حمیدہ ایجوکیشن اینڈ بورڈنگ اکیڈیمی ۔ قربت رسولؐ کا ذریعہ- تحریر: ظہیرالدین
حمیدہ ایجوکیشن اینڈ بورڈنگ اکیڈیمی ۔ قربت رسولؐ کا ذریعہ- تحریر: ظہیرالدین
ہمیشہ مجھے رشک آتا ہے اس انسان پر جو یتیم کی کفالت کا ذمہ اٹھالے اور اس سلسلے میں جدوجہد کرتا ہوا نظرآئے اور یہی لوگ معاشرے میں قابل ستائش ہیں کیونکہ رسول مہربان نے یتیم کی کفالت کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایاکہ قیامت کے روز میں اور یتیم کا کفیل اس طرح ہوں گے پھر اپنی شہادت کی انگلی اور درمیان والی انگلی کی طرف اشارہ کیا اور انہیں کشادہ کیا۔ روز محشر میں قربت رسول حاصل کرنے والے یہی نیک بخت ہوں گے جو یتیموں کی کفالت کا بیڑ ا اٹھاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں دنین چترال میں واقع حمیدہ ایجوکیشن اینڈ بورڈنگ اکیڈیمی جانے کا اتفاق ہوا تومیں شہزادہ مدثر الملک، مولانا عمادالدین اور سمیع الدین رئیس کی قسمت پر رشک کئے بغیر نہ رہ سکا جو چترال کے ارندو سے لے کر بروغل تک یتیم بچوں کی کفالت کے لئے اپنی زندگی کی قیمتی لمحات صرف کررہے ہیں اور یہاں رہائش پذیر 50بچوں کو اپنے جگر گوشوں کی طرح نازو نعم میں پرورش کررہے ہیں۔ ان کے جذبے کو دیکھ کر میرے دل سے بے ساختہ دعا نکلی کہ اے رب ارض وسما! تو میرے ان بھائیوں کی کاوشوں کو اپنے دربار میں قبول فرما اور انہیں قربت رسول کا حقدار بنادے جوتیری رضا کے لئے اپنی آرام وسکون کو قربان کردیا ہے کیونکہ اپنی آخری کتاب قران عظیم الشان میں تونے 23مقامات پر یتیموں کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے۔ مولانا عماد نے اس ادارے کے لئے ایک ایسے لوکیشن پر زمین کا عطیہ دیا ہے جس کی ایک ایک انچ کی قیمت لاکھوں روپوں میں ہوسکتی ہے، شہزادہ مدثر نے اپنی تمام سرگرمیوں کا مرکز اسی ادارے کو بنالیا ہے اور اس ادارے کی عمارت کے لئے عطیہ دینے والی سویڈن میں مقیم پاکستانی مس شمیم اور ان کی توجہ کو اس طرف دلانے والا سیف الرحمن عزیز سب خوش قسمت ہیں اور یہ سعادت ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جن کے ماں باپ ان سے راضی ہوں۔ سمیع الدین رئیس اگرچہ اس ادارے کے ساتھ تنظیمی لنک میں نہیں ہیں لیکن یہاں مقیم بچوں کے لئے جو درد اپنے دل میں رکھتے ہیں، وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔
یہ کوئی آسان کام ہر گز نہیں ہے کہ 50بچوں کا ماہانہ فی کس 20ہزار روپے اخراجات برداشت کئے جائیں جوکہ دس لاکھ روپے بنتے ہیں مگر ہمت مردان، مدد خدا ان پر صاد ق آتی ہے اور ‘نیت صاف، منزل آسان’بھی شائد ان ہی باہمت مردوں کے لئے ہے۔ ادارے میں داخل پچاس بچوں کی ہی گنجائش ہے جن کا تعلق ارندو سے لے کر اپرچترال کے آخری گاؤں تک سے ہے۔ ایک منظم اور مربوط انداز میں ان بچوں کی روزمرہ کی زندگی کو ڈھالا گیا ہے جنہیں شہر کے بہترین سکولوں میں داخل گئے ہیں اور سکولوں سے واپس آنے کے بعد ان کے ہوم ورک کرانے اور مشکل اسباق کی دہرائی کے لئے تین ٹیچرز تعینات ہیں۔ اسباق کی دہرائی اور ہوم ورکس مکمل کرنے کے بعد کھیل کا وقفہ شروع ہوتا ہے جبکہ قرآن مجید کی ناظرہ اور تعلیم کے لئے بھی استاذ اور وقت مقررہیں اور ہر بچے کو کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور پھر انہیں ٹائم ٹیبل میں مقررہ وقت پر لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر فراہم بھی کیا جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ تعارف کے دوران جو بات خاص طور پر نوٹ کی گئی، وہ ان کی پراعتمادی ہے جوکہ ان کی مربین کا کما ل ہے۔ ان کی آنکھوں میں موجود چمک یہ چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ یہ بچے اس قوم کے لئے اثاثہ ثابت ہوں گے اور معاشرے کو یہ لوگ اپنی خوشبو سے مہکادیں گے۔
اکیڈیمی کے منتظمین نے مسائل کے بارے میں سوال پر بتایاکہ ماہانہ راشن کے حوالے سے سپورٹ کی فوری طور پر ضرورت ہے جبکہ طویل المدتی مسائل میں جگہ کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے فرسٹ فلور پر کنسٹرکشن کا کام چالو جس کی تکمیل پر 30بچوں کے لئے جگہ دستیاب ہوگی مگر اس کے بقیہ کام کی لاگت 25لاکھ روپے ہے جس کا انتظام کرنا ابھی باقی ہے۔ ا ن کاکہنا تھا کہ ایک سروے کے مطابق چترال بھر میں اس وقت 927یتیم بچے سپورٹ کے منتظر ہیں جن کو تعلیم کے لئے گھروں میں سپورٹ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ شہزادہ مدثر کا کہنا ہے کہ اپنے گھروں میں رہنے والے یتیم بچوں کی سپورٹ کے لئے ڈیٹابیس بنانے کے بعد انہیں ہر ماہ تعلیمی اخراجات کے لئے ایزی پیسہ کے ذریعے پیسہ بھیجاجائے گا اور یہ سہولت جماعت اول سے میٹرک تک لیول کے بچوں کے لئے ہوگی۔ ان کایہ بھی کہنا تھاکہ بچوں کے لئے چترال میں اب تک ادارے کھولے گئے ہیں لیکن یتیم بچیاں اب تک اس سہولت سے محروم ہیں اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اکیڈیمی کے تھرڈ فلور پر کمرے تعمیر کرکے ان کے لئے الگ سیٹ اپ قائم کیا جاسکتا ہے اور اس نیک کام کے لئے کسی ڈونر کا انتظار ہے۔ اکتوبر 2018ء کو قائم ہونے والی اس اکیڈیمی میں اس وقت کے جی کلاس سے جماعت نہم تک کے بچے مختلف سکولوں میں زیر تعلیم ہیں جن کے ٹیوشن فیس سے لے کرٹرانسپورٹ فیس بھی متعلقہ سکول کو ادا کئے جاتے ہیں۔ اس موقع پر معروف صحافی فخر عالم نے جماعت ہشتم میں زیر تعلیم ایک طالب علم کی تعلیمی اخراجات کی کفالت اپنے ذمہ لینے کا اعلان کردیا۔ اہل ثروت اگر اس طرح اپنے ذمے معاشرے کے یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھاتے رہے تو معاشرے میں کوئی احساس محرومی نہیں رہے گا۔