
ثقافتی پروگرامز اور چترالی معاشرہ – تحریر: کلیم اللہ اسلام آباد
ثقافتی پروگرامز اور چترالی معاشرہ – تحریر: کلیم اللہ اسلام آباد
ثقافت، تمدن، روایات، زبان، ان لفظوں کے ساتھ ہمارا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ اور دنیا میں سب سے زیادہ وقت اور پیسہ بھی ان چیزوں کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ثقافت۔ ہر کوئی اپنے روایات، تمدن، اور تہذیب کو دوسرں سے افضل اور برتر سمجھتا ہے۔ اور ان کی جیت کو اپنا جیت سمجھتا ہے۔
برطانیہ کی مثال لیتے ہیں۔ برصغیر میں قدم جمانے کے بعد برطانیہ نے برصغیر کی عوام کو ہر ممکن عسکری اور بزور قوت دبانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں آزادی کے پروانے ان کے خلاف کھڑے ہو جاتے تھے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہا آزادی کے مجاہدین ظلم کے خلاف لڑتے شہید ہوتے تھے اور پھر دوسرے محب وطن اپنے سر زمین کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ تحریکیں شروع اور بزور شمشیر ختم ہوتی رہیں، آخر کار!
لارڈ میکالے ہندوستان آتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کسی قوم کو شکست ہتھیار، ظلم اور طاقت کے ذریعے دینا نا ممکن ہے۔ صرف ایک طاقت ہے جو ان کو نہیں کم ازکم ان کی نسلوں کو ہمارے طابع بنائے گی وہ ہے کلچر، روایات اور تمدن کا پھیلاؤ۔لارڈ میکالے اپنے تابع پیدا کرنے کے لیے برصغیر کی سب سے ضروری، مضبوط اینٹ کو ٹارگٹ کرتا ہے اور وہ تھا تعلیم۔ تعلیمی ادارے ہی وہ طاقتور ادارے ہیں جس میں ایک امیچیور ذہن کی پرورش کر کے میچیور بنایا جاتا ہے۔ جس میں ایک پودے کو تناور درخت میں تبدیل کیا جاتا ہے۔وہ اپنے یورپی نظریات لوگوں میں پھیلانا شروع کرتا ہے اور یوں دیسی انگریزوں کا ایک ٹولہ معاشرے میں جنگل کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اور وہ جنگل چنار کے بجائے جاڑی بوٹیوں کا ہوتا ہے جسے مالک جب چاہے استعمال کرے، جانوروں کو کھلانے کے لیے توڑ دے یا بے رخم موسم کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔یہ جڑی بوٹیاں کوئی بڑا نقصان نہ بھی کرے پھر بھی (آزادی کی) راہ میں رکاوٹ ضرور تھے۔ جن کی وجہ سے دوسرے مضبوط درختوں کو بھی دیمک لگ جاتا تھا۔ نہ خود کسی کام کے نہ کسی اور کو کام کرنے دیتے تھے۔ ان کی وجہ سے برصغیر کی تہذیب، ثقافت اور روایات آج تک زوال کی راہ میں کھڑے ہیں۔ بد قسمتی یہ تھی یہ جڑی بوٹیاں اپنی مٹی کے تھے۔ ” مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے” کے مترادف ساری غلطیوں کے ذمہ دار یہیں لوگ تھے۔اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو برصغیر کبھی دو لخت نہیں ہوتا، اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو ایک وکیل آٹھ سو سالوں سے ایک ساتھ رہنے والے دو اقوام (ہندو، مسلم) کو ایک ساتھ زندگی گزارنے کو ناممکن نہ کہتا، اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو 98 فیصد لیٹریسی 5 فیصد میں تبدیل نہیں ہوتا، اگر یہ لوگ نہیں ہوتے تو دنیا کی GDP کا 25 فیصد رکھنے والا برصغیر کوڑی کوڑی کا محتاج نہ ہوتا۔ یہ سب بتانے کا مقصد ایک ہے روایات، ثقافت، تہذیب اور تمدن۔
ان چند سالوں میں چترال کے معاشرے میں کافی اثرات رونما ہوئے ہیں۔ ان میں صرف ایک ڈانس کو ثقافت میں شمار کر کے بڑے بڑے پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس سے چترالی روایات کو کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ میں چند چیزوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اگر ان پروگرامات میں ان کے بارے میں لوگوں کو آگاہی نہیں دی جا رہی تو یہ سب پروگرامات فضول ہیں۔
1_____زبان
کیا ان پروگرامات میں زبان (کھوار یا دوسری چترالی زبانوں) کے لیے کوئی خدمات سر انجام دی جارہی ہے، ان پروگرامات کے ذریعے کھوار زبان کی کتنی خدمت کی گئی ہے، کوئی بتا سکتا ہے؟ کتنے ریسرچ پیپر شائع ہوئے ہیں اپنی زبان کو پریزرو کرنے کے لیے؟ان پروگرامات کے علاوہ کتنے لوگ ہیں جو معاشرے میں شلوار قمیض، چوغا، پھکوڑ کو استعمال میں لا رہے ہیں؟
آپ لوگوں سے کس نے کہا ثقافتی پروگراموں کے بغیر ان چیزوں کو پریزرو نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے ضروری ہے کہ انفرادی طور پر لوگ اپنی ثقافت کو محفوظ رکھے۔ اپنی زبان، روایات، تمدن کو اپنے گھروں میں زندہ رکھے۔ والدین خود ان چیزوں پر عمل کر کے اپنے بچوں کو منتقل کرے، مائیں بیٹیوں کو روایتی خوراک، دستکاری، اور گھریلو چترالی امور سکھائے۔
بیٹوں کو اپنے روایات سے ساتھ آگاہ کرنا، ان کو لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، معاشرے میں کس طرح رہنا ہے، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرنا ہے، یہ سب باپ کی ذمہ داری ہے وہ اپنے بچوں کو سکھائے۔
زبان کو پریزرو کرنے کے لیے سب سے ضروری ہے ان کے زخیرہ الفاظ کو محفوظ رکھا جائے۔ پاپا کے بجائے تت یا دادا، امی کے بجائے نان یا نانی، آنٹی کے بجائے بیچی، چچی کے بجائے چیق نان یا پھوک نان استعمال کرنا اپنے بچوں کو سکھائے۔ ان ساری چیزوں کو نہ کر کے پروگرام کرنا فضول ہے۔ باقی ثقافتی ورثے بہت بعد میں آتے ہیں، ہماری زبان ہی ڈیتھ ہو رہی ہے۔جس طرح لاڈ میکالے نے زبان (انگلش) کے ذریعے ایک پورے معاشرے کو تبدیل کیا تھا۔ اس طرح آگر کھوار زبان جب تک محفوظ ہے ہمارے روایات محفوظ ہیں۔ اس کے بغیر نا ممکن ہے۔
زبان طاقت ہے۔ کیا بنگلادیش صرف زبان کی وجہ سے ہم سے علیحدہ نہیں ہوا تھا۔ کیا اردو ہندی کنٹروورسی کے بارے میں لوگوں کو معلومات نہیں ہیں۔کیا NWFP کا نام صرف زبان کی وجہ سے پختونخوا نہیں رکھا گیا۔گزارش ہے چترالی ڈانس بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہے لیکن دوسرے امور پر بھی غور کیا جائے۔ پروگرامات اردو، پشتو زبان اور پختونوں اور پنجابیوں سے کروا کر پھر ان کو چترال کی ثقافت کا نام دینا سراسر ظلم ہے۔مجھے یہ ثقافت کی آڑ میں نوجوان نسل کو یرغمال کرنے کی ایک سازش لگ رہی ہے۔ میرے بھائیوں کو چترالی لباس، محبت، اخوت، امن، بھائی چارے کے بارے میں کچھ نہیں پتا اور چلے ہیں ڈانس کے ذریعے روایات کو محفوظ بنانے۔
2- ثقافتی ورثے:
ان پروگرامز میں کیا چترال کے پرانے گھروں کو پریزرو کرنے کے لیے لوگوں کو ایجوکیٹ کیا جا رہا ہے کہ نہیں؟ کیا کھوار ختان (بایٔ پہش)، اور ٹیپکل چترالی رہن سہن کو پریزرو کیا جا رہا ہے؟ ہم ہر چیز میں گوروں کو دیکھنے کے عادی لوگ ہیں۔ وہ لوگ ان چیزوں کو لیکر کافی حساس ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کی قدیم عمارتوں کو انتہائی تحفظ اور فخر کے ساتھ محفوظ رکھتے آرہے ہیں اور حکومت کی طرف سے بھی ان کو تحفظ حاصل ہے۔ یورپ میں 200 سال پرانے گھروں کا ایک اینٹ بھی اپنی مرضی سے نہیں گرا سکتے منہدم کرنا دور کی بات ہے۔
3- معاشرتی ورثے:
کیا ہمارے نوجوانوں کو چترالی معاشرہ کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔ جس میں محبت، اخوت، برداشت، صلہ رحمی، بڑوں کی عزت، محنت، سادگی ہوتی تھی۔ کیا آج کل کا نوجوان ان چیزوں کو کر رہا ہے۔ میرے دادا حولدار وزیر خان (مرحوم) ہمیشہ مجھے ایک قصہ سنایا کرتے تھے۔ “قدیم زمانے میں آگر کوئی بندوق کے بیرل میں بھی اناج لاتا تھا تو گاؤں والوں میں تقسیم کرتا تھا” مطلب اتنی صلہ رحمی ہوتی تھی لوگوں میں۔
بڑوں کی عزت کا یہ حال تھا کہ مجال ہے ان کے سامنے باتیں کی جائیں۔ پورے گاؤں میں اگر کوئی سگریٹ پیتا تھا تو وہ انتہائی چھپا کر دور جا کر پتا تھا۔ آج کے نوجوانوں میں چرس، آئس، پوڈرز، نشہ آور ٹیبلیٹز، کا استعمال جو ہو رہے ہیں اور جو نشے کا لعنت پھیل رہا ہے ہمارے معاشرے میں ان پروگرامات میں ان کے بارے میں آگاہی دی جا رہی ہے کہ نہیں؟ اگر ان پروگرامات میں ان سب چیزوں کے بارے میں آگاہی نہیں پھیلائی جا رہی ہے تو خبردار یہ ہی وہ ٹولہ ہے جو آپ کے روایات، معاشرہ اور ثقافت کو برباد کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ یہ ٹولہ صرف اپنے مذموم مقاصد کے لیے چترالی ثقافت کو غلط پوٹرے کر کے لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور صرف ڈوم توپی کو ثقافت کہ کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ان کے پیچھے ان کا مقصد بھی ہوگا ورنہ اوپر بیان کیے ہوئی چیزیں بھی ہمارے ثقافت اور روایات کے حصے ہیں، ان کے بارے میں بات کیوں نہیں کی جا رہی، ان کو لے کر پروگرامات کا انعقاد کیوں نہیں کیا جا رہا۔
تحریر لمبی ہوتی جا رہی ہے اس لیے میں اس کو ادھر چھوڑ دیتا ہوں۔ لکھنے کو تو بہت کچھ ہیں لیکن آج کے لیے یہ کافی ہے۔
نوٹ: صرف ڈوم توپی، ناچ گانا ہماری ثقافت نہیں ہے۔ نوجوانوں کو یہ سمجھانا ہوگا ورنہ اپنی شناخت کھونے کے لیے تیار رہو۔
شکریہ۔