حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا صبر……محمد عنصر عثمانی
جب پہلی صدی کی ابتدا ہوئی تو یکم محرم الحرام جمعہ کا دن تھا۔ اسلامی تاریخ کا پہلا مہینہ ابتدائی ایام میں لاکھوں دکھوں کی مالا پہنے ہوئے ہے۔خلیفہ ثانی، مسلمانوں کے عروج کے محسن،عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ یکم محرم الحرام کو پیش آیا۔ پھر اسی محرم کی دس تاریخ کو نواسہ رسول سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے رشتہ داروں، غلاموں کو میدانِ کربلا میں شہیدکیا گیا۔کربلا کے اِس واقعہ نے تاریخ اسلام میں صدیوں تک اپنے دوررس اثرات مرتب کیے۔
محرم الحرام میں پیش آنے والے واقعات حادثاتی یااتفاقی نہیں تھے،بلکہ ان امور کا ہونا ازل سے اٹل تھا کہ ایسا ہو کر رہے گا۔حدیث پاک میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو چوم رہے تھے، آپ کی آنکھوں سے اشک جارہی تھے اور فرمارہے تھے کہ:”میرے اس بیٹے کو میری امت کے لوگ شہید کریں گے۔(مسند احمد وسنن ابی داوود) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت حسین ؓکی شہادت کی پیش گوئی61 ھ میدان کربلا میں پوری ہوئی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا،آپ کے بال مبارک بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی، میں نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے،میں صبح سے اسے اکٹھا کررہاہوں“۔(مسند احمد(1/242) میدان کربلا میں پیش آئے اس واقعے سے انسانیت کو کئی اسباق ملتے ہیں۔جناب سیدنا حسین ابن علی ؓ کے گھرانہ اہل بیت نے اللہ کے امتحان میں سرخروئی حاصل کی اور کامیاب و کامران ہو کر دنیا کو پیغام صبر دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں نواسوں سے بے حد پیار کرتے تھے۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ سر سے کمر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے اور کمر سے پاؤں تک والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشابہ تھے،اور حضرت حسین ؓ سر سے کمر تک والد ماجد حضرت علی ؓکے مشابہ تھے اور کمر سے پاؤں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے باہر تشریف لائے تو دونوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاندھوں پہ سوار تھے،عرب میں بچوں کو کاندھوں پہ بیٹھانا عیب سمجھا جاتا تھا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو محبت میں فرمانے لگی:”کیا سواری ہے“۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سوار ی کو نہ دیکھو سوارکو دیکھو“۔ سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت حسین میں محبت کو بدرجہ اعلیٰ رکھا، اسی محبت کا نتیجہ تھا کہ میدان کربلا میں تپتی ریت پہ،نیزوں،تلواروں کے درمیان معرکہ حق و باطل میں قافلہ حسین ؓنے یزیدیت کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اور دین حق کا جھنڈا لہرا کر دنیا کو دیکھادیا کہ برداشت کا اس سے منفرد کوئی تاریخی سانحہ رونما نہیں ہوسکتا۔ اس دن حسین رضی اللہ عنہ کے صبر کے سامنے صبر کے سارے پیمانے بہت نیچے تھے۔کیوں کے ان پیمانوں سے حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے صبر کو پرکھا نہیں جا سکتا۔ہر طرف تلواروں،تیروں کی بوچھاڑ تھی،پے درپے حملے ہورہے تھے،پانی بند کردیا گیا تھا،سہولتیں،راحتیں چھین لی گئی تھیں،مظالم و مصائب کے پہاڑ گرادئے گئے تھے،گلشن نبوت کے پھولوں کو ریت میں مسلا جا رہاتھا،قافلہ اہل بیت،خیموں سے زندوں کو بھیجتے اور لاشہ لے کر لوٹتے، ظہر تک تقریباََ 22 افراد شہید ہوچکے تھے،نماز کا وقت ہوا تو دشمن سے کہا:”ہمیں نماز پڑھنے دو،شمر بہت ظالم تھا،کہا ہم اجازت نہیں دیں گے، تمہیں حا لتِ نماز میں قتل کریں گے۔آپؓ نے فرمایا:”میرے قدموں میں لرزہ طاری نہ ہوگا“اورپھر حالت جنگ میں نماز ادا کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ میں تو بیمار تھا نماز نہیں پڑھ سکتایا مجھے کوئی عذر درپیش تھا اس لئے اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا۔
واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر اجتماعی جرات و شجاعت کا مظہر ہے۔اس سے پہلے جتنے واقعات رونما ہوئے وہ انفرادی تھے۔حضرت حسینؓ اور ان رفقاء کی قربانیوں کے سامنے سابقہ تمام قربانیاں اپنا اثر کھودیتی ہیں۔یہ واقعہ جن حالات میں ہوا ایسے حالات میں کوئی بھی واقعہ تاریخ میں آج تک رونما نہ ہوسکا تھا۔اس معرکہ حق کے واحد رہنما ء حضرت حسین رضی اللہ عنہ تھے،آپ کے رفقاء میں کوئی ایک نسل قبیلہ کے لوگ شامل نہ تھے، بلکہ یہ قافلہ بین الاقوامی حیثیت کا حامل تھا۔ ان میں آزاد،غلام،عربی،قریشی،غیر قریشی ہر نسل کے سرفروش وجاں باز شامل تھے،اور وہ سب ایک ہی مقصدکیلئے متحد تھے۔انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے دین حق پہ آنچ نہ آنے دی۔ شہیدان کربلا نے ظالموں کے ظلم سہ کرجس جواں مردی و صبر و استقامت سے دشمن کامقابلہ کیا، وہ قیامت تک آنے والے انسانوں کو صبر کا درس دیتا رہے گا۔