توانا آواز کے لیے یکجہتی درکارہے۔ تحریر: شمس الحق نوازش غذری
توانا آواز کے لیے یکجہتی درکارہے۔ تحریر: شمس الحق نوازش غذری
بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان پاکستان کے آخری جینون سیاستدانوں میں سے ایک تھے۔انھیں ذوالفقار علی بھٹو سے مفتی محمود جیسے سیاست دانوں،جنرل ضیاء سے لیکر جنرل ایوب جیسے ڈکٹیٹروں کے ساتھ سیاست کے اکھاڑے میں پنجہ آزمائی کا بھرپور ملکہ حاصل تھا۔بابائے جمہوریت سیاسی حریفوں کو مذاکرات کی میز میں جب روبرو بیٹھایا کرتے تھے تو انکے قلوب میں ایک دوسرے کے لیے بغض وعناد کی چربی ایسے پگھلاکرتی تھی،جیسےگرم توے میں گھی کا ٹکیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپ بھٹو کے جیالوں اور جنرل ضیاء کے عقیدت مندوں کے مابین بھی چٹکیوں میں محبت اور اخوت کا رشتہ قائم فرما دیتے۔اپ مذہبی پارٹیوں کے سربراہوں اور
قبائلی گروہوں کے سرداروں کو بھی کسی نہ کسی ایک نقطے پر اکھٹا کرکے انھیں اقتدار کی راہداریوں میں پہنچا کرخود وہاں سے روٹھے ہوئے بچے کی طرح واپس لوٹتے۔
گزشتہ ماہ کے دوسرے عشرے میں تحصیل گوپس کے مسلم لیگ ن کی قیادت نے گوپس میں نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے کردار ادا کرنے میں سُرخرو رہے۔انکی مخلصانہ کاوشوں اور کوششوں سے غذر کے مختلف سیاسی جماعتوں اور سابق آ زاد امیدواروں کو مفاہمتی ٹیبل میسر ہوا۔ روبرو بیٹھتے ہی مغلوب المزاج کے حاملین کو بھی سیاسی رنجشیں بھلا کر باہمی اخوت اور بھائی چارگی سے مضبوط رشتے میں ہی قوم کو درپیش سنگین مسائل کا حل نظر آ یا۔ دلوں میں مخفی بھیدوں کے تبادلے کے بعد جہاں اختلافی مسائل کی گھتیاں اور الجھنیں خود بخود کھلتی چلی گئیں۔وہاں احساس ندامت نے سب کے قلوب کو حقیقت شناسی کی طرف مائل کر دیا۔ دور جدید کے مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ پولیٹیکل ورکرز کو دور قدیم کے قدیم روایات ” راست گوئی” اور ” سادہ سچائی” میں ملک و ملت کی کامیابی کا راز دکھنے لگا۔باہمی گفت وشنید کے بعد یہ منطق سب کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ جہاں مفادات اور نقصانات مشترک ہوں۔ وہاں اختلافات کو موافقت اور مواخات پر ترجیح دینے کی روایت صرف غاروں کے مکینوں کا وطیرہ رہا ہے۔ جبکہ حاضرین اس دور میں جی رہے ہیں جس دور میں دنیا انسانی انگلی کے مرضی کی تابع ہے۔
ہر قومی اور اجتماعی ایشو سے نبردآزما ہونے کےلئے کریڈٹ کی تلاش کو مورخ مورکھ پن نہیں تو بازیچہ اطفال ضرور لکھے گا۔کیونکہ تاریخ میں انانیت کے غبارے میں منافقت کی ہوا بھرنے والوں کا بھرم ہوا سے محروم غبارے سے مختلف نہیں رہا ہے۔ طبعی طور پر یہاں کے باسی انتہائی نرم خو اور صلح جو مزاج کے حامل رہے ہیں۔حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم رویوں کا عملی مظاہرہ زندگی کا لازمی حصہ ہے۔معرکہ رزم حق و باطل میں فولادی کردار کی نقد ادائیگی کے واسطے خطہ اول میں فرائض کی انجام دہی کو زندگی کا پہلا اور آخری منشاء سمجھنے کا تصور طفل شیر خواری میں ہی سیکھایا اور سمجھا یا گیا ہے۔اگر حقیقت کا اظہار حقیقی معنوں میں تحریر ہو تو یہ جملہ لکھنے میں ہرگز باک اور آرنہیں کہ فرزندانِ وادی شہداء اپنے قول اور فعل کے اعتبار سے علامہ اقبال کے ان اشعار کی عملی تفسیر ہیں۔
ہو حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
زمانہ الیکشن میں سیاسی اختلافات کا اظہار فطری ہے لیکن پارٹی پالیسی کے دائرہ کار میں خود کو مقید کر کے بیان کے لئے انداز مہذب اور مخالفین کے قابلِ تنقید پالیسیوں پر نکتہ چینی کا پیمانہ مؤدبانہ رہا ہے۔ سیاسی جلسوں میں جہاں عوام کا رویّہ قابلِ تقلید ہوتا ہے وہیں سیاسی رہنما بھی قومی،علاقائی اور سماجی مسائل میں مستغرق خطے کو گرداب مسائل سے رہائی دلانے میں اجتماعی کردار کے حامی رہے ہیں۔اس قسم کی اعلیٰ ظرفی پر یہاں کے تقریباً تمام پولیٹیکل ورکرز اور سیاسی رہنما داد تحسین کے مستحق ہیں جبکہ ملک کے اکثر حصوں میں معرکہء انتخابات کے دوران حصول فتح کے خمار میں مست امید وار سکندر اعظم کے طرز اور رستم زماں کے لہجے میں انسانوں کے ہجوم سے مخاطب ہو تے ہیں۔اور صرف اپنی ذات کی کامرانی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے سیاسی اختلافات کے حدود و قیود سے تجاوز کر کے مخاصمت اور عداوت کی سرحد میں قدم رکھنے سے نہیں ہچکچاتے۔عین اس وقت یہاں کے امیدوار مودت اور مؤدب انداز میں ایسے بیٹھک کے لئے خوش انتظامی کا اہتمام کرنے لگ جاتے ہیں۔جس میں مافی الضمیر کے اظہار کے لئے یکسوئی سے مزین ماحول میسر ہو۔یک دلی اور اتفاق سے یک جہت آور متحد ہونا اس وقت ممکن ہے جب یکجہتی کے لئے قلوب میں مطابقت اور مزاج میں موافقت بغیر کسی دنیوی اور ذاتی نفع و ناموری کے مقصود ہو۔۔۔۔
خطے کی پسماندگی کے تناظر میں خطے کے واسطے اپنے ہاتھوں سے اپنی خواہشات کو ذبح کر نے کا جذبہ سہل نہیں۔انتخابات کے موسم میں سیاست کا جنوں میدان سیاست میں سیاسی کھلاڑیوں سے زیادہ سیاسی وابستگی رکھنے والوں پر طاری رہتا ہے۔ اکثر امیدواروں کی پرجوش سیاسی گہما گہمی انتخابی مہم کے دوران انہیں انکی اوقات سے یکسر بیگانہ کر دیتی ہے۔ حامیوں کے نعروں کے نرغے میں اپنی شان وشوکت میں اپنی قد کاٹھ سےکئی گنا زیادہ جھوٹی سچی قصیدہ گوئی مسلسل سماعت فرمانے کے بعد انکا یہ خوش فہم یقین میں بدل جاتا ہے کہ عوام میں ان کی پائے کا کوئی ہیرو تو موجود ہی نہیں سنگین کوتاہی یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ انہوں نے رہبری میں بڑی دیر کر دی۔اب وہ ہر قسم کی رکاوٹوں کو روند کر وہاں پہنچنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں جہاں اختیارات کا سرچشمہ اقتدار کی صورت میں ان کا منتظر ہے۔عین اس وقت احساس کی وجودیاتی گہرائی میں ڈوب کر فہم و فراست کو ناصح یا مشیر کے طور پر قبول کرنا ایسے لوگوں کے لئے ناممکنات میں سے ایک ہے۔مسائل کی فہم و ادراک انکی ذہنی جسامت کے سایے تک کو چھو نہیں سکتا۔اس وقت وہ لوگ انسانی تمناؤں کے عدو ہی تصور ہوتے ہیں۔ جو انفرادی خواہشات کی لگام کو قابو میں رکھ کر اجتماعی مفادات کےلئے سر جوڑنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔اور حیات انسانی کے لئے بنیادی آسائشوں سے محروم خطوں اور لوگوں کے نمائندوں کو اقتدار کی راہداری تک رسائی کے لئے راہ ہموار کرنے کے واسطے کمر کستے ہیں۔
یہ لوگ حالات اور وقت کی سازگاری کے باوجود جذباتی ردعمل کے قائل نہیں۔صبروقناعت اور برداشت و سکوت کورنجشوں کی نشوونما کو روکنے کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ یہ کلیہ دنیاوی زندگی کی گزربسر کو پر سکون بنانے کےلئے ضروری ہی نہیں بلکہ انتہا درجے کی مجبوری بھی ہے خصوصاً اس دور میں جہاں میڈیا ہر کس و ناکس کے فنگر کے پوروں تلے آوارہ ساز میں ناچ رہاہو۔ وہاں انسانی دل و دماغ میں اگنے والے خیالات کو چھان پھٹک کر انتہائی احتیاط سے طشت ازبام نہ کیا جائے تو انسانوں کا رویّہ دنیا کے ساتھ پیٹرول اور دیا سلائی سے مختلف نہیں ہو گا۔
۔اجتماعی مفادات کی آبیاری کی خاطر اجتماعییت کو انفرادیت پر ترجیح دینے کا درس تو ہر بقراط کے زبان سے سنتے آرہے تھے لیکن عملاً ایسے نایاب نظاروں کی زیارت ہمارے نصیب کے حصے میں لکھے ہی نہیں گئے تھے۔شاید یہ حیات انسانی کے نشیب و فراز کی باریکیوں پر باریک بینی سے نظر رکھنے والے دوراندیش منصوبہ ساز بلبل جان کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یااس کی بنیادوں میںکل وقتی پولیٹیکل ورکرخان اکبر خان کی حکمت پنہان ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی تہ در تہ میں انتہائی سنجیدہ اور متین قانون دان نادر خان کی رہنمائی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔یا یہ علم وادب کی دنیا میں علوم عصری کی آ بیاری کے ماہر موسی مدد کی عالمانہ تجربات کا پیش خیمہ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ فاصلے میں نمو پانے کے قائل نباتاتیہ کے شاخوں کو اجتماعیت کے تناور درخت میں پیوند کاری کے ہنر سےمالامال شاہد اقبال کا کمال ہو یا یہ صوفی مزاج پولیٹیکل ورکر روزیمن شاہ کی شب خیزی میں گڑگڑاتے ہوئے آ ہ بکا کا ردعمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ریٹائرڈ صوبیدار شیرتولا کی اخلاص پر مبنی کاوشوں کی مرہونِ منت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا یہ ان سب کی دستگیری سے ( ماضی قریب میں) دست قدرت سے فیضیاب ہونے والے سابق وزیر سیاحت فداخان کی استادی۔۔۔۔قصہ مختصر! یہ جس کسی کی بھی سوچ ہے۔۔۔۔۔۔۔جس کسی کا بھی آئیڈیا ہے۔۔۔جس کسی کا بھی نظریہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کو میری زبان میں زبردست نہیں،کمال نہیں،ویری گڈ نہیں،بلکہ آ فرین کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
آ ج پھر اس خطے کی مٹی کو کوڑی کے داموں ہتھیانے کےلئے ایسا اسکرپٹ تیار ہوا ہے جس کا پیش منظر اس کے پس منظر سے یکسر مختلف ہے۔۔۔۔ 164 فراخی پر مشتمل شاہراہِ کی پیمائش کا آغاز فراز سے نشیب کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟… سیاحوں کی بہشت میں اس لنگڑاتے ہوئے عذر کے سہارے حسن وجمال سے آ راستہ آراضیات کو نیلام کرنے کا اہتمام ہورہا ہے۔۔۔۔کہ یہاں کے باسیوں کے پاس مناسب معاوضے کے عوض بقعہ خاکی بیچنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔۔۔۔۔۔اس بحث سے قطع نظر کہ پھنڈر تحصیل نے ابتک خود جان نہیں پکڑی ہے۔۔۔۔۔۔ کسی خطے کے معاوضے کے لئے کیا یہ دلیل کافی نہیں۔۔۔۔۔۔۔کہ وہاں اکلوتا انڈا 25 روپیے اور کلو ڈالڈا 500 روپیے میں دستیاب ہے ۔۔۔۔۔اس قسم کے بےشمار شواہد موجود ہونے کے باوجود وہاں کے آ ارضیات کو نیلام کرنے کا اختیار سرکاری بابوؤں کو کس نے دیا۔ لہذا وطن کی مٹی اور وطن کی ہوائیں تمہیں پکارتی ہیں۔ وطن کی مٹی کی خاطر توانا آواز کے لئے ایک بار نہیں بار بار یکجا ہو جا ۔۔!!