
ترجمہ قرآن : گلگت بلتستان کے مدارس کی غفلت یا ترجیحات کی تبدیلی؟ ۔ خاطرات : امیرجان حقانی
ترجمہ قرآن : گلگت بلتستان کے مدارس کی غفلت یا ترجیحات کی تبدیلی؟ ۔ خاطرات : امیرجان حقانی
گلگت بلتستان، جسے بلاشبہ “زبانوں کی سرزمین” کہا جا سکتا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق درجن سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔
یہ خطہ اپنی لسانی وراثت کے حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں شینا، بلتی، بروشسکی، وخی، کھوار اور گجری جیسی کئی زبانیں صدیوں سے مختلف علاقوں میں بولی جا رہی ہیں۔ ان میں شینا زبان کو سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو گلگت، دیامر، استور اور غذر کے اضلاع میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے۔
یہ زبانیں صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ تہذیبی تشخص، فکری وراثت اور اجتماعی شعور کی علامت بھی ہیں۔ جب ان زبانوں کو الہامی پیغام یعنی قرآن کریم سے جوڑ دیا جاتا ہے، تو ان کی افادیت محض ثقافتی سطح تک محدود نہیں رہتی، بلکہ وہ زبانیں روحانی، علمی اور ابدی پیغام کی حامل بن جاتی ہیں۔
قرآنی تراجم اور زبانوں کی بقا
معدوم ہونے والی زبانوں میں جب تحقیق کی جاتی ہے تو وہ بقا پالیتی ہیں۔ اور پھر اگر یہ تحقیق و ترجمہ کا کام قرآن کریم کا ہو تو یہ زبانیں اس بابرکت کلام کی بدولت آفاقی حیثیت حاصل کر جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتی ہیں۔
گلگت بلتستان کی چار بڑی زبانوں میں قرآن کے تراجم ہوچکے ہیں، ان کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے۔
بلتی زبان میں قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ معروف محقق جناب حسین یوسف آبادی نے 1995 میں مکمل کیا۔
بروشسکی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی سعادت جناب غلام الدین غلام ہنزائی کو حاصل ہوئی، جنہوں نے 2008 سے قبل ترجمہ مکمل کیا۔
شینا زبان میں ترجمہ قرآن کی ایک کوشش جناب شاہ مرزا صاحب کی طرف سے سامنے آئی جو 2020 میں مکمل ہوئی۔ وہ پاکستان رینجرز سے ریٹائرڈ تھے اور بظاہر یہ ذاتی کاوش تھی، کسی بڑے دینی ادارے یا تنظیم کی سرپرستی کے بغیر۔
وخی زبان میں ایک حیرت انگیز کارنامہ نابینا محقق فضل امین بیگ نے انجام دیا، جنہوں نے 2025 میں مکمل ترجمہ قرآن پیش کیا۔ اسی طرح ہنزہ شمشال کے کریم خان ساکا نے بھی وخی میں ترجمہ قرآن مکمل کیا ہے (ابھی طباعت کے مراحل میں ہے)،
یہ حقائق اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ جب کوئی زبان قرآن مجید سے جُڑ جاتی ہے تو اس کی بقا، فروغ اور قبولیت کا سفر تیز ہو جاتا ہے۔ لاریب! قرآن مجید کی برکت سے ان مقامی زبانوں کو علمی اور عالمی وقار حاصل ہوا۔ یہ وہ عمل ہے جو زبانوں کو معدوم ہونے سے بچاتا ہے۔
اہل سنت مدارس اور ترجمہ قرآن کی عملی غفلت؟
سالوں سے یہ سوال جنم لے رہا ہے، اور یہ سوال تلخ ضرور ہے لیکن بہت اہم ہے۔ کسی صورت اس سوال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
گلگت بلتستان میں اہل سنت کے سینکڑوں چھوٹے بڑے دینی مدارس و جامعات ، سینکڑوں قرآن کے ماہرین، اور ہزاروں شینا، بلتی اور کھوار زبان بولنے والے علماء کرام کے باوجود ان زبانوں میں قرآن کا باضابطہ، معیاری ترجمہ و تفسیر اب تک کیوں نہیں ہو سکا؟
کراچی سے لے کر گلگت بلتستان تک گلگتیوں کے کسی بڑے ادارے نے علاقائی زبانوں بالخصوص شینا زبان میں ترجمہ و تفسیر کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی کی؟ کوئی پروجیکٹ ترتیب دیا؟
کسی مدرسے نے شینا، بلتی، کھوار زبان میں قرآن کے ترجمے کے لیے باقاعدہ بجٹ مختص کیا؟ ماہرین کو تلاش کیا؟
کسی قرآن کا ماہر عالم دین نے اس عظیم دینی و لسانی خدمت کو اپنی ترجیح بنایا؟
یا پھر قرآن فہمی کو صرف درسِ نظامی کے نصاب، سالانہ دورہ ترجمہ و تفسیر تک محدود رکھا گیا ہے؟
یہ سوالات اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان ہی مدارس میں سالانہ کروڈوں روپے صرف عمارتوں کی تعمیر و تزئین، سالانہ تقاریب، جلسے اور چندہ مہمات و اسفار اور دیگر غیر ضروری کاموں پر خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن قرآن فہمی کے سب سے بنیادی تقاضے یعنی مادری زبانوں میں ترجمہ و تفسیر پر کوئی مربوط عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ اس حوالے سے سنجیدگی سے کوئی سوچنے کے لیے تیار بھی نہیں، میں نے درجنوں ذمہ داروں سے اس کی اہمیت و ضرورت پر تفصیلی بات بھی کی مگر کسی کے کانوں جوں تک نہیں رینگ رہی، جو انتہائی افسوس ناک ہے۔
تراجم و تفسیر قرآن پر چند عمملی تجاویز
کراچی سے لے کر گلگت تک، گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے اہل علم و اہل مدارس سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ وقت کی اہمیت کو سمجھیں اور درج ذیل تجاویز پر غور کریں، امید ہے وہ ایک عظیم الشان کام کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں گے۔ تجاویز ملاحظہ کیجئے۔
1. علاقائی زبانوں بالخصوص شینا ترجمہ و تفسیر کا ادارہ جاتی منصوبہ
تمام بڑے مدارس (جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت، انجمن اہل سنت بلتستان، جامعہ دارالعلوم غذر، جامعہ انوار العلوم کراچی، جامعہ تعلیم القرآن استور، دیامر کے مدارس وغیرہ) مل کر ایک مشترکہ ترجمہ و تفیس بورڈ تشکیل دیں جس میں ماہر لغوی، مفسر، اور زبان دان علماء کرام شامل ہوں۔
2. باقاعدہ فنڈنگ
علاقائی اور شینا ترجمہ و تفسیر کے لیے باقاعدہ بجٹ مختص کیا جائے۔ تاجر، اہل خیر، اور اوورسیز کمیونٹی کو اس خدمت میں شریک کیا جائے۔
3. ماہرین قرآن اور زبان دانوں کی مشترکہ ٹیم
تراجم کے عمل میں ایسے افراد شامل کیے جائیں جو علاقائی اور شینا زبان اور فہم قرآن پر مکمل عبور رکھتے ہوں اور دینی علوم سے بہرہ ور مستند علماء ہوں۔
4. عوامی تربیت کا اہتمام
قرآن کے علاقائی ترجموں کو صرف کتابی صورت میں محدود نہ رکھا جائے بلکہ ریڈیو، یوٹیوب، مساجد، خواتین کے حلقے، اور تعلیمی اداروں کے ذریعے عوامی سطح پر فہمِ قرآن کو فروغ دیا جائے۔
قرآن عربی زبان میں نازل ہوا، لیکن اس کا پیغام تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ قرآن صرف ناظرہ اور حفظ کا موضوع نہ بنے بلکہ حقیقی معنوں میں ہدایت کا سرچشمہ بنے، تو ہمیں اسے اپنے دل، دماغ اور زبان سے جوڑنا ہوگا۔ اور اس کا پہلا اور ضروری قدم یہ ہے کہ قرآن کو ہماری زبانوں میں سمجھا جائے۔ مادری زبان میں جو فہم حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور زبان میں ممکن ہی نہیں۔
آج وقت ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام دینی مدارس، دینی قیادت اور لسانی حلقے اس پیغام کو سنجیدگی سے لیں۔ مادری زبانوں میں فہمِ قرآن نہ صرف ایک دینی فریضہ ہے بلکہ آنے والی نسلوں کی دینی و ثقافتی شناخت کا تحفظ بھی ہے۔
شینا، بلتی، کھوار اور وخی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ و تفسیر صرف ایک علمی منصوبہ نہیں، بلکہ یہ امت کے روحانی تحفظ اور فکری بیداری کی تحریک ہے۔ اس بیداری کے لیے مدارس جامعات کے ذمہ داروں کو آگے بڑھنا ہوگا۔ اور اس کو اپنا فرض سمجھ کر ترجیحی بنیادوں پر اس عظیم کام کا آغاز کرنا ہوگا اور اب تک کی کوتاہی اور لاابالی پر اللہ سے معافی بھی مانگنی ہوگی، اگر کل قیامت کے دن اللہ نے اس غفلت پر حساب کتاب شروع کیا تو پتہ نہیں کیا ہوگا؟ آئیں، ہم سب اپنے اپنے لیول پر فرض ادا کریں۔