خبر لکھنے بیٹھو، تو کفن پہن لو – پیامبر- قادر خان یوسف زئی
خبر لکھنے بیٹھو، تو کفن پہن لو – پیامبر- قادر خان یوسف زئی
جنگوں کا زمانہ ہے، ہر طرف دھوم مچی ہوئی ہے۔ یوکرین روس جنگ تو جیسے اب جنگ ہی نہیں رہی، اس کو تو دنیا ایسے بھول گئی کہ جنگ تو کبھی ہوئی ہی نہیں تھی بلکہ شرارتی بچوں کے درمیان تنازع ہے، اس وقت تو صرف اسرائیل اور حماس کی جنگ تو جیسے ”ہاٹ ٹاپک” بن چکی ہے۔ ان دنوں، غزہ میں خبریں بنانے والے خود خبر بن رہے ہیں۔ سوچئے، آپ کی قلم چل رہی ہے، اور کسی کی توپ چل رہی ہے۔ اور نہ جانے کب، آپ کی ”بریکنگ نیوز” آپ کے لیے ”آخری خبر” بن جائے۔
جنگ اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کہیں گولی چلتی ہے تو کہیں قلم۔ لیکن آج کل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قلم سے زیادہ گولی کی چلن ہے۔ اکتوبر 2023 سے جاری جنگ میں اب تک غزہ کے 113 صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان بیچاروں کا قصور یہ تھا کہ یہ خبر دینے کے چکر میں خود خبر بن گئے۔ اسرائیل اور حماس کی اس جنگ نے غزہ کے صحافیوں کو گویا ”نشانے کا مرکز” بنا دیا ہے۔ جیسے یہ صحافی حماس کے لئے سرنگیں بنانے کے لئے سہولت کار تھے اور لکھ لکھ کر دیتے تھے کہ کہاں کہاں سرنگ بنانا ہے۔
یقین کیجئے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے جنگی میدان میں رپورٹرز کے ساتھ ”کھیلنے” کی بجائے ان پر نشانہ باندھ کر کھیل کھیلا جا رہا ہو۔
ہیومن رائٹس واچ کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ اسرائیل نے چار مختلف مواقع پر ”صحافیوں اور میڈیا کی سہولیات” کو نشانہ بنایا۔ جیسے کسی نے اسرائیلی فوجیوں کو کہا ہو: ”بھائی، یہ قلم چلانے والے کچھ زیادہ ہی چل رہے ہیں، ان کو بھی تھوڑی سی دوڑ لگواؤ!” اور پھر 2019 میں اقوام متحدہ کے کمیشن نے بتایا کہ اسرائیل نے گذشتہ دنوں فلسطینی صحافیوں اسماعیل الغول اور رامی الریفی کو جان بوجھ کر گولی مار دی تھی۔ اب بھلا یہ کیا بات ہوئی، خبر لکھتے لکھتے خود ہی خبر بن گئے۔
اب آئیے مغربی میڈیا کی بات کریں۔ فلسطین پریہاں تو خاموشی کا ایک عالم ہے۔ جیسے کسی نے مغربی صحافیوں کو کہا ہو: ”بھائی، یہ تو ہماری اپنی جنگ ہے، اس میں مت پڑو!” اب مغربی صحافی بھی کیا کریں؟ انہیں تو روز نئی کہانیاں چاہئے، اور یہ کہانی تو بہت پرانی ہو گئی ہے۔
تماشے کے لئے پچھلے دنوں کہانی چلائی، مثال کے طور پر، دسمبر 2023 میں، اسرائیل کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی غم و غصے کے درمیان، فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر، منظم عصمت دری کی جھوٹی رپورٹیں شائع کی گئیں اور مغربی میڈیا بشمول نیویارک ٹائمز نے نمایاں طور پر نمایاں کیا۔ اسرائیلی کارروائیوں سے ہٹ کر مبینہ فلسطینی جرائم کی طرف توجہ مرکوز کرنا بیانیہ کنٹرول کے وسیع نمو نے کی مثال دیتا ہے۔
اب یہ بھی ایک نیا موڑ تھا، جیسے کسی نے کہا ہو: ”دیکھو، اصل مسئلے سے توجہ ہٹاؤ اور کچھ اور دکھاؤ!” جیسے کسی فلم کے ڈائریکٹر نے کہا ہو: ”یہ سین بہت بورنگ ہے، کچھ نیا کرو!”۔ کچھ زیادہ ہی مغرب میں خاموشی کا راج ہے، اتنی خاموشی کیوں ہے بھائی، اور صحافیوں کی ہلاکتوں پر مغربی میڈیا کا ردعمل؟ چارلی ہیبڈو حملے کے وقت تو سب #JeSuisCharlie کے ہیش ٹیگ چلا رہے تھے، لیکن یہاں؟ بس ایک دو خبریں، اور وہ بھی دبے دبے الفاظ میں۔ جیسے کسی نے کہا ہو: ”یہ تو معمول کی بات ہے، اگلی خبر!”
اب سوچئے، صحافت کا میدان بھی ایک جنگی میدان بن چکا ہے۔ جہاں قلم کی جنگ میں گولیوں کا سامنا ہے۔ اور اس جنگ میں، صحافیوں کو اپنی جان بچانے کے ساتھ ساتھ خبر بھی بچانی ہے۔ جیسے کسی نے کہا ہو: ”خبر لکھو، لیکن خود بھی محفوظ رہو!”
ایک مشورہ تمام صحافیوں کے لیے: جب بھی خبر لکھنے بیٹھو، تو کفن پہن لو! کیونکہ آج کے دور میں، قلم کی جنگ میں کفن بھی ضروری ہے، ماریں جائیں تو بے گور و کفن تو نہ ہوں۔ جنگ ہو یا خبر، اپنی حفاظت سب سے اہم ہے۔ کیونکہ خبر تو روز بنتی ہے، لیکن زندگی ایک بار ہی ملتی ہے لیکن غزہ میں تو شہیدوں کی تاریخ لکھی جارہی ہے تو پھر قلم کے مجاہد پیچھے کیوں رہیں۔
ان سانحات کے سامنے جو چیز واقعی حیران کن ہے وہ مغربی صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے نسبتاً خاموشی اور غم و غصے کی کمی ہے۔ اگرچہ کچھ رپورٹنگ اور ہمدردی موجود ہے، خاص طور پر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس جیسے واچ ڈاگ اداروں کی طرف سے، لیکن صحافتی یکجہتی یا آزادی صحافت کو لاحق خطرے کی وسیع پیمانے پر مذمت کا احساس کم ہے۔ مغربی میڈیا کی کوریج نے اکثر اسرائیل کو شک کا فائدہ دیا ہے، فلسطینی صحافیوں کی ہلاکتوں کو جدید جنگ کے ضمنی نقصان کے طور پر مسترد کر دیا ہے۔
مغربی میڈیا کویہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ جب صحافت کو خطرہ ہو، تو سچائی کی حفاظت کرنا ہر صحافی کی ذمہ داری ہے۔ صحافت کا مقصد صرف خبر دینا نہیں، بلکہ انصاف اور حقائق کی ترویج کرنا بھی ہے۔ جب غزہ کے صحافی اپنی جان پر کھیل کر سچائی کو سامنے لاتے ہیں، تو ہمیں بھی ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہئے۔مغربی خبر رساں اداروں نے حالیہ تنازع کے دوران سوشل میڈیا پر فلسطینی حامی مواد کی وسیع پیمانے پر سنسر شپ کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ سنسر شپ، جو آزادی اظہار کو مجروح کرتی ہے، آزادی صحافت میں دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے ایک بڑی تشویش ہونی چاہیے۔
یہ کالم ان تمام صحافیوں کے نام جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر سچائی کی راہ میں قربان ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی حق و انصاف کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔