تور کہو کے کنگ میکرز – تحریر؛ نور الھدی یفتالی
تور کہو کے کنگ میکرز – تحریر؛ نور الھدی یفتالی
ایک قوم کی وقار اور عظمت کا اندازہ اس کی سوچ، جذبۂ خودداری، اور اپنی آواز بلند کرنے کی صلاحیت سے لگایا جاتا ہے۔ وہ قومیں جو ظلم و ستم کے خلاف اپنی زبان کھولنے کی ہمت رکھتی ہیں، اپنے مستقبل کا تعین خود کرتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہم ایسے معاشروں میں رہتے ہیں جہاں اکثر افراد ناانصافیوں کو دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں لیکن خاموشی سے اس کا بوجھ اٹھائے رکھتے ہیں۔
ظلم کو برداشت کرنا بسا اوقات عافیت کی علامت سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقت میں یہ خاموشی قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ظالم کا ہاتھ روکنے کے بجائے خاموشی کا دامن تھامنے سے ظالم کو مزید تقویت ملتی ہے اور وہ اپنی حرکتوں کو مزید بے خوفی سے انجام دیتا ہے۔
قوم کی ترقی اور بقاء کی ضمانت اسی میں ہے کہ وہ ہر سطح پر، چاہے وہ سیاسی ہو، سماجی یا اقتصادی، اپنے حق کے لئے کھڑی ہو۔ اپنے حقوق کے لئے آواز نہ اٹھانا دراصل اپنی تقدیر کو دوسروں کے ہاتھ میں دینا ہے۔ قوم کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو اس خاموشی کی زنجیروں سے آزاد کرائے اور اپنی آواز کو ایک تبدیلی کا پیغام بنائے۔
ایک فرد، جو ظلم و جبر کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اور لوگوں کو باہر نکلنے اور اپنی آواز بلند کرنے کی ترغیب دیتا ہے، وہ ایک تنہا مجاہد کی مانند ہوتا ہے۔ اس کی آواز گونجتی ہے، حوصلہ دیتی ہے اور ایک نئی صبح کا خواب دکھاتی ہے، لیکن افسوس کہ مہذب کہلائی جانے والی قوم اس پکار پر لبیک کہنے سے قاصر رہتی ہے۔
یہ خاموشی دراصل ایک گہری بے حسی اور بے بسی کی علامت ہے، جو اس قوم کے لاشعور میں رچ بس چکی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جب ایک شخص اپنے حق کے لئے لڑنے نکلتا ہے تو باقی سب ایک تماشائی بنے رہتے ہیں؟ اس کا جواب شاید ہمارے سماجی ڈھانچے میں چھپا ہے۔ ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ امن اور سکون ہی سب سے بہتر راستہ ہے، خواہ وہ ظلم سہنے کی قیمت پر کیوں نہ ہو۔ اس سوچ نے ایک پوری قوم کو جمود کی حالت میں ڈال دیا ہے۔
یہ وہی قوم ہے جس کی تاریخ قربانیوں اور جدوجہد سے بھری ہوئی ہے، لیکن آج وہی قوم اپنے حقوق کی بات پر خاموش ہے۔ اس فرد کی جدوجہد ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم نے اپنے اجتماعی شعور کو مفلوج کر دیا ہے۔ قوم کی خاموشی، ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے کے لئے نہ صرف ایک چیلنج ہے بلکہ ایک سوالیہ نشان بھی ہے کہ کیا ہم نے اپنی خودداری کو بھلا دیا ہے؟
قوموں کی بقا اور ترقی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ کس طرح اپنی آزادی اور انصاف کے لئے متحد ہو کر کھڑی ہوتی ہیں۔ ایک فرد کی آواز تبدیلی کی شروعات ہو سکتی ہے، لیکن اگر باقی قوم اس کا ساتھ نہ دے تو وہ آواز بھی وقت کی گرد میں کھو جاتی ہے۔ اس خاموشی کو توڑنا ضروری ہے، ورنہ ہم تاریخ کے اوراق میں ایک ایسی قوم کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جو اپنی بقا کے لئے آواز اٹھانے سے ڈرتی تھی۔
یہ وقت ہے کہ ہم خود سے یہ سوال کریں
کیا ہم اپنی خاموشی کو اپنی قسمت بننے دیں گے یا اس فرد کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں گے؟