کئی افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اسلئے ھم جناب وزیر زادہ صاحب،ایم این اے جناب عبدالاکبر چترالی صاحب، ایم پی اے جناب ہدایت الرحمن صاحب ، تحصیل ناظم جناب شہزاد امان رحمن صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ سالانہ بجٹ 2022 میں ارکاری کریم آباد روڈ کے لیے فنڈز مختص کرانے میں بھرپور کردار ادا کر یں۔تاکہ جلد از جلد اس منصوبے پر کام کا آغاز ہو اور اس پسماندہ علاقے کی محرمیوں کا ازالہ بھی ہوسکے۔شکریہ۔

 

سوشل ورکرز امیرالدین
برایے عوام  آرکاری ویلی لوئر چترال

chitraltimes pursan arkari road 3

arkari road

 

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
61992

اظہار تشکر – مہربان خان اینڈ فیملی پرکوسپ مستوج

اظہار تشکر – مہربان خان اینڈ فیملی پرکوسپ مستوج

ہم اپنے اُن تمام دوست و احباب کا شکریہ ادا کرتے ہیں‌ کہ جنھوں‌نے ہمارے بڑے بھایی ریٹائرڈ صوبیدار محمد مراد کی اچانک وفات کے موقع پرتعزیت کیلئے ہمارے گھرپرکوسپ مستوج تشریف لائے، ٹیلی فون ، خطوط، ٹیکسٹ پیغامات ودیگرذرائع سے ہمارے غم میں شریک رہے اورہماری دلجوئی کی، فردافرداآپ سب کا شکریہ ادا کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں‌لہذا چترال کے موقر برقی اخبارچترال ٹائمز ڈاٹ کام کی وساطت سے آپ سب کا شکریہ اداکرتے ہیں‌ اللہ تعالٰی آپ سب کو جزائے خیرعطافرمائے اورمرحوم کو اپنی جواررحمت میں‌جگہ دیں‌ آمین۔

 

سوگوراں
صوبیدار محمد نادر
محمد نجم
مہربان خان وفیملی پروکوسپ مستوج

subidar muhammad murad parkusap file foto

File Photo: Rtd. Subidar Muhammad Murad

Posted in تازہ ترین, خطوط
61526

گاؤں مجگرام اور اُوچوگول کو جلد موغ یوسی میں شامل کیا جا ئے۔اہالیان

Posted on

گاؤں مجگرام اور اُوچوگول کو جلد موغ یوسی میں شامل کیا جا ئے

مجگرام اُوچو,اور اُوچوگول ہمیشہ سے موغ یوسی میں شامل چلے ارھے تھے,جب بھی الیکشن کا وقت اتا تھا تو موغ گاؤں سنٹر ھونے کی وجہ سے ہمیشہ پولنگ اسٹیشن بھی گاؤں موغ ہی میں بنایا جاتا تھا۔مگر سن 2008ءکے بعد جب سلیم خان ایم پی اے تھا تو اس نے مجگرام, اُوچو, اور اُوچوگول کو موغ یوسی سے الگ کرکے اپنے گاؤں کندوجال یوسی میں شامل کیا تھا اور یہ کام بلکل خفیہ طریقے سے کیا تھا, جس وقت اس نے یوسی تبدیل کیا تو مجگرام اور اُوچوگول کے عوام کو بلکل معلوم نہیں تھا۔جب 2013ء کے الیکشن قریب ائے تو معلوم ھوا کہ مجگرام, اُوچوگول کندوجال یوسی میں شامل ھے اور ظلم کی انتہا یہ ھے کہ پولنگ اسٹیشن بھی اُوچوگول میں بنایا گیا ھے ۔مجگرام اور اُوچو کے عوام کوبھی اُوچوگول میں جاکر ووٹ کاسٹ کرنا ھے۔ ابھی حل ہی میں جو بلدیاتی الیکشن ھوئے اس میں بھی یہی صورت حل تھا کہ مجگرام اور اُوچو کے عوام کو پھر سے  اُوچوگول جاکر ووٹ کاسٹ کرنا ھے
اس بلدیاتی الیکشن کے بعد مجگرام, اُوچو اورموغ کے عوام کو احساس ھوگیا کہ ان کے ساتھ بہت زیادہ زیادتی ھوئی ھے, کیونکہ گاؤں موغ,مجگرام, اور اُوچوگول ایک ہی گاؤں ہیں,ایک بھائی موغ میں رہتاھے تو دوسرا بھائی مجگرام اور اُوچو میں رہائش پزیر ھے۔
 جب بھی خوشی اورغمی ھوتی ھے تو یہ تینوں گاؤں شریک ھوتے ہیں اور ان کے اپس میں رشتے,چراگاہ اور زمین وغیرہ سب مشترک ہیں,تو یہ کوئی تُوک نہیں بنتا ھے کہ ان دونوں گاؤں کا یوسی الگ کرکے کندوجال کے ساتھ زم کیا جائے یہ سراسر ان تینوں گاؤں کے عوام کے ساتھ ظلم ھے۔
لہذا مجگرام,اُوچو,موغ اور اُچوگول کے عوام الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ضلعی الیکشن کمیشنر چترال سے پُرزور درخواست کرتے ہیں کہ مہربانی کرکے مجگرام,اور اُوچوگول کو واپس موغ یوسی میں شامل کردیں۔
اور تحصیل چیرمین جناب آمان الرحمن  صاحب سے بھی درخواست ھے کہ مجگرام اور اُوچوگول کو واپس موغ یوسی میں شامل کرنے کے لئے کردار ادا کریں۔
فقط اہالیان 
گاؤں موغ,مجگرام,اُوچو, اور اُچوگول
گرم چشمہ چترال لوئر
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged
61140

گاؤں موغ روڈ التوا کا شکار، وجوہات کیا ہیں۔ اہالیان موغ‎‎

Posted on
گاؤں موغ میں سڑکوں کی مرمت کے واسطے وزیراعلیِ کے معاون خصوصی  جناب وزیرذادہ صاحب, اور کوآرڈنیٹر سرتاج آحمدخان صاحب کی  طرف سے چودہ لاکھ کا منصوبہ پاس ھوئے کافی عرصہ ھوچکاہے مگر گاؤں  موغ میں چند  افراد کی وجہ سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ھوچکی ھے۔
   یہ منصوبہ گاؤں موغ کے درمیاں سے گزرنے ولی سڑک کی مرمت کے واسطے ھے مگر گاؤں موغ میں چند سرگرم عمل مافیا کہ جن کا تعلق پی ٹی ائی سے بھی نہیں ھے معاون خصوصی جناب وزیر ذادہ صاحب کے نام پے ایک جعلی قرارداد بناکر یہ منصوبہ موغ گاؤں ہی میں پنڈوروک اور بوڑی کے لئے سڑک بنانے کی کوشش میں لگے ھوئے ہیں ۔
پنڈوروک اور بوڑی گاؤں موغ سے کافی اونچائی پے واقع ھے,اور یہاں صرف پندرہ افراد کی موشیوں کے چارے ہیں ۔
اور یہ چند مافیا پنڈوروک اور بوڑی کے لئے سڑک بھی موغ گاؤں کے سامنے پہاڑی جگے سے لے جانا چاہتے ہیں جوکہ بلکل بہت چڑہائی اور خطرناک جگہ ھے۔
پنڈوروک اور بوڑی کو روڈ بنانے کا گاؤں موغ کے تمام عوام کا ارادہ ھے اگر یہ روڈ موغ گاؤں کے سامنے پہاڑی جگے کے بجائے موغ ہی کے بوسپون گول سے ھوتے ھوئے اگر بن جائے تو کسی کو اعتراض بھی نہیں ھے۔
لہذہ موغ گاؤں کے زیادہ تر عوام کا ارادہ اور خواہش یہ ھے کہ اگر سڑک موغ گاؤں کے بجائے پنڈوروک اور اور بوڑی کو ہی لےجانا مقصود ھے تو یہ سڑک موغ گاؤں کے بوسپون گول,بزیراغ سے ھوتے ھوئے بن جائے تو یہ بہتر ھے کیونکہ دوسرے جگے کی نسبت بوسپون گول والا راستہ سڑک بنانے کے لئے خاطرناک نہیں ھے اور موغ کے تمام عوام کی امدورفت بھی بوسپون گول ہی سے ھے ۔
لہذہ جناب وزیر ذادہ صاحب اورسرتاج آحمد خان صاحب سے بھی درخواست ھے کہ مہربانی کرکے اِنجینر بیھجکر مناسب اور اسان جگے سے پنڈوروک اور بوڑی کے لئے سڑک بنانے کے لئے سروے کرایا جائے ورنہ گاؤں موغ کے یہ چند مخصوص  مافیا اس منصوبے کو تہس نس کرنے میں لگے ھوئے ہیں۔
اور ان  چند افراد کا تعلق بھی پی ٹی ائی کے بجائے دوسری پارٹی سے ھے اور یہ چند مافیا جب بھی گاؤں موغ میں کوئی بھی ترقیاتی فانڈ انے کی صورت میں اکثر اوقات یہ فنڈ غبن کرتے ہیں۔
اس لئے گاؤں موغ کے عوام کی اکثریت کی بات کو تسلیم کرکے بوسپون گول سے سڑک بنانے کو یقینی بنایا جائے,بصورت یہ فنڈ گاؤں موغ کے درمیان سے گزر نے والے سڑک ہی کی مرمت میں لگایا جائے تو بہتر ھے۔

فقط اہالیان گاؤں موغ گرم چشمہ لوئر چترال

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged
61084

جامعہ چترال کے لیے فنڈز ریلیز کرنے پر صوبایی حکومت کا شکریہ ۔ آل امپلائز ایسوسی ایشن جامعہ چترال

Posted on

جامعہ چترال کے لیے فنڈز ریلیز کرنے پر صوبایی حکومت کا شکریہ ۔ آل امپلائز ایسوسی ایشن جامعہ چترال

سال 2017ء میں جامعہ چترال کے پراجیکٹ لانچ ہونے کے پانچ سال بعد جامعہ کے لیے زمین خریدنے کی مد میں اکاون کروڑ ساٹھ لاکھ روپے منظور کرانے پر ہم خیبر پختونخوا حکومت کا دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ چترال میں کچھ ایسی شخصیات کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اس کے لیے کوشش کی اور لابنگ کی۔
یاد رہے سال 2017ء میں جامعہ چترال کے لیے زمین ایکوائر کرنے کی مد میں سابقہ صوبائی حکومت نے اس وقت کی ایم پی اے محترمہ فوزیہ صاحبہ کی کوششوں سے اٹھاسی کروڑ روپے دیے تھے۔ یہ اس وقت کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور تین اضافی پوزیشنوں پر تعینات ایک بابو کی نالائقی کی وجہ سے واپس چلے گئے تھے۔ یہی نہیں، سابقہ وفاقی حکومت نے اُس وقت کے ایم این اے شہزادہ افتخار الدین کی مخلصانہ کوششوں کے نتیجے میں ترقیاتی فنڈ کی مد میں جامعہ چترال کے لیے پورے دو ارب نوے کروڑ روپے مختص کیے تھے، جن کی ریلیز صوبائی کی حکومت کی طرف سے زمین کی خریداری سے مشروط تھی۔ مگر پر اسرار طور پر اُس سال صوبائی حکومت کے زمین کی مد میں دیے گیے پیسوں کے پیچھے سنجیدگی سے نہ پڑا گیا، اور یوں سال گزرنے اور حکومت بدلنے کے بعد صوبائی حکومت کے ان اٹھاسی کروڑ روپوں سمیت وفاقی حکومت کے دو ارب نوے کروڑ روپے واپس چلے گیے۔ یہ سوال آج بھی جامعہ چترال کے ہر سمجھدار ملازم کو کھٹکتا ہے کہ کیا کچھ لوگوں نے اپنے وقتی ذاتی مفادات اور اپنا ٹینیور لمبا کرنے کی خاطر جان بوجھ کے یہ پیسے لیپس کرایے؟ اور کیا جان بوجھ کے یونیورسٹی کے قیام میں تاخیر کی جا رہی تھی کیونکہ قیام جتنا تاخیر سے ہوتا اتنا پراجیکٹ کا ٹینیور طویل ہوتا؟ یا یہ ان کی نالائقی اور نااہلی تھی کہ ان پیسوں کو ریلیز کروانے کے لیے درکار دفتری و کاغذی ناگزیر امور انجام نہیں دے پائے اور یوں یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک سنہرے موقع کو ضائع کیا؟ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ سال گزرنے کے باوجود جامعہ چترال ایک کالج کی عمارت میں محدود رہی۔
یوں، سال 2017ء کے بعد یونیورسٹی کے لیے زمین اور ترقیاتی فنڈ کا معاملہ سرد خانے میں چلا گیا تھا، اور جامعہ کے ذمہ دار آفسران کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بالآخر مجبور ہوکر پچھے ڈیڑھ سال سے جامعہ کے کچھ سینئیر ایمپلائز نے ایک کمیٹی ترتیب دی اور کچھ قائدین اور با اثر لوگوں سے ملنے کا فیصلہ کیا، تاکہ ان کے تعلقات استعمال کرکے جامعہ چترال کے لیے فنڈز کا بندوست کیا جا سکے اور اس پراجیکٹ کو خود غرض لوگوں کے ہاتھوں ناکام ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس سلسلے میں ملازمین کی اس کمیٹی نے پچھلے سال سے مختلف لوگوں سے ملاقاتیں اور رابطے کیے اور تحریری مطالبات پہنچائے اور لابنگ کرنے کی درخواست کی۔ اِن لوگوں میں پی ٹی آیی کی ضلعی لیڈرشپ سمیت، کچھ بااثر شخصیات بھی شامل ہیں۔ ان کا ذکر نہ کرنا اور ان کی کوششوں کو اکنالج نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ایمپلائز کی کمیٹی نے جن جن لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور جامعہ چترال کے لیے زمین اور ترقیاتی بجٹ کے لیے لابنگ کرنے کی گزارش کی ان میں یہ شخصیات شامل ہیں: معروف بزنس مین انور امان صاحب، اُن کی بیگم نسرین امان صاحبہ، شہزادہ امان الرحمٰن صاحب، اسرار صبور صاحب، عبداللطیف صاحب، سرتاج احمد صاحب، وزیر زادہ صاحب اور شہزادہ نظام صاحب۔

بجٹ تیاری کے ایلیونتھ اَوور میں اِن صاحبان کی کوششوں اور لابنگ سے پچھلے سال وفاقی حکومت نے بجٹ میں جامعہ چترال کے قیام کے لیے پہلے فیز میں پیسے دیے۔ اور اِس بار انہی لوگوں اور خاص کر وزیر زادہ صاحب کی انتھک کوششوں سے صوبائی حکومت نے زمین کی مد میں اکاون کروڑ ساٹھ لاکھ روپے دے دیے۔ یہ جامعہ اور جملہ چترال کے لیے بہت خوشی کا مقام ہے کہ موجودہ حکومتوں نے معاشی بحران کے باؤجود ہمیں کچھ فنڈز دے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ جامعہ چترال کو گزشتہ پانچ سالوں کے اوپر یہ فنڈز واقعتاً مل رہے ہیں۔ اس پر ہم اُن تمام صاحبان کا شکریہ کرتے ہیں جنہوں نے اس مقصد کے لیے کام کیا اور لابنگ کی۔

ساتھ ساتھ جامعہ چترال کے قابلِ احترام وائس چانسلر صاحب سے گزارش ہے کہ ان پیسوں کو فوری طوری پر لے آنے اور متعلقہ مقصد میں استعمال کرانے کے لیے سب سے پہلے جامعہ کے شعبہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ یعنی پی-این-ڈی میں ایک پروفیشنل اور فئیر بندے کو بحیثیت ذمہ دار تعینات کیا جائے، چار سال میں پہلی مرتبہ خراب معاشی حالات کے باوجود حکومتوں نے جامعہ چترال کو کچھ فنڈز دیے ہیں تو ان فنڈز کو ریلیز کرانے اور شفاف طریقے سے خرچ کرانے کے لیے جامعہ کے متعلقہ شعبوں اور پوزیشنوں پر پروفیشنل، اہل اور گیزیٹیڈ لوگوں کو ذمہ دار تعینات کیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو سال 2017ء کی طرح یہ فنڈز بھی نا اہلی اور نا لائقی کی بھینٹ چڑھ جائیں گے اور واپس لیپس ہو جائیں گے، اور یونیورسٹی کا صحیح معنوں میں قیام ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

آل امپلائز ایسوسی ایشن جامعہ چترال

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
60146

گیس دھماکے میں شدید متاثرہ اسلم خٹک ساکن پرسان چترال کی امداد کی اپیل

اسلم خٹک ولد زیلا خان کریم اباد پرسان لشٹدہ جو کہ 5 بچوں کا باپ ہے. اپنی بیوی اور 3 بچوں کے ساتھ 8 جنوری 2022 کو اسلام آباد میں عارضی طور پر شفٹ ہوئے تھے جہان اسلام آباد بارہکوہ میں کرائے پر گهر لیکر رہائش پزیر تھے. بچوں کی پڑھائی گورنمنٹ پرسان ہائی سکول میں ہونے کی وجہ سے 2 دن واپس جانے کی تیاری میں تھے کہ اچانک کل صبح 26 فروری صبح سات بجے کے قریب گیس لیک ہونے کی وجہ سے دھماکہ ہوا اور گھر میں موجود 5افراد امی، ابو اور 3 بچے جھلس گئے، دھماکے کے پیشِ نظر آس پاس کے لوگ اور اسلام ریسکیئو کی بروقت مدد سے ان کو اسلام اباد PIMS ہسپتال Burning center منتقل کر دیا گیا، جن کی علاج اس وقت جاری ہے، ڈاکٹروں کے مطابق ان میں سے باپ اور 2 چوٹے بچوں کی حالت خطرے سے باہر ہے جبکہ اسلم کی بیوی اور بڑا بیٹا زیادہ جھلسنے کی وجہ سے خطرے میں ہیں
.
اسلم خٹک کو بچپن سے آنکھوں کی بنائی کا مسلہ درپیش ہے اس وجہ سے وہ دھوبی کے کام سے اپنے بال بچوں کی کفالت مشکل حالات سے کر رہا ہے آب زندگی کے اس مشکل وقت میں وہ گورنمنٹ اف پاکستان ، حکام بالا ، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ چترال، سیاسی رہنماؤں اور تمام اداروں سے اپنے علاج معالجے کی تسلی اور مالی امداد کی اپیل کرتا ہے.(چترال ٹائمز)

Very serious patients are under treatment at ICU Burning center PIMS hospital islamabad.
They whole family details are as under:

  1. Aslam Khatak ( Father )
  2. Adina begum ( Mother)
    3.Tahir Ahmad ( Son, age 16 year )
    4.Saliha Bibi ( daughter, age 14 year )
    5.Fahan Ahmad ( son, age 8 year )
    رابطہ نمبر:
    03449763527
    Ikhlas uddin
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged
58852

گاؤں اُوچوگول کو دوبارہ موغ یوسی میں شامل کیا جائے۔ علی یار خان

گاؤں موغ,اُچوگول,اُچو اور مجگرام یہ تینوں ایک ہی گاؤں ہیں۔ مگر 2012 کے الیکشن میں جب سلیم خان ایم پی اے تھا اُچو ,اُچوگول اور مجگرام کو گاؤں موغ یوسی سے الگ کرکے کندوجال یوسی میں زم کیا تھا۔

اس لیئے چترال کے انتظامیہ اور آقلیتی امور کے وزیر جناب وزیر زدہ صاحب سے گزارش ھے کہ بلدیاتی الیکشن سے قبل یہ تینوں گاؤں واپس موغ یوسی میں زم کیا جائے,کیونکہ یہ کوئی توک ہی نہیں بنتا ھے کہ یہ تینوں گاؤں 20 کلومٹر دور کسی دوسرے گاؤں کی یوسی میں شامل کیا جائے ۔کیونکہ موغ,اُچو,اُچوگول اور مجگرام کے مقابلے میں کندوجال کی کوئی حثیت نہیں ھے ۔ اس لیئے مجگرام, اُچو,اور اُچوگول کے عوام کو بھی چاہیئے  کہ وہ بھی اپنے سابقہ یوسی کو واپس بحال کرنے کے لیئے بھرپور اواز اُٹھائیں۔کیوں کہ مجگرام,اچوگول,اُچو اور گاؤں موغ کی غم خوشی ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔اگر خدانخواستہ اُچو, اُچوگول یا مجگرام  میں کوئی فؤدگی ھوتی ھے تو کندوجال کے لوگ اکر نہیں دفناتے ہیں۔

لہذہ اُچوگول,اچو اور مجگرام کے عوام کو چاہیئے کہ اپنا یوسی دوبارہ  صیح کرنے کے لیئے جلد سے جلد قدم اُٹھانا چاہیئے ورنہ بعد میں ان کو پچھتانا پڑے گا۔             

 علی یار خان گاؤں موغ

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged
58602

اظہار تشکر – ریٹائرڈ پرنسپل مسعود احمد اینڈ فیملی ورکوپ تورکہو

ہم اپنے بھائی الطاف احمد ولد شیر عجم لال کی وفات کے موقع پر ان تمام دوستوں، رشتہ داروں اور چاہنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے بذات خود تورکھو، چترال اور پشاور میں تعزیت کے لئے تشریف لائے۔ اور ساتھ ہی ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا یا ٹیلی فون کے ذریعے تعزیت کرکے ہمارے دکھ درد میں شریک ہوئے۔ ہم فردا فر دا ہر ایک کا شکریہ ادا نہیں کرسکتے لہذا چترال ٹایمز کے ذریعے کے آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

سوگوران
ریٹائرڈ پرنسپل مسعود احمد
ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر عبدالصمد
ریٹائرڈ ڈی پی او محمد سعید لال
ایڈوکیٹ محمد ہاشم
پرنسپل سردار احمد
ریٹائرڈ کیپٹن محمد اکبر شاہ
نصیر عالم

ورکوپ تورکہو

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
58233

وزیراعظم پاکستان کویت میں ڈیوٹیاں سرانجام دینے والے ہیلتھ ملازمین کے تنخواہوں کا مسئلہ حل کرے۔ناصر

وزیراعظم پاکستان کویت میں ڈیوٹیاں سرانجام دینے والے ہیلتھ ملازمین کے تنخواہوں کا مسئلہ حل کرے۔

ناصر علی شاہ پریذیڈنٹ چترالی نرسز فورم

حکومت پاکستان اور کویت حکومت کا آپس معاہدہ ہونے کے بعد ملک بھر سے ہیلتھ ملازمین کو کویت بھجوائے جا چکے ہیں اتنے سارے ملازمین کو بھجوانے کا مقصد کویتی عوام کی خدمت اور آپس میں دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا تھا اور بدلے میں اچھی تنخواہ کی ادائیگی بھی تھی۔۔


ہیلتھ ملازمین جن کے اندر نرسز بھی شامل ہیں کویت میں ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں ان کے ساتھ ماہانہ تنخواہ کے معاہدے پر دستخط ہوئی تھی مگر افسوس ان ملازمین کو وقت پر تنخواہیں نہیں دی جارہی کبھی چار اور کبھی پانچ مہینے میں تنخواہیں دے رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک جہاں تنخواہوں کے مطابق اشیاء خوردونوش مہنگی ہو اور تنخواہ نہ ملے پھر گزر بسر کیسے ہوسکتا ہے؟
اسی وجہ سے ملازمیں پرائے ملک میں قرض لینے پر مجبور ہیں۔

میری وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نیازی
وزیر داخلہ شیخ رشید،
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب سے گزارش ہے کہ نرسز کے ماہانہ تنخواہوں کا مسئلہ حل کروائے اگر نہیں ہورہا تو لوگوں کے بچیوں کو زلیل کروائے بغیر واپس بلا کر خدمت کے مواقع فراہم کیا جائے۔

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
57679

پیپلز پارٹی کی طرف سے امیراللہ کو تحصیل چیئرمین شپ کیلئے نامزدگی خوش آئند ہے۔علی دوست خان اسلام آباد

آنے والے بلدیاتی الیکشن میں تحصیل مستوج کی چیرمین شپ کے لیے جناب امیر اللہ کی نامزدگی کی خبر سن کر مجھے ذاتی طور پر خوشی ہوئی. قابل اور معقول افراد کے انتخاب کرنے پر مشاورتی کمیٹی کے فیصلے کو بہت سراہتا ہو. میری سیاسی تجربے کے مطابق وہ چیرمین شپ کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بہترین امیدوار ثابت ہو گے.


میری ذاتی خواہش ہے کہ جناب امیر اللہ اپنی مہم کا آغاز اپنے آبائی گاؤں ریشوں سے کریں اور باہمی اختلافات کو ختم کرکے مقامی لوگوں میں سیاسی اتحاد پیدا کرے. ریشوں کی سیاسی اہمیت کسی کے سے پوشیدہ نہیں اور اگر پیپلز پارٹی بالخصوص بالائی چترال میں سیاسی مقابلے میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنی سیاسی مہم کا آغاز یہی سے کرنا چاہے. میں یہ بھی امید کر رہا ہوں کہ جناب امیر اللہ کی قیادت میں پیپلز پارٹی اپنی حکمت عملی میں ترمیم کر کے


کی سالوں سے چلے آرہی مقامی اختلافات کو ختم کرے گی.
مزید برآں، پی پی پی کی انتخابی کامیابی کا انحصار ان امیدواروں کی قابلیت اور ساکھ پر بھی ہے جسے وہ بقیہ نشستوں کے لیے نامزد کرے گی. میں مذکورہ بالا سے متعلق مشاورتی کمیٹی کے فیصلے کا بے تابی سے انتظار کر رہا ہوں۔

آخر میں، نامزدگی پر جناب امیر اللہ کو بہت مبارکباد اور مجھے امید ہے کہ صوبائی نظر ثانی کمیٹی بھی مذکورہ فیصلے کی حمایت کرے گی۔


کامیابی کے لیے میری نیک تمنائیں اور دعائیں۔

اپکا خیراندیش
علی دوست خان جامی
اسلام آباد

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
57459

ریشن کو دریائے یارخون سے لاحق خطرہ ۔ نویدالرحمن

اپر چترال کے ابتدا میں واقع خوبصورت اور تاریخی بستی ریشن قدیم الایام سے ہی وقتا فوقتا قدرتی آفات کی زد میں رہا ہے کیونکہ اس کے اوپر جا بجا گلیشیر ہیں اور نیچے سے بےرحم دریا یارخون پورے آب و تاب کے ساتھ بہتی ہے۔


گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیرز تیزی سے پگھلنے لگے جس کی وجہ سے دریا کی سطح بلند ہورہی ہے جس کے نتیجے میں 2010 سے لے کر اب تک یہ خوبصورت علاقہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوتا رہا اور کئ قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں، زرعی اراضیات ، رہائشی مکانات، باغات و جنگلات دریا برد ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئ۔ اور رہی سہی علاقے کو بھی آئندہ کے لئے تباہ و برباد ہونے کا یقینی اندیشہ ہے۔


بدقسمتی سے اس عرصے میں علاقہ کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائی گئی اور علاقے کے باشندوں کی جانب سے متفقہ و سنجیدہ کوشیشن نہیں کی گئی جس کی وجہ زندہ دلان ریشون کی زندہ دلی ہے جو ہر دکھ و مصیبت سہنے کے بعد بھول جاتے ہیں۔


اب بھی موقع ہے کہ ہمارے بزرگ اور نئی نسل اس حوالے سے سنجیدہ جدوجہد کا آغاز کرے اور اپنے خوبصورت سرزمین کو مزید تباہ و بربادی سے بچانے کے لیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر علاقے کے بہترین مفاد میں ایک آواز بن کر اپنی صلاحیتیں اور قابلیتیں بروئے کار لائے تاکہ آئندہ کی نسلوں کے لیے ہم اپنا کردار ادا کر سکیں محفوظ ریشن ہر ایک کے بہترین مفاد میں ہے آئیے ہم سب مل کر اس خوبصورت سرزمین کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے عہد کر لے یہی وقت کا تقاضہ ہے۔ اللہ تعالی ہماری کوششوں میں یقینا برکت عطا فرمائے گا۔


نوید الرحمن چترال

chitraltimes reshun river erosion washed away chitral mastuj road
akah volunteers at reshun flood6
Posted in تازہ ترین, خطوط
55707

چترال شندور روڈ کی تعمیر میں ملبہ دریا میں نہ ڈالاجائے۔اہالیاں بونی لشٹ

محترم ایڈیٹر صاحب

‎‎ ہم بونی خاص کرکے بونی لشٹ کے عوام چترال ٹائمز کی وساطت سے عوام کے خدشات متعلقہ اداروں کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ سڑک بنا نا کشادہ کرنا آچھی بات ہے لکیں بونی کے سامنے پہاڑ وں پر کام کرتے ہوئے خیال رکھنا ہوگا کیونکہ ان پہاڑوں کا ملبہ دریا میں آکر گرے گا اور دریا کا رخ تبدیل ہوکر بونی کی طرف کٹائ کا سبب بنے گا۔ ریشن کی طرح بونی کی زمیں بھی دریا میں بہہ جائے گی ۔اور پھر کنٹرول کرنا مشکل ہوگا ۔مہربانی یہ ہوگی کہ متبادل راستہ بنانا چاہئے ۔یا بہت احتیاط سے ملبے کو دریا میں گرائے بے غیر سڑک پر کام کرنا ہوگا ۔

شکریہ اہالیاں بونی لشٹ

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
55678

اظہار تشکر۔ ارشاد غلام علی

میں اپنی طرف سے اور اپنے خاندان والوں کیطرف سے چترال کے موقر اخبار چترال ٹائمز کی وساطت سے آپ تمام کا فرداً فرداً شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے میری پیاری بہن شہناز صدرالدین بیگ کے زیر علاج رہنے سے لیکر اس دنیائے فانی سے کوچ کر جانے تک، آپ کی جانب سے ملنے والی دعائیں، فون کالز، سوشل میڈیا کے ذریعے پیغامات اور اپنی مصروفیات کے باوجود دور دراز علاقوں سے بنفس نفیس فاتحہ خوانی کے لیے یکے بعد دیگرے Tennessee، کوشٹ، راولپنڈی، چترال اور موردیر تشریف لائے نیز سوشل میڈیا پر تعزیاتی پیغامات اور شہناز کاۓ کے لیے خراج تحسین اور پر خلوص کلمات کے ذریعے دکھ کی اس گھڑی میں ہمارے ساتھ رہے، اور اس صدمے پر صبر کرنے کی ہمت فراہم کی-


اس دوران امریکہ میں مقیم تمام عزیزوں کا شہناز کاۓ کی عیادت سے لیکر آخری رسومات تک کے گران قدر خدمات ہمارے لیے ناقابل فراموش اور قابل تعریف ہیں-


ہم اللہ تعالیٰ کے حضور آپ سب کےلیے دست بہ دعا ہیں کہ آپ سب کو، آپ کے خاندانوں کو اجر عظیم عطا فرمائے اور آپ تمام کی دعاؤں کے طفیل مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے.


اللہ تعالی ہمیں شہناز کاۓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان سماجی اور فلاحی کاموں کو جاری رکھنے کی ہمت اور صلاحیت عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین


نیک تمناؤں کے ساتھ
ارشاد غلام علی (بھائی )

Posted in تازہ ترین, خطوط
55578

بچوں کو لگائے گئے کورونا ویکسین کی ریکارڈ کے حصول میں دشواری۔ اورسیز پاکستانیز

سلام علیکم محترم ایڈیٹر صاحب!


ہم اور سیز اور مقامی والدین چترال ٹائمز کی وساطت سے چترال کے محکمہ ہیلتھ اور انتظامیہ کے اداروں سے وضاحت طلب کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو کورونا کے انجکشن لگائے گئے ان کی نہ نادار میں انٹری ہوئی ہے نہ کوئی سرٹیفکیٹ ملا ہے۔اور بار بار متعلقہ اداروں سے پوچھنے پر کوئ واضح جواب بھی نہیںملتا۔


ابھی ہماری درخواست ڈپٹی کمشنر صاحب سے ہے کہ ہماری تشویس دور کی جائے اور جو سکولوں میں آکر ویکسن لگائے گئے ان کی انٹری بھی نادرا میں کئے جائے۔ورنہ ہمارے بچوں کو بیغیر کسی ریکارڈ کے ویکسن نہ لگا یا جائے۔ بصورت دیگر ہم عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبوراً ر ہوں ھوںگے-ہم نے بچوں کو فارم ب،پاسپورٹ نمبر سٹزن نمبر سب مہیا کئے تھے تاکہ انٹری کرنے میں آسانی ہو۔

شمس علی شاہ برائے اورسیز پاکستانیز

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
55475

دسمبر سے پہلے ہی بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ افسوسناک ہے۔ پرویز لال تحریک حقوق اپر چترال

آج سے سات سال پہلے ریشن میں واقع بجلی گھر سیلاب میں بہہ جانے سے اپر چترال تین سالوں تک مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبا رہا۔ اخر کار 2017 کو گولین گول بجلی گھر سے بجلی کی ترسیل شروع ہوئی تو یہاں کے عوام نے سکھ کا سانس لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اب ہمارے علاقے میں بجلی کی قلت ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی مگر ان کی امیدوں پر اسوقت پانی پھیر گیا جب اسی سال ہی سردیوں میں بدترین لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ پھر سے شروع کیا گیا۔ تحریک حقوق عوام نے کئی احتجاجی مظاہرے کئے تو واپڈا حکام نے موقف اپنایا کہ سردیوں میں بجلی کی پیداوار 108 میگاواٹ سے کم ہوکر 8 میگاواٹ رہ جاتی ہے جو کہ چترال کی ضروریات سے کم ہے اسلئے لوڈشیڈنگ کرنی پڑتی ہے۔ اس پر تحریک حقوق عوام نے اربوں روپے کے پراجیکٹ کی ناقص ڈیزائننگ کرنے والے انجینئرز اور ذمہ داروں کے خلاف انکوائری کرکے انکو سخت سزائیں دینے کا بارہا مطالبہ کیا مگر تاحال ان جعلی انجینئرز کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔ پچھلے سال سردیوں میں اپر چترال میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 20 گھنٹے تک بڑھائی گئی  


ریشن بجلی گھر کی دوبارہ مرمت کرکے پچھلے مہینے بجلی کی ترسیل شروع ہوگئی تھی۔ بتایا گیا کہ مذکورہ بجلی گھر کی پیدوار پوری اپر چترال کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے اسلئے بیار (ریشن سے کارگن تک علاقوں) کو ریشن بجلی گھر سے بجلی فراہم کی جائیگی۔ اس طرح بیار کی ٹرانسمشن لائن ریشن کے مقام پر علحیدہ کردی گئ اور ریشن سے کارگن تک علاقوں کو گولین گول بجلی گھر سے منقطع کرکے ریشن بجلی گھر پر منتقل کر دیا۔ اسی طرح تحصیل تورکہو اور مڑکہو کو گولین گول بجلی گھر سے ہی بجلی کی ترسیل جاری ہے۔۔                        


  ریشن بجلی گھر سے بجلی کی ترسیل ایک مہینے تک بلا تعطل کے جاری رہی مگر کچھ دنوں سے پچھلے سالوں کی طرح غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ پھر سے شروع ہو چکا ہے۔ اج پاور ہاؤس حکام سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ بجلی گھر کی پیدوار ریشن سے کارگن تک کے علاقوں کیلئے نا کافی ہے اور لوڈ شیڈنگ کرنا پڑ رہا ہے۔ ابھی تو نومبر کا مہینہ بھی ختم نہیں ہوا ہے دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینے میں کتنی لوڈ شیڈنگ ہوگی یہ آپ سب جانتے ہیں۔بس اب بہت ہوگیا! ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ فلاں بجلی گھر کی پیدوار زیادہ ہے اور فلاں کی کم


۔ ہمیں بجلی چائیے بلا تعطل کے۔ اب ہم مزید ظلم برداشت کرنے کیلئے بلکل تیار نہیں ہیں۔ میں پیڈوحکام، واپڈا حکام، حکومت اور انتظامیہ سے بھرپور مطالبہ کرتا ہوں کہ لوڈ شیڈنگ کو بند کرکے بجلی کی بلا تعطل  ترسیل کو یقینی بنائیں بصورت دیگر ہم عوام کو لیکر سڑکوں پر نکلنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہم اپنے جائز حقوق کی حصول کیلئے آخری حد تک جانے سے دریغ نہیں کریں گے۔                      

پرویز لال انفارمیشن سیکریٹری تحریک حقوق اپر چترال

Posted in تازہ ترین, خطوط, مضامینTagged
55288

ہرت کریم آباد کیلئے ابنوشی اسکیم کی منظوری پرمعاون خصوصی وزیرزادہ کے مشکور ہیں۔ اہالیاں ہرت

ہم اہالیانِ ہرت کریم آبادمعاونِ خصوصی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا وزیر زادہ کے انتہائی مشکور ہیں کہ اپنے پچھلے مختصر اور غیر رسمی دورہِ کریم آباد کے موقع پر ہم نے جن جن مسائل کا اُن کے سامنے محض سر سری ذکر کیا تھا، اُنہوں نے نہ صرف اُن مسائل کی نوعیت اور سنگینی کو سمجھا بلکہ اُن مسائل کے حل کے لیے اپنی پوری انتھک جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔

ان مسائل میں سب سے اہم مسلہ اس علاقے کے کئی گاؤں میں پینے کے پانی کا تھا۔ ہرت کریم آباد کے تقریباََ 9 گاؤں پینے کے پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں اور یہاں انسان تو انسان جانور بھی پینے کے پانی کی کمی اور شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ وزیر زادہ نے اس مسلے کے حل کے لیے حالیہ دنوں میں تقریباََ 13ملین روپے کا گرانڈ مختص کروا کر علاقے کے لوگوں کی دلوں کو جیت لیا ہے۔ اس سے پہلے کئی دہایوں سے مختلف پارٹی کے سربراہاں اور وزراء بھی ان تمام مسائل کے حل کا بلند و بانگ دعوی کرتے رہے ہیں لیکن اُن روایتی سیاستدانوں نے سوائے وُوٹ بٹورنے، تقریر اور جھوٹے وعدوں سے بڑھ کر کچھُ نہیں کیا۔


واضح رہے کہ ہرت کریم آباد تقریباِِ 600 گھرانوں اور 9 دیہات پر مشتمل علاقہ ہے اور یہ پورا علاقہ پانی کے قلت کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ علاقے میں پینے کے پانی او رکھیتوں کے لیے پانی دونوں کی شدید قلت ہے۔ وزیر زادہ باوجود Special Seat پر ایم۔پی۔اے بننے کے جس طرح سے چترال کی ترقی اور لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے کوشش کر رہے ہیں وہ اُن کے سیاسی مخالفین دیکھ کر یقینا حیران ہوتے ہونگے۔ ہم اہالیانِ ہرت کریم آباد تقریباِِ نا اُمید ہو چُکے تھے کہ اس علاقے میں پانی کا مسلہ شاید کوئی بھی حل نہیں کر سکے لیکن وزیر زادہ صاحب نے پینے کے پانی کے اس مسلے کے حل کے لیے جو قدم اُٹھایا ہے اس کے لئے ہم تمام ایلیاں ہرت کریم آباد اُن کے مشکور ہیں اور ہماری نسلیں اُن کے اس پُر خلوص کاوش کے قرض دار ہیں۔

علاقے کے ان سنگین مسائل کے حل کے لئے ہم بھی باقی پاکستان کی طرح مخلف سیاسی پارٹیوں اور علاقائی رہنماوں سے اُمیدیں لگا لگا کر تھک چُکے تھے۔ لیکن جس طرح پی۔ٹی۔آئی لوگوں کے دیرینہ حل طلب اور انتہائی سنگین مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات اُٹھا رہی ہے وہ ہم نے ماضی میں کبھی نہیں دیکھا۔ کریم آباد چترال کا وہ علاقہ ہے جہاں لوگ جنون کی حد تک پی۔ٹی۔آئی سے وابستگی رکھتے ہیں۔ اب سے شاید باقی کسی بھی پارٹی کے لئے اس علاقے میں وُوٹ کمپین کے لئے آنا صرف وقت ضائع کرنا ثابت ہوگا۔ہمیں یقین ہے کہ وزیر زادہ ہرت کریم آباد میں کھیتوں کے پانی اور نہروں کے مسلے کے حل کے لئے بھی اپنی بھر پُور کوشش کریں گے۔ اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے وہ یہ مسائل حل نہ بھی کر سکے تب بھی ہم اہالیاں ِ ہرت کریم آباد اُن کے انتہائی مشکور ہیں کہ کم از کم اُنہوں نے کم از کم ان مسائل کے حل کے لئے کوشش تو کی۔ باقی کسی بھی سیاسی رہنما، پارٹی، یا وزیر جن کو ماضی میں اس علاقے کے عوام نے اچھے خاصے ووُٹ بھی دیے اُنہوں نے تو ان مسائل کے حل کی کوشش کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔


ہم اہالیاں ِ کریم آباد اس انتہائی قابل ستائش کاوش کے لئے پی۔ٹی۔آئی چترال کے تمام رہنماؤں بالخصوس اسرار صبوُر اور عبدالطیف کے بھی انتہائی مشکور ہیں کہ انُہوں نے اس کوشش میں وزیر زادہ کا ساتھ دیا۔
ظفر خان برائےِ اہالیانِ ہرت کریم آباد

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
55253

اظہارِ تشکر ۔ عدنان زین العابدین اینڈ فیملی

گزشتہ دو مہینے ہمارے لیے بہت آزمائیش بھرے تھے کیوں کہ ہماری پیاری بہن مسز شہناز صدرالدین ہزاروں میل دُور دیارِ غیر میں کورونا وبا کی وجہ سے امریکہ کے میمفِس اسپتال میں زیرِ علاج رہیں۔ بالآخر گیارہ نومبر ۲۰۲۱ کو اُنھوں نے اپنی جان، جانِ آفرین کے حوالے کردی۔

خاندان کے فرد کا کم عمری میں انتقال کرنا انتہائی پُر سوز اور عظیم سانحہ تھا۔ ایسے وقت میں جب کہ ہم اپنے آپ کوتنہا محسوس کر رہے تھے اور انتہائی رنجیدہ تھے ، آپ کی ہم دردیاں اور معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہم سے غم خواری کا اظہار کسی غنیمت سے کم نہ تھا۔غیر مشروط محبت اور ہمت بندھانے کے عظیم جذبے کے بدلے میں ہمارے پاس آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں جب کہ ہماری بچی کے ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے سے لے کر راہِ عدم کُوچ کر جانے تک آپ کی جانب سے ملنے والے دلاسے اور تعزیتی پیغامات، ٹیلی فون کالز، بہ نفسِ نفیس فاتحہ خوانی کے لیے ہمارے گھروں پہ تشریف آوری اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے تعزیتی پیغامات اور مرحومہ کے لیے خراجِ تحسین نے نہ صرف ہمیں حوصلہ دیا بلکہ اس عظیم سانحے پر صبر و برداشت کا دامن تھامے رہنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

اگرچہ ہمارے لیے فرداً فرداً سب کا شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں، تاہم ! چترال کے موقر اخبار چترال ٹائمز ڈاٹ کام کی وساطت سے مرحومہ کے تمام لواحقین آپ کی محبت، ہم دردیوں، تعزیتی پیغامات، پاکستان بھر اور مختلف ممالک میں موجود ہمارے خاندان کے افراد کے گھروں میں تشریف آوری کا نہ صرف شکریہ ادا کرتے ہیں بلکہ آپ کی چاہتوں کے مقروض بھی ہیں۔

ہم امریکہ میں مقیم پاکستانی اور اسماعیلی کمیونٹی کے بالعموم اور چترالی کمیونٹی کے بالخصوص شکر گزار ہیں جنھوں نے مشکل کی اس گھڑی میں ہمارے بھائی صدرالدین کو مسلسل حوصلہ دیا اور ان کے غم میں برابر کے شریک رہے۔ اس کے علاوہ ہم امریکہ میں مقیم مسٹر اینڈ مسز عبد اللہ کی خدمات اور امداد کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ہسپتال میں علاج سے لے کر آخری رسومات اور تدفین تک جناب روزی من شاہ نے جس طرح ہمارے بھائی کا ساتھ دیا وہ یقیناً قابلِ ستائش ہے۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر شیرازی کی مہربانیاں اور خدمات بھی انتہائی قابلِ تعریف ہیں۔ اُنھوں نے جس طرح ہماری بہن کے علاج کے لیے دن رات محنت کی اور ان کی جان بچانے کی حتی الامکان کوشش کی اس کے لیے ہم ان کے بہت ممنون ہیں۔

آئیے! اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری بہن کی تمام خطائیں معاف فرمائے، ان کو غریقِ رحمت کرے اور ان کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، آمین۔
بارِ دگر آپ سب کا فرداً فرداً شکریہ


خیر اندیش


عدنان زین العابدین اینڈ فیملی

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged
55093

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا -عبدالباقی چترالی موڑکھو

ضلع اپر چترال عوامی نمائندوں کی عدم توجہی کے باعث مختلف مسائل کا شکار ہے۔ان میں خاص کر نادرا آفس بونی میں حد سے زیادہ رش ہونے کی وجہ سے دُور دراز علاقوں سے آنے والے مرد و خواتین کو شناختی کارڈ اور بچوں کے فارم(ب) بنوانے کے لیے اس سردی کے موسم میں سارا دن قطار میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات سارا دن قطار میں کھڑا رہنے کے بعد بھی ان کی باری نہیں آتی ہے تو مجبوراً بونی کے کسی ہوٹل یا پھر کسی کے گھر میں رات گزار کر دوسرے دن آنا پڑتا ہے۔


اس مسلے کی طرف کئی بار عوامی نمائندوں کی توجہ مبذول کرانے کے باوجود تاحال یہ مسلہ حل نہیں ہوا۔ تحصیل موڑکھو وریجون میں نادرا آفس کھولنے سے یہ مسلہ با آسانی حل ہوسکتا ہے مگر نادرا حکام اور عوامی نمائندوں کی غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے یہ مسلہ حل نہیں ہورہا۔


ایم این اے چترال مولانا عبدالاکبر صاحب اپنے پس ماندہ حلقہ چترال کے عوام کے مسائل حل کرانے کی بجائے قومی اسمبلی میں کشمیر اور فلسطین کے مسلے پر زور دے رہے ہیں۔مولانا صاحب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انھیں ووٹ چترال کے غریب عوام نے دیے ہیں۔ ان کی قومی اسمبلی میں تقریر کرنے سے نہ تو کشمیر کا مسلہ حل ہوگا اور نہ فلسطین کا۔ لہٰذا آپ مہربانی کرکے اپنے پسماندہ ضلع چترال کے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔


تحصیل موڑکھو وریجون میں نادرا آفس کھولنے سے تحصیل مستوج کے عوام کو بھی آسانی ہوگی کیونکہ نادرا آفس بونی پر بوجھ کم ہوگااورتحصیل موڑکھو کے عوام کو سہولت میسر ہوگی۔ لہٰذا ہم تحصیل موڑکھو اور تحصیل مستوج کے عوام نادرا حکام اور عوامی نمائندوں سے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان عوامی مسائل کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں اور فوری طور پر موڑکھو وریجون میں نادرا آفس کھولا جائے۔ بصورت دیگر عوام سڑکوں پر آنے پر مجبور ہونگے جس کی تمام تر ذمہ داری عوامی نمائندوں اور نادرا حکام پر عائد ہوگی۔


عبدالباقی چترالی موڑکھو

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
54853

چترال میں ٹیلی نار کی ناقص کارکردگی پر چیف ایگزیکٹیو افیسر کے نام کھلا خط


مکرمی !
میں آپ کے مؤقر برقیاتی جریدے کی وساطت سے ٹیلی نار سروس پاکستان کے اعلیٰ حکام کی توجہ چترال میں ٹیلی نار کی ناقص کارکردگی اور ادارہ ہذاکی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے پر علاقائی صحافیوں کو نا کردہ گناہوں کی پاداش میں عدالت کے کٹہیروں میں گھسینٹے اور اس پر عوام کے معقول رد عمل کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں ۔


محترم چیف ایگزیکٹیو صاحب اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیلی نار پاکستان میں ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کاجال پاکستان کے کونے کونے تک پھیلا ہوا ہے جو کہ خوش ائند بات ہے اور ہم اس سہولت پر ٹیلی نار کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ لیکن آپ کو شاید یہ بھی معلوم ہو کہ پاکستان میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جسے پاکستان کا سر کہتے ہیں جس کی سرحدیں افغانستان کی مختلف ریا ستوں سے ملی ہوئی ہیں ۔ اس علاقے کا نام چترال ہے جوکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں دو ضلعوں پر منقسم ہے ایک ضلع کا نام لوؤر چترال ہے جبکہ ایک کو اپر چترال کہتے ہیں ۔ اپر چترال ایک نوزائدہ ضلع ہے جو کہ اپنی ابتدائی نشو نما سے گزر رہا ہے ۔ یہ نوزائدہ ضلع کئی ایک مسائل سے دوچار ہے ان مسائل میں سب سے اہم اور بنیادی مسائل سڑکوں ، پلوں ، تعلیم اور صحت کے ہیں ۔ لیکن یہ تمام مسائل اُس وقت حل ہوسکتے ہیں جب ہم اپنی غرض و غائیت رسل و رسائل اور ابلاغی ذرائع کی وساطت سے حکام بالا تک پہنچا سکیں ۔ بد قسمتی ہے اپر چترال میں شعبہ ابلاغیات خصوصاً ٹیلی فون ( ٹٰیلی نار) اور انٹر نٹ کی سہولیات یکسر مفقود ہیں ۔


یہاں ٹٰیلی نار کے کھمبے جگہ جگہ اور گاؤں گاؤں استادہ نظر آتے ہیں ۔ لیکن ان کی کارکردگی اتنی ناقص ہے کہ ایک صارف 500 روپے کا بیلنس ڈال کے کوئی ضروری بات دوسرے آدمی تک آسانی سے نہیں پہنچا پاتا ۔ کمر توڑ مہنگائی کے اس مخدوش دور میں اگر ایک صارف 500 روپے کا بیلینس اپنے سیل فون میں ڈال کر اپنا ما فی الضمیر کسی ہنگامی صورت حال میں دوسری طرف پہنچانے میں قاصر رہے تو کیا آپ وثوق سے کہ پائیں گے کہ آپ کے ادارے کی کار کردگی میں کوئی نقص نہیں ہے ۔ بظاہر تو کوئی نقص نہیں ہے کیوں کہ آپ کو دھڑا دھڑ پیسہ آ رہا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ علاقے کے باسیوں نے علاقائی برقی اخبارات کی وساطت سے اپنے مسائل آپ کے گوش گزار کرنے کی جتن کی تو آپ کے ادارے نے اُن اخبارات کے مدیرروں کے خلاف عدالت عدالتوں کی کی طرف رجوع کیا ۔

سننے میں یہ آٰیا ہے کہ چترال ٹائمز نے اپنے برقی جریدے میں عوام کے ان مسائل کا ذکر کیا تھا ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عوام کی آواز کی ترجمانی کی ہوگی نہ کہ ٹیلی نار کے خلاف کوئی غیر اخلاقی نکتہ اُٹھا یا ہوگا ۔ میں اس برقی اخبار کی وساطت سے ٹیلی نار کے اعلیٰ حکام سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے ادارے کی کمزوریوں پر پردہ ڈال کر اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے والے صحافیوں کی عزت نفس کو عدالتوں کے کٹہروں میں بلاوجہ کھڑا کر کے مجروح کرنے پر نظر ثانی کی جائے اور ٹیلی نار کی ناقص سروس پر اُٹھنے والی عوام کی آواز کی قدر کی جائے ۔


العارض
شمس الحق قمر ؔ اپر چترال

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
53846

اظہارِ تشکر ۔ (بھائی کے گردوں کی کامیاب پیوندکاری) ۔ افضل ولی بدخشؔ موردیر

اظہارِ تشکر ۔ (بھائی کے گردوں کی کامیاب پیوندکاری) ۔ افضل ولی بدخشؔ موردیر

میں اپنی اور اپنے خاندان کی جانب سے تمام عزیزان، احباب اور انسان دوست خواتین و حضرات کیلئے اپنی قدردانی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ہمارے مشکل وقت میں ہمارا سہارا بنے اور ایک لمحے کے لئے بھی ہمیں اکیلا نہیں چھوڑے۔ ان کی دلجوئی، ہمدردی، مالی اور اخلاقی مدد کی بدولت ہم اپنے اوپر  آئے اس بڑی آزمائش سے نبردآزما ہو سکے۔

گزشتہ ڈیڑھ سال سے میرا بڑا بھائی گردوں کی بیماری میں مبتلا ہو کر  وطنِ عزیز کے مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج رہے۔ اِن کے معالجوں  کے مطابق اس بیماری کا واحد حل متبادل گردوں سے پیوندکاری قرار پایا تھا۔  وطنِ عزیز میں کرونا کی صورتحال اور گردوں کی غیر دستیابی کے پیشِ نظر آپریشن میں تاخیر ہوئی۔ اس دوران  Dialysis کے ذریعے پشاور اور پھر کراچی کے

مختلف  ہسپتالوں میں  زیرِعلاج  رہا۔  اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اتنے عرصے کی انتظار کے بعد گردے کی دستیابی ہمارے لئے ممکن بنا دی اور کامیاب آپریشن کے بعد میرے بھائی کو ایک نئی زندگی میسر آئی۔

اس پورے عرصے کے دوران علاقے کے تمام معتبرات، خواتین و حضرات اور احباب ہمارے شانہ بہ شانہ رہے اور آزمائش کی اس گھڑی  میں اپنی ہر ممکن کوشش سے ہماری دلجوئی اور مدد کی۔ اِن کی  کاوش   سے امید اور حوصلے کا گزر ہمارے دہلیز پر سے ہونا ممکن ہوا۔ ہم اپنے پورے خاندان کی جانب سے اس مدد اور ہمدردی پر اپنی قدردانی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک کامرانی اور خوشحالی کی نعمت سے انہیں مالامال کرے۔ مسرت اور شادمانی کا گزر ہمیشہ ان کے دہلیز سے ہو کر گزرے۔ آمین

ہم تمام خاندان وزیراعظم پاکستان کا بھی  تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جسکی مدد صحت سہولت کارڈ پروگرام کی صورت میں میسر ہوئی۔ اس پروگرام کے تحت ہسپتال کے تمام اخراجات (جن کی مجموعی لاگت 1.5 ملین روپے تھی)  حکومتِ پاکستان نے  ہماری  جانب سے ہسپتال کو ادا کی۔ ویلفیر اسٹیٹ کا جو خواب وزیر اعظم پاکستان نے ہمیں دیکھائی تھی اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے کو مِلا۔

گردوں کی پیوندکاری کا  عمل  قانونی حیثیت سے نہایت پیچدہ عمل تھا۔  انسانی اعضا کی سمگلنگ کے پیشِ نظر بین الاقوامی سطح پر اس عمل کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ لیکن حکومتِ پاکستان نے ہمارے معاملے کو چھان بین کے بعد انسانی ہمدردی  کی بنا  پرNOC  فراہم کی   جس سے یہ آپریشن ممکن ہوا۔ ہم حکومتِ پاکستان اور خاص کر عمران خان  صاحب کا اس کرم نوازش پر تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔

اس کے علاوہ REHMAN MEDICAL INSTITUTE HAYATABAD کے ڈاکٹر صاحبان، ہسپتال کے ایڈمن اور ان کا عملہ، اس میں موجود  نرسنگ اسٹاف جن میں ہمارے چترالی بہن بھائی بھی ہیں جن کی خدمت کے ہم متعارف ہیں۔ پشاور کے ہسپتالوں میں موجود ہماری بہنیں جو نرسنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور جن کی خدمت کسی تعارف کا محتاج نہیں، ان تمام کی خدمت کے عوض اپنی قدرردانی کا  اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ ہماری نرس بہنیں اپنی بہترین اخلاق اور رویّے سے جو خدمت ہماری کی اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

                                                نیک دعاوں کیساتھ

  افضل ولی بدخشؔ موردیر

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged , , ,
52047

پرسان کریم آباد روڈ کی تعمیر کیلئے وزیراعظم ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے اپیل

پرسان کریم آباد روڈ دنیا کی خطرناک ترین سڑکوں میں شامل

1990 میں تعمیر ہونے والی پرسان کریم اباد روڈ اگر دنیا کے خطرناک ترین روڈ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ۔ اندرونی سطح کے علاوہ بیرونی ملکوں کے سیاح بھی اس کے اوپر مختلف ڈکومنٹریز بنا چکے ہیں۔


یہ سڑک “اے کے ار ایس پی” کی تکنیکی تعاون اور علاقے کے غیور عوام کی اپنی مدد اپ اور جوش جزبے کا منہ بولتا ثبوت ہے مزکورہ روڈ کے تعمیر سے لیکر اب تک علاقے کے عوام اپنی مدد اپ کے تحت اس کو بحال رکھے ہوے ہیں ۔مذکورہ روڈ برف باری یا مٹی کے تودے اورطوفانی بارشوں سے اگر جتنا بھی خراب ہوجائے تو علاقے کے لوگ دو دن سے زیادہ اس روڈ کو ٹریفک کے لیے بند نہیں چھوڑتے لیکن اخر کب تک ؟

کریم اباد پرسان روڈ پرسان ویلی کے علاوہ بہتولی سے لیکر کریم اباد کے سسوم تا شغور لٹکوہ تک روڈ رسائی فرہم کرتی ہے۔ 2015 کے سیلابی ریلے مین جہاں چترال کے روڈز انفراسٹکچر پوری طرح تباہ ہوی تھیں وہان یہ چترال کا واحد روڈ تھا جو کریم اباد تا گرم چشمہ کے لوگوں کا متبادل روٹ سمجھا جاتا تھا اور اب بھی مین متبادل روڈ مانا جاتا ہے۔
حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ اب تک نہ اس کی صحیح طریقے سے مرمت کی جاتی ہے اور نہ اس روڈ کو وسیع کرنے کیلے مناسب فنڈز دیے جاتے ہین۔ عوام ابھی تک جان ہتھیلی پر رکھ کر اس دشوار گزار اور خطر ناک پہاڑی سے سفر کرتے ہیں۔ ناگہانی صورت میں مالی اور جانی نقصان کا اندیشہ ہے۔

ھم حکومت وقت ، جناب وزیراعظم عمران خان وزیراعلیٰ کے پی کےمحمودخان اور دیگر چترال کے نمائندگان سے مطالبہ کرتے ہیں کے اس روڈ کے اوپر جلد از جلد غور کیا جائے بصورت دیگر علاقے کے عوام بھرپور احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

فقط ظفر احمد برائے عوام کریم آباد

chitraltimes karimabad susum road 1
Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
51755

بونی شکراندہ کیلئے رابطہ پل تعمیر کیا جائے۔۔عوامی حلقے

اسلام علیکم جناب ایڈیٹر صاحب

موسمی تغیرات کے باعث 2010ء کو ضلع اپر چترال بمقام بونی گول میں شدید نوعیت کے  سیلابی ریلے  آنے سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی جس سے منسلک پل  ,رابط سڑکیں , کھڑی فصلیں ,زرخیز زمینات , پھلدار و عمارتی درختین  , خوبصورت سرسبز باغات اور   نالے کے آس پاس  مکانات سلاب بُرد  و تباہ  ہو گئے .

آج تک بلخصوص  ‘گاوں شکراندہ ‘ بونی کا رابط پُل دیگر گاوں سے بحال نہ ہو سکا تقریبا  ( 350)سے زائد آبادی انتہائی مشکلات میں مبتلا ہے لوکل گورنمنٹ اپر  چترال کی اولین ذمہ داری میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسی ہنگامی حالت میں  شہریوں کو بروقت بنیادی سہولیات مہیا کریں.

گزشتہ کئی سالوں سے گاوں  والے بچوں  و خواتین کو نالہ پار کروانا, مریضوں کو ایمرجنسی  میں  کندھوں میں اُٹھا  کر  ہسپتال لے جانا  حسب معمول  بن  گیا ہے .

ہم  جناب محمود خان وزیر اعلی خیبر پختونخوا سے پُرزور اپیل کرتے ہے کہ عوام ‘شکراندہ بونی’ کی مشکلات کو مدنظر رکھ کر  فوری طور پر جیب ایبل پُل کی تعمیر کا حکم صادر فرمائین    ۔

فقط شمس علی شاہ
برائے عوام شکراندہ بونی اپرچترال

Booni shakirandeh bridge
Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
51289

ریشن دومون گول کے مقام پر حفاظتی دیوارتعمیر کی جائے۔شہزاد احمد

کچھ دن پہلے ریشن میں دومون گول کے مقام پر فلائنگ کوچ گاڑی کو جو خوفناک حادثہ پیش آیا جس میں تین قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اور بہت سے لوگ عمر بھر کے لیے معزور ہوگئے اس سے پہلے بھی اس مقام پر کئ گاڑیاں حادثے کا شکار ہوچکی ہیں۔
لیکن ابھی تک زمہ دارون کا تعین نہیں ہوسکا اور نہ کوئی زمہ داری لینے کو تیار ہے۔
ابھی بھی وقت ہے حکومت کے متعلقہ اداروں کو چاہیے اس جگہ پر حفاظتی دیوار تعمیر کرکے مزید قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ علاقے کے واحد ہسپتال BHU دستیاب ہے مگر ریشن اور اس کے ملحقہ علاقوں کے ابادی کے حساب سے نہ کافی ہے۔
آگر خدا نخواستہ روڈ اکسڈینٹ اور دوسرے حادثے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کے لیے اس میں سہولت نہ ہونے کے برابر ہے لحاظہ حکام بلا کو چاہیے کہ ریشن میں BHU ہسپتال کو فوری طور پر RHC کا درجہ دیا جائے۔ یہ اہالیان ریشن کا درینہ مطالبہ بھی ہے اس کےلئے کئ درخواستین بھی متعلقہ اداروں کو دئے گئے ہیں
تیسرا یہ کہ دومون گول کے مقام پر خطرناک موڑ کی جگہ RCC پل تعمیر کیا جائے


شہزاد احمد شہزاد ریشن

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged ,
50721

ضلعی انتظامیہ سے اپیل – شمس علی سعودیہ

جناب ایڈیٹر صاحب سلام علیکم

چترال ٹائمز کے وساطت سے چترال کے ہیلتھ اتھاریٹز اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ سے گزارش ہے کہ چترال سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں لوگ جن میں فیملیز بھی شامل ہیں ۔خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں یا فیملی ویزوں پر رہتے ہیں۔یہ لوگ پاکستان آکر واپس جا نہیں سکے ہیں ۔

وجہ یہ ہے کہ چائنہ ویکسین ان ممالک میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔  آسٹرازینکہ اورفائزر  ویکسین خلیجی ممالک ( سعودیہ کویت وغیرہ ) میں رجسٹرڈ ہیں ۔

ضلعی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اسٹرازینکہ اور فائزر ویکسین اگر موجود ہو تو خلیجی ممالک میں کام کرنے والوں یا فیملیز کو ہی پاسپورٹ ویزے دیکھ کر لگایا جائے ۔اگر موجود نہیں ہے توفہرست بنا کر  انتظام کیا جائے۔

ویکسن کی موجودگی کی صورت میں باقاعدہ  اس کا اعلان کرکے صرف ان کو ہی لگایا جائے ۔اس طرح سیکڑوں کی تعداد میں چترالی پاکستان جاکر پھنسے ہوئے ہیں۔واپس اپنے جگہوں پہ جاسکے ۔اور ان کے گھر کے چولہے جل سکے۔

سنے میں آیا تھا کہ لوکل رہنے والے بہت سارے لوگوں کو یہ ویکسین لگا یا گیا تھا۔ڈبلو ایچ او کے مطابق سارے ویکسین کی افادیت ایک ہی ہے ۔لکیں ہماری مجبوری یہ ہے کہ یہ ویکسن خلیجی ممالک میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔

چترال اور پاکستان میں رہنے والوں کو چائنہ ویکسین لگایا جائے اور خلیجی ممالک میں رہنے والوں کو وہ ویکسین لگایا جائے جو وہاں رجسٹرڈ ہو۔

شکریہ کے ساتھ


شمس علی سعودیہ 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged , , , ,
50370

سانحہ اوناوچ یارخون کے لواحقین تاحال امداد کے منتظر

سانحہ اوناوچ یارخون کے لواحقین تاحال امداد کے منتظر

سانحہ یارخون جوکہ 2021-05-29 کی شب گاڑی چترال سے یارخون جاتے ہوئے اناوچ یارخون کہ مقام پر پل عبور کرتے ہوئے دریا میں جاگری تھی۔ جسمین نو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں تھیں۔ جس میں سے اب بھی 2 لاشین لاپتہ ہیں۔ یہ سب اپنے خاندان کی کفالت زندگی اور سربراہان تھیں۔ سوگواران میں چھوٹے بچے اور بیوائیں شامل ھیں۔ حکومت وقت اس واقعے سے اگاہ ہونے کہ باوجود ابھی تک ان لواحقین کو کوئی مالی امداد نہیں کی ہے۔ اگر دیکھا جاے تو یہ ایک بڑا سانحہ تھا۔


اسلے پسماندگان کی طرف سے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان اور وزیراعلی خیبر پختونخوا جناب محمود خان صاحب سے دردمانندانہ اپیل ھے کہ لواحقین کی جلد از جلد مالی امداد کیا جاے۔

حکومت سے امداد کی منتظر ہیں۔

شکریہ
ظفر احمد
برائے لواحقین سانحہ اوناوچ پل

سانحہ اوناوچ
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, خطوطTagged ,
50280

پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ اور ٹیلی نار کی ناقص سروس

محترم ایڈیٹر صاحب چترال ٹائمز
اسلام علیکم !

آپ کے اخبار کی تواسط سے ہم متعلقہ اداروں کے علم میں لانا چاہ رہے ہیں کہ دینین کے گردو نواح میں ٹیلی نار کے سگنل ذیادہ تر آتے ہی نہیں ہیں۔ضرورت کے وقت فون بھی نہیں کئے جاسکتے۔اور نہ مسجز بھیجے جاسکتے ہیں۔ ٹیلی نار کے سگنل کے علاوہ پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ بھی ذیادہ وقت غائب رہتی ہے۔ بچوں کی ان لائن کلاسز بھی متاثر ہے۔یہ سلسلہ کئی مہینوں سے اس طرح جاری  ہے۔ ہم متعلقہ اداروں کے ارباب و اختیار سے چترال ٹائمز کی وساطت سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ سروس کو درست کیا جائے۔

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged , , ,
50057

اطلاع برائے عوام الناس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایس ڈی او پیسکو (واپڈا)چترال

ضلع چترال کے پیسکو (واپڈا) چترال سب ڈویژن کے تمام صارفین اور عوام الناس کو مطلع کیا جاتا ہے کہ سمیع اللہ Act: Ls/LMIIسابق متعین چترال سب ڈویژن کے متعلق اگر کسی کو کوئی شکایت ہو۔ یا کسی قسم کے لین دین کا معاملہ باقی ہو۔تو اس سلسلے میں پیسکو ہیڈ کوارٹر سے انکوائری ٹیم چترال سب ڈویژن میں موجود ہے ۔ ذاتی طو رپر اکر اپنا مسئلہ بیان کریں ۔ آج کے بعد اس کے ساتھ کسی قسم کے لین دین کا متعلقہ شخص خود ذمہ دار ہوگا۔


مورخہ 6جولائی 2021

ایس ڈی او
پیسکو سب ڈویژن چترال (دنین)

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged , ,
50044

اظہار تعزیت……شمسیار خان بونی

بونی ( نمائندہ خصوصی)   بونی ٹیک لشٹ سے شمسیار خان ( ریٹائرڈ زراعت افیسر) نے چترال کی معروف شخصیت  مولانا اشرف کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا  اشرف ( موحوم ) جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔  موحوم نے ہمارے معاشرے کو  تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ چترال کی تاریخ میں سنہرے حرو ف سے لکھا اور یاد کیا جائے گا ۔ اگر ہم مولانا ( مغفور ) کے گاؤں کی بات کریں تو بالیم جیسے ایک چھوٹے سے گاوں میں  پی ایچ ڈی اسکالر ، فوجی افیسر ، انفارمیشن کے  میدان کے شہسوار اورپائے کا  قانوں دان کے  پیدا ہونے میں  کوئی نہ کوئی دور اندیش ذہن کارفرما رہا ہوگا کہ جس نے اپنے علاقے کے نونہالوں کو نور کا راستہ کھایا  ۔   مولانا (مرحوم  ) نے اپنی پہلی ملازت سے سبکدوش ہونے نے کے بعد اپنی  باقی زندگی کا بیشتر حصہ  درس و تدریس میں گزارا  اور آج اُن کی محنت کی برکت سے اُں کا علاقہ سونا اگلنے لگا ہے ۔  موت برحق ہے  کیوں کہ زندگی  اور موت ایک دوسرے کےلئے  لازم و ملزوم ہیں   ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی  مولانا ( مرحوم )کی  دائمی زندگی کو خوشیوں اور سکون سے مالا مال رکھے ۔  آمیں

            انہوں نے کہا ” میں موجودہ وبائی صورت حال کے پیش نظر ڈاکٹر صاحب کی تعزیت کےلئے نہیں جا سکا جس کے لئے میں ڈاکٹر صاحب سے معافی کا طالب ہوں “

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
49349