حکومتی اور سیاحتی آنکھوں سے اوجھل کھوت ویلی: – تحریر: کلیم اللہ
حکومتی اور سیاحتی آنکھوں سے اوجھل کھوت ویلی: – تحریر: کلیم اللہ
(میرا گاوں)
چترال کے انتہائی شمال میں واقع ایک ایسا گاؤں بھی ہے جو آج تک حکومتی اور سیاحتی آنکھوں سے اوجھل ہے۔
آئیے اس کے بارے میں تھوڑا جانتے ہیں۔
محل وقوع: (Location)
کھوت ویلی سطح سمندر سے 9930 فٹ کے بلندی پر واقع چترال کا پرانا ترین گاؤں ہے۔ اس کے شمال میں ریچ ویلی، جنوب میں مستوچ، مشرق میں یارخون (کھوتان درے کے ذریعے)، مغرب میں بوزوند اور شاگرام واقع ہے۔
موسم: (Weather)
موسم چترال کے دوسرے دور دراز علاقوں کی طرح سردیوں میں انتہائی سرد اور گرمیوں میں انتہائی معتدل ہوتا ہے۔ جون اور جولائی سال کے سب سے گرم مہینے ہیں۔
یوں تو یہ گاؤں اپنے سرسبز، لہلہاتی کھیتوں، چراگاہوں، میڈوز، بلند بالا پہاڑوں، برف کے تودوں، آسمان کو چھوتے ہوئے درختوں، مہمان نواز لوگوں، سادہ طرز زندگی، پانی، آب و ہوا، اتفاق و اتحاد سے بندھے ہوئے برادریوں، محبت، برداشت، بھائی چارے سے جڑے ہوئے باسیوں اور اپنی شاندار تاریخ اور قد آور شخصیات کی وجہ سے پورے چترال میں مشہور ہے۔
انتہائی دور افتادہ ہونے کے باوجود بھی اس خوبصورت گاؤں کے باسی ریاستی دور ہو یا جدید دور، زندگی کے ہر شعبے میں اپنا منفرد مقام رکھتے آ رہے ہیں۔
لوگ انتہائی مضبوط، محنتی، مہمان نواز، مذہب پسند، قدردان،اپنے کھو روایات سے جڑے ہوئے اور اپنے اقدار سے پیار کرنے والے ہیں۔ کوئی بھی غیر اسلامی، غیر شرعی اور جدید دور کی کوئی بھی بیہودگی ان کی شخصیت کو جلدی متاثر نہیں کر سکتیں۔
کوئی بھی علاقائی کام ہو اپنے ذاتی انٹرسٹ کو پیچھے رکھ کر علاقائی فائدے کے لیے میدان میں کودنے والے، نا حق کے خلاف سب سے پہلے صف میں کھڑے ہونے والے اور حق کو ووٹ اور چھین کر لینے کے فلسفہ پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔
شخصیات: (Personalities)
اس خوبصورت سر زمین نے بہت سے قد آور شخصیات کو جنم دیا ہے۔
ان میں ریاستی دور کے سب سے اثر رسوخ رکھنے والے “دیوان بیگی ہزار بیگ”، اپنے دور کے انتہائی طاقتور “اطالیق تیغوں”، “چرویلو نیت زرین”، “محمد عیسیٰ پہلوان” سرفریست ہیں۔
کھیل: (Sport’s)
کھیل کے میدان میں بھی اس علاقے کے باسی کسی سے پیچھے نہیں رہتے تھے۔
چوگان (پولو) کے بہترین کھلاڑی حوالدار میر گوڑی خان بابا (قوضیاندور، میرا پر دادا) اور خیر امن بابا (تھور کھوت) اپنے دور کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار ہوتے تھے۔
جب پولیٹکل ایجنٹ کے حکم پر چترال کا پولو میچ پہلی مرتبہ ریاستی پشت پناہی میں رکھی گی تو تورکھو کے ٹیم نے تاریخی فتح حاصل کر کے ٹرافی اپنے نام کیے تھے۔ بد قسمتی سے آج پورے تورکھو میں ایک بھی پولو کھلاڑی آپ کو نہیں ملے گا۔
(اس کے بہت سے وجوہات ہیں ان شا اللہ اگر موقع ملا پھر کبھی اس کے بارے میں لکھوں گا).
معاشرتی نظام: Social) system)
اس کے ساتھ قدیم ایام کے سوشل ضروریات کو پورا کرنے کے لیے”گرم” کا کنسپٹ، غاری بیک، غاری نسیک، یاردوئی، اور دوسرے قدیم معاشرتی روایات اب تک فعال ہیں۔
خوراک۔ (Foods)
جہاں تک میں نے نوٹ کیا ہے۔خوراک میں زیادہ تر لوگ گوشت اور دودھ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں کیونکہ علاقہ انتہائی وسیع ہے اور قدرت کی دیوی بھی اس سر زمین پر بڑا مہربان ہے۔ ان میں چراگاہیں، گھاس کے میدان بڑے پیمانے میں پائے جاتے ہیں۔
چند مشہور خوراک۔
1۔ چھیرا شاپیک
2۔ مول
3۔شولا۔
4۔ ڑیگانو
5۔قلائے بت
7۔ سناباچی.
8۔ شوشپ درے شاپیک
9۔ بوز
10۔ چھیر گرینچ۔
11۔ ٹار برٹ
12۔ غلمندی
13۔شوشپ (چھوچھو، تیل، ژوڑ شوشپ)
14۔ کڑی
وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
(خوراک کے نام ایڈ کر سکتے ہو۔)
چراگاہیں۔ (Pastures)
یوں تو علاقہ پورا سرسبز ہے لیکن سردیوں میں گاؤں میں شدید برف باری کی وجہ سے لوگ اپنے مال مویشیوں کو دور چراگاہوں میں چھوڑ آتے ہیں۔ تاکہ وہ شدید سردی میں بھی صحت مند اور تر و تازہ رہے۔
تین چراگاہیں بہت مشہور ہیں جو علاقے کی تقریباً پورے آبادی اس میں اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑ آتے ہیں۔
1۔ اوجو
2۔ پوتین
3۔ بھول گۓ (معذرت)
نہری نظام: (Irrigation system)
اس کے علاوہ اس علاقے کا نہری نظام بھی منفرد ہے۔ علاقے کو جان بخشنے کے لئے اس میں انتہائی قدیم آرٹیفشل نہری نظام موجود ہے جس کو “را ژوئے” کا نام دیا گیا ہے۔
یہ نہری نظام بھی ایک عجوبہ سے کم نہیں۔ دشوار گزار پہاڑوں، چٹانوں اور اونچے جگہوں سے انتہائی مہارت کے ساتھ بنائی گئی ہے اور اس کو دیکھنے والے سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں جدید مشینوں سے بھی ایسی مہارت اور باریکی کے ساتھ کھدائی کرنا مشکل لگ رہا ہے، نا جانے اس دور میں وہ کون عظیم لوگ ہوں گے جنہوں نے اس شاہکار کو تعمیر کیے۔
اور ان کی ذہنی اور جسمانی مضبوطی کی گواہی وہ خود دے رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ مکمل کچہ ہے اس میں ایک انچ بھی سیمنٹ کا کام نہیں کیا گیا ہے۔
اس میں سال میں صرف گرمیوں میں پانی چھوڑا جاتا ہے۔ سردیوں میں یہ مکمل بند رہتا ہے۔ اس کو ایشیاء کا سب سے بڑا کچہ اریگیشن سسٹم بھی کہا جاتا ہے۔
(اسٹٹسٹکس غلط بھی ہوسکتا ہے)۔
را ژوئے کی صفائی اور اس میں علاقے کا کردار کے بارے میں پھر کبھی لکھوں گا۔ انشاء اللہ۔
سیاحتی مقامات: (Tourist spots)
سیاحت کے شوقین لوگوں کے لیے کھوت جنت سے کم نہیں۔ یوں تو پورے علاقے کو ٹورسٹ اسپوٹ کہنا غلط نہیں ہوگا۔ علاقہ سر سبز، آب و ہوا تازہ، تازہ پانی، پہاڑ، برفانی تودے، پُرسکون ماحول سب اللہ تعالی نے اسے عطا کیے ہیں۔ اس میں سب سے مشہور اور مناسب
“شاقلشٹ میڈو” ہے جو سیاحوں کو اپنے کھلے میدان، اس میں چرتے ہوئے جانور، تازہ آب و ہوا، میٹھے پانی کے چشمے، صحت بخش فضا، اور جولائی کے مہینے میں بھی برف دیکھنے کو ملیں گے۔
اس میں ہر سال جولائی کے مہینے میں میلہ لگتا ہے اس میں شرکت کرکے روایتی کھیلوں کے ساتھ ساتھ اپنی روح کو بھی تازہ کر سکتے ہیں۔
نوٹ: انتہائی دور افتادہ ہونے کی وجہ سے ہوٹل کا کوئی سسٹم علاقے میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے اپنے ساتھ صرف ایک عدد ٹینڈ لانا نا بھولیے گا۔ باقی اشیائے خورد و نوش کے تمام سامان آسانی سے آپ کو کھوت بازار سے ملیں گے۔ جس جگہ دل کرے ٹینڈ لگائے اور نیچر کو انجائی کرے۔
نوٹ: اگر کسی جگہ غلطی ملے تصحیح کا مکمل حق حاصل ہے۔ تنقید برائے تعمیر اور تصحیح کرنے والوں کی مہربانی ہوگی۔
شکریہ۔