Chitral Times

Mar 15, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ترقیاں بند ملازمین کا کرب عروج پر – میری بات/روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

ترقیاں بند ملازمین کا کرب عروج پر – میری بات/روہیل اکبر

 

محکمانہ ترقیاں نہ ہونے سے ہزاروں ملازمین شدید کرب کا شکار ہیں جبکہ اپنے آپ کو خدائی اور خلائی مخلوق سمجھنے والوں کی کبھی ترقیاں رکی ہیں اور نہ ہی کبھی کوئی اور معاملہ جبکہ قوم کے بچوں کو پڑھانے والے سکول اساتذہ اور پھربچوں بڑوں میں شعور پیدا کرنے والے ادارے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز(ڈی جی پی آر)سمیت مختلف اداروں کے ملازمین اپنی ترقیاں وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں ان اداروں کے علاوہ درجنوں محکموں کے اہلکار متاثر ہیں بدقسمتی سے ایسا اداروں کے سربراہان جان بوجھ کرکرتے ہیں خاص کر ایسے افراد جو کسی اور محکمہ سے آکر ایسے اداروں کے سربرا ہ بن جائیں جو کہ عوامی محکمے ہوں تو پھر ان اداروں کے ساتھ ساتھ وہاں کے ملازمین بھی کام کاج سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں جسکے بعد ان اداروں میں صرف سیاست ہی رہ جاتی ہے جو آج کل ہمارے اداروں میں چل رہی ہے ایک اچھا فرض شناس افسر وہی ہوتا ہے جو اپنے ادارے اور اپنے ماتحتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا جانتا ہو کوئی بھی انسان کسی بھی جگہ مستقل نہیں ہوتا آنا جانا لگا رہتا ہے اور یاد وہی رہتا ہے جو اپنے ملازمین کے حقوق کا تحفظ نہ صرف کرنا جانتا ہو بلکہ اس پر پہرہ بھی دیتا ہو کچھوا پانچ سو سال زندہ رہتا ہے،

 

 

درخت ایک ہزار سال تک زمین پر کھڑا رہتا ہے، پہاڑ اور دریا کروڑوں سال تک اپنی شان کو باقی رکھتے ہیں مگر انسان کی عمر پچاس سال یا سو سال سے زیادہ نہیں انسان جو بظاہر تمام مخلوقات سے زیادہ اشرف اور افضل ہے وہ سب سے کم زندگی پاتا ہے اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ یہ مختصر زندگی بھی ناکامیوں کی ایک مسلسل داستان کے سوا اور کچھ نہیں لکھ پاتا اس مختصر سی زندگی میں وہی لوگ دلوں میں زندہ رہتے ہیں جو کسی کے لیے کچھ نہ کچھ کر گذرنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتے ہوں ویسے تو انسان کی زندگی غم اور دکھ سے اتنا زیادہ بھری ہوئی ہے کہ خوشی کے لمحات غفلت کی چند جھلکیوں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے بیماری، حادثہ، بڑھاپا اور امیدوں کی مسلسل پامالی کا نام زندگی ہے بالفرض کوئی شخص ناموافق حالات سے بچ جائے اور خوش قسمتی کو حاصل کر لے جس کو سکھ چین کہتے ہیں تب بھی کتنے دن تک؟آخر ایک دن نوکری سے فارغ ہونا ہے اور زندگی کو بھی الوداع کہنا ہے اسکے بعد ساتھی اوردوست تو کیا اپنے بھی بھول جاتے ہیں لیکن وہ لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جو اپنی اچھی یادیں اور اچھے کام چھوڑ کرگئے ہو اور اچھی یادیں ہی زندگی کا وہ سرمایہ ہوتی ہیں جو انسان کو اس کے حقیقی سفر کے بعدراحت پہنچاتی رہتی ہیں۔!!

 

میں نے شروع میں بات کی سرکاری اداروں میں ہزاروں ملازمین کرب کا شکار ہیں جو ترقیاں نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ اسی وجہ سے انکے کاموں پر بھی فرق پڑتا ہے ہمارے اساتذہ جو قوم کے بچوں کی تربیت کرتے ہیں وہ ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکے ہیں اور انہیں ایک سکیل کی ترقی بھی نہیں دی گئی اسی طرح محکمہ جیل خانہ جات میں کئی کئی سال گذرنے کے باوجود ترقیاں نہیں ہوتی جبکہ عام لوگوں تک حکومت کے اچھے کاموں کی معلومات پہنچانے والا ادارہ ڈی جی پی آر میں بھی انکا سربراہ ترقیاں روک کربیٹھا ہوا ہے اس محکمہ کو باہر کے لوگوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے ایسے افراد کو نہ جانے کہاں سے ڈھونڈ کر ڈائریکٹر جنرل لگا دیا جاتا ہے جسے اس محکمہ کی الف ب کا بھی علم نہیں ہوتا لیکن یہاں کا پروٹوکول شاہانہ ہے کسی محکمہ کا ڈی جی حکومت کے اتنے قریب نہیں ہوتا جتنا اس محکمہ کا جو ہر وقت وزیر اعلی کے سامنے رہے گورنر سے بھی رابطے میں رہے وزراء اسکے مرہون منت رہیں اور بہت سے سیکریٹریوں پر بھاری ہو یہاں تک کہ وہ اپنے محکمے کے سیکریٹری بھی اہمیت نہ دیتا ہو تو پھر اسکی شانیں کیاہونگی اسی لیے تو باہر والوں کی اس سیٹ پر للچائی ہوئی نظریں رہتی ہیں جو اس سیٹ کو شاہانہ انداز میں انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو کھوکھلا کر کے چلے جاتے ہیں اوراس ادارے کے ملازمین خصوصا جو سینئرز ھیڈ آفس میں بیٹھتے ہیں وہ جی حضوری میں اپنی سنیارٹی تک پر سمجھوتہ کر کے اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں جس نے محکمہ کی شان وشوکت کو ماند نہیں تباہ و برباد کر دیا ہے

 

اس وقت محکمہ اطلاعات میں سنگین قسم کے معاملات چل رہے ہیں اسی محکمہ کے لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے انہی کے الفاط تحریر کررہا ہوں جن کے بقول اس تباہ کن صورتحال پر ہم سب سینیئر اور جونئیر افسران خاموش ہیں سونا پر سہاگہ یہ کہ پروموشن کو سینئیر کا احسان سمجھ کر قبول کر رہے ہیں حالانکہ یہ ہمارا دوسرے محکموں کی طرح قانونی حق ہے سندھ انفارمیشن کے آفیسر 2005 میں انفارمیشن آفیسر تھے جو اس وقت سینئر ڈائریکٹر ہیں اور پریس سیکرٹری ٹو گونر سندھ ہیں وہ جب ہم سے پوچھتے ہیں کہ آپ ابھی تک اسی سیٹ پر ہیں تو ہمارا جواب ہوتا ہے کہ ہمارے محکمہ میں افسران کی پروموشن slow ہے اوراگر ہمارا ڈی جی باہر سے آ جائے تو اور پروموشن slow ہوجاتی ہے جبکہ سندھ انفارمیشن کا ڈی جی باہر سے نہیں آ سکتا اور اس کے لیے انہوں نے قانون میں ترمیم کروائی ہوئی ہے کہ ڈی جی پی آر دوسرے محکموں کی طرح ایک پروفیشنل ادارہ ہے لہذا اس پروفیشن کا سینئر ڈائریکٹر ہی ڈی جی پی آر بنے گا اس لیے سندھ میں ہر ڈائریکٹر کو پتا ہوتا ہے کہ وہ کب ڈی جی پی آر بنے گا دوسری بات جو مجھے پتا چلی کہ سندھ انفارمیشن میں بھی آرٹیکل رائیٹر اور ٹرانسلیٹر بھرتی ہوتے ہیں جو اپنی ٹرن پر انفارمیشن آفیسر بنتے ہیں وہاں کلرک بھی انفارمیشن آفیسر بنتے ہیں کیونکہ ان کے محکمہ میں کلرکوں کو آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ سپرٹینڈنٹ یا انفارمیشن آفیسر کا چوائس کر سکتے ہیں

 

اس طرح سے محکمہ کو انفارمیشن آفیسر کی پوسٹ پر تجربہ کار لوگ میسر ہو جاتے ہیں ضرورت ہے کہ ڈی جی پی آر کی پوسٹ پر بندھ باندھا جائے ورنہ باہر سے آنے والے لوگ محکمہ کو پورے دھونس اور دھاندلی کے ساتھ انجوائے کرتے رہے گے دوسری بات یہ بھی ہے کہ ڈی جی پی آر میں ڈائریکٹرز کی 5 پوسٹیں عرصہ دوسال سے خالی ہیں آفیسرز انتظار اور دعائیں کرکے تھک گئے ہیں لیکن اعلی حکام کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی کہ ان آفیسرز کی پروموشن وقت پر کروائی جائے حالانکہ ورکنگ پیپرز بھی تیار پڑے ہیں چیف سیکرٹری آفس سے بھی سخت ہدایات آئی ہیں کہ کسی محکمہ میں افسر کی ترقی کا کیس فارورڈ کرنے میں کوئی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی لیکن ڈی جی پی آر کے افسران کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی حالانکہ ہر دور حکومت میں میڈیا کے ساتھ حکومتی تعلقات خوشگوار بنانے اور تخلیقی کاموں میں پروفیشنل ہونے کے باوجود انکی پروموشن نہ ہونا ایک بہت بڑا ظلم ہے شائد اسی وجہ سے افسران مایوس اور دل برداشتہ ہوکر ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہیں باہر سے آنیوالے افسران محکمہ کے افسران کو اچھوت سمجھ کر انکی داد رسی کی بجائے انکی دل آزاری کررہے ہیں اس وقت محکمہ میں خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے اس لیے چیف سیکریٹری اگر خود ڈی جی پی آر سے خوفزدہ نہیں ہیں تو ڈی جی پی آر کے سینئر افسران ڈپٹی ڈائریکٹرز جو 25-30 سال سے ایک ہی گریڈ میں نوکری کررہے ہیں انکی ترقیوں کے لئے ہدایات جاری کریں بلکہ محکمہ ایجوکیشن والوں کو بھی ہدایات دیں کہ قوم کے معماروں کو بھی محکمانہ ترقیاں فوری دی جائیں اگر ایسا ممکن نہیں تو موآورہو جائے کیونکہ سرکاری ملازمت میں اگلے سکیل میں ترقی ہی ایک حقیقی خوشی اور پراسپیکٹ ہوتی ہے اگر ان سے محروم رہے تو ملازم کا کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
99452