Chitral Times

Feb 9, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جی بی کالجز سسٹم میں اصلاحات کی ضرورت – خاطرات : امیرجان حقانی

شیئر کریں:

جی بی کالجز سسٹم میں اصلاحات کی ضرورت – خاطرات : امیرجان حقانی

 

یہ ماننے میں حرج نہیں کہ گلگت بلتستان کے کالجز کا روایتی تعلیمی نظام پانچ عشروں سے ایک ہی نہج پر آگے بڑھ رہا ہے اور انتہائی سادہ الفاظ میں اس موجودہ سسٹم کی کسی شکل میں تحسین نہیں کی جاسکتی۔

 

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہماری کالجز میں اساتذہ کے خواب اور محنت کیوں ادھورے رہ جاتے ہیں؟ ایک استاد جو اپنے شعبے میں بہتری لانے کی خواہش رکھتا ہے، جس کے دل میں تعلیمی ترقی کی ایک جیتا جاگتا نقشہ ہوتا ہے، مگر اس کے لئے سسٹم کی جکڑ بندیوں میں بندھ جانے کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ پاتا۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ ایک جہان دیدہ شخص نے کہا: “یار حقانی! سالوں سے یہی ایک جگہ پر کھڑے ہو، آگے نہیں بڑھ سکتے کیا؟” ۔ میں نے انتہائی ادب سے عرض کیا کہ “میں اس سسٹم میں آگے نہیں بڑھ سکتا….. میں کیا، میری برادری کا کوئی بھی فرد آگے نہیں بڑھ سکتا؟” ۔ یہ بات صرف ایک فرد کی بے بسی کا بیان نہیں ہے، بلکہ جی بی کالجز کے پورے تعلیمی نظام کے اندر ایک ایسی خاموش چیخ ہے جو برسوں سے دب کر رہ گئی ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ کوئی چیخنا بھی نہیں چاہتا!

 

گلگت بلتستان کے کالجز کے تعلیمی سسٹم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ پرموشن اور ترقی کا عمل سینیارٹی کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ اساتذہ کی کارکردگی، تخلیقی صلاحیتوں یا محنت پر۔ ایک استاد اگر ایم فل یا پی ایچ ڈی کر لیتا ہے یا کوئی جدید سکلز سیکھ لیتا ہے، پھر بھی اس کی ترقی کا دارومدار صرف اس کی سینیارٹی پر ہوتا ہے، اس کی قابلیت اور کارکردگی پر نہیں۔ یہ نظام نہ صرف اساتذہ کے لئے بلکہ پورے تعلیمی نظام کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔

 

ہم سب جانتے ہیں کہ “ہم ایم فل اور پی ایچ ڈی کریں اور جدید تعلیمی اور آئی ٹی سکلز سیکھیں بھی تو ہمیں سسٹم میں کوئی بہتری لانے کا موقع نہیں ملتا، نہ ترقی مل سکتی ہے” ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا سامنا ہمارے اساتذہ ہر روز کرتے ہیں۔ اساتذہ کے لئے ترقی کے مواقع کا فقدان اس بات کا غماز ہے کہ ہمارے کالجز اور اساتذہ ترقی کے بجائے روایات اور سینیارٹی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جب تک اساتذہ کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملیں گے، تب تک سسٹم میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکے گی۔

 

مجھے میگزین نکالنا اور میگزین ترتیب دینے کا بڑا شوق ہے، کئی میگزین بطور بانی ایڈیٹر نکالے، لیکن سچ یہ ہے کہ میں نے دس سال اس بات میں گزارے کہ میں کسی کالج سے میگزین نکال سکوں، مگر دس سال کے طویل عرصے میں، بھی اس خواب کو حقیقت کا روپ نہیں دے سکا۔ اور اگر میگزین نکال بھی لیتا تو اسے میری ترقی ممکن نہیں تھی۔ اس کے پیچھے ایک بہت بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے، جو کہ سسٹم کی جمود اور کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ ہمارے کالجز میں تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے کے لئے کوئی سازگار ماحول نہیں ہے۔ لکھنے اور تخلیق کرنے کا شوق رکھنے والے اساتذہ کے لئے کلاسز میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ اپنے شوق کو انفرادی طور پر پورا تو کرتے ہیں، مگر کالجز کی سطح پر انہیں یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ اپنے خیالات اور مہارتوں کو عملی شکل دے سکیں۔

 

میں نے اپنے دوست سے عرض کیا “میں سمجھتا ہوں کہ مجھے لکھنے لکھانے کا شوق ہے مگر میرے ڈیپارٹمنٹ میں لکھنے لکھانے کا رواج ہی نہیں، نہ ہی کلاسز میں اس کی گنجائش ہے۔”
یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہمارے کالجز میں نہ تو تخلیقی سوچ کی پذیرائی ہے اور نہ ہی اساتذہ کے اندرونی جذبات کو سامنے لانے کا کوئی موقع۔

ہمارے کالجز میں بہت سارے ایسے اساتذۂ ہیں جن کو مختلف چیزوں میں مہارت بھی ہے اور ذوق بھی، لیکن سچ یہی ہے کہ ان سب کو آگے بڑھ کر اپنی مخصوص مہارتوں کے جوہر دکھلانے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔

 

اس کے باوجود، ہمارے اساتذہ انفرادی طور پر اپنی محنت کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ اپنے طلبہ کو اپنے مخصوص فن میں بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں علمی اور اخلاقی طور پر مضبوط بنانے کی جدو جہد کرتے ہیں، مگر اس سب کا کوئی اجتماعی فائدہ نہیں ہوتا۔ اساتذہ کی اجتماعی محنت کا اثر اس لئے نہیں پڑتا کیونکہ سسٹم میں ایسی کوئی تبدیلی لانے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ اگر اساتذہ کے کاموں کو اجتماعی سطح پر سراہا جائے اور انہیں ادارے کی ترقی میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے، تو ہمارے کالجز بہت جلد نئی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔

 

یہ بات بھی کالجز کے اساتذہ اور افسر شاہی کے احباب جانتے ہیں کہ ہمارے کالجز کے روایتی سسٹم میں مکمل اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ سب باتیں کسی شکایت کا حصہ نہیں، بلکہ ایک درخواست ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام بہتر ہو، اس میں تبدیلی آئے اور اس میں کام کرنے والے اساتذہ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع دیا جائے۔ چند اہم تجاویز جو اس سسٹم میں بہتری لا سکتی ہیں، وہ یہ ہیں۔

 

١.کارکردگی کی بنیاد پر ترقی:

موجودہ سینیارٹی سسٹم کی بجائے اساتذہ کی کارکردگی، تخلیقی صلاحیتوں اور ادارے کے لئے ان کی لازوال خدمات کو بنیاد بنا کر پرموشن کا عمل ہونا چاہیے۔ اس سے اساتذہ کی محنت کو سراہا جائے گا اور ان کے اندر مزید جوش اور جذبہ پیدا ہوگا۔ اور وہ تخلیقی صلاحیتوں اور جدید سکلز سیکھنے کے لئے تیار ہوجائیں گے ۔

 

٢. تخلیقی سرگرمیوں کو فروغ دینا:

جی بی کالجز میں ، میگزین نکالنے ، ویب سائٹس بنانے ، اپنے مضامین میں تحقیقاتی پروجیکٹس، سیمینارز اور ورکشاپس جیسے تخلیقی منصوبوں کے لئے فنانشل اور انتظامی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ اس سے نہ صرف اساتذہ کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا بلکہ کالجز بھی ترقی کریں گے۔ اور طلبہ و طالبات کو بھی بہت کچھ ملے گا۔

 

٣. اجتماعی محنت کا اعتراف:

اساتذہ کی انفرادی محنت کو سراہنا اور ان کی اجتماعی محنت کو کالجز کی ترقی کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے بڑی سطح پر ایک جامع منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ اپنے خیالات اور تجزیے کو عملی شکل دے سکیں۔

 

٤. نظام میں لچک:

ہمارے کالجز اور ڈائریکٹریٹ و سیکریٹریٹ سطح میں ایسی لچک ہونی چاہیے کہ اساتذہ کو اپنے خیالات، تجربات اور تخلیقی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ملے۔ جب تک سسٹم میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوگی، تب تک اساتذہ کی صلاحیتیں ضائع ہوتی رہیں گی۔ موجودہ نظام کو از سر نو مرتب کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس میں جوہری تبدیلیاں کرکے نظام کو لکچدار بناکر کالجز اور اساتذہ کو آگے بڑھنے کے تمام راستے کھلے رکھنے چاہیے۔

 

٥. مہارتوں سے فائدہ اٹھانا:

یقیناً، یہ ایک اہم موضوع ہے جو ہمارے
کالجز کے ڈھانچے میں کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ استاد ایک ایسا فرد ہے جو کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرتا ہے، مگر افسوس کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انہیں ان کی مہارت کے مطابق کام نہیں دیا جاتا۔ یہ نہ صرف اس کی صلاحیتوں کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ اس سے ہماری کالجز اور ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر استاد کو اس کی مہارت، ذوق، اور تجربے کے مطابق کام دیا جائے، تو وہ نہ صرف اپنے کام کو بہتر طریقے سے انجام دے پائے گا بلکہ اس کا جذبہ بھی بلند ہوگا۔ مثال کے طور پر، ایک استاد جو کسی خاص مضمون، کام یا فن میں ماہر ہے، اسے صرف اس مضمون کی تدریس یا اسی سے متعلقہ موضوعات میں کام کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ زیادہ دلچسپی سے کام کرے گا اور طلباء کو بہترین تعلیم و تربیت دے سکے گا۔ اسی طرح، اگر کسی استاد کے پاس انتظامی صلاحیتیں ہیں، تو اسے انتظامی کاموں میں شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ اپنی مہارت کو وہاں استعمال کرے۔

 

 

لیکن اگر استاد کو اپنی صلاحیتوں اور ذوق کے برخلاف کام دیا جائے، تو نہ صرف اس کی کارکردگی متاثر ہو گی بلکہ اس کا اخلاقی معیار بھی گر سکتا ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہو گا کہ اس کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی جا رہی، اور اس کا کام صرف ایک ذمہ داری کی طرح محسوس ہوگا جس میں ذاتی دلچسپی کا عنصر کم ہو گا۔ اس طرح اس کی کارکردگی کمزور پڑ جائے گی اور پورے تعلیمی نظام کی ترقی رک جائے گی۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہر فرد کو اس کی صلاحیت اور ذوق کے مطابق کام دیا جائے، ایسا کرنے سے نہ صرف استاد کی کارکردگی میں اضافہ ہو گا بلکہ پورے کالجز کے سسٹم میں بہتری آ سکے گی۔

 

بہر حال جی بی کالجز سسٹم میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ اساتذہ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکے اور انہیں سینیارٹی کے شکنجے سے آزاد کر کے کارکردگی کی بنیاد پر ترقی کے مواقع فراہم کئے جا سکیں۔ اگر اساتذہ کو تخلیقی اور تعلیمی منصوبوں کے لئے میدان ملے گا، تو وہ نہ صرف اپنے شعبے میں بہترین کام کریں گے بلکہ کالجز کے پورے سسٹم کی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔ اس طرح ہم اپنے کالجز کے نظام کو ایک نئی سمت دے سکتے ہیں، جس سے نہ صرف اساتذہ کا خواب حقیقت بنے گا بلکہ ہماری کالجز میں تعلیمی ترقی کی رفتار بھی تیز ہو جائے گی۔

 

یہ چند بے ربط سی باتیں تھیں جو احباب سے عرض کر دیے، اگر ہمارے ارباب اختیار چاہیے تو وہ ایک کمیٹی تشکیل دے کر اصلاحات کے لئے تجاویز مانگ سکتے ہیں اور انہی کی روشنی میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں لائیں جاسکتی ہیں۔ کیا کوئی رجل رشید ہے جو قدم بڑھائے؟

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
98458