
حکومت کی جانب سے صحافت پر قدغن ۔ اسد الرحمن بیگ
حکومت کی جانب سے صحافت پر قدغن ۔ اسد الرحمن بیگ
حکومت نے پر یوینشن آف الیکٹرونک کرئمز (ترمیمی) بل 2025 منظور کر لیا ہے۔ یہ بل ریاستی اداروں پر تنقید اور جعلی یا جھوٹی خبریں پھلانے والوں کو موثر طریقے سے سزا دینے کا باعث بنے گا۔
جس پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) سمیت تمام میڈیا تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ صحافت کی آزادی پر قدغن ہے۔
صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سرکار نے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر جس جلد بازی میں قانون سازی کی ہے۔ اس سے حکومت کی نیت پر کھوٹ کی واضح نشاندھی ہورہی ہے۔ اور یہ پاکستانی صاحب اقتدار پارٹیوں کا ہمیشہ سے روایت رہا ہے کہ کہ جو بھی اقتدار میں اتا ہے وہ صحافت اور آزادی اظہار کو لگام دینے کے حربے ڈھونڈتا ہے۔ اسے پہلے 2016 میں بھی موجود حکومت نے پیکا بل متعارف کرانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ جسے تحریک انصاف نے ڈریکونین لا draconian law یعنی سخت ظالمانہ قانون کہ کر رد کر دیا تھا ۔ یہ ایک ایسا قانون ہوتا ہے جو انتہائی سخت سزاواں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی عمران خان اقتدار میں آیا اور صحافتی آزادی پر پابندی کو اپنی اولین ترجیح میں شامل کردیا ۔ اور انتہائی سادہ و پرکاری سے صحافت پر شب خون مارا۔ پھر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ لاگو کردیا ۔ لیکن مطالقہ اداروں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا گیا ۔ پھر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لاے گیے اس بل کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
اب دوبارہ مسلم لیگ ن کی جانب سے پہلے سے بھی کہیں زیادہ سخت ردوبدل کے ساتھ نافذ کیا ہے ۔ لیکن اس میں کسی اسٹیک ہولڈر یا دوسرے اتحادی پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا ہے۔
جس پر پاکستان ہیومن رائٹس HRCP نے قومی اسمبلی میں پر یوینشن آف الیکٹرکرائمز (ترمیمی) بل 2025 کی منظوری پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بل کی دفعہ 26-اے میں جعلی جھوٹی خبروں پر زور دینا تشویش ناک ہے ۔ اور متن میں جعلی خبروں کی واضح تعریف فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اس کے بجاے مبہم نتائج جسے عوامی خوف، گھبراہٹ ، بدامنی اور بدحواسی کا حوالہ دیا گیا ہے ۔
صحافتی حلقوں کا مزید کہنا ہے کہ تین سال تک کی سزا غیر ضروری اور سخت ہے۔ اور ساتھ ہی ڈیجیٹل مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے چار آئینی اتھارٹیز کا قیام جو کہ کثیرسطحی کنٹرول نافذ کرے گا۔ اظہار رائے اور رائے عامہ پر منفی اثر ڈالے گا۔ اس کے علاؤہ مجوزہ سوشل میڈیا پروٹکشن ٹریبونل کے فیصلوں کو براہِ راست سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے اور اس ٹربیونل میں حکومتی تقرری کے اراکین کی شمولیت بھی باعث تشویش ہے۔ کیونکہ اس میں عدالتی نگرانی کم اور ایگزیکٹو کنٹرول بڑھنے کے احکامات ہیں۔
صحافیوں کی بڑی تنظیم ایف یو جے نے اس کے خلاف ایک وسیع پیمانے پر تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔
بہرحال کوئی بھی ملک ترقی کی راہ پر اس وقت تک گامزن نہیں ہوسکتا جب تک کے وہاں کا ذرائع ابلاغ اور صحافت کھل کر اظہار خیال میں خوف محسوس نہ کرے۔