
تین عورتیں تین کہانیاں – تحریر: اقرارالدین خسرو
تین عورتیں تین کہانیاں – تحریر: اقرارالدین خسرو
ہمارے ملک خاص کر ہمارے علاقے چترال میں عورتوں سے متعلق تین قسم کی سوچ پائی جاتی ہیں اور ان سوچوں کے حساب سے خواتین کے ساتھ سلوک روا رکھا جاتاہے۔
پہلی سوچ انتہائی راسخ العقیدہ مسلمان یا جنوبی چترال کی وادیوں میں رہنے والے باغیرت مسلمانوں کی ہے جن کے بقول عورت کا کام چار دیواری کے اندر تک محدود ہے اسے چار دیواری کے اندر گھر گرہستی والدین اور شوہر کی فرمانبرداری کی تعلیم دی جائے تو کافی ہے باقی نماز کے طریقوں کے ساتھ قرآن تلاوت سیکھ لے تو سونے پہ سہاگہ مگر دال روٹی اور کچن کے سارے کام کمپلسری ہیں۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو عورت کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں، گراؤنڈ میں فٹ بال اور کرکٹ کھیلتے کبھی آئس ہاکی کے میدانوں میں کبھی گانا گاتے۔ اس طبقے میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جو اپنے گھر کی خواتین کو بھی اس قسم کی آزادی دینا چاہتے ہیں ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ان میں سے بھی اکثریت اپنے گھر کی عورتوں کو گراؤند میں کھیلنا برداشت نہیں کرینگے مگر دوسرے گھروں کی عورتوں کے لیے آزادی کے نعرے لگائنگے۔ مذکورہ بالا دو قسم کے لوگوں کی کل تعداد چترال کی مجموعی آبادی میں پندرہ سے بیس یا پچیس فیصد تک ہوگی۔ جبکہ چترال کی اکثریتی ابادی کی سوچ عورتوں کے بارے یہ ہے کہ وہ روایات اور اقدار کا خیال رکھتے ہوئے جہاں تک چاہے تعلیم حاصل کرسکتی ہیں اور ملازمت بھی کرسکتی ہیں۔ یہی تین سوچ اور ان تین چیزوں کو ہمارے معاشرے میں عورت کا حق سمجھا جاتا ہے۔ ایک طبقے کے مطابق عورت کو چار دیواری کے اندر جینے دینا اس کا حق ہے دوسرے کے بقول تعلیم اور ملازمت کی آزادی اس کا حق ہے جبکہ ایک طبقے کے بقول کپڑوں اور کھیلوں کی آزادی عورت کا حق ہے۔
اسلام نے عورت کو دو بنیادی حقوق دئیے ہیں، حق مہر، اور وراثت میں حصہ،
حق مہر کے حوالے سے ایک دلچسپ بات سناتا چلوں ہمارے علاقے میں بچپن سے دیکھتا آرہا ہوں جب بھی کسی مرد کا انتقال ہوجاتا ہے تو میت کو دفنانے سے پہلے محلے کے مولوی صاحب اس کی بیوی سے پوچھتا ہے آپ نے اپنا حق اسے معاف کیا؟ جب عورت معافی کا اعلان کرے تب اسے دفنایا جاتا ہے۔ یعنی میں نے آج تک کوئی ایسا مرد نہیں دیکھا جس نے زندگی میں خوشی سے بیوی کو اس کا حق مہر ادا کیا ہو۔ خواہ اس مرد کا تعلق مزکورہ بالا طبقات میں سے کسی بھی طبقے سے ہو مذہبی سوچ والا یا غیرتی مسلمان، اعتدال پسند، اور آزاد خیال اسی معاملے میں سب ایک پیج پر ہیں۔ مہر مؤجل یا معجل کسی کو کچھ پتا نہیں بس مہر کی رقم مقرر کی جاتی ہے جب خدا نخواستہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دیدے تب بھی خوشی سے مرد اسے حق مہر ادا نہیں کرتا عورت عدالت کے زریعے ذلیل ہوکے حق مہر حاصل کرلیتی ہے۔
دوسری چیز ہے حق وراثت۔ ضلع چترال میں ایک فیصد لوگ بھی ایسے نہیں ہیں جو خواتین کو یہ حق ادا کرتے ہو۔ میں نے بہت سارے ایسے مذہبی لوگ بھی دیکھے ہیں جو بظاہر چوبیس گھنٹے کی زندگی مذہب کے نام پہ قربان کر چکے ہوتے ہیں مگر ان کے پھوپھی زاد ان سے جائداد میں سے اپنی ماں کا حصہ مانگے تو وہ دینے کیلیے تیار نہیں ہوے پھر بات عدالت تک جاپہنچی۔۔
اور بہت سارے ایسے دوست بھی دیکھے ہیں جو فیس بک پہ خواتین کی آزادی کے لیے جدجہد کرتے ہیں وہ عورتوں کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں مگر گھریلو جائداد سے پھوپھو کو انہوں نے بھی محروم رکھا ہوا ہے۔ اور چترال میں اس وقت سب سے زیادہ عدالت میں میراث کے کیسز چل رہے ہیں۔
مزکورہ بالا تین طبقوں کے لوگ بہت سارے معاملات میں آپس میں شدید اختلاف رکھتے ہیں حق وراثت کی عدم ادائیگی اور خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کے معاملے میں سارے چترالی ایک پیج پر ہیں (کیلاش کمیونٹی کا مجھے نہیں پتہ البتہ سنی اور اسماعیلی دونوں ایک جیسے ہیں) آج بھی مجھ سمیت بیشمار ایسے دوست ہونگے جو خواتین کے حقوق کے لیے آج لکھیں گے داد وصول کرینگے مگر وراثت میں بہن، بیٹی خاص کر پھوپھی کا حصہ جس کے اوپر برسوں سے ناجائز قابض ہیں دینے کیلیے تیار نہیں۔
ضلع چترال میں تین قسم کے سوچ رکھنے والے مرد ہیں جنہوں نے عورتوں کے لیے تین قسم کا معاشرہ ترتیب دیا ہوا ہے اگرچہ ان تینوں عورتوں کی کہانیاں لکھنے والے آپس میں شدید اختلاف رکھتے ہیں مگر گھر کے سارے کام، کھانا بنانے سے لیکر برتن دھونے تک، کپڑے دھونے سے لیکر گھر کی صفائی تک، عورت کے سپرد کرنے کے معاملے میں سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
آج کل رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے راسخ العقیدہ صوفی تہجد پڑھ کے دسترخواں پہ آئیگا اور آزاد خیال دوستوں کے ساتھ رات بھر لڈو وغیرہ کھیل کے ائیگا۔ دونوں کے لیے سحری کی زمہ داری خواتین کی ہے اور افطاری کی بھی۔ یہاں بھی مذہبی اور آزاد خیال ایک پیج پر ہیں۔ مگر اختلاف کب پیدا ہوتا ہے؟ جب خواتین کھیل کے میدان میں نظر آئے تو۔۔۔ ایک طبقہ اسے ان کا حق سمجھتا ہے جبکہ دوسرا سمجھتا ہے کہ ان کاموں کی وجہ سے یہ سارے سیلاب وغیرہ آتے ہیں اسلیے عورت کو مقید کیا جائے۔
قصہ مختصر آج خواتین کا عالمی دن ہے سب دوست اس کے اوپر لکھیں گے خواتین کی محرومیوں کے قصے ہونگے مگر مجھے یقین ہے ان دو چیزوں کے بارے میں آج بھی کوئی نہیں بولے گا اور نہ لکھے گا کیونکہ یہاں نقصان ہم مردوں کا ہے اسلیے میری گزارش یہی ہے کہ فیس بک پہ دوسروں کی عورتوں کی آزادی کیلیے آواز اٹھانے سے پہلے اپنے گھر سے شروع کریں سب سے پہلے یہ دو بنیادی حقوق جنھیں اسلام نے انھیں دیا ہے انھیں ادا کریں۔ اور گھریلو کاموں میں تھوڑا سا ہاتھ بٹانے کی کوشش کریں باقی آزادی پھر کبھی فی الحال اتنا تو کیجیے۔۔۔۔۔