حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں کلی معیشت کے استحکام کو یقینی بنانے میں مدد ملی، زرعی پیداوار، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ کا رجحان برقرار رہے گا، وزارت خزانہ
حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں کلی معیشت کے استحکام کو یقینی بنانے میں مدد ملی، زرعی پیداوار، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ کا رجحان برقرار رہے گا، وزارت خزانہ
اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں کلی معیشت کے استحکام کو یقینی بنانے میں مدد ملی، معیشت کے اہم اشاریے بہتری کی عکاسی کر رہے ہیں، زرعی پیداوار، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ کا رجحان برقرار رہے گا، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ اور افراط زر کی شرح میں بتدریج کمی سے معیشت کی بہتری کی عکاسی ہو رہی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ کے مطابق مالی سال 2024ء کے دوران پاکستان کی معیشت استحکام کی راہ پر گامزن ہوئی، افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی آئی، گذشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں حسابات جاریہ کے خسارہ میں کمی ہوئی، زرعی شعبہ نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ بڑی صنعتوں کی پیداوار ٹیک اپ کی پوزیشن پر آ گئی۔رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024ء میں زرعی ٹریکٹروں کی پیداوار میں 43.5 فیصد کی شرح سے نمو ریکارڈ کی گئی،
زرعی قرضوں کا حجم 1972.8 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جو گذشتہ مالی سال کے مقابلہ میں 26 فیصد زیادہ ہے، پنجاب میں 1.304 ملین ہیکٹر رقبے پر کپاس کی کاشت ریکارڈ کی گئی جبکہ ہدف 1.680 ملین ہیکٹر تھا، سندھ میں 0.550 ملین ہیکٹر اراضی پر کپاس کی کاشت ہوئی جبکہ ہدف 0.630 ملین ہیکٹر مقرر کیا گیا تھا۔ موسم خریف میں کھادوں کی کھپت کا حجم 1210 ہزار ٹن تھا جو گذشتہ خریف کے مقابلہ میں 18.1 فیصد کم ہے۔ ڈی اے پی کی کھپت کا حجم 256 ہزار ٹن ریکارڈ کیا گیا جو گذشتہ سیزن کے مقابلہ میں 6.8 فیصد کم ہے تاہم اس کے باوجود سندھ اور پنجاب میں کپاس کیلئے اچھے بیجوں کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ متوقع ہے۔گذشتہ مالی سال کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار میں ایک فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی جبکہ مئی میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 7.3 فیصد اور ماہانہ بنیادوں پر 7.5 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
سیمنٹ کی کھپت میں 1.6 فیصد کا اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر 45.3 ملین ٹن سیمنٹ کی کھپت ریکارڈ کی گئی۔ مقامی کھپت کا حجم 38.2 ملین ٹن ریکارڈ کیا گیا جو پیوستہ سال کے مقابلہ میں 4.6 فیصد کم ہے تاہم سیمنٹ کی برآمدات میں 55.7 فیصد کی شرح سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور مجموعی طور پر 7.1 ملین ٹن سیمنٹ کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں۔رپورٹ کے مطابق جون میں صارفین کیلئے قیمتوں کا عمومی اشاریہ 12.6 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو مئی میں 11.8 فیصد اور گذشتہ سال جون میں 29.4 فیصد تھا۔ اوسط سالانہ افراط زر 29.2 فیصد سے گر کر 23.4 فیصد کی سطح پر آئی۔ اقتصادی اپ ڈیٹ کے مطابق گذشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں مالی خسارہ کو جی ڈی پی کے تناسب سے 5.5 فیصد کی سطح سے کم کرکے 4.9 فیصد کی سطح پر لایا گیا۔ پرائمری بیلنس کا حجم 1620.5 فیصد ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جو جی ڈی پی کا 1.5 فیصد بنتا ہے۔
گذشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں مجموعی وفاقی محاصل کا حجم 6202.6 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سے پیوستہ سال کے مقابلہ میں 49 فیصد زیادہ ہے۔ نان ٹیکس ریونیو میں 90 فیصد کی شرح سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ایف بی آر کے مجموعی محاصل کا حجم 9311 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا ہے جو پیوستہ سال کے مقابلہ میں 30 فیصد زیادہ ہے۔ براہ راست ٹیکسوں میں 38.5 فیصد جبکہ سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی میں بالترتیب 19.6 فیصد، 56.1 فیصد اور 18.5 فیصد کی شرح سے نمو ریکارڈ کی گئی۔ وزارت خزانہ کے مطابق برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ کی وجہ سے مالی سال 2024ء میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ 0.7 ارب ڈالر تک محدود کیا گیا جو مالی سال 2023ء میں 3.3 ارب ڈالر تھا۔ اشیاء کی برآمدات کا حجم 31.1 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو گذشتہ سال کے مقابلہ میں 11.5 فیصد زیادہ ہے۔
درآمدات کا حجم 53.2 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو مالی سال 2023ء میں 52.3 ارب ڈالر تھا۔ مجموعی تجارتی خسارہ کا حجم 22.1 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جوگزشتہ سے پیوستہ مالی سال میں 24.8 ارب ڈالر تھا۔ گذشتہ مالی سال کے دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 1.9 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جوگزشتہ سے پیوستہ مالی سال کے مقابلہ میں 16.9 فیصد زیادہ ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں چین، برطانیہ اور دیگر دوست ممالک نے اہم کردار ادا کیا، بجلی کے شعبہ میں سب سے زیادہ 799.9 ملین ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ریکارڈ کی گئی جو مجموعی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا 42.1 فیصد بنتا ہے۔ تیل و گیس کے شعبہ میں 303.6 ملین ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ریکارڈ کی گئی۔گذشتہ مالی سال کے دوران سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کا حجم 30.3 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو مالی سال 2023ء کے مقابلہ میں 10.7 فیصد زیادہ ہے۔ زرمبادلہ کے ملکی ذخائر کا حجم 12 جولائی کو 14.7 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جس میں سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 9.4 ارب ڈالر تھا۔ اقتصادی اپ ڈیٹ کے مطابق مالی سال 2024ء میں زر وسیع (ایم 2) میں 15.5 فیصد کی شرح سے نمو ریکارڈ کی گئی جس میں بینکنگ شعبہ کے مجموعی بیرونی اثاثوں نے اہم کردار ادا کیا۔نجی شعبہ کی جانب سے قرضہ لینے کی شرح میں اضافہ ہوا اور مالی سال 2024ء میں اس شعبہ کو 368.4 ارب روپے کا قرضہ فراہم کیا گیا جو مالی سال 2023ء میں 208.3 ارب روپے تھا۔
وزارت خزانہ کے مطابق گذشتہ سال ستمبر سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کی کارکردگی میں بہتری کا رجحان شروع ہوا۔ جون میں کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں 2566 پوائنٹس کا نمایاں اضافہ ہوا۔ جون کے اختتام پر انڈیکس 78445 پوائنٹس تک پہنچ گیا تھا۔ جون میں مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں 205 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ وزارت خزانہ کے مطابق محدود مالی گنجائش کے باوجود حکومت معاشرے کے معاشی طور پر کمزور طبقات کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔مئی 2024ء میں تخفیف غربت فنڈ نے 24 شراکت دار اداروں کے تعاون سے 28 ہزار 913 بلاسود قرضے فراہم کئے جس کا حجم 1.38 ارب روپے تھا۔ فروری 2023ء سے لے کر مارچ 2024ء تک کی مدت میں حکومت نے ایک لاکھ 40 ہزار 202 مستحقین میں 83.68 ارب روپے کے قرضے تقسیم کئے۔
یہ قرضے وزیراعظم یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچر لون سکیم کے تحت فراہم کئے گئے۔ علاوہ ازیں حکومت نے تین ماہ کیلئے 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لئے زرتلافی کا بھی اعلان کیا ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق مالی سال 2025ء کیلئے زرعی شعبہ کی ترقی کا ہدف 2 فیصد مقرر کیا گیا ہے تاہم گذشتہ سال اس شعبہ کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے جاری مالی سال میں بھی نمایاں بہتری کا امکان ہے۔ لائیو سٹاک، فشریز اور فاریسٹری کے شعبہ جات میں بھی اضافہ کا رجحان جاری رہے گا۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں گذشتہ مالی سال کے اواخر میں بہتری شروع ہوئی اور یہ عمل جاری مالی سال میں بھی برقرار رہے گا۔ وزارت خزانہ کے مطابق جولائی میں افراط زر کی شرح 12 سے لے کر 13 فیصد اور اگست میں 11 سے لے کر 12 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ اسی طرح ماہانہ برآمدات کا حجم 2.4 سے لے کر 2.7 ارب ڈالر اور درآمدات کا حجم 4.5 سے لے کر 4.9 ارب ڈالر تک رہنے کا امکان ہے۔