تنخواہیں بڑھانے پر احتجاج………….. محمد شریف شکیب
ہم سمجھتے رہے کہ احتجاج، ہڑتالیں، بائی کاٹ اور دھرنے صرف ہمارے ملک میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں ہی جمہوریت ہے اور احتجاج کرنا شہریوں کا جمہوری حق قرار دیا گیا ہے۔ خواہ چند لوگوں کے اس جمہوری حق پر پورے شہر کا سکون قربان ہی کیوں نہ ہوجائے۔ حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کینیڈا کے 700 ڈاکٹروں کی ایک تنظیم نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اور اسپتال کے باہر تھوڑی دیر کے لئے دھرنا دینے کے بعد حکومت کو ایک مراسلہ بھیجا ہے۔ جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ خبر پڑھ کر ہمیں اپنی بینائی پر شک ہونے لگا۔ آنکھیں اچھی طرح ملنے کے بعد دوبارہ خبر پڑھی ۔پھر یوں لگا جیسے ہم خواب دیکھ رہے ہوں ۔ اپنے بازو پر چک مار ا تو درد کا احساس ہوا۔ اور ہمیں یقین ہوگیا کہ نہ ہم اونگھ رہے تھے اور نہ ہی کوئی خواب دیکھ رہے تھے۔ خبر درست تھی اور خبر یہ تھی کہ کینیڈا کے ڈاکٹروں کی تنظیم کوبیک نے حکومت سے اپنی تنخواہوں میں کتوٹی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ڈاکٹروں کو جتنی تنخواہ اور مراعات دی جارہی ہیں وہ ان کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ان کی تنخواہیں مزید بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہتر ہوگا کہ حکومت ان کی تنخواہوں سے کچھ کٹوتی کرکے نرسوں اور دیگر سٹاف کی تنخواہوں میں اضافہ کرے اور اسپتالوں میں طبی سہولیات مزید بہتر بنانے پر یہ رقم خرچ کرے۔ حکومت کو بھیجے گئے مراسلے میں 213سینئر ڈاکٹروں، 184اسپیشلسٹ ڈاکٹروں، 149ریزیڈنٹ میڈیکل آفیسرز اور 162میڈیکل سٹوڈنٹس کے دستخط ہیں۔مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ کینیڈا میں ایک عام ڈاکٹر کو سالانہ دو لاکھ 60ہزار سے لے کر چارلاکھ ڈالر تک تنخواہ ملتی ہے جو ان کی ضروریات کے لئے کافی ہے ۔جبکہ نرسوں، پیرامیڈیکل اسٹاف کی تنخواہیں ان کی ضروریات کے مقابلے میں کم ہیں۔ اور وہ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی نسبت زیادہ کام کرتے ہیں اس لئے ان کی تنخواہوں میں اضافہ ضروری ہے۔ تاکہ طبی مراکز میں کام کرنے والے پوری دلجمعی سے دکھی انسانیت کی خدمت کرسکیں اور اسپتال آنے والے لوگوں کو علاج معالجے کی بہتر سہولیات دستیاب ہوں۔کینیڈا کے ڈاکٹروں کا یہ انوکھا احتجاج پوری دنیا میں دکھی انسانیت کی خدمت کے علم برداروں کے لئے ایک قابل تقلید مثال ہے۔اپنی تنخواہوں میں اضافہ قبول نہ کرکے ڈاکٹروں نے قناعت، ایثار اور انسان دوستی کی نئی مثال قائم کردی ہے۔ اگر یہ واقعہ کسی اسلامی ملک میں ہوتا۔ تو زیادہ اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ کیونکہ دین اسلام اپنے ماننے والوں کوقناعت، رواداری، ایثار، مروت اور خلق خدا سے محبت کا درس دیتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہم نے دین اسلام کے اس درس کو یکسر بھلادیا ہے۔ جائز اور ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی ہوس نے ہمیں معاشرے میں تو بااثر بنادیا لیکن انسانی اقدار اور اخلاقیات سے ہمیں غیرمانوس بنادیا۔ دیکھا جائے تو اسلامی تعلیمات کو مغرب والوں نے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔ ان میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک مسلمان میں ہونی چاہیں۔ جبکہ ہم صرف زبان سے کلمہ پڑھتے ہیں اور ہمارے تمام اعمال غیر اسلامی ہیں۔ سود ہم کھاتے ہیں۔ حرام اور حلال کی تمیز ہم نے مٹا دی ہے۔ رنگ و نسل، ذات پات ، زبان، مسلک اور علاقے کی بنیاد پر تعصبات کا زہر ہمارے اندر بھرا ہوا ہے۔ رشوت لینے اور دینے میں ہم کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ غیبت ہماری عادت بن گئی ہے۔ دوسروں کی ٹانگیں کھینچ کر آگے نکلنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ اپنے مفاد کے لئے جھوٹ بولنے، کسی کا حق مارنے اور اپنے مالی فائدے کے لئے کسی کو قتل کرنے سے بھی ہم نہیں ہچکچاتے۔ہم دکھانے کے لئے نماز بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں حج اور عمرہ بھی کرتے ہیں۔ فوٹو سیشن کے لئے خیرات بھی بانٹتے ہیں ۔لیکن اسلام کے آفاقی پیغام کو اپنی عملی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ پھر بھی ہمیں شکوہ ہے کہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں۔ ہم پر یکے بعد دیگر آفتیں کیوں نازل ہوتی ہیں۔ ہم پر فاسق، فاجر، ریاکار، بدعنوان حکمران کیوں مسلط ہیں۔ اگر مغرب والوں کی طرح ہم بھی سادگی، قناعت، ایثار اور رواداری کے زرین اسلامی اقدار کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تو دنیا میں بھی سکون کی زندگی گذار سکتے ہیں اور آخرت میں بھی بہتری کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔