جعلی پیر معاشرے کے ناسور۔ تحریر: وقاص مون
جعلی پیر معاشرے کے ناسور۔ تحریر: وقاص مون
انسانی فطرت ہمیشہ سے سکون اور روحانی تسکین کی متلاشی رہی ہے۔پاکستانی معاشرہ روحانی اور مذہبی عقائد میں گہرا یقین رکھتا ہے۔ اسی یقین کا فائدہ اٹھا کر جعلی پیروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جعلی پیر ایسے افراد ہیں جو ظاہری طور پر مذہبی لباس میں نظر آتے ہیں اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کی مشکلات اور دکھوں کا علاج دینے کا جھوٹا وعدہ کرتے ہیں، اور ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی دولت اور شہرت میں اضافہ کرتے ہیں۔معاشرتی مشکلات، بیماریوں، گھریلو پریشانیوں اور نفسیاتی مسائل کا شکار لوگ جلد ان کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ جعلی پیر ان کے مسائل کے روحانی حل کے وعدے کرتے ہیں اور مالی و جسمانی استحصال کرتے ہیں، یوں وہ ایک ناسور بن کر معاشرے میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ان جعلی پیروں کے ہاتھوں بہت سے لوگوں کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔
وہ معصوم لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے مسائل، جیسے کہ بیماری، شادی کے مسائل، کاروبار کی مشکلات وغیر کا ان کے پاس حل موجود ہیں۔ ان جھوٹے وعدوں کے بدلے میں وہ بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ ایسے پیر نہ صرف لوگوں کے ایمان کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ان کی مالی حالت کو بھی خراب کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اس قدر ذہنی دباومیں مبتلا کر دیتے ہیں کہ وہ خود پر شک کرنے لگتے ہیں، اور یوں ان کا ایمان کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ جعلی پیروں کے ذریعے دین کا غلط استعمال بھی معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ دین اسلام میں روحانیت کا ایک مخصوص مقام ہے، لیکن جعلی پیر اسے توڑ مروڑ کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لوگ انہیں حقیقی دین دار اور اللہ کے قریب سمجھتے ہیں اور ان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ یہ دین کو ایک کاروبار بنا لیتے ہیں اور دین کی اصل روح کو نقصان پہنچاتے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک پیر صاحب کے اڈے پر جانے کا اتفاق ہوا بات اصل میں کچھ یوں ہے کہ میراایک عزیز جو پہلے کافی جعلی پیروں کے ہتھے چڑھ کر اپنے دل میں جادو ٹو کے شک کابیج بو چکا تھا، اور اسی کی آبیاری کے لیے اسے کسی دوست نے نئے پیر صاحب کے آستانے کا ایڈریس دیا۔
میرا عزیزاس پیر کے پاس جاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے گیا۔جب ہم پیر صاحب کے اڈے پر پہنچے تو وہاں کا منظر قابل دید تھا۔ بابا جی کا آستانہ لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ ایک طرف بہت سارے بکرے بندھے ہوئے تھے میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ پیر صاحب کے لیے نذانے کے طور پر لائے ہوئے بکرے ہیں۔ پیر خانے میں آنے والے لوگوں کو انتظار کے لیے بٹھایا جا رہا تھااور پیر صاحب کے ”خاص شاگرد” یا مرید لوگوں کو بتارہے تھے کہ پیر صاحب کس قدر روحانی طاقت رکھتے ہیں اور کیسے انہوں نے کئی لوگوں کے مسائل حل کیے ہیں۔ انتظار کرنے والوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کے مسائل حل ہو جائیں گے، چاہے وہ بیماری ہو، مالی مشکلات ہوں یا محبت کے معاملات مجھے حیرانگی تب ہوئی جب اتنے زیادہ رش میں پیر صاحب سے ملاقات کا وقت لینے کے لیے وہاں پر موجود لوگوں چند پیسے لے کر ان کا نمبر جلدی لگوانے کا وعدہ بھی کر رہے تھے۔ بہرحال ایک شخص کو 500 روپیہ دے کر جلدی نمبر لگوانے کا کہا گیا اللہ اللہ کر کے باری آئی میں بھی اپنے دوست کے ساتھ پیر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا کمرے کا ماحول قابل دید تھا۔ہلکی ہلکی مدھم روشنی،میں پیر صاحب خاص قسم کے سفید لباس میں ملبوس ہاتھ میں تسبیح پکڑے ہوئے سادہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر لوٹنے کے لیے تیار بیٹھے تھا۔
جعلی پیر صاحب کر دیکھتے ہی مجھے پنجابی کا مشہور معقولہ یا د آیا ”منہ مومن تے کام شیطان“۔ جعلی پیر خانے دراصل ایک نفسیاتی کھیل ہوتے ہیں جہاں لوگ اپنی امیدوں، پریشانیوں اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے جاتے ہیں مگر اصل میں ان کی عقیدت اور معصومیت کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔بہر حال یہ تو میری ذاتی رائے تھی۔ میرے اس عزیز نے پیر صاحب کو اپنا مسئلہ بتایا۔ مسئلہ سننے کے بعد پیر صاحب چند لمحے اپنے موکلات سے بات کرتے رہے جو اصل میں موکلات نہیں پیر صاحب کے سہولت کار تھے پھر چند لمحوں میں بابا جی نے شبدہ بازی سے ایک قبر کی مٹی جس میں چند کاغذ کے ٹکڑے اور کافی زیادہ کیل تھے، یہ کہتے ہوئے ہمیں دکھائے کہ یہ وہ مٹی ہیں جس میں دشمنوں نے تعویز کروا کے دفن کیے ہیں اور یہ فلاں علاقے کے قبرستان کی مٹی ہیں اور یہ وہ کیل ہیں جوآپ کے دشمنوں نے آپ کے کاروبار میں رکاوٹ کے لیے گاڑھ رکھے تھے۔آپ بے فکر ہو جائیں میرے موکلات نے آپ پر ہوئے جادوکا توڑ کر دیا ہے۔اب آپ کو جو جو بھی مسائل تھے وہ دوبارہ نہیں ہوں گے جعلی پیر صاحب کا یہ جملہ ادا کرنے کا انداز اتنا تکبر انا تھا کہ مجھے اس جعلی پیر پر اتنا غصہ آیا کے اسے کھری کھری سنا دوں، لیکن جعلی پیر صاحب کے اتنے زیادہ عقیدت مند اور چاہنے والوں کو دیکھ کر مجھے اپنی فکر ہونے لگی اورمیں نے خاموشی کو ہی بہتر جانا۔بہرحال ہم واپس توآگئے پر دل میں ایسے جعلی پیروں کے لیے بد دعائیں تھی جو سادہ لوگوں کواپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوٹ رہے ہیں۔ایسے جعلی پیروں کے برعکس اصل مذہبی رہنما لوگوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا حل ڈھونڈنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ان کے نزدیک انسان کا سب سے بڑا سہارا اللہ ہے اور ہر دکھ اور مصیبت کو صبر و تحمل اور دعا سے دور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جعلی پیروں کی وجہ سے لوگ اصل مذہبی رہنماؤں سے بھی بدظن ہو جاتے ہیں اور یوں پورے مذہبی نظام پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔معاشرے کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ ایسے جعلی پیروں سے دور رہے اورمعاشرے میں آگاہی پیدا کرتے ہوئے لوگوں کو سمجھائیں کہ مذہب کے نام پر دھوکہ دینے والے ان جعلی پیروں سے دور رہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے اور عوام کو ان کے بارے میں باخبر کرے تاکہ کوئی بھی معصوم ان کے جال میں نہ پھنس سکے۔ مدارس اور مساجد کو بھی چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر لوگوں کو شعور دیں اور حقیقی مذہبی تعلیمات کی ترویج کریں تاکہ عوام جعلی پیروں کے فریب سے محفوظ رہیں۔جب تک معاشرہ ان جعلی پیروں کے خلاف متحد ہو کر آواز نہیں اٹھاتا، یہ ناسور دن بہ دن پھیلتا رہے گا اور معاشرتی، روحانی اور معاشی نقصان بڑھتا رہے گا۔ یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو بے نقاب کرے اور صحیح مذہبی رہنماؤں کی طرف رجوع کرے تاکہ ہماری نسلیں ان جعلی پیروں کے شرسے محفوظ رہ سکیں۔