تعبیر تیرے خوابوں کی۔ از: کلثوم رضا
تعبیر تیرے خوابوں کی۔ از: کلثوم رضا
کہنے کو تو اس ملک خدا داد میں کیا کیا نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھار کچھ ایسا سننے کو ملتا ہے کہ بندہ گھنٹوں بلکہ دنوں تک سوچتا رہتا ہے کہ میں نے جو سنا کیا یہ سچ ہے؟
آج بھی ایک ایسی ہی بات جس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا یہ تھا کہ اقبال کا شعر سٹیٹس میں لگانے پر ایک گروپ ممبر نے مسیج کیا کہ “الله انہیں غارت کرے جنہوں نے پاکستان بنایا۔”
پڑھ کے ایسا دھچکا لگا جو شاید مجھے گالی دینے پر بھی نہیں لگتا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔۔۔ “الله انہیں غریق رحمت کرے” کہنے کے بجائے یہ کیسی بد دعا دے رہی ہے؟
ٹوکا تو کہا کہ پاکستان سے ہمیں کیا ملا۔۔۔؟ ہم دن بدن ابتر حالات میں گرے جا رہے ہیں۔۔ جو سلوک یہاں ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ کسی کافرستان میں بھی کسی کے ساتھ نہیں ہو رہا۔۔۔ پھر کیوں ہم خود کو جھوٹی تسلیاں دیں کہ ہمارا ایک ملک ہے جس میں ہم آزاد ہیں۔۔۔ خوش ہیں۔۔۔ مزید سمجھانے پر کہا کہ باجی میں واقع بہت بیزار ہو گئی ہوں۔۔۔ اس نظام سے جو اس ملک میں ہے۔۔پھر سوچا کہ جو حالات اس کے اور اس جیسے بہت سوں کو ہیں، اس حساب سے اس کی اس وطن سے، اس کے نظام سے بیزاری حق بجانب تھی۔ وہ ایک غیر رسمی سکول کی ٹیچر تھی۔ جن کو گزشتہ چھ مہینوں کا اعزازیہ نہیں دیا گیا ہے۔۔۔ یہ وہ سکول ہیں جنہیں حکومت نے اس لیے بنایا تھا کہ کوئی بچہ سکول سے باہر نہ رہے۔۔ ان سکولوں میں وہ بچے بچیاں پڑھتے ہیں جن کو گورنمنٹ سکول دور ہونے کی وجہ سے بچیوں کو والدین سکول نہیں بھیجتے اور بچے خود نہیں جاتے۔۔
ان میں ایک مسئلہ گورنمنٹ سکولوں میں یونیفارم اور دیگر پابندیاں بھی ہیں جنہیں بچے اور والدین برداشت نہیں کر سکتے۔۔۔تو ان بچوں اور والدین کی اولین ترجیح یہی غیر رسمی اسکول ہی ہوتے ہیں (جی سی ایس،بیکس اور این سی ایچ ڈی)جہاں بچہ بغیر یونیفارم کے بھی جا سکتا ہے۔۔۔ اور گھر سے قریب ہونے کی صورت میں بچے اور والدین دونوں مطمئن رہتے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں۔۔۔ اسی وجہ سے ان اسکولوں میں بچوں کی Enrollment گورنمنٹ اسکولوں کی بنسبت کافی ذیادہ ہے اور کمیونٹی اسکول کے اساتذہ بڑی جانفشانی سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔یعنی کہ ان سکولوں میں ملٹی گریٹ کلاس روم کے اندر ملٹی گریٹ ٹیچینگ کرنے والا یہ ٹیچر بیک وقت معلم بھی،چوکیدار بھی اور چپراسی بھی خود ہے۔۔ مذید یہ کہ بلڈنگ کی ذمہ داری بھی اساتذہ کی اپنی ہے۔ ان میں اکثر و بیشتر کرائے کے مکانوں میں اسکول کھول رکھے ہیں۔(اور بعض اسکولوں میں اسٹوڈنٹس کی تعداد ذیادہ ہونے اور کلاس رومز کم پڑنے کی وجہ سے ٹینٹ بھی لگا رکھے ہیں) اور تنخواہ ہے صرف “اکیس ہزار” اب اسی سے مکان کا کرایہ اسکول کے جملہ اخراجات کے ساتھ روزانہ آنلائن اٹینڈنس کے لیے ٹیٹ پیکچ اور ساتھ اپنی ضروریات جانے کیسے پورے کرتے ہیں اس مہنگائی کے ہوشربا دور میں۔۔۔۔
اوپر سے ظلم کی انتہا یہ اعزازیہ بھی کئی مہینوں تک بند رہ کر صرف ایک مہینے کی ملے تو اس سے مکان کا کرایہ ادا ہوگا یا بجلی کا بل یا دوسرے اخراجات پورے ہوں گے۔۔۔؟سوال تو بنتا ہے۔۔۔ شکایت بھی حق ہے۔۔۔اور احتجاج بھی جائز ہے۔۔پچھلے مہینے ان اسکولوں کی اساتذہ نے نیٹ پیکچ کی سہولت میسر نہ ہونے پر آنلائن حاضریاں لگانے سے معزرت کر لی تو انہیں اس قلیل ترین اعزازیہ سے بھی روزانہ کی دیہاڑی کاٹنے کی دھمکی دی گئی۔۔۔ اس بات پہ نظام سے متنفر ہونا تو بنتا ہے۔۔۔ قرضے پہ قرضہ لے کر یہ بیچارے اپنے دن پورے کر رہے ہیں۔۔۔۔ ایک استانی نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ کس مشکل سے گزر رہی ہے باپ اس کا فوت ہو چکا ہے بھائی ہے نہیں ایک ماں ہے جو کہ حالات کے ستم سہتے سہتے کئی بیماریوں کا شکار ہو چکی ہے۔۔۔ اور مہنگائی کے طوفان سے اس کی دوائیوں کا خرچ نکال لینا اس کے لیے عذاب سے کم نہیں۔۔۔ اور اسکول کا کرایہ ادا نہ کرنے پر مالک مکان سے جو سننے کو ملتی ہیں انہیں سن سن کر وہ پتھر کی بن چکی ہے۔۔۔
ان کا کہنا ہے۔۔۔ ہم بہت مجبوری میں یہ سکول چلا رہے ہیں۔۔ ہمارے پاس کوئی اور وسائل نہیں۔۔۔ اگر ان اسکولوں کو چلانے کے لیے ان کے ذمہ داروں کے پاس پیسے نہیں تو بند کیوں نہیں کرتے۔۔۔ اس سے تو اچھا تھا ہم یتیمی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے تو کوئی مجبور سمجھ کر راشن اور دواؤں کی ذمہ داری تو کم سے کم لے لیتا تھا اب احباب واقارب بھی کہتے ہیں کہ پڑھا رہی ہے۔۔۔اس کا خرچہ نکل آتا ہے۔۔۔ باجی ہم بہت مجبور ہو گئے ہیں۔۔۔ ایک اور ٹیچر خود بیمار،شوہر بیمار چھوٹے چھوٹے بچے جو بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں اپنا علاج کروانے کے لیے فنڈنگ کی اپیل کی ہے۔۔اس طرح کی کئی کہانیاں ہمارے اس شاہی ضلع چترال کی ہیں باقی پسماندہ علاقوں کی تو حالات بتانے سے بھی رہے۔۔کل پشاور کے ضلع “نگومان”میں اسکول کے سامان اور بچوں کو ٹیچر سمیت مکان سے باہر نکال کر گلی میں پھینک دیا گیا کرایہ ادا نہ کرنے پر۔۔۔
اب ان حالات میں کوئی ذی شعور انسان یہ بتائے کہ موجودہ صورتحال سے پریشان اپنے حال اور مستقبل سے مایوس یہ اساتذہ اپنے سٹوڈنٹس کو روشن مستقبل کی کیا امیدیں دلائیں گے۔۔۔
آج وطن عزیز میں اساتذہ سراپا احتجاج تو نوجوان مایوس۔اس وطن سے اس کے نظام سے۔۔انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔انکی داد رسی کرنے کے بجائے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان غیر رسمی اسکولوں پر بھی تھوڑی سی توجہ دے کر اساتذہ کا اعزازیہ بڑھا کر اسے ماہوار کیا جائے۔ تاکہ ہر مہینے ملنے والے اعزازیہ سے وہ اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری کر سکیں۔اب اگر حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں تو ان اسکولوں کا اجرا کیا ہی کیوں تھا؟…دوسرے اداروں کی بات ہم نہیں کرتے صرف ایلیمنٹری اینڈ سکینڈری ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہی کی بات کرتے ہیں جس کے ضلعی اور صوبائی دفاتر کے عملوں کی تنخواہیں ہزاروں اور لاکھوں پر مختلف مراعات کے ساتھ مل رہی ہیں تو صرف بیچارے اساتذہ کا کیا قصور ہے کہ جنہیں اس قلیل ترین اعزازیہ سے بھی محروم رکھ کر ان پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے تو اچھا تھا کہ یہ بے غیر فنڈ کے اسکولز نہ ہوتے۔۔بچے اور اساتذہ دونوں ازاد، اپنی مرضی سے اپنی پیٹ پوجا کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیتے۔۔۔کم سے کم اسکول کے بورڈز، مارکرز،چٹائیوں اور آنلائن حاضریوں کے لیے نیٹ پیکچ کا بوجھ ان کے سر نہ پڑتا۔۔۔
پہلے جب کوئی کہتا ہ تنخواہ ائے گی اگلے مہینے تو کچھ تسلی ہوتی کچھ انتظار رہتا تھا لیکن اب تو لگتا ہے کہ یہ کبھی نہیں ائے گی۔۔۔
تو آج کے دن اقبال سے اس دل نے کہنا چاہا کہ
تعبیر تیرے خوابوں کی سب الٹے ہو گئے
معمار تیرے دیس کے سڑکوں پہ آ گئے
مستقبل سے پریشان تیرا شاہین بھی مایوس
ماضی تھا اس کا،نہ ہی حال ہے محفوظ…
اب چونکہ گورنمنٹ پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کے مطالبات منظور ہونے کی خبریں آ رہی ہیں یہ خوش آئند بات ہے (اگر یہ بھی ان غیر رسمی اسکولوں کے مطالبات صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے کے باوجود تا حال کوئی عملدرآمد نہ ہونے جیسا اگر نہ ہوا تو۔۔۔)تو ممکن ہے اس کے بعد ان غیر رسمی اسکولوں کے اساتذہ کے مطالبات بھی منظور ہو جائیں,اور ان کے مسائلِ کا ایک حد تک مداوا ہو جائے۔۔