ثریا زمان،اُمید کی کرن …..تحریر: ثمرخان ثمر
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دیامر بالخصوص داریل کی ایک بیٹی سیاست کے میدان کارزار میں اُتر سکتی ہے۔ یہ ضلع ایک الگ جغرافیہ رکھتا ہے اور اپنی ایک الگ تھلگ ثقافت رکھتا ہے۔ کسی خاتون کا سیاست میں کود پڑنا بظاہر جتنا آسان لگتا ہے درحقیقت بہت زیادہ کٹھن ہے۔ یہاں کے رسوم و رواج جداگانہ ہیں، میں ان پر بحث کرنا نہیں چاہتا ۔ گلگت بلتستان کے باسی بخوبی واقف ہیں۔ دنیا میں سب سے مشکل کام رسم توڑنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر محمد زمان صاحب نے یہ رسم توڑی اور اپنی دختر ثریا زمان کو سیاسی اکھاڑے میں اُتارے دیا۔ یہ فیصلہ کرنا ہرگز ہرگز سہل نہ تھا۔ یہ بڑے دل گردے کا کام تھا۔ پھر تعلیمی جرگہ کی تقریب میں عوام داریل کے روبرو خطاب کر کے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ یہ داریل کی معلوم تاریخ میں پہلا موقع تھا جب ایک خاتون نے عوامی اجتماع سے خطاب فرمایا اور مثال قائم کی ۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم تھا ناقدین کھل کر تنقید کریں گے، طعنے دیں گے، ملامت کریں گے، برا بھلا کہیں گے۔ لیکن انہوں نے ان چیزوں کی پرواہ نہیں کی۔ کسی نے تو پہل کرنی تھی سو انہوں نے کر لی۔ واقعی سوشل میڈیا پر اشاروں کنایوں میں اور نجی محفلوں میں لوگ کھل کر تنقید کے نشتر چلانے لگے ۔ کوئی بات نہیں، اس طرح ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔ میں ڈاکٹر صاحب کے اس جراتمندانہ فیصلے کو سراہتا ہوں ۔
ثریا زمان خواتین کی مخصوص نشست پر گلگت بلتستان اسمبلی کی کم سن رکن بن گئیں ۔ حلف اُٹھانے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں دیامر میں فیمیل ایجوکیشن میں بہتری لانے کی بات کی۔ خواتین کو ان کے حقوق دلانے کا عزم کیا۔ وہ خود اعلی تعلیم یافتہ خاتون ہیں، فیمیل ایجوکیشن کی اہمیت و افادیت کا ادراک رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ضلع غذر ، میٹرک سعودی عرب ، ایف ایس سی ایبٹ آباد اور انگریزی میں ماسٹر کی ڈگری نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی۔ مجھے ان کے اندر عوامی خدمت اور علاقائی تعمیر و ترقی کا جذبہ جنون کی حد تک دکھائی دیا۔ پہلا دورہ ڈی ایچ کیو ہسپتال گاہکوچ کا کیا۔ ہسپتال کو اپنی اے ڈی پی سے مبلغ دس لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا اور اپنی جیب سے الٹرا ساؤنڈ مشین عطیہ کیا۔ کشروٹ ہسپتال کے لئے پندرہ لاکھ ڈونیشن کا اعلان کیا اور ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس کے لئے بیس لاکھ کی خطیر رقم دینے کی نوید سنائی ۔ حالیہ دنوں میں وہ اپنے آبائی علاقہ داریل تشریف لائیں اور اپنے قبلہ محترم کی معیت میں داریل کے مختلف مواضع کا تفصیلی دورہ کیا۔ علاقائی مسائل سماعت فرمائے اور مختلف جگہوں پر مختلف اعلانات کیے۔ داریل میں ان کے اعلانات کی فہرست کافی طویل ہے۔ ان میں سے جو زیادہ اہم ہیں یہ ہیں : گرلز پرائمری اسکول بیاڑی، گرلز پرائمری اسکول یشوٹ ، بوائز پرائمری سکول یشوٹ کو مڈل کا درجہ دلانا، سول ہسپتال داریل میں MNCH سینٹر کا قیام۔ درجنوں اعلانات میں سے یہ چیدہ چیدہ اعلانات ہیں جن کی تکمیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔
میں اب اصل مدعا کی جانب آتا ہوں، مجھے یہ کالم لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ وہ سطور ذیل میں عوام کے گوش گزار کروں گا۔ دختر ڈاکٹر محمد زمان گزشتہ کچھ دنوں سے گلگت بلتستان کے اندر پرنٹ اور سوشل میڈیا کی زینت بنی رہی ہیں۔ خصوصاََ سوشل میڈیا پر بڑا چرچا رہا، ہر سوشل میڈیا صارف نے اپنے اپنے انداز میں موصوفہ پر لکھا ۔ کچھ نے ایک “ہارڈ ایریا” سے کم عمر رکن اسمبلی بننے پر سراہا تو بہت سوں نے تنقید کے نشتر بھی برسائے۔ خیر یہ ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ ہے اور ہر فرد جداگانہ سوچ کا حامل ہے۔ کسی کی سوچ پر پہرہ نہیں بٹھایا جا سکتا ۔ منفی اور مثبت سوچ کے حامل لوگ ابتدائے آفرینش سے چلے آرہے ہیں ۔میری یہ تحریر ایک ایسی “سوچ” سے متعلق ہے جو آج بہت سارے لوگوں کے دماغوں میں چل رہی ہے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اس سوچ کا اظہار بھی کیا ہے۔ کئی اہل قلم احباب نے موصوفہ کو دیامر کی خواتین کی “مسیحا” قرار دیا ہے، بڑی بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں کہ اب دیامر کی خواتین کو ان کے بنیادی حقوق مل جائیں گے وغیرہ ۔یقیناً مثبت سوچ ہے لیکن محض سوچ تبدیلی رونما نہیں کر سکتی ۔ صاف اور کھری بات یہ کہ ثریا زمان تنہا کچھ نہیں کر سکتیں۔ آپ سب کا ساتھ لازمی ہے۔ اُنھوں نے اپنے پہلے انٹرویو میں فیمل ایجوکیشن کی بات کی ہے جو خوش آئند ہے ، لیکن کیا ثریا بہن ہماری بچیوں کو زبردستی اسکول لے جا سکتی ہیں؟ ہم بات بات پر مذہب کارڈ استعمال کرتے ہیں تو یہاں کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بہنوں، بیٹیوں کو میراث میں حصہ دیا ہے؟ کیا ثریا بہن ہماری بہنوں، بیٹیوں کو میراث کا حق دلا سکتی ہیں؟ کیا وہ بےجوڑ رشتوں پر قدغن لگا سکتی ہیں جو عہد شیرخوارگی میں طے پا جاتے ہیں؟ بچے ابھی پوتڑوں میں ہوتے ہیں اور ماں باپ رشتے طے کرلیتے ہیں۔کیا وہ غیرت کے نام پر ہونے والی قتل و غارت گری رکوا سکتی ہیں؟
یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو ہمارے سماج کا اٹوٹ انگ ہے۔ ان رسومات بد کی جڑیں ہمارے معاشرے میں بہت گہری ہیں۔ جب تک ہم ان کی بیخ کنی نہیں کرتے، ہم کچھ نہیں کر پاتے۔ ہم نے اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔محض خواب دیکھنے سے انقلاب نہیں آتا، محض سوچتے رہنے سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا پڑتا ہے اور سوچ کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے۔ تب کہیں جا کر انقلاب آتا ہے۔ اپنے گھر سے شروعات کرنی ہوں گی۔ اپنی بچیوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم دینی ہوگی ۔ میراث میں سے بہنوں، بیٹیوں کا حصہ نکالنا ہوگا۔ جب تک ہم سوچ نہیں بدلتے، سوشل میڈیا پر بلند و بانگ دعوے کسی کام کے نہیں ہیں۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم میں سے بہت سوں کے دلوں میں کچھ اور موبائل اسکرینوں پر کچھ اور نظر آتا ہے۔ یہ نری منافقت ہے اور ایسی منافقت سماج کو ترقی نہیں، تنزلی دلاتی ہے۔ آج زمانہ بدل گیا ہے، مناسب حد تک فیمل ایجوکیشن لازمی ہے۔ دیامر کے بہت سے علاقوں میں بھی لوگوں کا رجحان تو ہے مگر سہولیات میسر نہیں ہیں۔
پہلی بات دیامر میں بچیوں کے اسکولوں کا فقدان ہے بلکہ بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کہیں پر اسکول موجود ہے تو استانیاں ناپید ہیں۔ یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ لیڈی ٹیچرز کا ہے۔ پڑھی لکھی خواتین موجود نہیں ہیں تو لیڈی ٹیچرز کہاں سے آئیں گی؟ باہر سے لیڈی ٹیچرز کا دیامر کے مختلف گاؤں میں جا کر تدریسی سرگرمیاں انجام دینا ناممکن لگتا ہے۔ بالفرض اگر کوئی گئیں بھی تو نصف مہینہ چھٹی میں گزر جائے گا۔ میری ناقص سوچ کے مطابق یہ کمی دو طرح سے کسی حد تک پوری کی جا سکتی ہے، اول دیامر کے وہ حضرات جنہیں باہر رہ کر بچیوں کو تعلیم دلانے کا موقع ملا ہے، وہ قربانی دیں اور دیامر میں بچیوں کی تعلیم کا بیڑا اُٹھا لیں۔ چراغ سے ہی چراغ جلتا ہے۔ دوم، دیامر خصوصاً داریل ، تانگیر، تھور، ہوڈر کے تعلیم یافتہ نوجوان پڑھی لکھی خواتین تلاش کرکے بیاہ رچا لیں اور تعلیم کا دیا جلا لیں۔ شادی انسان کی اولین ضروریات میں سے ہے تو کیوں نہ تعلیم یافتہ شریک حیات ڈھونڈ لی جائے ۔ فی الحال یہ دو طریقے ہی دکھائی دیتے ہیں تیسرا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ یہ کام کر کے ہی آپ ثریا زمان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں ورنہ ہزاروں خوابوں کی طرح یہ بھی ایک خواب ہی ہوگا۔
ایک ایسا خواب جس کی تعبیر ناممکن ہو۔ عالم خواب سے نکل کر عالم بیداری میں آنا ہوگا اگر کچھ کر دکھانا ہے۔ ہو سکتا ہے میری رائے کج فہمی پر مبنی ہو اور آپ کے پاس بہترین آپشن موجود ہو۔آپ اسی حساب سے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔
ثریا زمان صاحبہ ترقیاتی کام ان شااللہ چلتے رہیں گے، آپ سے گزارش یہ ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتیں فیمیل ایجوکیشن پر صرف کریں۔ زیادہ سے زیادہ گرلز اسکول تعمیر کرائیں ، شینا کہاوت ہے جس کا مفہوم ہے ” حوض میسر ہو تو بطخیں آ ہی جاتی ہیں” ، تعلیمی ادارے دستیاب ہوں گے تو استانیاں اور بچیاں آہی جائیں گی۔ آپ کے قبلہ محترم ایک فعال انسان ہیں، وہ ایک اعلی سماجی کارکن بھی ہیں۔ انسانی خدمت ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ وہ علاقے کے لئے کچھ نیا کر دکھانے کے خواہشمند ہیں اور اب اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے ۔ مجھے اُمید ہے آپ خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گی اور عوام بھی آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ ہم سب نے مل کر انقلاب لانا ہے، فرد واحد کچھ بھی نہیں کر سکتا جب تک عوامی تعاون شامل حال نہ رہے۔ آخر میں میں ان لوگوں سے ملتمس ہوں جو نقلی اکاؤنٹس کے ذریعے موصوفہ اور ان کے قبلہ محترم کی کردار کشی کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک شخص کی نہیں بلکہ پورے علاقے کی رسوائی کا موجب بن رہے ہیں۔ یہ زیب نہیں دیتا۔ اس طرح کی حرکتوں سے باز آنا چاہیے۔