حسن انتخاب – از : کلثوم رضا
حسن انتخاب – از : کلثوم رضا
اسلام میں شادی مردو زن کے درمیان ایک مبارک عقد(بندھن) کا نام ہے۔ جس کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے لیے حلال ہو کر طویل زندگی کا سفر شروع کرتے ہیں۔
اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو جو اختیار دیا ہے اس میں سے ایک اختیار یہ بھی
ہے کہ وہ اپنے شریک سفر کا انتخاب بھی خود کریں ہاں البتہ وہ اپنی مصلحت اور خیر خواہی پر مبنی اپنے والدین کی راہنمائی اور خیر خواہی سے بے نیاز نہیں رہ سکتے، کیونکہ وہ دونوں لوگوں اور زندگی کے معاملات کو بچوں کی نسبت کہیں بڑھ کر جانتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ بچوں کو (چاہے بیٹا ہو یا بیٹی) والدین مجبور کر دیں کہ جہاں وہ نہیں چاہتے وہاں انکی شادیاں کر دی جائے۔۔۔ یا وہ پسند کسی اور کو کرتے ہیں اور والدین ان کی شادیاں اپنی مرضی سے کہیں اور کرتے ہیں ۔۔پھر تو وہ معاملہ سامنے آتا ہے کہ
میں اہل ہوں کسی اور کا میری اہلیہ کوئی اور ہے۔۔
بیٹے کی پسند نا پسند کا پھر بھی خیال رکھا جاتا ہے لیکن افسوس بیٹی سے اول تو کوئی پوچھتا نہیں یا پوچھنے پر بیٹی اپنی رضا مندی ظاہر کرے تو اسے بےحیائی تصور کیا جاتا ہے۔
اس معاملے میں ایک سمجھدار گھرانے کے لیے دینی ہدایات و راہنمائی موجود ہے۔ اس اہم فیصلے میں کسی بھی تعصب اور انا کو کو اڑے لائے بغیر فیصلہ کرنا چاہیے ۔۔۔ اگر معاملہ لڑکا لڑکی کی پسند ناپسند کا ہے تو بچوں کی رائے ہی اہمیت کی حامل ہے ۔اگر پسند نا پسند والا معاملہ نہیں تو والدین جہاں بہتر سمجھیں وہیں بچوں کی شادیاں کر سکتے ہیں ۔۔۔لیکن آجکل جو غیر ضروری شرائط شادی کے وقت لگائی جاتی ہیں ان سے اجتناب بہتر ہے۔۔ رشتے کے انتخاب میں شکل و صورت کی خوبصورتی ، ظاہری چمک دمک، عہدے کی رفعت اور سرمائے کی فراوانی کو اہم سمجھا جاتا ہے ۔حالانکہ جب دلوں کا میلاپ نہیں ہوگا تو یہ سب چیزیں بے کار ہیں۔۔دلوں میں محبت کا سبب شکل وصورت کی خوبصورتی ،عہدے کی رفعت اور سرمائے سے کہیں ذیادہ اہم اخلاق و کردار ،دینداری اور رشتوں کا تقدس ہے۔ اور ہمارے اس دین حنیف نے بھی انہی صفات کو دیکھنے کی رہنمائی فرمائی ہے ۔اس پر واضح دلیل بھی موجود ہیں۔ اگر کسی شخص یا خاتوں میں یہ صفات پائی جائیں تو اس سے شادی کرنا واجب ہے۔
ترمذی کی ایک حدیث ہے کہ
“جب تمہارے پاس ایسا شخص آئے (پیغام نکاح پیش کرنے والا) جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو ایسے شخص سے (اپنی بہن ،بیٹی وغیرہ کا )نکاح کر دینا ورنہ زمین میں وسیع و عریض فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔”
یہی فیصلہ بیٹوں کے لیے بھی ضروری ہے۔جس طرح حضرت عمر فاروق رض گشت کے دوران ماں بیٹی کی باتیں سن کر خدا کو حاضر و ناظر جاننے والی لڑکی کو بہو بنا کر گھر لائے تھے۔
اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں لڑکوں کی طرف سے لڑکی کا خوبصورت ہونا اور لڑکی کی طرف سے لڑکوں کے عہدے، سرمائے اور حسب نسب کو دیکھا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے بہت سی بیٹیاں اور بیٹے کبھی خود کو کبھی خاندان کو کوستے رہتے ہیں۔ اور رشتہ نہ ہونے یا ہو کر ٹوٹنے کے ذمہ دار بھی انہی کو ٹھہراتے ہیں یا ساری عمر اسی خدشے سے بن بیاہے گزار دیتے ہیں۔
ایک سمجھدار اور ہدایت یافتہ گھرانہ ان ظاہری ریا ونمود سے متاثر نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ان بچوں کی نگاہوں کو (جن کی تربیت دینی طرز پر کی گئی ہو ) دولت اور سرمایہ خیرہ کرتا ہے۔ بلکہ وہ رشتہ بناتے وقت اس ہاتھ کو پکڑتے ہیں جو اخلاق و دینداری سے لبریز ہو ۔جو آگے جا کے اپنے ان حقوق و فرائض کو صحیح معنوں میں ادا کر سکیں جو ان دونوں کے کندھوں پر عائد ہونے والے ہیں۔ یعنی ایک مسلمان خاندان کی تعمیر، پاک باز گروہوں کی تربیت، کشادہ جذبات، قلوب و عقول کی درست سمت میں تربیت اور یہ بھی مکمل ذہنی ہم آہنگی، دلی محبت اور کامل یکسانیت کے ماحول میں پورا کر سکیں۔ دیندار مرد اور دیندار عورتیں الله تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے اپنے اخلاق کے ظاہری فرق، مزاجوں کے قدرتی تضاد، طبع میں قدرے اختلاف اور دین میں گوں ناگوں امتیازی فرق کو اپنے چال ڈھال میں رکاوٹ کا سبب بنائے بغیر اپنی گردنوں میں لٹکی ہوئی امانت کی صحیح طور پر ہر رکھوالی کرنے کے لیے پہلو بہ پہلو رواں دواں رہتے ہیں۔ تاکہ اپنے پروردگار کے ہاں اپنا اجر عظیم پا سکیں۔
پر سکون زندگی کے لیے اور اس عظیم مقصد اور بڑے ہدف تک پہنچنے کے لیے انتہائی مضبوط ازدواجی تعلق، خاندانی ستونوں کی مضبوطی اور صحت مند بنیادوں پر اس کی تعمیر صرف اور صرف شریک حیات کے حسن انتخاب پر ہے۔