
تم اپنے مورچے سنبھالو – از : کلثوم رضا
تم اپنے مورچے سنبھالو – از : کلثوم رضا
غ -زہ ملین مارچ کا اعلان اور اس کی تیاری ہی سے کچھ لوگوں کے تبصرے شروع ہو گئے تھے ۔۔۔
کہ ان جلسے جلوسوں سے کچھ نہیں ہونے والا ۔۔۔
اپنے ملک کی سڑکیں بند کرنے اور احتجاج کرنے سے کیا یوتا ہے۔۔۔؟
ٹرمپ تمھاری ان حرکتوں سے ڈرنے والا تھوڑی ہے۔۔۔
کچھ کرنا ہے تو فلس طین جا کے کرو۔۔۔
یا پھر یہ کہتے رہتے ہیں کہ اس رائیلی پروڈکٹ کی بائیکاٹ سے اسے کونسا اتنا بڑا نقصان ہوتا ہے۔۔۔
یہ وہاں سے تھوڑی آتے ہیں۔۔۔ اپنے ہی ملک کے مزدوروں اور تجارت کاروں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہو۔۔۔
یا پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہارے لکھنے سے ام ریکہ یا اس رائیل کے کانوں میں شاید جوئیں رینگ جائیں ۔۔۔
اس قسم کی باتوں سے بعض لوگ واقعی ان شیطانی تجویزوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔۔۔ اور یکسر بھول جاتے ہیں کہ ہر کسی کا اپنا محاذ ہوتا ہے۔۔۔
جس کے لیے جو مناسب ہے اس محاذ پر اس کے خالق نے اسے بٹھا دیا ہے۔۔۔ بھلے تمھارے جلسوں سے ٹرمپ نہ دبکے۔۔۔تمھارے لکھنے سے اس رائیل کے کانوں میں جوں تک نہ رینگے۔۔ یا ان کے پروڈکٹس کی بائیکاٹ سے اس کی معیشت پر کچھ خاطر خواہ اثر نہ پڑے ۔۔۔
لیکن تم نے اپنا مورچہ سنبھال ہی رکھنا ہے۔۔۔
تم وہاں سے لڑو ۔۔۔
اسے کمتر نہ جانو بلکہ یہ سوچو کہ سب سے اہم، سب سے اعلیٰ مورچہ تمھارا ہے ۔۔۔
تم یہیں سے ٹھیک نشانہ لے سکتے ہو۔۔۔
جو میدان تمھارے لیے خاص ہے تمھاری صلاحیتوں ہی کی بدولت ہے ۔۔
اپنی تاریخ یاد کرو کہ کس نے کس محاذ سے لڑا تھا اور داد پائی تھی۔۔۔
جس طرح ایک سخت معرکے میں خالد بن ولید رض کی تلوار نے داد پائی اسی طرح فکری معرکے میں حسان بن ثابت رض کی شاعری کام آئی ۔۔
نہ خالد رض حسان رض کی جگہ لے سکے نہ حسان نے ولید کی جگہ پائی۔۔۔
جس طرح لشکر عسرہ کو جنگ تبوک میں حضرت عثمان غنی رض کا مال سب سے قیمتی لگا اسی طرح قرآن پاک کو جمع کرنے کے مرحلے میں ابی بن کعب رض کی قرآت کا کوئی مول نہ ملا۔۔۔
نہ عثمان کا مال،،،،، نہ خالد کی تلوار اور نہ حسان کی شاعری ۔۔۔۔
جس طرح خیبر میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرجب جیسے دشمن کو للکار کر اپنی تلوار کی قیمت بڑھائی، اس سے کہیں زیادہ قیمت اس رقم کو لگی جس سے ابوبکر رض نے حضرت بلال کو خرید کر آزاد کیا۔۔۔
جس طرح آتش نمرود کو بجھانے کے لئے چڑیاں اپنی چونچوں میں پانی لاکر گراتی رہیں ،اسی طرح مٹھی بھر روئی لیکر ایک بڑھیا خریداران یوسف میں شامل ہوئی۔۔
یہ سب ایک دوسرے سے مختلف کام تھے لیکن سب اپنی اپنی جگہ اہم اور عظیم کام تھے۔۔۔
اب باری تمھاری ہے۔۔۔۔
تمھارا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں۔۔۔
بس شیر کی طرح اٹھو ۔۔۔اور اپنا مورچہ سنبھالو ۔۔۔
تم وہیں سے لڑو جہاں سے ٹھیک نشانہ لے سکتے ہو۔۔۔
بائیکاٹ سے۔۔۔۔۔ مارچ سے۔۔۔۔ قلم سے۔۔۔۔ مال سے۔۔۔۔ دعا سے۔۔۔۔۔ یا پھر بد دعا سے۔۔۔۔۔ یہی تمھارے مورچے ہیں۔