Chitral Times

دنیا ہماری انگلیوں پر – میری بات/روہیل اکبر

Posted on

دنیا ہماری انگلیوں پر – میری بات/روہیل اکبر

دنیا میں ترقی اتنی تیزی سے ہو رہی جو ہماری سوچ سے بھی باہر ہے اس وقت آرٹیفیشل انٹیلیجنس اپنے عروج پر ہے دنیا کی ترقی تو ایک طرف ہمیں تو اپنے موبائل کیمرے کا بھی فنکشن نہیں آتالیکن ہمیں یہ ضرور بتا دیا گیا ہے کہ یہ بھی غدار ہے وہ بھی غدار ہے اگر ان غداروں کی لسٹ پر ایک نظر ماریں تو ہمارے آج تک کے سبھی حکمران اسی لسٹ میں نظر آتے ہیں یہاں تک کہ پاکستان بنانے والے قائد اعظم اور انکی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نہیں بخشا گیا اور تو اور اس وقت جو صدر پاکستان اور وزیراعظم ہیں یہ بھی ایک وقت میں انہی القابات سے یاد کیے جاتے تھے اسکے علاوہ جو جو انہیں کہا گیا وہ ناقابل بیان ہے اور تو اور جنہوں نے پاکستان کو دنیابھر کے اسلامی ممالک میں پہلا ایٹمی ملک بنایاان پر بھی غداری کے الزامات لگائے یہ الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا جعلی اور بے بنیاد باتوں کی طرف لگائی جائے یہ لوگ ایسا کرتے ہیں؟وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ عوام کی توجہ انکی لوٹ مار سے ہٹی رہے وہ آپس میں اپنی اپنی پسند کے لیڈروں کے حق میں اور مخالفوں کے خلاف سارا دن فضول قسم کی بحث کرتے رہیں اور وہ ملکی دولت سمیٹتے رہیں

 

اس سے ہٹ کر کہ کہیں عوام کو عقل وشعور نہ آجائے تو اس کے لیے وہ عوام کو نان نفقہ کا محتاج رکھا جاتا ہے جس میں فی الحال وہ ابھی تک تو کامیاب ہیں اور یہ غلامی کی ایک شکل بھی ہے بلکہ ایک طرح سے ہم سب قید میں ہیں آپ سوچ رہے ہونگے کہ ہمارے ہاں تو جمہوری حکومت ہے جو عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں اور دن رات خدمت کرتے ہیں کیا کبھی کسی نے سوچا کہ عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا؟عوام کی زندگی کیوں نہیں بدلتی؟کیونکہ غلام کے اتنے ہی حقوق ہوتے ہیں جتنے ہمیں مل رہے ہیں اس سے زیادہ سہولتیں آزاد قوموں کیلئے ہوتی ہیں آپ محنت کرکے اپنا رہن سہن بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر آپ کو پچھلی پوزیشن پر پہنچا دیتے ہیں آپ مزید محنت کرتے ہیں وہ مزید ٹیکس لگاتے ہیں آپ کو وہ مصیبتوں سے نکلنے نہیں دیتے بلکہ آئے روز مزید پریشانیاں آپ کی منتظر ہوتی ہیں ان سب نکات کو آپ کسی سیاسی جماعت کا سپورٹر بن کر نہیں بلکہ ایک پاکستانی بن کرسوچیں!آپ کو سب کچھ واضع نظر آئے گایہاں تک کہ غلامی کا وہ طوق بھی جوہمارے گلے میں ہے مگر آپ کو نظر نہیں آتا بلکل ایسے ہی جیسے ہمیں ریموٹ کنٹرول کی لائٹ نظر نہیں آتی لیکن اگر آپ اپنے موبائل کا کیمرہ آن کرکے اسکے سامنے ریموٹ کنٹرول کا کوئی بھی بٹن دبائیں تو پھر آپ کو اسکی لائٹ جلتی ہوئی نظر آئے گی بلکل اسی طرح ہمیں اگر اپنے گلے میں ڈالا گیا طوق دیکھنا ہے تو پھر ہمیں اسی حساب سے علم بھی حاصل کرنا پڑے گا جس سے ہم ابھی میلوں دور ہیں اسکے لیے ہمیں باشعور ہونا پڑے گا میں نے ابھی کیمرے اور ریموٹ کا ذکر کیا ہے

 

ہم سے بہت سے لوگ کیمرے کی سسٹم کو صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ تصویر بنا لی یا ویڈیو اس سے ہٹ کر ہمیں کچھ معلوم نہیں اسکے صرف 5موٹے موٹے فنکشن میں بتا دیتا ہوں جو ہماری زندگیوں میں بہت نہیں تو کم از کم تھوڑی سے تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں آپ انہیں پلے سٹور سے اپنے سمارٹ فون پر انسٹال کرسکتے ہیں گوگل ٹراسلیٹ آپ اسے انسٹال کریں زبان کی سیٹنگ کریں اسکے اندر کیمرہ کے نشان کو کلک کریں پھر اس کیمرہ کو گھر میں کہیں بھی لکھی ہوئی انگریزی یا اردو پر لے جائیں وہ آپکوایک سیکنڈ میں ہی اردو یا انگلش میں ترجمہ کرکے دکھا دے گا۔فوٹو میتھ اسے انسٹال کریں کاغذ پر پن سے ریاضی کا کوئی بھی مشکل یا آسان سوال لکھیں کیمرہ اس لائین کے اوپر لے جائیں یہ اسے فوکس اور سکین کرکے آپ کو سیکنڈوں میں جواب دکھا دے گا۔ IP Webcam اس ایپ کی مدد سے آپ اپنے موبائل کو خفیہ یا سیکورٹی کیمرہ میں تبدیل کرسکتے ہیں اس ایپ کو اوپن کریں اسکے اندر سے ایپ کا آئی پی ایڈریس نوٹ کریں اس آئی پی ایڈریس کو اپنے کمپیوٹر یا دوسرے موبائل کے براؤزرز میں ڈالیں اب جو مناظر آپ کا پہلا کیمرہ دکھائے گا وہی آپ کا ڈسک ٹاپ یا دوسرا موبائل دکھائے گا۔ CrookCatcher – Anti Theft یہ سب سے زبردست ایپ ہے اگر آپ کا موبائل کہیں گم یا چوری ہوجائے اور چور جب اسے یوز کرنے کے لیئے موبائل کا سیکورٹی پن یا پیٹرن غلط لگائے گا تو یہ سافٹ وئیر اپنا کام شروع کردے گا

 

یہ موبائل کے فرنٹ کیمرے سے اس چور کی تصویر بنالے گا پھر اس تصویر اور لوکیشن کو آپ کے دیئے گئے ای میل ایڈریس پر بھیج دے گا۔ CamScanner – Phone PDF Creator اس ایپ کی مدد سے آپ اپنی لائیبریری میں موجود کسی بھی چھوٹی یا بڑی کتاب کو منٹوں میں پی ڈی ایف فارمٹ میں تبدیل کرسکتے ہو اس ایپ کی مدد سے کیمرہ آن کریں جس صفحہ کو تبدیل کرنا ہے اسے فوکس کرکے تصویر لیں اور پی ڈٰ ایف میں بدل لیں ان پانچ فنکشنزکی ہمیں ہر وقت ضرورت رہتی ہے لیکن ہمیں علم ہی نہیں اور بعض اوقات انہی چیزوں کے لیے ہمیں کسی آئی ٹی ماہر کے پاس جانا پڑتا ہے اور اس مفت کے کام کے پیسے دینے پڑتے ہیں اور آگے سے وہ بندہ بھی ہمیں نہیں سمجھاتا کہ بھائی یہ کام آپ خود بھی کرسکتے ہیں اس لیے کہ وہ بھی علم بانٹنے کے معاملہ میں کنجوس ہے اگر ہم نے ترقی کرنی ہے اور غلامی سے باہر آنا ہے تو پھر ہمیں جدید تعلیم کی طرف آنا ہوگا ابتدائی کلاسوں سے ہی آئی ٹی کا کام شروع ہوجانا چاہیے

 

اس کے لیے ہمیں الگ سے آ ئی ٹی پارک بنانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی بلکہ آنے والے دور میں ہر گھر ہی آئی ٹی پارک ہوگا اگر ہم نے اس نئی ٹیکنالوجی کو رائج کردیا لیکن یہاں تو کوئی سننے کو تیار ہی نہیں اور نہ ہی کوئی اپنے آپ کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور تو اور ہم اپنے جمہوری حکمرانوں سے پوچھ بھی نہیں سکتے کہ صبح سے لیکر شام تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور غدار ثابت کرنے کی بجائے ہمیں ترقی اور خوشحالی کے راستہ پر گامزن کیوں نہیں کیا جاتا اسکی مثال کچھ یوں بنتی ہے جو عربی کی مشہور ضرب المثل ہے جوہا لوگوں کے لیے مبلغ بننا چاہتا تھا اس لیے وہ روزانہ منبر پر جاتا تھااور کہتا کہ اے لوگو ں کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہیں کیا بتانے والا ہوں انہوں نے کہا نہیں؟

 

جوہا نے کہا چونکہ تم نہیں جانتے اس لیے جاہلوں کو تبلیغ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور منبر سے نیچے اترگیاپھر وہ دوسرے دن منبر پر گیا اور کہا اے لوگوں کیا تم جانتے ہو؟ میں آپ کو کیا بتاؤں گا تو سامنے سے جواب آیا ہاں جس پرجوہا نے کہا چونکہ آپ جانتے ہیں اس لیے دوبارہ دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں اور منبر سے نیچے اترآیا جسکے بعد لوگوں نے اتفاق کیا کہ اب ان میں سے ایک گروہ ہاں کہے گااورایک گروہ نہیں کہے گاجب جوہا دوبارہ منبر پر بیٹھا اور کہا اے لوگوں کیا تم جانتے ہو؟میں تمہیں کیا بتاؤں گا؟ان میں سے بعض نے کہا ہاں اور بعض نے کہا نہیں جس پرجوہا نے کہا پھر جو جانتے ہیں وہ ان کو سکھائیں و نہیں جانتے اور منبر سے نیچے اترگیا بلکل اسی طرح ہمیں ہمارے حکمران بھی کچھ سکھانے کی بجائے چکر دینے میں ہی مصروف ہیں ورنہ تو موبائل فون میں ہی اتنے فنکشن ہیں کہ دنیا ہماری انگلیوں پر ناچ سکتی ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96207

معذور لیکن کارگرافراد- ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معذور لیکن کارگرافراد

International Day of Disabled Persons

(3دسمبر خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

اللہ تعالی نے کوئی چیز بھی بے مقصد پیدا نہیں کی۔اس کائنات میں ایک ذرے سے لے کر،پودے پتے،جھاڑ جھنکار اور ریت کے ذروں سے لے کر ہاڑ،چٹانیں،غاریں اور دریا اور سمندر تک بے شمار مخلوقات ہیں اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جو ان دریاؤں اور سمندروں کے اندر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں،اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جوپہاڑوں کے درمیان وادیوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں اور پتھروں کے اندر اور درختوں کی جڑوں سے چمٹے ہوئے اس دنیا میں موجود ہیں اور نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے اور کس کس طرح کی مخلوقات جو ہنوزانسانی مشاہدے میں نہیں آسکیں اللہ تعالی کی خلاقی کا پتہ دیتی ہیں۔لیکن یہ سب قطعاََ بھی بے مقصد نہیں،اتفاقََانہیں اور نہ ہی الل ٹپ ہیں بلکہ اللہ تعالی نے یہ سب ایک نظام کے تحت،ایک منصوبے کے مطابق اور ایک منزل کے تعین کے ساتھ اوربامقصد تخلیق فرمایا ہے۔قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں واضع کیاہے کہ ”الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۳:۱۹۱)“ترجمہ:”جواٹھتے بیٹھتے اورلیٹے ہرحال میں اللہ تعالی کو یادکرتے ہیں اورزمین وآسمان کی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں (وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں)پروردگار!یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصد نہیں بنایا،توپاک ہے اس سے کہ کوئی عبث کام کرے،پس اے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے“۔اسی طرح کی اور آیت میں یوں واردہوا کہ”وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ(۱۲:۶۱)“ترجمہ:”اورہم نے اس آسمان اورزمین کو اورجوکچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طورپر(بے مقصد)نہیں بنایاہے“۔ان ساری مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق حضرت انسان ہے جسے اللہ تعالی نے خود اشرف المخلوقات کہا ہے،اور اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا ہے اور اپنی مقرب ترین مخلوق ”ملائکہ“سے اس انسان کو سجدہ کروایا ہے اور اس سجدے سے انکار کرنے والے کو راندہ درگاہ کیا ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰہُمْ مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا(۷۱:۰۷)“ترجمہ:”یہ توہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کوعزت اوربزرگی دی اورانہیں خشکی و تری میں سواریاں عطاکیں اوران کوپاکیزہ چیزوں سے رزق دیااوراپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی“۔گویا اب جو بھی حضرت آدم علیہ السلام کے قبیلے میں اورانکی نسل میں پیدا ہو گا وہ اللہ تعالی کے ہاں سے پیدائشی طور پر عزت والا بن کر آئے گا۔یہ انسان کے لیے بہت بڑا اعزازہے کہ اسے خالق کائنات نے اپنے ہاں سے عزت والا بنا کر بھیجا ہے۔

 

اسی انسان کے ہاں ایسے بچے بھی جنم لیتے ہیں جو بعض اوقات جسمانی یا ذہنی طور پر معذورہوتے ہیں،لیکن حضرت آدم کی نسل سے ہونے کے باعث وہ اللہ تعالی کے ہاں سے حق عزت واحترام ساتھ لے کر آئے ہیں اور انسانی معاشرے میں معزز و محترم ہیں کہ اس معاشرے کے خالق نے انہیں یہ حق عطاکیا ہے اور کوئی قانون،کوئی تہذیب،کوئی معاشرت،یا رویہ ان سے ان کا یہ حق چھین نہیں سکتا۔عربی زبان میں ”نفس“اسکو بھی کہتے ہیں جو سانس لے، چنانچہ قانون اسلام کے ماہرین،فقہائے کرام انسان کو اس وقت سے ”نفس“سمجھتے ہیں جب سے وہ ماں کے پیٹ میں سانس لینا شروع کر دیتاہے اور قرآن نے ”نفس“کے قتل کوناجائز قرار دیا ہے۔گویا اگر ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی معذوری کی اطلاع ہو جائے تو بھی اسکا قتل ناجائز ہے معذوربچے قدرت نے بے مقصد پیدا نہیں کیے ہیں،انکی پیدائش کا کیا مقصد ہے؟یہ انسانی دماغ کا امتحان ہے کہ وہ ان بچوں کا بغور مشاہدہ کرے اور ان میں وہ جوہر قابل تلاش کرے جو قدرت نے ان میں چھپا رکھا ہے۔قدرت کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتی کیونکہ اللہ تعالی کاارشادہے کہ”مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلَ لَدَیَّ وَ مَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(۰۵:۹۲)“ترجمہ:”میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں“۔قدرت اگر کسی کوایک چیز سے محروم کرتی ہے تو اسکا بہترین نعم البدل بھی عطا کرتی ہے،چنانچہ عام مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ معذورافراد بعض اوقات بہت بلا والے حافظے کے مالک ہوتے ہیں،خاص طور پرنابینا افراد میں سے بعض کا حافظہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ دس سال بعد بھی صرف ہاتھ ملانے سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ کون صاحب ہیں کب ملے تھے وغیرہ۔اسی طرح ہاتھوں سے معذور افراد بعض اوقات پاؤں سے اسطرح کے کام کر لیتے ہیں اچھابھلاآدمی بھی ایسا نہ کر سکے۔

اس سب کے باوجود معذور افراد کو:

1۔حتی الامکان اعتماد نفسی دینا چاہیے اور ان میں سے اس احساس کو کم سے کم کرنا چاہیے کہ وہ معذور ہیں۔

2۔ان سے اس طرح کا رویہ رکھنا چاہیے کہ جیسے وہ صحیح الاعضا والحواس ہیں۔

3۔ان کے کسی بھی کام میں معاونت سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ ان میں کسی قسم کا احساس کمتری پیدا نہ ہو،سوائے مجبوری کے۔

4۔ان کی معاشرتی تربیت معاشرتی ومذہبی اقدار کے بالکل عین مطابق ہو تاکہ ان میں ذہنی بالیدگی وقوع پزیر ہو سکے اور مسلسل ارتقا پزیر رہے۔

5۔معذور افراد کی اپنی مخصوص نفسیات ہوتی ہے،انکے قریبی رشتہ داروں کو اس نفسیات سے آگاہ رہنا چاہیے اور اس کے مطابق ان سے برتاؤ کرنا چاہیے۔

6۔معذور افراد جس بات سے خوش ہوتے ہوں،جس کھانے کو پسند کرتے ہوں،جس ماحول میں آسودگی محسوس کرتے ہوں اورجن افراد سے مطمئن رہتے ہوں،غیرمحسوس طور پر انہیں ان کے مزاج کے موافق ماحول فراہم کیاجاناچاہیے۔

7۔ناپسندیدگی اور چڑ جانے کارویہ اور بہت جلد غصہ اور بعض اوقات قابو سے باہر ہوجانا مخصوص افراد کی نفسیات ایک کمزور پہلو ہوتا ہے،اکثر لوگ مزے لینے کے لیے معذور افرادکو تنگ کرتے ہیں جس سے یہ افراداپنے ان منفی رویوں میں مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخریہ رویے اان معذورافراد کی پہچان بن جاتے ہیں۔اس طرح مخصوص افراد کو گویا انکی محرومیوں میں اندر تک مزیددھکیل دیا جاتا ہے،جس سے اصلاح احوال کی منزل کی بجائے بگاڑکا گڑھاقریب آلگتاہے۔

 

8۔علم نفسیات نے معذورافراد کو بہتر بنانے کے لیے کئی طریقے دریافت کیے ہیں،یہ طریقے سالہا سال کی طویل مشق کے بعد اور کئی کئی مخصوص افراد پر تجربوں کے بعد دریافت کیے گئے ہیں،ان طریقوں کا استعمال بہتری کی طرف ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔

9۔فن طب میں بہت ساری دوائیاں بھی ان مقاصد کے لیے تیار کر رکھی ہیں،جو معذورافراد کو عام حالات میں یا کسی خاص حالات میں دینے سے انکوافاقہ ہوتا ہے۔

10۔بعض مخصوص افرادبس گوشت کا ایک لوتھ ہی ہوتے ہیں جو بہت بڑے ہو جانے کے باوجود بھی اپنی ضروریات تک سے آگاہ نہیں ہوپاتے،یہ اگرچہ معاشرے پر ایک مستقل بوجھ ہیں اور والدین کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتے ہیں لیکن نہ جانے جس گھر میں یہ موجود ہوتے ہیں وہاں سے کون کون سی آفتیں محض انہی کی وجہ سے ٹل جاتی ہیں اور نہ جانے کن کن ان جانے اسباب سے محض انہی کی خاطرگھر والوں کے لیے رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اللہ تعالی کے ہاں مایوسی کو کفر سے ملایا گیا ہے پس کبھی اور کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہیے،اور پھر کیا سب معاملات اسی دنیا میں ختم ہوجانے ہیں؟؟نہ معلوم ایک معذور بچے کی پرورش کے عوض اللہ تعالی کے ہاں کتنا ہی ڈھیرسارااجر لکھاجائے۔

 

یہ کام اگرچہ محنت طلب اور طویل دورانیے پر مبنی ہے،اور یقیناََ کامیابی کے امکانات بھی بعض اوقات بہت روشن نہیں ہوتے لیکن اس کے علاوہ اسکا حل ہی کیا ہے؟وہ بچہ جیسا کیسا بھی ہے بہرحال انسان کا بچہ ہے،ایک جانور بھی اپنے بچے کا کس قدر خیال کرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ اس طرح کے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی ایسے اسباق پڑھائیں جو زبانی یاد رکھے جانے کے قابل ہوں،انہیں ایسا کام سکھلا دیں کہ وہ کم از کم معاشی طور پر کسی کے کے محتاج نہ ہوں اورسب سے بڑی بات یہ کہ انکے ذہن میں مسلمان ہونے کا تصور ضرور ڈالیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے مخصوص افراد کے مشاہیر مقرر کرے جو انکی نگہداشت کرنے والوں کو ادا کیے جائیں تاکہ سرپرست افراد کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔حکومت ایسے ادارے بھی بنائے جہاں ان بچوں کو کچھ دیر کے لیے یا زیادہ دیر کے لیے رکھاجاسکے تاکہ انکے ذمہ داران اپنی دیگر ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کر سکیں اور جن بچوں میں سمجھنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے حکومت ان کے لیے تعلیمی وتربیتی ادارے بھی قائم کرے تاکہ انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جا سکے۔اور سرکاری سرپرستی میں تحقیق کے دروازے کھولے جائیں جس کے نتیجے میں معذور بچوں کی پیدائش کو کم سے کم کیاجاسکے اور عوام میں ان تحقیقی نتائج کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا جائے۔ اللہ تعالی نے جس طرح سلامت الاعضا والحواس انسانوں کو اپنی کتاب میں احکامات کے ذریعے براہ راست مخاطب کیاہے اسی اسلوب میں معذورافرادکو بھی قرآن مجیدنے براہ راست مخاطب کیاہے۔حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ مدنی زندگی میں مسلمان جب بھی جہادکے لیے جاتے تواپنے گھروں کی چابیاں معذورافرادکو دے جاتے تاکہ وہ جب چاہیں دروازے کھول کر جوچاہیں کھا پی لیاکریں۔لیکن معذورافرادکو ہچکچاہٹ تھی یاشاید وہ اسے مناسب نہ سمجھتے ہوں،تب اللہ تعالی نے یہ

آیات نازل کیں:” لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ

بُیُوْتِکُمْ(۴۲:۱۶)“ترجمہ:”کوئی حرج نہیں اگرکوئی نابینایالنگڑایامریض تمہارے (یاکسی کے) گھرسے کھالے“۔سیرت النبی ﷺمیں معذورافراد کے لیے خصوصی رعایات کا تفصیلی ذکرملتاہے۔ایک غریب اور نابیناصحابی حضرت ابن ام مکتوم تھے،یہ آپﷺ کو بہت محبوب تھے۔پہلے یہ اصحاب صفہ کے درمیان رہتے تھے پھرانہیں ”دارالغذا“میں ٹہرادیاگیا۔جب حضرت بلال نہیں ہوتے تھے تویہ مسجدنبوی میں آذان دیاکرتے تھے خاص طورپر رمضان کے مہینے میں جب حضرت بلال سحری شروع کرنے کی پہلی آذان دے کرلوگوں کو بیدارکرنے کے لیے گلیوں کاچکرلگاتے تھے تب فجر کی آذان یہی نابیناصحابی ہی دیاکرتے تھے اورلوگ ان کی آذان سن کر کھانا پینا بندکردیتے تھے۔کئی مواقع پر جب آپﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تویہی نابیناصحابی مصلی نبوی پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کی نمازمیں امامت کرتے تھے کیونکہ آپﷺ نے انہیں کام پر مامور کررکھاتھا۔ایک بارآپﷺمسلمانوں کے مجمعے سے مخاطب تھے کہ ایک نیم پاگل بوڑھی عورت نے باہرسے آپﷺ کو آواز دی،لوگوں نے عرض بھی کیاکہ یہ ذہنی معذوربڑھیاہے لیکن آپ ﷺکمال شفقت و مہربانی سے اس کے ساتھ چل دیے،وہ آپﷺ کو گلیوں میں گھماتی رہی اورآپ ﷺ گھومتے رہے،وہ کہتی یہاں بیٹھ جائیں آپﷺ وہیں تشریف رکھتے،وہ اپنی لمبی لمبی کہانیاں آپﷺ کو سناتی رہی اورآپﷺ پورے انہماک اوردلجمعی سے سنتے رہے۔حضرت عیسی علیہ لسلام کے معجزات تو معذورافرادسے ہی متعلق ہیں،نابیناکوبیناکردینا،کوڑھ کے مریض کو شفایاب کردیناوغیرہ۔دورخلافت راشدہ میں حضرت عمرنے معذوراوربزرگ افرادکے لیے وظائف کااعلان کررکھاتھااور جو معذوریابزرگ غیرمسلم ہوتے انہیں جزیہ بھی معاف کردیاجاتاتھا۔

 

ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی طرف حکومت،مخیرحضرات اور غیرسرکاری تنظیموں کی توجہ کی اشدضرورت ہے کہ وطن عزیزمیں بعض مقامات پر پورے کے پورے قبائل ہیں جو کئی نسلوں سے کسی خاص معذوری کا شکار چلے آ رہے ہیں لیکن غربت اور جہالت کے باعث وہ اسکے اسباب اوربچنے کے طریقوں سے ناواقف ہیں۔ان کا کھوج لگانا،ان پر طبی تحقیق کرنا،مستندنتائج حاصل کرنا اور پھر ان میں جو حکومت اور معاشرے کے کرنے کے کام ہیں وہ انکے ذمے لگانا اور جو متاثرہ خاندانوں کے کرنے کے کام ہیں اس سے انکو آگاہ کرنا ایک قابل قدر انسانی خدمت ہوگی اورآنے والی نسلوں کی حفاظت کی ضامن ہو گی۔والدین اور معاشرہ ایسے افراد کی پرورش اور نگہداشت کے ذمہ دار ہیں اور جہاں کہیں ضرورت پڑے وہاں ریاست بھی اپنے فرائض سرانجام دے گی لیکن ریاست اس معاملے صرف مالی و تکنیکی معاونت ہی فراہم کرسکتی ہے جبکہ اول و آخر ان افراد کی نگہداشت معاشرے اور والدین کو ہی سرانجام دینی ہے۔

 

سیکولرازم اورلبرل ازم نے گزشتہ کم و بیش تین سوسالوں سے قبیلہ بنی نوع آدم کی گردنوں پر اپنے خونین پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور اس تمام عرصے میں بے پناہ جنگیں،انقلابات،ریاستی کھنچاؤ اور غربت و جہالت نے جس طرح ننگاناچ ناچا ہے اس سے معذورافرادکی ایک نئی قسم نے جنم لیاہے جو کہ ”نام نہاداعلی تعلیم یافتہ ذہنی مفلوج“طبقہ ہے۔اب یہ طبقہ پوری دنیامیں پایاجاتاہے جنہیں اپناوطن،اپنی زبان،اپنی تہذیب و ثقافت اورمذہب کی بجائے دورکے ڈھول سہانے لگتے ہیں۔خاص طورپر دوسری جنگ عظیم کے بعد سردجنگ کے زمانے نے اس معذوری میں مزیداضافہ کردیاہے۔یاسیت زدہ اس ذہنی معذورطبقہ کوان کے مغربی آقاؤں نے روشن خیال،ترقی پسند، جدت پسند اورآزادخیال جیسے نام دیے ہیں۔ لیکن ان کی فکر،ان کی سوچ،ان کی ذہنی بالیدگی اور ان کی خیال آرائیاں سب کچھ مغربی سیکولرتہذیب کے سامنے ہتھیارڈال کراب محتاج محض ہوکر معذورومفلوج ہو چکے ہیں۔انہیں اپنی قوم میں دنیاجہان کی برائیاں،خامیاں،کمزوریاں اورناہمواریاں نظرآتی ہیں اور چڑھتے سورج کے ان پجاریوں کو مغرب میں دودھ اورشہد کی نہریں بہتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔یہ ذہنی معذورطبقہ اب غلامی کی آخری باقایات کے طورپر موجودہے۔جیسے جیسےتعلیمات وحی قلوب انسانی میں جگہ پیداکر کے شعورومعرفت کی منزلیں سرکرتی چلی جارہی ہیں ویسے ہی یہ طبقہ اپنی موت آپ مرتاچلاجارہاہے اور بہت جلد ان ذہنی معذوروں سے نجات کے بعد آزادی کے دن قریب آ لگے ہیں،ان شااللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96201

ڈرپوک پری ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

ڈرپوک پری ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کروشیا کے ایک پرانے، سنسان قلعے میں ایک عورت رہتی تھی جس کا نام “میریانا” تھا۔ میریانا نہایت حسین اور نرم دل تھی، لیکن ایک مسئلہ تھا—وہ ڈرپوک بھی اتنی تھی کہ اگر ہوا سے دروازہ بند ہو جاتا تو وہ اسے بھوت سمجھ کر چیخنے لگتی۔

ایک دن میریانا نے فیصلہ کیا کہ اب ڈرنا چھوڑ دینا چاہیے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا، “میں ایک آزاد عورت ہوں، اور میں کسی بھوت، سایہ یا کبوتر سے نہیں ڈروں گی۔” ہاں، کبوتروں سے بھی وہ اتنی ہی ڈرتی تھی جتنا کسی خوفناک چیز سے۔

 

nandini pari

اسی رات، قلعے میں عجیب سی آوازیں آنے لگیں۔ ہلکی ہوا چل رہی تھی، اور روشنی کی چند کرنیں دروازوں اور کھڑکیوں کے درمیان جھانک رہی تھیں۔ میریانا نے اپنے اندر کی بہادر عورت کو جگایا اور کہا، “بس بہت ہو گیا! آج میں دیکھوں گی کہ یہ شور کس کا ہے!”

وہ آہستہ آہستہ پرانی سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ ہر قدم کے ساتھ سیڑھیاں ایسے چرچراتیں جیسے وہ میریانا کا مذاق اڑا رہی ہوں۔ لیکن وہ ہمت کے ساتھ آگے بڑھی۔ جیسے ہی وہ نیچے پہنچی، ایک کبوتری اس کے سامنے سے پھڑپھڑاتی ہوئی اڑ گئی۔ میریانا نے ایک چیخ ماری اور پیچھے کی طرف چھلانگ لگا دی، لیکن خوش قسمتی سے زمین پر گرنے کے بجائے وہ ہوا میں تیرنے لگی!

“یہ کیا؟ میں اُڑ رہی ہوں؟” میریانا حیران رہ گئی۔ اصل میں قلعے کی روشنی کچھ اس طرح پڑ رہی تھی کہ وہ خود کو کسی جادوئی پری کی طرح محسوس کرنے لگی۔ لیکن پریشانی یہ تھی کہ اس کے پیر زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔ وہ ہوا میں جھول رہی تھی، اور دور ایک اور کبوتر اس کا مذاق اڑاتے ہوئے “گٹر گوں” کر رہا تھا۔

میریانا نے خود سے کہا، “اب بہت ہو گیا! میں جادوئی ہوں یا نہیں، میں اس کبوتر کو دکھا دوں گی کہ میں کتنی بہادر ہوں!” اس نے کبوتروں کی طرف دوڑنے کی کوشش کی، لیکن ہوا میں تیرتے ہوئے اس کی حرکت کچھ ایسی مزاحیہ تھی کہ وہ خود ہی ہنسنے لگی۔

تبھی، قلعے کا پرانا دروازہ زور سے کھلا اور ایک جھونکا اندر آیا۔ اس جھونکے نے میریانا کے سفید لباس کو ہوا میں لہرا دیا، اور وہ بالکل بھوت کی طرح لگنے لگی۔ کبوتر یہ منظر دیکھ کر اتنا ڈر گیا کہ وہ فوراً اڑ کر قلعے سے باہر نکل گیا۔

میریانا نے خوش ہو کر کہا، “واہ، میں نے کبوتر کو ڈرا دیا! آخر کار میں بہادر بن گئی!” لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس کا سفید لباس اور ہوا میں جھولنے کا منظر ہی اتنا عجیب تھا کہ کبوتر نے اپنی عزت بچانے میں عافیت جانی۔

قلعے کے لوگ اگلے دن یہی کہانیاں کرتے رہے کہ کس طرح ایک “جادوئی بھوت” نے کبوتروں کو قلعے سے بھگا دیا۔ اور میریانا؟ وہ اپنے اندر کی بہادری پر فخر محسوس کر رہی تھی، حالانکہ اسے ابھی بھی دروازے کے بند ہونے کی آواز سے تھوڑا سا ڈر لگتا تھا۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96203

ای او بی آئی کی پینشن میں اضافہ نہ ہونے کیخلاف کیس میں تفصیلی رپورٹ طلب

Posted on

ای او بی آئی کی پینشن میں اضافہ نہ ہونے کیخلاف کیس میں تفصیلی رپورٹ طلب

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ای او بی آئی کی پینشن میں اضافہ نہ ہونے کے خلاف کیس میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے ای او بی آئی پینشنرز کیس کی سماعت کی۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا ای او بی آئی پینشن ادا کر رہی ہے؟ای او بی آئی کے وکیل نے کہا کہ پینشن کے اضافے کا کیس ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک عرصے تک صوبوں کو ای او بی آئی کی منتقلی کا معاملہ چلتا رہا، مشترکہ مفادات کونسل نے حتمی طور پر ادارہ وفاقی حکومت کے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔درخواست گزار نے کہا کہ اسے کئی برس سے ساڑھے دس ہزار پینشن دی جا رہی ہے، پینشن میں اضافہ نہیں کیا جا رہا۔ای او بی آئی کے وکیل نے بتایا کہ حکومت کی ہدایات کے مطابق پینشن میں اضافہ ہو رہا ہے، 2015ء میں پینشن سے متعلق کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 2013ء سے کیس زیر التوا ہے، کیس کو کہیں تو ختم ہونا ہے، اتنی بڑی کمائی اور فنڈ آپ کے پاس ہیں۔ای او بی آئی کے وکیل نے کہا کہ پینشن کو 3500 سے 6 ہزار روپے کرانے کے لیے کیس آیا تھا، 2015ء میں پینشن سے متعلق کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ای او بی آئی پینشنرز کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

 

 

سپریم کورٹ کے زیرالتوا مقدمات، تعداد کم ہوکر 58ہزار 487 پرپہنچ گئی

اسلام آباد(سی ایم لنکس) سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار سے کم ہوکر 58 ہزار 487 پرپہنچ گئی۔سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر گئی تھی، 16سے 30نومبر تک زیر التوا مقدمات کی رپورٹ جاری کر دی گئی۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ 15 دنوں میں 674 مقدمات مزید کم ہوئے، سول 31 ہزار 458 اور فوجداری 10 ہزار 208 اپیلیں زیر التوا ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں 18 از خود نوٹسز زیر التوا ہیں، 2209سول نظرثانی درخواستیں جبکہ ایچ آر سیل کی136 درخواستیں اور 3 ہزار 251 جیل پیٹیشنز بھی زیر التوا ہیں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96193

خیبرپختونخوا کابینہ کا اجلاس، ڈی چوک واقعے کے شہداء کے اہل خانہ کے لیے معاوضہ پیکج کی منظوری، شہید کے اہل خانہ کو 10 ملین روپے اور شدید زخمی ہونے والے افراد کو 1 ملین روپے فراہم کیے جائیں گے

Posted on

خیبرپختونخوا کابینہ کا اجلاس، ڈی چوک واقعے کے شہداء کے اہل خانہ کے لیے معاوضہ پیکج کی منظوری، شہید کے اہل خانہ کو 10 ملین روپے اور شدید زخمی ہونے والے افراد کو 1 ملین روپے فراہم کیے جائیں گے

 

پشاور ( نمائندہ چترال ٹائمز ) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا 18واں اجلاس پیر کے روز منعقد ہوا، جس میں ضلع کرم کی صورتحال پر غور کیا گیا اور علاقے میں پائیدار امن اور استحکام کی بحالی کے لیے ایک جامع ایکشن پلان کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں صوبائی کابینہ کے اراکین، چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز اور متعلقہ انتظامی سیکرٹریز نے شرکت کی۔ اجلاس کو کرم میں موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی گئی، جہاں حالیہ افسوسناک واقعات میں 133 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور 177 افراد زخمی ہوئے۔ پلان کے تحت صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دیا ہے، جس میں مقامی معززین شامل ہیں۔ یہ جرگہ علاقے میں اس وقت تک موجود رہے گا جب تک امن مکمل طور پر بحال نہیں ہو جاتا۔ حکومت نے کمیونٹی کے کردار کو اہم قرار دیا اور مقامی عمائدین سے اپیل کی کہ وہ فرقہ وارانہ نفرت اور انتشار پھیلانے والے عناصر کی نشاندہی میں تعاون کریں۔

 

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ حکومت علاقے میں ہم آہنگی کی بحالی کے لیے اپنے پر عزم ہے، مقامی کمیونٹیز کو ان تفرقہ انگیز عناصر کے خلاف متحد رہنا ہوگا جو ہمارے امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔صوبائی کابینہ نے نفرت پھیلا کر تشدد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینے اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ ایسے عناصر کو قانون کے تحت شیڈول IV میں شامل کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ علاقے میں موجود بنکرز کو ختم کرنے اور مقامی افراد کے پاس موجود بھاری ہتھیار جمع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ امن و امان کے قیام کے لیے کرم ہائی وے سمیت اہم مقامات پر 65 چیک پوسٹس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح وفاقی حکومت سے ایف سی پلاٹونز کی تعیناتی کے لیے باضابطہ درخواست بھی کی گئی ہے۔ کابینہ نے کرم میں تشدد سے متاثرہ افراد کے لیے جامع امدادی پیکج کی بھی منظوری دی۔ شہداء کے اہل خانہ اور زخمیوں کو مالی معاونت فراہم کی جائے گی جبکہ نقصان زدہ جائیدادوں کا معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ نقصان کے تخمینے کے لیے سروے جاری ہے اور اس مقصد کے لیے 380 ملین روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ کابینہ نے ضرورت کے تحت مزید فنڈز فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ حکومت نے گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں کو منتقل ہونے والے خاندانوں کی فوری اور باعزت واپسی کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کیں۔ کرم میں ضروری ادویات کی شدید قلت کے پیش نظر کابینہ نے فوری طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ادویات کی فراہمی کی ہدایت کی۔ کابینہ نے ایک اعلیٰ سطحی مانیٹرنگ کمیٹی بھی تشکیل دی، جس میں صوبائی وزیر قانون، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات اور متعلقہ پارلیمنٹیرین شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی ایکشن پلان کے نفاذ کی نگرانی کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مالی امداد سے لے کر امن قائم کرنے کی کوششوں تک تمام اقدامات مؤثر اور شفاف طریقے سے انجام پائیں۔

 

 

مزید برآں، کابینہ نے ضم شدہ اضلاع، جنوبی اضلاع اور ملاکنڈ میں سول انتظامیہ، سی ٹی ڈی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بُلٹ پروف اور بم پروف گاڑیاں اور دیگر ضروری سازوسامان فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ پرتشدد واقعات کی روک تھام میں موثر کردار ادا کر سکیں۔ اسی طرح کابینہ نے 26 نومبر کو ڈی چوک واقعے کے شہداء کے اہل خانہ کے لیے معاوضہ پیکج کی منظوری بھی دی ہے، جس کے تحت ہر شہید کے اہل خانہ کو 10 ملین روپے اور شدید زخمی ہونے والے افراد کو 1 ملین روپے فراہم کیے جائیں گے۔اسی طرح، دہشت گردی کے واقعات کے دوران شہید ہونے والے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی اہلکاروں کے اہل خانہ کے لئے مجموعی طور پر 187.00 ملین روپے کا پیکج منظور کیا گیا ہے۔

 

 

کابینہ نے پشاور ہائی کورٹ کے لیے 10 ججز کی نئی آسامیاں تخلیق کرنے کی بھی منظوری دی۔ صدر پاکستان نے ہائی کورٹ کے ججز کی تعداد 20 سے بڑھا کر 30 کر دی ہے، جس کے تحت پشاور ہائی کورٹ کے لئے یہ درخواست کی گئی تھی۔مزید برآں، کابینہ نے خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن کی سالانہ رپورٹ 2023 کی منظوری دی اور اقلیتوں کے کوٹے کے تحت بھرتیوں کے معیار میں نرمی کے لیے حکمت عملی بنانے کی منظوری دی۔ وزیراعلیٰ نے کمیشن کی کارکردگی کو سراہا اور محکمہ خزانہ کو مالی ضروریات فوری حل کرنے کی ہدایت کی۔کابینہ نے مالی سال 2022-23 کے لیے خیبرپختونخوا ریونیو اتھارٹی کی سالانہ رپورٹ کو اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دی۔

 

کابینہ نے انفارمیشن کمشنرز (سوشل اور جوڈیشل) کی تعیناتی کی منظوری دی، جو خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کے تحت کام کریں گے۔اجلاس میں جیلوں میں سیکیورٹی آلات، جیمرز، کمیونیکیشن سسٹم اور سی سی ٹی وی کیمروں کی خریداری اور تنصیب کے لیے اضافی فنڈز کی منظوری دی گئی۔ جیل کی لکڑی کی صنعتوں کو ”منظور شدہ ادارہ” کا درجہ دیا گیا تاکہ وہ سرکاری اداروں کو براہ راست فرنیچر اور لکڑی کی مصنوعات فروخت کر سکیں۔کابینہ نے ضلع مہمند کے 106 خاصہ داروں کو خیبرپختونخوا پولیس میں ضم کرنے کی منظوری دی۔کابینہ نے سال 2024-25 کے لیے خیبرپختونخوا شوگرکین اینڈ شوگر بیٹ کنٹرول بورڈ کی تشکیل اور ایبٹ آباد اور کوہاٹ کے واٹر اینڈ سینیٹیشن سروسز کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ناموں کی منظوری دی۔مزید برآں، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس ایکٹ 2022 کے تحت 1% رعایت دینے، خیبرپختونخوا بایوسفئیر ریزرو اور کنزرویسی رولز 2022 میں ترامیم، اور خیبرپختونخوا ریورز پروٹیکشن آرڈیننس 2002 کے سیکشن 13 کے تحت جرائم کی سماعت کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کو اختیارات دینے کی بھی منظوری دی گئی۔

 

 

کابینہ نے خیبرپختونخوا ہاؤسنگ اتھارٹی کے لیے سال 2024-25 کے بجٹ تخمینے اور 2023-24 کے نظرثانی شدہ بجٹ تخمینے کی منظوری دی۔کابینہ نے جاری پاک-پی ڈبلیو ڈی کے منصوبے صوبائی حکومت کے دائرہ احتیار میں لانے اربن ایریا ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہری پور کے لیے گرانٹ، اور فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے لیے مالی سال کے دوران گرانٹ میں اضافے کی منظوری دی۔مزید برآں، کابینہ نے متحدہ علماء بورڈ کے اراکین کے لیے اعزازیے، اور لینگ لینڈ اسکول اینڈ کالج چترال کے لیے گرانٹ کی منظوری دی۔صوبائی کابینہ نے خصوصی تعلیم کے اداروں میں زیر تعلیم خصوصی طلباء کی آمد و رفت کے لیے گاڑیوں کی خریداری پر عائد پابندی میں نرمی کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ نے خیبرپختونخوا کے دو ہیلی کاپٹرز کے آپریشن اور دیکھ بھال کے لیے پاک فضائیہ کے ساتھ مزید تین سال کا معاہدہ کرنے کی منظوری بھی دی ہے۔

 

مزید برآں، کابینہ نے غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے لیے ٹرانزٹ پوائنٹ کو بند کرنے کی منظوری دی۔ کابینہ نے پاسکو کی درآمد کردہ گندم کے لیبارٹری ٹیسٹ کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی تکنیکی کمیٹی تشکیل دی ہے اور اس ناقص معیار کی گندم کی خریداری کے معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ بینک آف خیبر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مناسب نمائندگی کے لیے کابینہ نے بینک آف خیبر ایکٹ 1991 میں ترامیم کی منظوری دی گئی ہے۔ کابینہ نے سابق معاون خصوصی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا، آنجہانی سردار سورن سنگھ کے قانونی ورثاء کے لیے خصوصی معاوضے کی منظوری بھی دی۔ جبکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت ایک اسکیم کو بحال کرتے ہوئے 70 پرائمری اسکولوں کو مڈل سطح پر اپ گریڈ کرنے کی منظوری دی۔ کابینہ نے ڈی آئی خان میں 1984 کنال اراضی محکمہ تعمیرات سے محکمہ سیاحت کو منتقل کرنے اور تحصیل پہاڑ پور، گاؤں ٹھٹھہ بلوچاں میں غیر ADP اسکیم کے تحت ایم سی ایچ سینٹر کے قیام کی منظوری بھی دی ہے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96191

پاکستان پوسٹ کی جدت اپناکر حکومت کو سال میں 5 ارب روپے کماکر دینے کی یقین دہانی

پاکستان پوسٹ کی جدت اپناکر حکومت کو سال میں 5 ارب روپے کماکر دینے کی یقین دہانی

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپوٹ)پاکستان پوسٹ نے ادارے میں جدت لاکر حکومت کو اس سال 5 ارب کماکر دینے کی یقین دہانی کرادی جبکہ ارکان اسمبلی نے ادارے کو غیر ضروری قرار دیکر ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔چیئرمین اعجاز جاکھرانی کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس ہوا جس میں وزارت مواصلات کے ذیلی اداروں کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔پارلیمانی سیکرٹری برائے مواصلات گل اصغر نے قائمہ کمیٹی کو پاکستان پوسٹ سے متعلق بریفنگ میں بتایا کہ پوسٹ آفس میں 5 ہزار آسامیاں خالی تھیں اور جو بھی وزیر آتا وہ خالی اسامیوں پر اپنوں کو نوازتا تھا، وفاقی وزیر مواصلات نے تمام غیر ضروری تمام اسامیوں کو ختم کردیا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ پوسٹ آفس کا ڈیجیٹائزیشن اور بزنس پلان ای سی سی کو بھجوا دیا ہے جس کی منظوری کے بعد پوسٹ آفس میں جدت لانے پر کام شروع ہو جائے گا، پوسٹ آفس کی کمرشل پراپرٹیز کو لیز پر دیا جائے گا، اس سال وفاقی حکومت کو پانچ ارب کما کر دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت پوسٹ آفس سالانہ خرچہ 28 ارب روپے ہے، خرچہ پورا کرنے کے بعد وفاقی حکومت کو پانچ ارب روپے کا منافع دیں گے، پوسٹ آفس کی تمام تر ٹرانزیکشن ڈیجیٹل کرنے جارہے ہیں۔کمیٹی ممبر جمال شاہ کاکڑ نے کہا کہ آج کل کے اس ڈیجیٹل دور میں پوسٹ آفس جیسے ادارے کی ضرورت ہی نہیں اسے ختم کردینا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے رکن مصطفیٰ کمال نے کہا کہ خراب معاشی حالات میں پاکستان پوسٹ سفید ہاتھی بن چکا ہے۔مصطفیٰ کمال نے سوال کیا کہ ترقی پذیر ممالک میں پوسٹ آفس کی کیا صورتحال ہے؟۔

 

وزارت مواصلات حکام نے کہا کہ ایران، بنگلادیش، بھارت ہر جگہ پوسٹ آفس پبلک سیکٹر کی ڈومین میں ہوتا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ پاکستان پوسٹ کو حکومتی ملکیت میں چلانا ہے یا اسے پرائیویٹ کرنا ہے؟ انہوں نے آئندہ اجلاس میں متعلقہ حکام سے پاکستان پوسٹ پر تفصیلی بریفنگ طلب کر لی۔اجلاس میں انسپکٹر جنرل موٹر وے پولیس نے بریفنگ میں بتایا کہ موٹروے پولیس ٹریفک لائسنس جاری کرتی ہے، پاکستان کا جاری کردہ ٹریفک لائسنس 132 ممالک میں قابل قبول ہے، ایکسل لوڈ پر گزشتہ ایک سال میں 4 ارب سے زائد کے جرمانے کئے گئے۔اجلاس میں شریک رکن قومی اسمبلی سید مصطفیٰ کمال نے لیاری ایکسپریس وے پر ناردرن بائی پاس کو موٹروے پولیس کے زیر انتظام کرنے کی تجویز دی۔

 

 

وزیراعظم کل سعودی عرب کے دو روزہ دورے پر روانہ ہوں گے

اسلام آ باد(سی ایم لنکس)وزیر اعظم شہباز شریف سعودی عرب کے دو روزہ دورے کے لیے کل اسلام آباد سے روانہ ہوں گے، وہ سعودی کراؤن پرنس کی دعوت پر یہ دورہ کریں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف سعودی ولی محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے، وزیر اعظم کی ولی عہد سے یہ تقریباً چھ ہفتوں میں تیسری ملاقات ہوگی، وزیراعظم کی سعودی ولی سے ملاقات اہمیت کی حامل ہوگی، خطے کی بدلتی صورتحال، ٹرمپ کا برسر اقتدار آنا سمیت دیگر اہم امور ملاقات میں زیر غور آئیں گے۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم ریاض میں منعقدہ ہونے والی واٹر سمٹ میں بھی شرکت کریں گے، وزیر اعظم ”یواین سی سی ڈی“ کی کانفرنس آف دی پارٹیز اجلاس میں شرکت کریں گے، یہ کانفرنس زمین کی بحالی کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم ہے اور اقوام متحدہ کے تین بڑے معاہدوں (ریو کنونشنز) میں شامل ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف اس دورے کے دوران اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور دیگر عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96196

لواری ٹنل اور اطراف میں بارش و برفباری کا سلسلہ جاری،  ٹریفک جاری

لواری ٹنل اور اطراف میں بارش و برفباری کا سلسلہ جاری،  ٹریفک جاری

لوئیر چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال شہر سمیت مختلف مقامات پر وقفے وقفے سے بارش جبکہ پہاڑوں اور بالائی علاقوں میں برفباری جاری ہے، مدک لشٹ ، کھوت، شندور پاس ، بروغل ، گوبور ودیگر مقامات پر دو سے پانچ انچ تک برفباری ہوئی، اسی طرح لواری ٹنل اپروچ روڈ پر بھی برفباری جاری ، تاہم ٹنل سے ٹریفک کا سلسلہ جاری ہے، ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محسن اقبال کی ہدایات پر اسسٹنٹ کمشنر دروش ڈاکٹر محمد علی لواری کے مقام پر آج موجود رہے اور روڈ پہ جاری سنو کلئیرنس اپریشن کا جائزہ لیا۔ اور متعلقہ اداروں کے ذمہ داران کو مشینری دن رات فنکشنل رکھنے کی ہدایت کی۔
اسسٹنٹ کمشنر نے ڈیوٹی پہ موجود اہلکاروں سے ملاقات کی ۔سخت موسمی حالات میں ڈیوٹی سرانجام دینے اور عوام کی خدمت کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔

اسسٹنٹ کمشنر نے ٹریفک اہلکاروں اور سی پی پہ موجود اہلکاروں کو ہدایات کی کہ سنو چین کے علاوہ کسی بھی گاڑی کو اگے جانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جاۓ ۔ساتھ میں یہ بھی ہدایات کی کہ مسافروں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون اور احتیاطی تدابیر پہ عمل درامد یقینی بنایا جاۓ۔

 

دریں اثنا ڈرائیورز حضرات سے گزارش کی گئی ہے کہ ممکنہ پھسلن اور حادثات سے بچنے کیلۓ سنو چین کا استعمال یقینی بنائیں۔ موسم اور رسائی سڑکوں سے متعلق مکمل معلومات حاصل کر کے سفرکریں۔ خصوصاً صبح اور رات کے اوقات میں سفر کرنے سے گریز کریں۔ سفر کے دوران اپنے پاس گرم کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء ضرور رکھیں تا کہ بوقت ضرورت کام آئے۔

 

 

chitraltimes snow clearence lowari tunnel approach road 3 chitraltimes snow clearence lowari tunnel approach road 4 chitraltimes snow clearence lowari tunnel approach road 1

 

chitraltimes snow clearence lowari tunnel approach road 21

 

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
96180

 گرینڈ جرگے کے ذریعے کرم کے معاملے کا پر امن اور پائیدارحل نکل آئے گا۔ وزیراعلیٰ 

Posted on

 گرینڈ جرگے کے ذریعے کرم کے معاملے کا پر امن اور پائیدارحل نکل آئے گا۔ وزیراعلیٰ

 

پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور سے گزشتہ روز کرم کے معاملے پر قائم گرینڈ جرگے کے ممبران نے وزیر اعلیٰ ہاو س میں ملاقات کی جس میں کرم کے مسئلے کے حل کےلئے باضابطہ مذاکرات کے آغاز اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف بھی اس موقع پر موجود تھے۔جرگہ اراکین میں سابق وفاقی وزیر پیر نورالحق قادری، سابق سینیٹر صالح شاہ، سابق سینیٹر سجاد خان، سابق وفاقی وزیر جی جی گلاب جمال، سابق گورنر خیبر پختونخوا انجینئر شوکت اللہ، سینیٹر عبدالرزاق اور دیگر شامل تھے۔جرگہ اراکین نے معاملے کو پرامن انداز میں حل کرنے کےلئے ہر ممکن کوششیں کرنے اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت کو ہر مکمل تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور جرگہ اراکینِ  نے کرم کے مسئلے کو جرگے کے ذریعے پر امن طریقے سے حل کرنے کےلئے وزیر اعلیٰ کی کوششوں کو سراہا۔ گرینڈ جرگہ اگلے چند دنوں میں کرم کا دورہ کرکے فریقین کے ساتھ بات چیت شروع کرے گا۔ وزیر اعلیٰ نے کرم معاملے کے حل کےلئے صوبائی حکومت کو اپنا تعاون فراہم کرنے پر جرگہ اراکین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ صوبائی حکومت جرگہ اراکین کو علاقے میں جا کر مذاکرات کرنے کےلئے درکار تمام سہولیات اور سپورٹ فراہم کرے گی، امید ہے گرینڈ جرگے کے ذریعے کرم کے معاملے کا پر امن اور پائیدارحل نکل آئے گا۔

 

 

 

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپورکا ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس موبائل وین اور چیک پوسٹ پر فائرنگ کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت

پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس موبائل وین اور چیک پوسٹ پر فائرنگ کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور فائرنگ سے اسسٹنٹ سب انسپکٹر میر غلام کی شہادت پر ان کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ یہاں سے جاری اپنے ایک پیغام میں وزیر اعلیٰ نے شہید کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے شہید کے درجات کی بلندی اور پسماندگان کے لئے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔ علی امین گنڈاپور نے زخمی پولیس اہلکاروں کی جلدصحتیابی کیلئے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو زخمیوں کو بہترین طبی امداد کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے پولیس کے اعلیٰ حکام کو فائرنگ کے واقعات میں ملوث عناصر کی فوری گرفتاری کے لئے کاروائی عمل میں لانے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے جانیں قربان کرنے والے پولیس اہلکاروں کو سلام پیش کرتے ہیں اور انکی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ دریں اثناء، وزیر اعلیٰ نے بنوں کے علاقے جانی خیل سین تنگہ میں مارٹر گولہ کو کھلونا سمجھ کر کھیلتے ہوئے تین بچوں کی شہادت پر بھی انکے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کااظہارکیا ہے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں
96176

سیکولریورپی تہذیب کا ایک اور بیمار تحفہ – ایڈز(AIDS)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیکولریورپی تہذیب کا ایک اور بیمار تحفہ – ایڈز(AIDS)
World AIDS Day
(یکم دسمبر ایڈزکے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

 

ایڈز ایک متعدی مرض ہے جوانسان کے مدافعاتی نظام کو بری طرح پامال کردیتا ہے اورانسانی جسم میں بیماریوں کے جنگ لڑنے کی صلاحیت جس کے باعث انسان اس دنیامیں زندہ رہتاہے،ایڈزاس صلاحیت کو رفتہ رفتہ بالکل ختم کردیتی ہے۔ایڈزکی بہت بڑی وجہ کثرت زناہے۔ایک حدیث نبوی ﷺ کے مفہوم کے مطابق ”جب زناعام ہوجائے گا تو ایسی بیماریاں جنم لیں گی جن کاعلاج نہیں ہوگا“۔ایک اور حدیث مبارکہ میں آپﷺ نے ارشادفرمایاجس کامفہوم ہے ”جب کسی قوم میں عریانی اورفحاشی کارواج بڑھتاہے یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کرنے لگتے ہیں توایسے لوگوں کے درمیان طاعون اوراس جیسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جوان کے اسلاف کے زمانے میں نہیں تھیں“۔پس سیکولرمغربی تہذیب کے غلبے کے بعدسے ایک سے ایک نت نئی بیماریوں نے قبیلہ بنی نوع انسان کے گھرکو تاک لیاہے اور سرتوڑ کوششوں کے بعد ایک بیماری کاعلاج ابھی دریافت ہونے پاتاہے تو دوسری جان لیوابیماریاں سر اٹھالیتی ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کم وبیش سواچارکروڑ افراداس موذی مرض کے جراثیموں کاشکارہیں جن کی بہت بڑی تعدادامریکہ اور یورپ کے علاقوں سےتعلق رکھتی ہے جودنیامیں ”ترقی یافتہ“ممالک کہلاتے ہیں یاپھردوسرے نمبر پر ان ممالک میں یہ مرض زیادہ پایاجاتاہےجہاں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ”سیروتفریح“کے لیے جاتے ہیں،

 

وجہ صاف ظاہر ہے۔1981میں سب سے پہلے یہ مرض دریافت ہوااوراس مرض کے حامل امریکہ اور کیلیفورنیاکے ہم جنس پرست لوگ تھے،خاص طور پر مرد ہم جنس پرست افراد بری طرح سے اس مرض میں گرفتار ہیں اور اس کے پھیلنے کا سبب بھی بن رہے ہیں جب کہ ہم جنس پرست عورتوںمیں یہ شرح نسبتاََ کم ہے۔دنیاکے دوسرے حصوں میں جنس مخالف کے ساتھ ناجائزتعلقات بھی اس مرض کا سبب ہیں۔ایڈزکےمریض یامریضہ کے ساتھ جوبھی لطف اندوز ہوتاہے وہ اس مرض کا لازمی شکار ہوجاتاہے۔محسن انسانیت ﷺ کا قول کس قدر درست اور سچاہے کہ طبی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ایڈززدہ افراد کے ساتھ صرف جنسی تعامل سے ہی یہ مرض پھیلتاہے،محض ہاتھ ملانے سے،گلے ملنے سے،ایک ہی برتن یاتولیہ استعمال کرنے سے یاایک ہی بیت الخلا کےاستعمال سے یہ مرض کسی دوسرے کو لاحق نہیں ہوتایالاحق ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

 

ایڈز کے جرثوموں (HIV)کی آمدکہاں سے ہوئی؟؟یہ ایک بہت بڑاسوال تھا جوطبی ماہرین کے لیے ایک ناقابل حل معمہ بن چکاتھا۔بہت تحقیق و جستجو کے بعد اور بہت زیادہ انسانی و مالی وسائل کے صرف ہونے کے بعد پتہ چلا کہ اس مرض کے جراثیم دراصل افریقہ میں بن مانس کی ایک نسل کے اندر پائے جاتے ہیں اور اس نسل کے جانوروں کے ساتھ کسی انسان نے اس حد تک جنسی قربت اختیار کی کہ اس جانور سے یہ جراثیم انسان کے اندر اور پھر دیگر انسانوں میں نفوذ کرتے چلے گئے اورسالوں کے بعد1999میں اس حقیقت تک رسائی حاصل ہوئی اوران تحقیقاتی اداروں کے مطابق1940اور1950کے عرصے دوران یہ مرض اس جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا۔قرآن مجید نے سورۃ فرقان کے اندرانسان کی اس گری ہوئی خباثت پر بہت خوبصورت تبصرہ کیاہے”اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ‘ ہَوٰہُ اَ فَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا(۵۲:۳۴) اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلاَّ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا(۵۲:۴۴)“ترجمہ: ”کیا تم نے اس شخص کے حال پر غورکیاجس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدابنالیاہو؟؟کیاتم ایسے شخص کوراہ راست پر لانے کا ذمہ لےسکتے ہو؟؟کیاتم سمجھتے ہو کہ ان میں اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟؟یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے“۔

 

جس کو ایڈز کا مرض لاحق ہو جائے توپہلے مرحلے میں ابتدائی ایک سے تین ہفتوں کے دوران اسے عام سی بیماریاں لاحق ہونے کی شکایت رہتی ہے جیسے گلے کی خراش،نزلہ زکام،جلد میں خارش،بخار،سردرد،تھکاوٹ اور مسلسل بے آرامی و بے چینی وغیرہ،یہ ابتدائی شکایات بعض اوقات چار ہفتوں تک بھی جاری رہ سکتی ہیں۔اس دوران انسانی جسم ان ایڈز کے جرثوموں (HIV)کے ساتھ جنگ تو کرتاہے اور انہیں کبھی کبھی کمزور بھی کرپاتا ہے لیکن ختم نہیں کرسکتا۔ایڈزکے مریض کادوسرامرحلہ کافی طویل ہوتاہے اور بعض اوقات دس سالوں تک بھی محیط ہوجاتاہے۔اس دوسرےمرحلے میں مریض کی صحت اگرچہ بہت اچھی رہتی ہے اوردیکھنے میں وہ تندرست و توانا نظر آتاہے اور بظاہر اسےکوئی عارضہ بھی لاحق نہیں ہوتا لیکن ایڈز گھن کی طرح اسے چاٹتی رہتی ہے اور اندر ہی اندر بیماریوں سے بچاؤ کامدافعاتی نظام تباہ و برباد ہوتارہتاہے۔اس دوسرے مرحلے کی سب سے خطرناک بات یہ ہے مریض کو اپنے مرض کا پتہ ہی نہیں چلنے پاتاکہ وہ علاج کراسکے۔ایڈز کے تیسرے مرحلے کے مریض کا وزن گھٹنا شروع ہوجاہے،اسے وقفے وقفے سے
بخارآتے ہیں،پیچش لاحق رہتی ہے،گلا مسلسل شکایت کرتارہتاہے،زبان اور منہ بھی بدذائقہ رہنے لگتے ہیں اور خواتین بھی اپنی مخصوص بیماریوں میں مبتلا رہنے لگتی ہیں۔یہ تیسرامرحلہ اگرچہ جان لیوا نہیں ہوتا لیکن مریض کے لیے بہت صبرآزما ضرور ہوتاہے۔آخری مرحلے میں بعض لوگ ایڈز کے باعث کینسر جیسے موذی مرض میں بھی گرفتار ہوجاتےہیں۔ہوشربابات یہ ہے کہ بچے بھی اس مرض کا شکار ہیں کیونکہ سیکولرازم کی جنسی آزادی نے انسانوں کی اس قیمتی متاع کو بھی معاف نہیں کیااور بچوں میں یہ مرض بڑوں کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتاہے کیونکہ ان کا مدافعاتی نظام ویسے ہی ابھی کمزور ہوتاہے اور ان جرثوموں کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔خاص طور پر ایڈزکاشکانومولود بچے دوسال سے زیادہ سانس نہیں لے سکتے اور بلآخر موت کاخونخوار آسیب انہیں ہڑپ کرجاتاہے۔

 

عالمی ادارہ صحت کے حوالے سے اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائی کے وسط تک کے اعدادوشمار کے مطابق آغاز میں ساڑھے تین کروڑمرد،تین کروڑ سے زائد عورتیں اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے اس مرض کا شکار تھے،اس سال کے دوران ڈھائی کروڑ بالغ اور دوکروڑ سے کچھ زائد بچے اس مرض کا شکار ہوئے جن میں سے چارلاکھ بیس ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے اور باقیوں میں سے اکثریت زندگی سے مایوس ہو کر اپنے وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ اس بیماری کے علاج پر روزانہ خرچ کرتے ہیں۔بھارت میں اس وقت کم و بیش چالیس لاکھ لوگ اس بھیانک مرض کے جرثوموں کا شکار ہیں جبکہ چین کے اندر ایڈز کا پھیلاؤ سب سے کم ہے کیونکہ ان کی قیادت نے کثرت زناکاسبب بننےوالے انٹر نیٹ کلبوں کو بہت پہلے ریاستی قوت سے بزوربند کرادیاتھااوریوں انکی نوجوان نسل ایک بہت بڑی تباہی سے بچ گئی۔ ان حقائق سے آنکھیں کھل جانی چاہییں کہ انسانوں کی کتنی بڑی تعداد ”سیکولرازم“کی بے راہ روی سے مستعارآزادیوں کی بھینٹ چڑھتی چلی جارہی ہے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کاعمل ہنوزجاری ہے اور ایڈز کی بین الاقوامی کانفرنوں کے انعقاد کے باوجود بھی ابھی تک واپسی کا سفر شروع نہیں ہوسکا۔اقوام متحدہ کے ایڈز سے روک تھام کےادارے نے خبر دار کیاہے کہ اگر اس رفتار سے بڑھتے ہوئے اس مرض کو باگیں نہ ڈالی گئیں تو بہت جلد یہ کل انسانیت کواپنے جبڑوں میں کس لے گا۔ابھی بھی وقت ہے اختلاط مردوزن ختم کردیاجائے،مخلوط تعلیم پر پابندی لگادی جائے اورلڑکوں اورلڑکیوں کو علیحدہ علیحدہ نصاب میں تعلیم دی جائے،دفتروں،بازاروں،تفریح گاہوں،ذرائع مسافرت اورتقریبات اورمیلوں ٹھیلوں وغیرہ میں حضرات و خواتین کے آزادانہ میل جول کی بتدریج بیخ کنی کی جائے تاکہ نسل آدم اس جیسے موذی مرض سے بچ سکے۔وحی الہی پر مبنی اس تعلیم سے روگردانی کرتے ہوئے کسی بھی اور طرق تدارک سے اس مرض پر قابوپانا خام خیالی محض ہوگی اور اس سے نتیجہ معکوس ہی برآمدہوگا۔
یورپ کے ”دانشوروں“نے ایڈز سے بچاؤکے متعددطریقے تجویز کیے ہیں مثلاََ جنسی تعامل کے دوران غبارےاستعمال کیے جائیں تاکہ ایڈزکے جراثیم جہاں سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتے ہیں وہاں کے راستے بندہوں،بعض”سیکولرعقلمندوں“نے تجویز کیاکہ خواتین یامرداپنی شرمگاہوں میں وہ خاص کریم استعمال کریں جسے مخصوص اصطلاح میں ”جیلی“کہاجاتاہے جس سے جنسی اعضاء کی جلد یں ایک دوسرے کو مس نہیں کرتیں اوریوں بدکارایک دوسرے سےمحفوظ رہتے ہیں لیکن اس جیلی کے استعمال کے لیے مناسب ہے کہ وہ دوسرے کے علم میں نہ ہوکیونکہ اس سے شائدلذتوں کی تکمیل نہیں ہوپاتی یہ اور اس طرح کے کئی اخلاق باختہ طریقے جو متعددذرائع ومتراجعات ومصادرپر اس مضمون کی تیاری کے دوران پڑھے گئے اس قابل نہیں ہیں اس تحریر کا حصہ بناکرسنجیدہ طبقے کے سامنے لائے جاسکیں۔اس بیماری کی تحقیق و علاج پر خرچ ہونے والے اخراجات کا تو تخمینہ ہی آسمان سے باتیں کررہاہےبلینزاورٹریلینزکی رقومات ہیں جو دنیاکی بہترین کرنسیوں میں اداکی جاتی ہیں تاکہ اس بیماری سے بچاؤ کی کوئی
موثرتدابیروادویات تیار کی جا سکیں لیکن تادم تحریر کوئی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔

 

مغربی سیکولردنیاکی مصنوعی چکاچوندکے کچھ ذہنی غلام مشرقی دنیاؤں میں بھی پائے جاتے ہیں،ایسے لوگوں نے بھی اپنے اپنے ممالک میں کچھ غیرسرکاری ونجی تنظیمیں بنارکھی ہیں اوراس بیماری سے آگاہی کی بابت وقتاََ فوقتاََ ان کی سرگرمیاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔یہ ایک خاص طبقہ ہے جو عریانی و فحاشی پھیلانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔اس بیماری جومحدودومحیود تفصیلات ان صفحات میں درج کی گئی ہیں وہ صرف بڑی عمرکے افراد کے لیے ہی عبرت کاسامان بن سکتی ہیں،بچوں میں یا اوائل عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی تفصیلات ان کی اخلاق باختگی کابالواسطہ سبب بن جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ایسے میں عوام کے اندرمخلوط مجالس میں براہ راست اس طرح کے حساس موضوعات پر گفتگوکرنااور پھراسے نصاب کاحصہ بنانے کامطالبہ کرنااور اس سے متعلق شرمناک مواددیکھنے اور پڑھنےکے لیے مفت تقسیم کرنا یہ ایسے عوامل ہیں جنہیں کوئی باحیامعاشرہ برداشت نہیں کرسکتا۔ایسے لوگوں پر قرآن مجید نےبلالحاظ یوں تبصرہ کیاہے کہ ”اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃَ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۴۲:۹۱)“ترجمہ:”جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیاورآخرت میں دردناک سزاکے مستحق ہیں،اللہ تعالی جانتاہے تم نہیں جانتے“۔اگریہ لوگ معاشرے کے اتنے ہی خیرخواہ ہیں تو اس مرض سے کہیں زیادہ کرب ناک واندوہناک معاملات ہیں جوہماری امت کو تباہی کے دہانے کی طرف ہانک رہے ہیں توکیاان کی طرف سے چشم پوشی کرنا مجرمانہ غفلت نہیں ہے۔ تف ہے ان یوررپ کے ”اہل دانش“پرکہ درخت کو اکھاڑنے کے لیے اسکی جڑ پر وار نہیں کرتے اور صرف پتےاور شاخیں ہی کاٹ کر سمجھتے ہیں کہ یہ بیماری ختم ہوجائے گی جبکہ وہ درخت پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیلنے لگتاہے۔قرآن مجید نے واضع طورپر انسانیت کو ”حکم“دیاہے کہ”وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّہ‘ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۷۱:۲۳(ترجمہ:”اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکووہ بہت برافعل ہے اوربڑاہی براراستہ“اور پھر یہ بھی کہ دیا کہ زمانے کی قسم کل انسان نقصان میں ہیں اور اس نقصان سے صرف وہی بچ سکتے ہیں جوایمان لائے ہوں نیک عمل کرتے ہوں اور حق و صبرکی تاکید و تلقین کرتے ہوں۔جب تک آزادی نسواں کے نام پر آزادی زناکا خاتمہ نہیں کیا جاتا،جب تک کمرشل ازم کے نام پراشتہارات میں خواتین کی نمائش پر پابندی نہیں لگائی جاتی،جب تک سیکولرازم کے نام پر ذہنی و فکری آوارگی کو پابندوحی الہی نہیں کیاجاتااور جب تک انبیاء علیھم السلام کے عطاکردہ خطوط پر خاندانی نظام دوبارہ استوار نہیں کیا جاتا اس وقت تک کسی طرح کا بھی اخلاق و قانون انسانوں کو اس جنجال اور اس بھنور سے باہر نہیں نکال سکتا۔عقل و خرد کے اس تجربے میں یورپ بہت تیزی سے مانی ازم کی طرف بڑھ رہاہے لیکن انسانیت کی فوزوفلاح و کامیابی و کامرانی اسی میں ہے کہ وہ خطبہ حجۃ الواداع کی ٹھنڈی چھاؤں میں آجائے کہ اس کے علاوہ سب راستے دنیاوآخرت کی آگ کی طرف دھکیلنے والے ہیں۔

[email protected]

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96173

حکایتِ عالمِ گمشدہ ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

حکایتِ عالمِ گمشدہ ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

تصویر کے ایک ایک گوشے سے گمشدگی اور ویرانی کی مہک آتی ہے۔ ایک سنسان کمرہ، جس کی دیواریں زخم خوردہ اور چھت وقت کی مار سے جھلسی ہوئی، ایک ایسی دنیا کی کہانی بیان کرتی ہے جو کبھی آباد تھی، لیکن اب فنا کی گہرائیوں میں ڈوب چکی ہے۔ یہ منظر ایک طرف انسانی بے بسی کو عیاں کرتا ہے تو دوسری جانب وقت اور فطرت کی بے رحمی کو نمایاں کرتا ہے۔ کھڑکی کے باہر نظر آتی سبزہ زار زمین کے برعکس یہ کمرہ موت اور زندگی کے درمیان ایک تضاد کی تصویر پیش کرتا ہے، جو دیکھنے والے کو حیرت اور تفکر میں ڈال دیتا ہے۔

 

 

nandiniyuu

 

تصویر کے مرکزی حصے میں ایک شخص خاموشی سے بیٹھا ہوا ہے، جو چہرے پر ماسک پہنے کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے۔ یہ منظر خود میں ایک کہانی چھپائے ہوئے ہے، جس کا ہر پہلو انسانی جذبات، علم کی جستجو اور تنہائی کو اجاگر کرتا ہے۔ ماسک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ جگہ کسی خطرناک ماحول کا حصہ ہو سکتی ہے، یا پھر یہ کسی بیماری، آلودگی، یا تباہی کے بعد کا منظر ہے۔ لیکن کتاب کا وجود اس خاموشی میں زندگی کی ایک امید کا چراغ روشن کیے ہوئے ہے۔ علم اور شعور کے ذریعے شاید یہ شخص اس ویران ماحول میں بقا کی تلاش میں ہے یا پھر ماضی کے نشانات اور انسانی غلطیوں کا مطالعہ کر رہا ہے۔

 

یہ کمرہ اپنی حالت سے وقت کی بے مروتی کا گواہ ہے۔ دیواروں پر رنگ اُکھڑ چکا ہے، اور جگہ جگہ داغ دھبے اور نمی کی نشانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ جگہ مدتوں سے کسی نے آباد نہیں کی۔ لکڑی کی پرانی درازیں اور خستہ الماریاں اس بات کی علامت ہیں کہ یہ جگہ کسی زمانے میں کسی کے لیے نہایت اہم رہی ہو گی، لیکن اب یہاں صرف تنہائی کا راج ہے۔ اس کمرے کی خاموشی چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ جو چیز آج اہم ہے، وہ کل غیر ضروری ہو سکتی ہے۔

 

یہ منظر ایک گہری داستان کو بیان کرتا ہے: ویرانی اور زندگی کے درمیان کی کہانی۔ ماسک پہنے شخص کا وجود اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کسی نہ کسی صورت آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہوں۔ وہ کتاب جو اس کے ہاتھ میں ہے، انسان کی علم کی طلب اور تجسس کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو بقا کی جانب لے جا سکتا ہے، اور شاید یہی وہ امید ہے جو اس ویرانی میں بھی نظر آ رہی ہے۔

لیکن تصویر کا ایک اور پہلو ماحولیاتی تباہی کا پیغام ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ اگر انسان اپنی دنیا اور ماحول کا خیال نہ رکھے، تو وہ دن دور نہیں جب ہم سب کو ایسی ویرانی کا سامنا کرنا پڑے۔ کمرے کے اندر کی تباہی اور کھڑکی سے جھانکتی ہریالی کے درمیان جو فرق ہے، وہ ہماری لاپرواہی اور فطرت کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ یہ تصویر ایک خاموش انتباہ ہے کہ زمین کے وسائل محدود ہیں، اور ان کا بے دریغ استعمال ہمیں ایسے انجام کی طرف لے جا سکتا ہے جہاں ہمارے پاس صرف تباہی کے آثار رہ جائیں گے۔

 

اس تصویر میں انسانی تنہائی کو بھی خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ وہ شخص جو تنہا بیٹھا ہے، اس کے آس پاس کے ماحول سے بے خبر لگتا ہے۔ یہ تنہائی اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔ یہ تنہائی نہ صرف جسمانی ہے بلکہ روحانی بھی۔ شاید وہ کتاب میں ماضی کی کہانیاں پڑھ رہا ہے، یا شاید وہ مستقبل کی تلاش میں ہے۔ لیکن یہ منظر واضح کرتا ہے کہ علم اور تجسس ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو آگے بڑھنے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

 

تصویر کا ہر عنصر ایک داستان بیان کرتا ہے۔ خستہ حال دیواریں، جھلسی ہوئی چھت، اور بوسیدہ فرنیچر، سب انسان کی عارضی حیثیت اور فطرت کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ کھڑکی کے باہر موجود سبزہ اس بات کا پیغام دیتا ہے کہ زندگی کہیں نہ کہیں جاری رہتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس سب کے باوجود، یہ تصویر انسانیت کے زوال، امید، اور علم کی اہمیت کا ایک جامع مظہر ہے۔

 

آخر میں، یہ تصویر ہمیں خود سے ایک سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے: ہم اپنی دنیا کو کس طرف لے جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنی زمین کو بچا سکتے ہیں، یا ہم بھی ایسے ہی کسی ویران کمرے میں اپنے ماضی کی کہانیاں پڑھتے رہ جائیں گے؟ ماسک پہنے اس شخص کی مانند، ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ علم، عمل اور شعور کے ذریعے ہم اپنی دنیا کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ تصویر ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہماری ہی حقیقت دکھاتی ہے، اور ایک تنبیہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی، تو یہ ویرانی ہمارا مستقبل بن سکتی ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96170

کتابوں کی اشاعت، ایک فنی عمل ۔ خاطرات : امیرجان حقانی 

Posted on

کتابوں کی اشاعت، ایک فنی عمل ۔ خاطرات : امیرجان حقانی

کتابوں کی اشاعت ایک ایسا بہترین عمل ہے جو نہ صرف لکھاری کے خیالات کو دوام بخشتا ہے بلکہ اس کی محنت اور علم کو محفوظ کر کے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ تاہم، یہ ایک سادہ عمل نہیں بلکہ ایک فن اور بڑی ذمہ داری ہے۔ ہر لکھاری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ فوراً اپنی تحریروں کو کتابی شکل دے۔ تحریروں کو کتابی شکل دینا  ایک سنجیدہ اور منظم منصوبہ بندی کا تقاضا کرتی ہے، جو وقت، محنت، اور وسائل کے ساتھ ساتھ درست موقع اور ترتیب کا بھی محتاج ہے۔

 

میری ذاتی زندگی میں کئی ایسے لمحات آئے ہیں جب قریبی دوستوں اور ساتھیوں نے اپنی مخلصانہ آراء پیش کیں اور مشورہ دیا کہ میں اپنی تمام تحریروں کو کتابی صورت میں شائع کروں۔ کمپوزنگ کی شکل میں موجود مواد کا جائزہ لوں تو کم از کم پانچ چھ کتابیں آج ہی پبلش ہونگی۔ آج ہی میرے ایم فل کے کلاس فیلو اور پاکستان آرمی کے خطیب، برادم محترم مولانا حسین احمد تشریف لائے تھے۔ وہ پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ انہوں نے میرا ایم فل کا مقالہ نہایت توجہ سے دیکھا اور فوراً مشورہ دیا کہ اسے کتابی شکل میں شائع کر کے گلگت بلتستان اسمبلی سمیت تمام اہم اداروں تک پہنچایا جائے تاکہ یہ علمی تحقیق معاشرے کے وسیع تر حلقوں تک رسائی حاصل کرے۔ اور گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے اسمبلی سمیت دیگر اداروں کے کام آئے۔

 

اسی طرح، مختلف اہل قلم، پروفیسرز اور علمی دوستوں نے بھی مجھے اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ترغیب دی ہے۔ یہ مشورے میرے لیے نہ صرف حوصلہ افزا ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ میری تحریروں میں کچھ ایسا ہے جو قارئین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ قارئین کی آراء اور ان کے مشوروں سے مجھے مزید تقویت ملتی ہے اور میں از سرنو اپنے کام اور تحریروں میں اور فکر و خیال میں بہتری لانے اور مزید امپرو کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے مسلسل لکھنے کا ایک سبب میرے قارئین بھی ہیں، جو کسی نہ کسی شکل میں مجھے لکھنے پر اکساتے ہیں۔

 

میری مستقبل کی منصوبہ بندی میں ایک خواب یہ بھی شامل ہے کہ میں ایک تحقیقی اکیڈمی قائم کروں، جو تحقیق و تالیف کے لیے مخصوص ہو۔ یہ ادارہ نہ صرف علمی کام کرے گا بلکہ تحقیقی مواد کو فوری طور پر شائع کرنے کا بندوبست بھی کرے گا۔ اس اکیڈمی کا مقصد علم کے ان ذخائر کو محفوظ کرنا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ضائع ہو جاتے ہیں۔اس کے لئے اپنی حد تک شاندار پلاننگ کی ہے۔ مشکل کے دو تین سال گزر جائیں گے تو اکیڈمی کا کام باقاعدہ شروع کیا جائے گا۔ اگر اللہ نے زندگی دی، تو یہ خواب ضرور پورا ہوگا، اور یہ اکیڈمی علمی دنیا میں ایک مثبت اضافہ ثابت ہوگی۔ اور میرے جیسے ان قلم کاروں کے لیے امید کی کرن بنے گی جو اپنی تحقیقات کو، اب تک کتابی شکل دینے سے قاصر ہیں۔

 

میرے لیے یہ بھی باعثِ اطمینان ہے کہ میری اکثر تحریریں مختلف اخبارات، ڈائجسٹوں، میگزین، ویب سائٹس، اور سوشل میڈیا پر شائع ہو چکی ہیں۔ یہ تحریریں کسی نہ کسی صورت میں محفوظ ہیں اور مستقبل میں اصحابِ تحقیق کے لیے ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ان تحریروں کو جمع کرنا اور ان میں تسلسل پیدا کر کے جامع کتابی صورت دینا ایک اہم علمی خدمت ہوگی۔

 

یہ ہم سب جانتے ہیں کہ کتاب کی اشاعت صرف لکھاری کی محنت کا اعتراف نہیں بلکہ معاشرے کی فکری اور علمی ترقی میں ایک اہم کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ قارئین کو نئے خیالات، نظریات، اور شعور کے دروازے کھولتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ کتابیں صرف کاغذ کے اوراق نہیں بلکہ علم و فکر کے چراغ ہیں، جو معاشرے کی راہوں کو روشن کرتے ہیں۔اور دلوں کو منور کرتے ہیں ۔

 

تحریروں کو شائع کرنا لکھاری کی عظمت اور قارئین کی ضرورت کا مشترکہ اظہار ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف لکھاری کو فخر دیتا ہے بلکہ اس کے الفاظ کو صدیوں تک زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم لکھنے، پڑھنے، اور اشاعت کے اس عمل کو فروغ دیں تاکہ علم و ادب کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہے۔

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96168

داد بیداد ۔ مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔ مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

 

گھر سے نکلتے وقت فاروق نے پو چھا پار ک جا نا بہتر ہو گا یا پرانا قلعہ؟ میں نے کہا ایسی جگہ بتاؤ جہاں پارک بھی ہو قلعہ بھی ہو فاروق نے کہا ایسی جگہ ٹیو ولی (Tivoli) ہے، ڈیڑھ گھنٹے کا یک طرفہ سفر ہو گا میں نے حا می بھری فاروق اپنے والدین کو لیکر ٹیوو لی کے سفر پر روا نہ ہوا جب گاڑی روم سے نیپلز جا نے والی بڑی شاہراہ پر فراٹے بھر رہی تھی فاروق نے دائیں طرف پہا ڑی پر گنجا ن اباد بستی کی طرف اشارہ کر کے کہا کیسی بستی ہے! ہم نے کہا یہاں سے تو ریحا ن کوٹ جیسی بستی لگتی ہے اور بہت دور بھی ہے یہاں سے بڑا قلعہ اور گر جا گر دکھا ئی دیتا ہے فاروق نے کہا یہی ٹیو ولی ہے روم آنے والے سیاحوں کی پسندیدہ بستی ہے گاڑی قلعے کی پا رکنگ میں پہنچی تو لطف آیا بڑا قلعہ مشہوباد شاہ ہنڈ ریان (Handrian) نے تعمیر کروایا اس نے 117سے 138عیسوی تک حکومت کی قلعے کا نا م ویلہ ہنڈریا نو (Villa Handriano) ہے، یہ 200ایکڑ رقبے پر محیط ہے دائیں طرف زیتون کا باغ ہے باغ کے اندر پا نی کے دو خوبصورت تالاب ہیں ایک عجا ئب گھر ہے، یہاں سے قلعہ کی عما رتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، حمام اور محا فظوں کے مکا نا ت ہیں، آگے جا کر محل کا اندرونی حصہ ہے ایک بڑا تھیٹر یعنی تما شا گاہ ہے دیو تا کے نا م کا معبد ہے، لیکن کوئی عما رت بھی سلا مت نہیں ہے، بعض عما رتوں کی دیواریں ہیں بعض کی صرف بنیا دیں ہیں آتش نے کیا بات کہی ہے ؎
نہ گور سکندر ہے نہ قبر دارا
مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے

 

 

chitraltimes faizi visit 2 scaled

 

1999ء میں اس جگہ کو یونیسکو (UNESCO) نے بین الاقوامی ورثہ قرار دیا اب یہ جگہ اٹلی کی وزارت ثقا فت و سیا حت کی نگرانی میں ہے یو نیسکو کے ما ہرین گر تی ہوئی دیواروں کو سہا را دینے اور قلعے کی با قیات کو محفوظ کرنے کا کام کر رہے ہیں علا مہ اقبال نے شاہین سے کہا تھا قصر سلطانی کے گنبد کو چھوڑ دو پہا ڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کر لو، یہاں آکر اقبال کا شاہین شش و پنج میں پڑ گیا ہو گا کہ سلطان نے اپنا قصر پہاڑوں کی چٹا نوں میں بنا لیا اب میں شا عر کو کیا جواب دو ں چند روز پہلے ہم نے جس آبشار کا دورہ کیا وہ اس قلعے سے یکسر مختلف تھا، وہ جدی د اٹلی اور نئے روم کا ایک شہکار تھا اس دورے میں میر پور آزاد کشمیر کے راجہ نثار اپنی فیملی کے ہمراہ ہمارے ہم سفر تھے عمر، مصطفیٰ اور ارحاء فاروق نے حیدر اور مر ضیہ نثار کی ہم رکا بی کا بھرپور لطف اٹھا یا وہ جگہ اومبریہ (Umbria) میں مار مورے (Marmore) کے مشہور آبشار کی جگہ تھی جسے دیکھنے کے لئے دور دور سے اٹلی اور بیرونی مما لک کے سیا ح آتے ہیں اور آبشار کے دلکش و دلروبا منا ظر سے لطف اندوز ہو تے ہیں یہ قدرت کے حسن اور انسا نی خلقت و محنت کا شاہکار ہے سب سے اوپر پہاڑی چوٹی ہے نیچے ہموار پٹی ہے، پھر پہاڑی چوٹی اور زمین کی ہموار پٹی آتی ہے آبشار سب سے بلند چوٹی سے شروع ہو تاہے، پھر درمیانی چوٹی پر دوسرا آبشار بنتا ہے اس کے بعد تیسری چوٹی سے آخری آبشار سڑک کی دوسری طرف سے آکر گہرے نا لے میں اس زور سے گر تا ہے کہ اس کی چھینٹیں سڑک پر بارش کی صورت میں برستی ہیں آبشار کا حسن یہ بھی ہے کہ اس کو بے مہار نہیں چھوڑا گیا بلکہ اوپر والی چوٹی میں اس کو نکیل ڈال کر مہار میونسپلٹی کے ہا تھوں میں دی گئی ہے

 

chitraltimes faizi visit 1

ہر روز دو گھنٹوں کے لئے آبشار میں پا نی آتا ہے لو گ ٹکٹ لیکر تما شا دیکھتے ہیں وقت ختم ہو تے ہی سپل ویز (Spill ways) کھو ل دیے جا تے ہیں اور پا نی پہاڑی کی دوسری طرف دریا میں جا گر تا ہے علا مہ اقبال نے خالق کا ئنا ت کے ساتھ آدم کے مکا لمے کے اندر ایسے ہی قابل انجینروں کے کارنا موں کا ذکر کر تے ہوئے کہا ہے کہ اے خدا تو نے بیابان پیدا کیا میں نے اس کو باغ میں تبدیل کیا، تونے مٹی بنائی میں اس کا پیا لہ تیار کیا، یہاں خالق کائنات کے پہاڑی چٹانوں کو آدم کی اولاد نے آبشار کاروپ دیدیا ہے دیکھنے والے بہت محظوظ ہو تے ہیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96164

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مہم پاکستان میں انتشار بدامنی، تفرقہ بازی کو فروغ دے رہی ہے، وزارت داخلہ

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مہم پاکستان میں انتشار بدامنی، تفرقہ بازی کو فروغ دے رہی ہے، وزارت داخلہ

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ) وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مہم پاکستان میں انتشار بدامنی اور تفرقہ بازی کو فروغ دے رہی ہے،اندرون اور بیرون ملک ایسے عناصر کا متعلقہ قوانین کے تحت احتساب کیا جائے گا،پرتشدد مظاہرین سے 18 خودکار ہتھیاروں سمیت 39 مہلک ہتھیار برآمد ہوئے ہیں،پکڑے گئے شر پسندوں میں تین درجن سے زائد غیر ملکی اجرتی شامل ہیں،ڈیوٹی پر متعین تین رینجرز اہلکاروں کو گاڑی چڑھا کر شہید کیا گیا،پر تشدد مظاہرین نے ایک پولیس اہلکار کو بھی شہید کیا،پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر ایک منظم پراپیگنڈہ شروع کر دیا ہے،من گھڑت سوشل میڈیا مہم کے دوران پرانے اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تیار کردہ جھوٹے کلپس کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے،بدقسمتی سے غیر ملکی میڈیا کے بعض عناصر بھی اس پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئے ہیں۔اتوار کو وزارت داخلہ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو امن و امان ہر قیمت پر قائم رکھنے کی ہدایت کی،

 

ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ امن و امان کے حوالے سے پی ٹی ائی قیادت سے رابطہ کریں،بیلاروس کے صدر اور اعلی سطحی چینی وفد کے دورے کے پیش نظر پی ٹی آئی کومتعدد بار احتجاج موخر کرنے کا کہا گیا۔وزارت داخلہ کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج جاری رکھنے کی ضد پر انہیں سنگجانی مقام کی تجویز دی گئی،غیر معمولی مراعات باشمول بانی سے ملاقاتوں کے باوجود پی ٹی آئی نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی،مظاہرین نے سنگجانی کے بجائے اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہو کر قانون کی خلاف ورزی کی۔وزارت داخلہ کے مطابق پر تشدد مظاہرین نے پشاور تا ریڈ زون تک مارچ کے دوران ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو نشانہ بنایا،مظاہرین نے اسلحہ بشمول سٹیل سلنگ شاٹس، سٹین گرنیڈ، آنسو گیس شیل اور کیل جڑی لاٹھیوں وغیرہ کا استعمال کیا۔وزارت داخلہ کے مطابق پر تشدد احتجاج میں خیبر پختونخواہ حکومت کے وسائل کا بھرپور استعمال کیا گیا،

 

پی ٹی آئی کے پرتشدد احتجاج میں تربیت یافتہ شر پسند اور غیر قانونی افغان شہری بھی شامل تھے،یہ سخت گیر 1500 شرپسند براہ راست مفرور اشتہاری مراد سعید کے ماتحت سرگرم تھیجو خود بھی ہمراہ تھا۔وزارت داخلہ نے کہا کہ اس گروہ نے عسکریت پسندانہ حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملہ کیا،صوبائی سرکاری مشینری کی مدد سے سڑک پر نصب رکاوٹیں ہٹا کر دوسرے شر پسند جتھوں کے لیے راستہ بنایا،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے پر تشدد مظاہرین کے ساتھ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا۔وزارت داخلہ کے مطابق اسلام آباد میں چیک پوسٹ پر ڈیوٹی پر متعین تین رینجرز اہلکاروں کو گاڑی چڑھا کر شہید کیا گیا،پر تشدد مظاہرین نے ایک پولیس اہلکار کو بھی شہید کیا،شرپسندوں کے ہاتھوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 232 اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ پرتشدد مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا اور پولیس کی متعدد گاڑیوں کو آگ لگائی، آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں پاک فوج کو تعینات کیا گیا،پاک فوج کی تعییناتی کا مقصد اہم تنصیبات کو محفوظ اور غیر ملکی سفارت کاروں کی حفاظت اور دورے پر آئے اہم وفود کے لیے محفوظ ماحول کو یقینی بنانا تھا۔

 

وزارت داخلہ نے کہاکہ پولیس اور رینجرز نے اس پرتشدد ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست گولیوں کا استعمال نہیں کیا،واضح رہے کہ پاک فوج کا اس پر تشدد ہجوم سے براہ راست کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا اور نہ ہی وہ فسادیوں کو کنٹرول کرنے پر تعینات تھی،منتشر کرنے کے عمل کے دوران قیادت کے ہمراہ مسلح گارڈز اور مظاہرین کے مسلح شر پسندوں نے اندھا دھند فائرنگ کی،ان خود ساختہ پر تشدد حالات میں پی ٹی آئی قیادت نے صورتحال سنبھالنے کے بجائے راہ فرار اختیار کیا،مظاہرین کے علاقے سے فرار کے فوری بعد وفاقی وزرائے داخلہ اور اطلاعات نے متاثرہ علاقے کا دورہ بھی کیا اور پریس ٹاک کی۔وزارت داخلہ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر ایک منظم پراپیگنڈہ شروع کر دیا ہے،پراپیگنڈہ میں مبینہ ہلاکتوں کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ڈالنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔

 

وفاقی دارالحکومت کے بڑے ہسپتالوں کی انتظامیہ نے ہلاکتوں کی رپورٹ کی تردید بھی کی، من گھڑت سوشل میڈیا مہم کے دوران پرانے اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تیار کردہ جھوٹے کلپس کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے، بدقسمتی سے غیر ملکی میڈیا کے بعض عناصر بھی اس پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئے ہیں، وزرا، حکومتی اہلکار، پولیس آفیشلز اور کمشنر اسلام آباد نے بار بار مصدقہ ثبوت کے ساتھ اصل صورتحال کی وضاحت کی۔وزارت داخلہ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر پاکستانی شہریوں کی حفاظت کی،پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مہم پاکستان میں انتشار بدامنی اور تفرقہ بازی کو فروغ دے رہی ہے،اندرون اور بیرون ملک ایسے عناصر کا متعلقہ قوانین کے تحت احتساب کیا جائے گا۔وزارت داخلہ نے کہا کہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے صوبائی اسمبلی کو اداروں کے خلاف بے بنیاد اور اشتعال انگیز بیانات کے لیے استعمال کیا،پرتشدد مظاہرین سے 18 خودکار ہتھیاروں سمیت 39 مہلک ہتھیار برآمد ہوئے ہیں،پکڑے گئے شر پسندوں میں تین درجن سے زائد غیر ملکی اجرتی شامل ہیں۔

 

وزارت داخلہ نے کہا کہ جیل وینز کو آگ لگانے کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی 11 گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا،پرتشدد مظاہروں کے دوران ابتدائی اندازوں کے مطابق سینکڑوں ملین کا نقصان ہوا ہے،ان پر تشدد مظاہروں کی وجہ سے معیشت کو بالواسطہ نقصانات کا تخمینہ 192 ارب روپے یومیہ لگایا گیا ہے۔وزارت داخلہ نے کہاکہ پاکستان بشمول خیبر پختونخواہ کے قابل فخر عوام اس قسم کی پرتشدد سیاست،بے بنیاد الزامات اور بد نیتی پر مبنی پروپیگنڈہ کو مسترد کرتے ہیں،پوری پاکستانی قوم ملک میں امن و استحکام کی خواہش کے ساتھ یکجا کھڑی ہے۔

 

 

سانحہ ڈی چوک کے بعد عمران خان رہائی کی تحریک مزید مضبوط ہوگئی ہے،.بیرسٹر ڈاکٹر سیف

پشاور (چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا  ہے کہ سانحہ ڈی چوک کے بعد عمران خان رہائی کی تحریک مزید مضبوط ہوگئی ہے، جعلی حکومت اگر سمجھتی ہے کہ بربریت سے تحریک کمزور ہوگئی تو یہ انکی بھول ہے۔اپنے ایک بیان میں بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت پر سب کا پورا اعتماد ہے، اختلافات کی خبریں مخالفین کی خواہش ہوسکتی ہے مگر حقیقت نہیں، جعلی حکومت پروپگنڈے کرنے میں ماہر ہے۔انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں عمران خان رہائی کی تحریک مزید زور پکڑے گی جسکے نتیجے میں جلد ہی عمران خان عوام کے درمیان ہوں گے۔ مشیر اطلاعات نے کہا کہ بربریت کرکے جعلی حکومت نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے، جعلی حکومت نے ظلم وبربریت خوف پیدا کرنے کے لیے کیا ہے مگر اصل میں خوفزدہ جعلی حکومت خود ہے کیونکہ ظلم ہمیشہ خوفزدہ لوگ کرتے ہیں۔مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ معصوم کارکنوں کا خون جعلی حکومت کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گا۔ مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا کہ عوام عمران خان کے دلوں میں رچ بس چکی ہے، جعلی حکومت اس قسم کی بربریت کے ذریعے عمران خان کو عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکتی بلکہ حالیہ کاروائی کے نتیجے میں عمران خان سے عوام کی محبت مزید بڑھ گئی اور اب عمران خان عوام کی ضد بن چکے ہیں، جعلی حکومت جو بھی ہتھکنڈا استعمال کرے گی اسکے نتیجے میں عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96157

خیبرپختونخوا میں 13 مراکز میں ایڈز کی مفت سکریننگ اورعلاج کی سہولیات دستیاب ہیں، اب تک 2080 خواتین، 6105 مرد، اور 171 خواجہ سرا ایڈز کا شکار ہیں۔ مشیر صحت کاایڈز کے عالمی دن کی مناسبت سے پیغام

خیبرپختونخوا میں 13 مراکز میں ایڈز کی مفت سکریننگ اورعلاج کی سہولیات دستیاب ہیں، اب تک 2080 خواتین، 6105 مرد، اور 171 خواجہ سرا ایڈز کا شکار ہیں۔ مشیر صحت کاایڈز کے عالمی دن کی مناسبت سے پیغام

 

پشاور (چترال ٹائمزر پورٹ) ایڈز کے عالمی دن کی مناسبت سے خیبرپختونخوا کے مشیر صحت احتشام علی نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ”ایڈز کے عالمی دن کا مقصد عوام کو اس بیماری کے بارے میں آگاہ کرنا اور انہیں سکریننگ کی اہمیت کا شعور دینا ہے۔ ہمیں مریض سے نہیں بلکہ مرض سے نفرت کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع سمیت 13 مراکز میں ایڈز کی مفت سکریننگ اور علاج کی سہولیات دستیاب ہیں، ہم وقت کے ساتھ ان مراکز کی تعداد بڑھائیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سکریننگ کی سہولت فراہم ہو سکے۔مشیر صحت نے عوام سے اپیل کی کہ استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال نہ کریں اور خون کی منتقلی کے لیے ہمیشہ ٹیسٹ شدہ خون کا انتخاب کریں۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں اس وقت 8356 ایڈز مریض رجسٹرڈ ہیں مگر ہمیں خدشہ ہے کہ کئی افراد بغیر سکریننگ کے اس بیماری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جو ہمارے لیے ایک ٹائم بم کی مانند ہے۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ طبی عملہ اور ہیلتھ کیئر کمیشن کو آلات جراحی کی سٹرلائزیشن کو یقینی بنانا چاہیے اور عوام کو چاہیے کہ حجام کی دکان یا بیوٹی پارلر جیسی جگہوں پر ہمیشہ ڈسپوزیبل اشیاء کے استعمال پر اصرار کریں۔مشیر صحت نے کہا کہ اب تک 2080 خواتین، 6105 مرد، اور 171 خواجہ سرا ایڈز کا شکار ہیں اور سکریننگ کے عمل میں اضافے کے ساتھ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ 2024 میں 1173 نئے مریض رجسٹرڈ ہوئے جو 2023 میں 1147 تھے۔انٹی گریٹڈ ایچ آئی وی، ہیپٹائٹس، اور تھیلسیمیا کنٹرول پروگرام کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق حیات تاج نے اپنے پیغام میں کہا کہ ایڈز کے مریضوں کے ساتھ ان کی بیماری کی بنیاد پر امتیازی سلوک انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ خیبرپختونخوا میں ایڈز کے سب سے زیادہ کیسز استعمال شدہ سرنج کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والوں میں پائے گئے جو 12 فیصد ہیں جبکہ خواجہ سرا طبقہ 1.5 فیصد متاثر ہے۔انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ایڈز کے علاج کے مراکز کی تعداد چھ سے بڑھا کر 13 کر دی گئی ہے جہاں مریضوں کو مفت ادویات، تشخیص اور مشاورت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ڈاکٹر طارق نے مزید بتایا کہ قبائلی اضلاع میں 1256 مریض رجسٹرڈ ہیں جبکہ بندوبستی اضلاع میں پشاور 1515 مریضوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، بنوں میں 979، سوات میں 384، مردان میں 366 اور چارسدہ میں 345 کیسز رجسٹرڈ ہیں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96162

صوبائی حکومت پولیس سمیت دیگر تمام فورسز کے شہداءکے لواحقین کو پلاٹس دے رہی ہے جبکہ پولیس میں بھرتی کیلئے شہداءکے بچوں کا کوٹہ 5 فیصد سے بڑھا کر 12.5 فیصد کر دیا گیا ہے ۔ وزیراعلیٰ

Posted on

صوبائی حکومت پولیس سمیت دیگر تمام فورسز کے شہداءکے لواحقین کو پلاٹس دے رہی ہے جبکہ پولیس میں بھرتی کیلئے شہداءکے بچوں کا کوٹہ 5 فیصد سے بڑھا کر 12.5 فیصد کر دیا گیا ہے ۔ وزیراعلیٰ

 

 

پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈا پورنے اتوار کے روز سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے سی ٹی ڈی کی استعداد کو بڑھانے کیلئے نو تعمیر شدہ انوسٹی گیشن اور انٹیلی جنس بلاک کا افتتاح کیا۔جدید سہولیات سے آراستہ انوسٹی گیشن اینڈ انٹیلی جنس بلاک میں جدید طرز کے آڈیٹوریم ، کانفرنس روم ، لائبریری ، دفاتر اور دیگر سہولیات شامل ہیں۔وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف ، چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری، انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات گنڈا پور ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ محمد عابد مجیداور دیگر اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ پولیس حکام کی جانب سے وزیراعلیٰ کو سی ٹی ڈی کی استعداد کار بڑھانے کیلئے موجودہ صوبائی حکومت کے اقدامات پر بریفینگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ سی ٹی ڈی کو موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق مستحکم بنانے اور دہشت گردی کے مقدمات میں تکنیکی معاونت کیلئے ڈیٹا کلیکشن سیکشن، ڈیٹا مائننگ سیکشن ، کرائم سین یونٹ اور سائبر کرائم یونٹس قائم کئے گئے ہیں۔

 

 

انٹیلی جنس کے نظام کو موثر بنا نے کیلئے سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جبکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور بھتہ خوری کی روک تھام کیلئے کاونٹر ٹیرازم فنانسنگ ایند ایکسٹارشن یونٹ قائم کیا گیا ہے۔اسی طرح سی ٹی ڈی کی تحقیقاتی اور تکنیکی استعداد کو بڑھانے کیلئے ڈی جی آئی ٹی اورڈی جی ریسرچ انالسسز کی آسامیوں کی منظوری دی گئی ہے ۔سی ٹی ڈی کا دائرہ کار بڑھانے کیلئے صوبہ بھر میں سی ٹی ڈی کے ریجنل ہیڈکوارٹر اور تمام ضم شدہ اضلاع میں سی ٹی ڈی کے دفاتر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔دہشت گردی کے مقدمات کی مو ¿ثر پیروی کیلئے 18 پبلک پراسکیوٹرز کی آسامیاں تخلیق کی گئی ہیں۔سی ٹی ڈی انٹیلی جنس کو بہتر بنانے کیلئے 314 ڈیٹکٹیو آفیسر کی آسامیاں تخلیق کی گئی ہیںجبکہ آپریشن کی استعداد کو بہتر بنانے کیلئے تمام اضلاع کی سطح پر جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیسSWATٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔مزید بتایا گیا کہ فارنزک لیب میں جدید آلات کی فراہمی اور تربیت یافتہ ماہرین کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے،سی ٹی ڈی کی 30 عدد گاڑیوں میں جیمرز نصب کئے گئے ہیں۔ انٹیلی جنس اور انوسٹی گیشن عملے کی استعداد بہتر بنانے کیلئے جدید لیپ ٹاپس اور موبائل فونز فراہم کئے گئے ہیں،

 

حساس اضلاع میں سی ٹی ڈی کو سات عدد بلٹ پروف گاڑیوںفراہم کر دی گئی ہیں اور دہشت گردوں کی نقل و حمل کی نگرانی کیلئے جدید ڈرونز ، نائٹ وژن آلات اور تھرمل گنز فراہم کئے گئے ہیں۔ اسی طرح سی ٹی ڈی کی افرادی قوت میں مجموعی طور پر 1263 افرادکا اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے سی ٹی ڈی عملے کی تعداد 3167 سے بڑھ کر 4430 ہوگئی ہے۔ وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ موجودہ صوبائی حکومت کے ان اقدامات سے سی ٹی ڈی کی مجموعی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ہے،سی ٹی ڈی نے انٹیلی جنس بنیادوں پر کئی کامیاب کاروائیاں کی ہیں جن سے دہشت گردی کے کئی منصوبے ناکام ہو گئے ،۔ سی ٹی ڈی کو مستحکم کرنے کے اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردی کے مجرمان کو سزا دلانے کی شرح 50 فیصد بڑھ گئی ہے،سال2022 میں عدالتوں سے دہشت گردوں کو سزا دلانے کی شرح 13 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 38 فیصد ہو گئی ہے،انوسٹی گیشن کے عمل کو بہتر بنانے سے اب ملزمان کی ریمانڈاوسطاً 1.4 دن سے بڑھ کر اب 25 دن ہو گئی ہے اور 2022 میں عدالتوں سے ملزمان کی 55 ضمانتیں مسترد ہوئیںجبکہ سال2024 میں 123 درخواستیں مسترد ہوئیں۔

 

اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ سال2023 میں خیبر پختونخوا میں سی ٹی ڈی سیٹ اپ نہ ہونے کے برابر تھا۔گزشتہ ایک سال کے دوران صوبے میں سی ٹی ڈی کو ہنگامی بنیادوں پر مستحکم کیا گیا ہے اوراس دوران سی ٹی ڈی کی کارکردگی میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے ۔اُنہوں نے کہاکہ سی ٹی ڈی کو اس حد تک مستحکم بنانے پر میں پولیس کی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، سی ٹی ڈی کو مزید مستحکم کرنے کیلئے کل ہی مزید ایک ارب روپے جاری کئے جائیں گے ،فارنزک لیب کے حوالے سے اب خیبرپختونخوا کو کسی اور صوبے سے مدد لینی نہیں پڑرہی،سی ٹی ڈی کے تمام اسٹیشنز کیلئے 20 بم پروف گاڑیاں جلد ہی خریدی جائیں گی اس کے علاوہ سی ٹی ڈی کیلئے مزید ہائی ٹیک کٹس ، سنائپر گنز ،ہائی ٹیک ڈرونز اور تھرمل آلات بھی خریدے جائیں گے ۔

 

پولیس کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ ملک کیلئے جانیں دینے والے پولیس شہداءاور اُن کے لواحقین کو سلام پیش کرتے ہیں۔خیبرپختونخوا پولیس پورے ملک کی جنگ لڑرہی ہے اورپولیس شہداءکے لواحقین کو ہر ممکن سپورٹ فراہم کیا جائے گا۔علی امین گنڈا پور نے کہاکہ صوبائی حکومت پولیس سمیت دیگر تمام فورسز کے شہداءکے لواحقین کو پلاٹس دے رہی ہے جبکہ پولیس میں بھرتی کیلئے شہداءکے بچوں کا کوٹہ 5 فیصد سے بڑھا کر 12.5 فیصد کر دیا گیا ہے ۔ وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ پولیس کی تمام ضروریات ترجیحی بنیادوں پر پوری کی جائیں گی اور اس سلسلے میں فنڈز کی کمی کو آڑے نہیں آنے دیا جائے گا۔ قبل ازیں سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹر اور پولیس کے چاق و چوبند دستے نے وزیراعلیٰ کو گارڈ آف ہانر پیش کیا۔ وزیراعلیٰ نے سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹر کے مختلف شعبوں کا تفصیلی دورہ بھی کیا ۔

 

دریں اثنا وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بنوں کے علاقہ بکاخیل میں دہشتگردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے دوراں ایک کیپٹن اور ایک سپاہی کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔ یہاں سے اپنے تعزیتی بیان میں وزیر اعلی نے شہداء کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے شہداء کے درجات کی بلندی اور پسماندگان کے لئے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔ وزیر اعلی نے کامیاب آپریشن کرکے پانج دہشتگردوں کو اپنے انجام تک پہنچانے پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیپٹن محمد زوہیب اور سپاہی افتخار حسین نے دہشتگردوں کا بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز نے لازوال قربانیاں دی ہیں،قوم کو سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی ان قربانیوں پر فخر ہے، سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہے۔

 

chitraltimes cm kp ali amin gandapur visit cdt police station with cs and igp chitraltimes cm kp ali amin gandapur visit cdt police station

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96151

لواری ٹنل رسائی سڑک پر ہلکی برفباری جاری،ٹریفک رواں دواں، چترال کے پہاڑوں اور بالائی علاقوں میں بھی برفباری کی اطلاعات ، 

Posted on

لواری ٹنل رسائی سڑک پر ہلکی برفباری جاری، ٹریفک رواں دواں، چترال کے پہاڑوں اور بالائی علاقوں میں بھی برفباری کی اطلاعات ،

 

چترال ( چترال ٹائمزرپورٹ ) لواری ٹنل اور گردونواح میں برف باری جاری ہے تاہم روڈ ہر قسم کے امدورفت کیلئے بحال ہے۔ اور ٹریفک کی روانی جاری ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر چترال افتخار شاہ کی ہدایات پر ٹریفک وارڈن پولیس اور ڈسٹرکٹ پولیس کے جوانان عوام کی مدد اور رہنمائی کیلۓ 24/7 ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔

مسافر اور سیاح حضرات سے گزارش کی گئی ہے کہ دوران سفر احتیاطی تدابیر کا خاص خیال رکھیں،دوران سفر ممکنہ حادثات اور پھسلن سے بچنے کیلۓ سنو چین کا استعمال کریں۔ موسم اور رسائی سڑکوں سے متعلق معلومات حاصل کرکے سفر کریں۔

کسی بھی ایمرجنسی صورتحال اور رہنمائی کیلۓ پولیس کنٹرول نمبر 0943/412959 یا پولیس ہیلپ لائن نمبر 15 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
دریں اثنا کھوت بالا، بروغل، شندور ٹاپ، گبور ، بگوشٹ اور مڈکلشٹ سمیت اپر چترال کے دیگر مقامات پر برفباری کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔ اور چترال بھر میں سردی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

 

 

 

chitraltimes snowfall at lowari tunnel approach road 3 chitraltimes snowfall at lowari tunnel approach road 1

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
96141

اپرچترال : ریشن میں بجلی بلوں میں اضافے کے خلاف جاری احتجاجی دھرنا بھوک ہڑتالی کیمپ میں تبدیل،

Posted on

اپرچترال : ریشن میں بجلی بلوں میں اضافے کے خلاف جاری احتجاجی دھرنا بھوک ہڑتالی کیمپ میں تبدیل،

اپرچترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف ریشن میں چھ ہفتے سے جاری احتجاجی دھرنا کیمپ آج بھوک ہڑتالی کیمپ میں تبدیل ہوگیا۔

یاد رہے ریشن کہ عوام ریشن پاؤر ہاؤس جو کہ پیڈو کی ملکیت ہے اسکو پیسکو کے حوالے کرکے عوام کو مہنگے بلوں کے ذریعے تنگ کیا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف ریشن کے عوام گزشتہ دو سال سے سراپا احتجاج ہیں۔ اس سلسلے میں چھ ہفتے پہلے یعنی 18اکتوبر کو ایک بھرپور احتجاجی جلسے کے بعد ریشن کے عوام اس اقدام کے خلاف رمداس چوک ریشن میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہیں۔

ریشن کے عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ریشن پاؤر ہاؤس کو پیسکو سے نکال کر واپس پیڈو کے حوالہ کیا جائے ۔ بصورت دیگر ہم اس کے خلاف کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اور حکومت کو 20 دسمبر تک کا وقت دیتے ہوئے کہا ہے کہ 20 دسمبر تک اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے ۔

 

 

chitraltimes reshun hunger strike 3 chitraltimes reshun hunger strike 2

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
96135

شاہی عظمت اور فنا کے اسرار ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

شاہی عظمت اور فنا کے اسرار ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

زندگی اور اقتدار کی عارضی نوعیت اس تصویر کا مرکزی موضوع ہے۔ ملکہ کی عظمت، چیتے کی طاقت، اور ستونوں کی تاریخ سب مل کر ایک ابدی سچائی کی عکاسی کرتے ہیں—ہر چیز فنا پذیر ہے۔ تصویر ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد پر غور کریں اور ان چیزوں کی طرف رجوع کریں جو وقت کی قید سے آزاد ہیں، جیسے اخلاقی اقدار اور انسانیت کی خدمت۔ عظمت کی اصل طاقت اس کے زوال کو سمجھنے میں ہے۔

؎

زندگی کی عارضی نوعیت اور اقتدار کے زوال نے انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے دانشوروں کو متوجہ کیا ہے۔ مصر کی تہذیب، اپنی شان و شوکت کے باوجود، فنا کی حقیقت سے بچ نہ سکی۔ تصویر میں دکھائی جانے والی ملکہ اور اس کے اطراف کی تزئین ہمیں اس ابدی حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے۔ عظمت کا یہ مظاہرہ محض وقتی ہے، جو آنے والے وقت کی گرد میں کھو جاتا ہے۔ یہاں ہم اس تصویر کے فلسفیانہ اور عبرت آموز پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔

 

nandini091

 

یہ تصویر شاہی عظمت کا بے مثال منظر پیش کرتی ہے، جہاں ایک ملکہ تخت پر براجمان ہے، اور اس کے ارد گرد طاقت و جاہ و جلال کے علامتی نشانات، جیسے چیتے اور سنہری آرائشیں، موجود ہیں۔ ملکہ کا وقار، اس کے زیورات کی چمک اور تخت کی تزئین یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کا مقام زمین پر سب سے بلند ہے۔ تاہم، اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ تصویر ہمیں کچھ اور بھی بتاتی ہے—ایک ایسی کہانی جو عروج اور زوال کے دائرے کے گرد گھومتی ہے۔

شاہی ستون، جن پر قدیم دیومالائی مناظر اور نقاشی کندہ ہیں، ماضی کی کہانیوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ لیکن ان ستونوں کا انجام بھی وہی ہے جو انسان کے جسم کا ہوتا ہے—خاک اور بوسیدگی۔ تخت پر بیٹھنے والی ملکہ کا وجود بھی عارضی ہے، کیونکہ وقت کی قوت اس کے اقتدار کو نگل لے گی۔ یہ تصویر ہمیں ایک اٹل سبق دیتی ہے کہ عظمت کا یہ سفر ہمیشہ ایک انجام پر پہنچتا ہے۔

چیتے، جو طاقت کی علامت ہیں، ملکہ کے گرد موجود ہیں، لیکن وہ بھی فطرت کے قوانین کے پابند ہیں۔ وقت کے ساتھ، ان کا جسم بھی خاک میں مل جائے گا۔ ملکہ کے زیورات اور شان و شوکت وقت کے دھارے میں محض ایک یادگار کے طور پر رہ جائیں گے۔ یہ یادگار ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی اصل طاقت اس کی عاجزی میں ہے، نہ کہ اس کے تخت و تاج میں۔

یہ تصویر مصر کی قدیم تاریخ کا ایک عکس بھی پیش کرتی ہے، جو اپنے عروج کے دنوں میں دنیا کی سب سے طاقتور تہذیب تھی۔ لیکن آج اس کے عظیم محلات اور یادگاریں، جو کبھی عظمت کی نشانیاں تھیں، کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ انسان کی یہی کہانی ہمیں ایک سوال پر لے آتی ہے: کیا ہم اپنی زندگی کو محض اقتدار اور شان و شوکت کے لیے وقف کریں، یا ایسی اقدار اپنائیں جو وقت کے امتحان میں قائم رہ سکیں؟

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96146

ایک نئی پوسٹ، ایک نیا لائیک – پیامبر : قادر خان یوسف زئی

ایک نئی پوسٹ، ایک نیا لائیک – پیامبر : قادر خان یوسف زئی

 

انٹرنیٹ کی بندش ہونے پر یہ خبر یوں پھیل جاتی ہے جیسے کسی نے پورے ملک میں آکسیجن کی فراہمی بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہو۔ لوگ اپنی ہنستی کھیلتی زندگیوں کو یوں دیکھنے لگتے ہیں جیسے وہ کسی گہرے کنویں میں گر گئے ہوں جہاں نہ کوئی روشنی تھی، نہ آواز، نہ امید۔ انٹرنیٹ کی غیر موجودگی میں ملک کا ہر شہری ایسے ہڑبڑاتا ہے جیسے وہ کسی ویرانے میں بھٹک رہا ہو۔ جنہیں صبح کی پہلی خبر اپنی نیوز ایپ سے ملتی تھی، وہ اچانک پڑوسیوں سے خبریں پوچھنے پر مجبور ہو گئے اور خبر کا اعتبار یوں کرتے جیسے یہ کسی قدیم صحیفے سے نکلا ہو۔ سب سے زیادہ اثر ان نوجوانوں پر ہوتا ہے جو انسٹاگرام کے ریلز اور ٹک ٹاک کے بغیر ایک پل بھی نہیں گزار سکتے۔ وہ اب گھروں کے در و دیوار کو یوں گھور تے ہیں جیسے وہ ان سے باتیں کرنے والے ہوں۔ جنہیں اپنا ہر کھانے کا لقمہ اپ لوڈ کرنا ہوتا تھا، وہ اچانک سوچنے لگے کہ کھانے کا ذائقہ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہر وہ لڑکی اور لڑکا جو ”ایک نئی پوسٹ، ایک نیا لائیک“ کی دوڑ میں تھا، اچانک آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو دیکھتا ہے، اور حیرانی سے پوچھتا ہے کہ ”کیا میں واقعی اتنا برا ہوں؟“۔

 

انٹرنیٹ کی بندش سے احتجاجی مظاہرے روکنے کا خیال ایسا ہی ہے جیسے آگ بجھانے کے لیے بارش کا انتظار کرنا یا بھوکے کو یہ مشورہ دینا کہ کھانا چھوڑ دو تاکہ پیٹ خود سکون میں آجائے، یہ سوچ ہی غلط ہے کہ اگر انٹرنیٹ بند کر دیا جائے تو مظاہرین الجھن میں پڑ جائیں گے، اپنے احتجاج کا مقام بھول جائیں گے، اور اچانک اپنے موبائل میں ”نیٹ ورک ناٹ ایویلیبل“ دیکھ کر گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔ تصور کریں کہ مظاہرین کا ایک گروہ چوک پر جمع ہوتا ہے۔ کسی نے اپنے موبائل پر لائیو سٹریمنگ شروع کرنی چاہی، لیکن انٹرنیٹ غائب۔ وہ دل برداشتہ ہو کر نعرے لگانے لگے کہ ”وائی فائی دو، راستہ دو!“۔ حکومت کو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ بندش سے معلومات کی ترسیل رک جائے گی اور مظاہرین ایک دوسرے سے رابطہ نہ کر پائیں گے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ مظاہرین کے پاس اب بھی کبوتر، ڈھول، اور ہمسائیوں کی مدد کا آپشن موجود ہے۔ بلکہ ایک بار تو مظاہرین نے انٹرنیٹ بندش پر احتجاج کرتے ہوئے ڈھول کے ذریعے نعرے بازی کی کہ ”حکومت جاگے گی، انٹرنیٹ لائے گی!“ ڈھول کی آواز اس قدر بلند تھی کہ حکومت کو مجبوراً انٹرنیٹ بحال کرنا پڑا تاکہ عوام شور بند کریں۔

 

دوسری جانب، مظاہرین انٹرنیٹ کے بغیر زیادہ تخلیقی بن گئے ہیں۔ کچھ نے تو موبائل کے سگنل ڈھونڈنے کے لیے سڑک پر احتجاج کیا، اور ان کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا جس پر لکھا تھا” ہم یہاں انٹرنیٹ کے لیے کھڑے ہیں، نہ کہ تمہاری پالیسی کے لیے!“۔مزید یہ کہ، انٹرنیٹ بندش کے دوران لوگوں نے پرانے طریقے اختیار کر سکتے ہیں۔ جس میں پیغام دینے کے لیے کالے دھویں کا استعمال، اور سڑکوں پر آگ جلا کر نشانیاں بنانا تاکہ دوسرے مظاہرین راستہ بھولنے کی بجائے سیدھا احتجاجی مقام پر پہنچ سکیں۔

 

 

حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ انٹرنیٹ بند کر کے عوام کو بے خبر رکھا جائے، لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ بے خبری کبھی مسائل کا حل نہیں۔ مظاہرین، جنہیں پہلے صرف حکومت کے فیصلوں پر اعتراض تھا، اب انٹرنیٹ بندش کو ایک ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اب یہ احتجاج نہ صرف سیاسی ہے بلکہ ذاتی اور معاشرتی بھی ہو گیا ہے۔ احتجاج کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش کے بجائے، عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید حکومت اور عوام دونوں کا وقت اور توانائی بچ سکے۔ ورنہ احتجاجی نعروں میں ”نیٹ بحال کرو” کا اضافہ ہوتا رہے گا اور حکومت کو یہ نعرے سننے کے لیے کان بند کرنے کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔ کاروباری طبقہ، جو آن لائن ای میلز اور زوم میٹنگز کے ذریعے اپنے معاملات چلاتا تھا، اچانک دفاتر میں بیٹھا خالی کاغذوں پر پلان بناتا دکھائی دے گا۔ باسز کو احساس ہوگا کہ ماتحتوں کو دھمکیاں دینے کے لیے ای میل نہیں بلکہ براہ راست سامنا کرنا پڑے گا، اور ملازمین بھی اپنے باسز کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے کی ہمت کی ”سر، کوئی اور کام دے دیں، نیٹ تو ہے نہیں“۔ آن لائن شاپنگ کے شوقین، جو ایک کلک پر سامان خریدتے تھے، بازار میں لائنیں لگا کر انہیں بھی بغیر کسی ڈسکاؤنٹ کے سودا خریدنا ہوگا۔

 

سیاستدان جب انٹرنیٹ بندش کے فیصلے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں کہ انٹرنیٹ بند کر کے دہشت گردی کو روکا جا رہا ہے تو، لوگ حیران تھے کہ کیا دہشت گرد واقعی فیس بک لائیو پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں؟ کیا ان کے بموں میں وائی فائی کنکشن لگتا ہے؟ یا شاید دہشت گردوں کو پیغام رسانی کے لیے گوگل میٹ استعمال کرنا ہوتا ہے؟ اگر یہی حقیقت ہے، تو پھر انٹرنیٹ بند کرنے کی بجائے، انہیں سست انٹرنیٹ فراہم کر دینا چاہیے، تاکہ وہ ہمیشہ ”لوڈنگ“ کی کیفیت میں رہیں اور حملہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ سب سے زیادہ نقصان انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرنے والے فری لانسرز کا ہوا، جن کا روزگار بند ہو گیا۔ وہ انٹرنیٹ کی بحالی کے منتظر ایسے بیٹھے تھے جیسے کسان بارش کے لیے دعا کرتا ہے۔ کسی نے یہ کہہ دیا کہ انٹرنیٹ ایک دن بعد بحال ہوگا، تو لوگ ایسے خوش ہوئے جیسے کسی قیدی کو رہائی کی خبر مل گئی ہو۔ مگر جب بحالی میں تاخیر ہوئی، تو فری لانسرز نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ شاید انہیں اب کسی اور ہنر، مثلاً کپڑے سلائی یا بکریاں پالنے، کا کام سیکھنا ہوگا۔

 

دوسری طرف، حکومتی مشینری اس فیصلے کی کامیابی کے گن گانے میں مصروف تھی۔ مختلف وزراء نے انٹرنیٹ کی بندش کو قومی سلامتی کا اہم قدم قرار دیا اور عندیہ دیا کہ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو مستقبل میں دیگر مسائل کو بھی ایسے ہی حل کیا جائے گا۔ مثلاً، اگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنی ہو تو ٹی وی بند کر دیں، پانی کی قلت ہو تو باتھ روم بند کر دیں، اور اگر معیشت کا مسئلہ ہو تو بینک بند کر دیں۔ اس پر کسی نے سوشل میڈیا پر طنز کیا،”اگر مسئلے ایسے ہی حل ہوتے ہیں تو کیوں نہ سانس لینا بھی بند کر دیا جائے تاکہ آلودگی کا مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے!“۔عوام اب سوچ رہی تھی کہ انٹرنیٹ کی بندش کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ کیا حکومت ہر مہینے ایک ”ڈیجیٹل بلیک آؤٹ ڈے” کا اعلان کرے گی؟ یا شاید ہر سال ایک پورا ہفتہ ”آف لائن نیشنل ڈے“ کے طور پر منایا جائے گا، جہاں لوگ موبائل اور انٹرنیٹ سے دور، دیہاتی زندگی کی مشق کریں گے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96133

 اسلام آباد سے گرفتار پی ٹی آئی کے 156 کارکنان کا جسمانی ریمانڈ منظور،چترال کے ایم این اے اور ایم پی ایزوتحصیل چیئرمینان سمیت  چارسوسے زیادہ افراد کے خلاف ایف آئی ار درج

 اسلام آباد سے گرفتار پی ٹی آئی کے 156 کارکنان کا جسمانی ریمانڈ منظور،چترال کے ایم این اے اور ایم پی ایزوتحصیل چیئرمینان سمیت  چارسوسے زیادہ افراد کے خلاف ایف آئی ار درج

 

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ) انسداد دہشت گردی عدالت نے اسلام آباد میں احتجاج سے گرفتار 156 پی ٹی آئی کارکنان کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف درج کیسز کی سماعت کی، پی ٹی آئی وکلاء انصر کیانی، مرزا عاصم بیگ، صہیب الیاس عدالت میں پیش ہوئے۔تفتیشی افسر نے ملزمان سے تحقیقات کیلئے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی اور کہا کہ پی ٹی آئی کارکنان سے اینٹی رائٹس کٹس اور ڈنڈے برآمد ہوئے ہیں، جج طاہر عباس سپرا نے کہا اور کیا برآمد کرنا ہے؟ اسلام آباد میں اتنی اینٹی رائٹس کٹس ہی نہیں جتنی چھینی جا چکی ہیں۔عدالت نے 17 ملزمان کا مزید چار روزہ جسمانی ریمانڈ جبکہ 139 ملزمان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

 

عدالت نے دو خواتین کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔ گرفتار خواتین کارکنان نے بتایا کہ ہمیں 24 نومبر کو گرفتار کیا گیا تھا، ہمیں کھانا پینا بھی نہیں دیتے۔ پی ٹی آئی کارکنوں کو ڈی چوک پر احتجاج کے دوران مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر ملزمان کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا، پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج ہے۔

 

دریں اثنا تحریک انصاف کے رہنماؤں علی امین گنڈاپور اور بشری بی بی کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا۔ مقدمہ ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے، جس میں 7 اے ٹی اے سمیت بیس دفعات شامل ہیں۔ مقدمے میں پاکستان اسمبلی اور عوامی نظم و ضبط کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سینٹر فیصل جاوید، عاطف خان،شیر افضل مروت اور اسد قیصر کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے کے مطابق پندرہ سے اٹھارہ ہزار افراد نے بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور کی قیادت میں ڈی چوک پر حملہ کیا، اور ہجوم کے پاس اسلحہ بھی موجود تھا۔ اس کے علاوہ مسلح ہجوم میں ریاست مخالف تقاریر کی گئیں

 

 

اسی طرح  اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں خیبرپختونخواہ کے تمام ایم پی ایز ، ایم این ایز کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ، چترال کے ممبر قومی اسمبلی عبد الطیف اور ممبر صوبائی اسمبلی چترال لوئر فتح الملک علی ناصر اور ڈپٹی اسپیکر ثریا بی بی کے خلاف بھی 7ATA ، دہشت گردی ، بغاوت و دیگر مقدمات میں ایف آئی آر درج ہوا ہے ۔ایف آئی ار میں شہزادہ سکندرالملک، تحصیل چیئرمین موڑکہو تورکہو،میرجمشید الدین، تحصیل چیئرمین چترال شہزادہ آمان الرحمن، فخراعظم، عبد الرزاق، خواجہ افتاب الدین، ودیگر کے نام بھی شامل ہیں ،

اسکے علاؤہ چترال سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے 11 کارکنوں کو بھی دھرنے کی رات واپسی پر گرفتار کرکے اٹل جیل میں بند کردیا گیا ہے ۔

 

 

pti protest and islamabad FIR 2 e1732988018636 pti protest and islamabad FIR

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96123

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا ضلع کرم کے معاملے پر قائم گرینڈ جرگے میں شرکت،  وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن علاقے میں امن کیلئے وفاقی حکومت ایف سی کی پلاٹونز فراہم کرے ۔ علی آمین گنڈاپور

Posted on

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا ضلع کرم کے معاملے پر قائم گرینڈ جرگے میں شرکت،  وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن علاقے میں امن کیلئے وفاقی حکومت ایف سی کی پلاٹونز فراہم کرے ۔ علی آمین گنڈاپور

پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ )وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے ہفتہ کے روز ضلع کوہاٹ کا دورہ کیا اور ضلع کرم کے معاملے پر قائم گرینڈ جرگے میں شرکت کی ۔ متعلقہ ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے وزیراعلیٰ کو علاقے میں امن و امان کی تازہ صورتحال ، فریقین کے درمیان جنگ بندی اور علاقے میں پائیدار امن کے قیام کیلئے حکومتی کوششوں سمیت دیگر متعلقہ اُمور پر تفصیلی بریفینگ دی۔

 

 

وزیراعلیٰ نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ جو بھی امن کو خراب کرے گا اس کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک کیا جائے ۔ صوبائی حکومت کی درخواست پر فوج علاقے میں امن کیلئے تعینات ہے ، فوج ، پولیس اور انتظامیہ مل کر علاقے میں پائیدار امن کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو یہ بھی ہدایت کی کہ علاقے میں قائم تمام کے تمام مورچے بلاتفریق ختم کئے جائیں ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن علاقے میں امن کیلئے وفاقی حکومت ایف سی کی پلاٹونز فراہم کرے ۔ گرینڈ جرگہ مکمل امن کے قیام تک علاقے میں رہے ، صوبائی حکومت ہر ممکن سپورٹ فراہم کر ے گی ۔ جولوگ علاقے میں امن خراب کر رہے ہیں ، مقامی کمیونٹی ان کی نشاندہی کرے جبکہ فریقین کے درمیان نفرت کی فضاءکو ختم کرنے کیلئے مقامی عمائدین اپنا کردار ادا کریں ۔

 

 

وزیراعلیٰ نے متعلقہ انتظامیہ کو ہدایت کی کہ علاقے میں لوگوں کے پاس موجود بھاری اسلحہ جمع کیا جائے جبکہ سرحدی علاقے کے لوگوں کے پاس موجود اسلحہ بھی امانتاً جمع کیا جائے ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ جو بھی ہتھیار اُٹھائے گا، وہ دہشت گرد کہلائے گا اور دہشت گردوں کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ علاقے کے عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کیلئے فنڈز ترجیحی بنیادوں پر جاری کئے جائیں گے اور صوبائی حکومت ان بے گھر افراد کی باعزت واپسی یقینی بنائے گی ۔

 

 

اُنہوں نے کہا کہ تشدد اور لڑائی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اور مذاکرات ہی ایسے تنازعات کے حل کا واحدذریعہ ہیں اور ہم پختون روایات کے مطابق جرگے کے ذریعے اس مسئلے کو پرامن انداز میں حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ فریقین سے اپیل ہے کہ وہ مذاکرات کا راستہ اپنائیں اور اس سلسلے میں انتظامیہ اور جرگے کے ساتھ مکمل تعاون کریں تاکہ علاقے میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہو سکے جو علاقہ اور حکومت سمیت سب کے مفاد میں ہے۔ اراکین قومی اسمبلی شہریار خان آفریدی، حمید حسین، یوسف خان، اراکین صوبائی کابینہ آفتاب عالم خان آفریدی، پختون یار خان، بیرسٹر محمد علی سیف ، رکن صوبائی اسمبلی شفیع جان، چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری، انسپکٹر جنرل آف پولیس اختر حیات خان گنڈا پور ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ محمد عابد مجید اور دیگر متعلقہ حکام بھی جرگے میں شریک ہوئے ۔

 

 

 

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپورکا لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کا دورہ کیا اورزیرعلاج سانحہ ڈی چوک کے زخمیوں کی عیادت

 

پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے ہفتہ کے روز لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کا دورہ کیا اور زیر علاج سانحہ ڈی چوک کے زخمیوں کی عیادت کی ۔ صوبائی وزیر پختون یار خان اورمشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف بھی وزیراعلیٰ کے ہمراہ تھے۔ وزیراعلیٰ نے ہسپتال میں زیر علاج زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولیات بارے دریافت کیا اور ہسپتال انتظامیہ کو زخمیوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے ۔

اس سلسلے میں جاری اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ سانحہ ڈی چوک میں جاںبحق ہونے والے کارکنان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔ سانحہ ڈی چوک میں حکومتی ظلم و تشددکا شکار ہونے والے کارکنان کے حوصلوں اور جذبوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ زخمی اور جاںبحق ہونے والے ان کارکنوں کا جذبہ دوسرے کارکنان کیلئے مشعل راہ ہے ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ جاںبحق کارکنان اور اُن کے لواحقین کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا ، انہیں مکمل سپورٹ فراہم کی جائے گی۔

 

chitraltimes cm kp visit lrh hospital met pti injured workers

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96118

خیبرپختونخواکلچراینڈٹورازم اتھارٹی کے زیراہتمام وینٹیج کلاسک کار شوکا انعقاد، شومیں 50 سے زائد قدیمی گاڑیوں کی شرکت، کار شو میں 1935 سے لیکر1980 تک کی قدیمی گاڑیاں مختلف شہروں سے شامل ہوئیں 

Posted on

خیبرپختونخواکلچراینڈٹورازم اتھارٹی کے زیراہتمام وینٹیج کلاسک کار شوکا انعقاد، شومیں 50 سے زائد قدیمی گاڑیوں کی شرکت، کار شو میں 1935 سے لیکر1980 تک کی قدیمی گاڑیاں مختلف شہروں سے شامل ہوئیں

 

پشاور (چترال ٹائمزرپورٹ) خیبرپختونخواکلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی اور کلاسک لینڈ روور کے باہمی اشتراک سے 15ویں ونٹیج اینڈ کلاسک کار شو کا انعقاد کیا گیا۔جس میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباداورپشاور سمیت مختلف شہروں سے پرانی اورقدیمی گاڑیوں کے شوقین افراد اپنی گاڑیوں سمیت شریک ہوئے۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل خیبرپختونخوا کلچراینڈٹورازم اتھارٹی تاشفین حیدر مہمان خصوصی تھے۔ ان کے ہمراہ کلاسک لینڈ روور کے عاصم درانی، منیجر ایونٹس حسینہ شوکت اور دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔ پشاورسروسز کلب میں منعقدہ شو میں 1935 سے لیکر1980 تک کی 50 سے زائد گاڑیاں شریک ہوئیں۔اس موقع پر روایتی رباب موسیقی اور خٹک ڈانس کی پرفارمنس بھی پیش کی گئی۔

 

 

شو میں مختلف گاڑیوں کیساتھ ساتھ فیمیلز بھی اس ریلی میں موجود ہیں جو آج قلعہ بالاحصاراورپھر ہنڈصوابی میں 4×4 جیپ ریس میں شامل ہونگی۔ جس کے بعد یہ گاڑیاں صوابی سے باراستہ فیصل آباد، رحیم یار خان، مورو، تھر سحرا سے ہوتی ہوئی کراچی پہنچیں گی۔ ونٹیج کار شو میں مرسڈیز، جاگوار فورڈ، شیورلیٹ، منی، وی ڈبلیو، لینڈ روور،مستانک، پورشی، پرانی ویسپا موٹرسائیکلز سمیت دیگرکلاسک گاڑیاں نمائش کیلئے پیش کی گئیں۔کار شو میں ملک کے مختلف شہروں سے قدیم اور کلاسک گاڑیوں کے شوقین افراد اپنی گاڑیوں کے ہمراہ شریک ہوئیں جنہوں نے اس ایونٹ کے انعقاد کو خوب سراہا۔

 

 

اس موقع پر ڈائریکٹرجنرل خیبرپختونخواٹورازم اتھارٹی تاشفین حیدر نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ کئی سالوں سے خیبر ٹو کراچی اور پشاور شو کا انعقاد کررہے ہیں ہماری کوشش ہے کہ اگلے سال ان گاڑیوں کی نمائش کو آثارقدیمہ کے مقامات کی جانب بھی لے کر جایا جائے۔ پشاورسے ریلی اور شو کے انعقاد کا مقصد صوبے خیبرپختونخوا سے امن کا پیغام دینا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ایک مرتبہ پھر پشاور کو پھولوں اور خوشیوں کا شہر بنائیں جیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا۔ کار شو کے دوران سیر و تفریح کیلئے آئی فیمیلزخٹک ڈانس اور روایتی رباب موسیقی سے خوب محظوظ ہوئیں۔

 

 

 

chitraltimes kpcta old car show peshawar 3 chitraltimes kpcta old car show peshawar 7 chitraltimes kpcta old car show peshawar 6 chitraltimes kpcta old car show peshawar 2

chitraltimes kpcta old car show peshawar 9

 

chitraltimes kpcta old car show peshawar 8

 

chitraltimes kpcta old car show peshawar 4

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96107

ریشن احتجاجی دھرنا 20 دسمبر تک ملتوی، ڈپٹی اسپیکر ودیگر پارٹی لیڈر شپ مسئلے کا حل نکالیں گے، مقرریں

Posted on

ریشن احتجاجی دھرنا 20 دسمبر تک ملتوی، ڈپٹی اسپیکر ودیگر پارٹی لیڈر شپ مسئلے کا حل نکالیں گے، مقرریں

اپرچترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) پاور کیٹی ریشن کی طرف سے حکومت کو بیس دن کی مہلت دیدی گئی، 12 گھنٹے دن کے حساب سے بھوک ہڑتال کا باقاعدہ اغاز کل سے احتجاجی کیمپ ریشن رمداس چوک میں ہوگا۔آج کے احتجاجی جلسے میں نوڑ سے لیکر کارگین تک بجلی صارفین نے بڑی تعداد میں شرکت کیں۔ مقررین نے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بھرپور تعاون کی یقین دھانی کی اور 20 دسمبر کو فیصلہ کن جلسے کے اہتمام پر اتفاق ہوا ۔جس میں شندور روڈ بلاک اور ریشن پاور ہاؤس کی پانی بجلی گھر کے لئے بند کرنے پر مکمل اتفاق کیا گیا۔ جلسہ 20 دسمبر تک مؤخر ہونے کی وجہ ملکی حالیہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔ مظاہرین نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر ثریا بی بی اور دیگر پارٹی لیڈرشپ اپنے وعدے کے مطابق حالات نارمل ہونے کی صورت میں وزیر اعلی کے پی کے گنڈاپور کے ساتھ ملاقات کرکے جلد اس مسئلے کا حل نکال لیں گے۔

 

 

chitraltimes Reshun protest continue ramdas chowk 7 chitraltimes Reshun protest continue ramdas chowk 6 chitraltimes Reshun protest continue ramdas chowk 5 chitraltimes Reshun protest continue ramdas chowk 4

chitraltimes Reshun protest continue ramdas chowk 2

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
96091

انٹر سکول ڈویثرنل مقابلوں میں ہائی سیکنڈری سکول دراسن کے طالب علم افتخار احمد نے نعت خوانی میں پہلی پوزیشن حاصل کی، علاقہ پہنچنے پر ان کا پرتباک استقبال۔

انٹر سکول ڈویثرنل مقابلوں میں ہائی سیکنڈری سکول دراسن کے طالب علم افتخار احمد نے نعت خوانی میں پہلی پوزیشن حاصل کی، علاقہ پہنچنے پر ان کا پرتباک استقبال۔

اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز)گورنمنٹ ہائی سیکنڈری سکول دراسن کے طالب علم افتحاراحمد ولد احمد وزیرشاہ گاون سہت انٹرسکولز ادبی ڈویثرن سطح کے مقابلوں میں سکول کی بہترین نمایندہ گی کرتے ہوئے نعت خوانی کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرلی ہے جب علاقہ موڑکھو پہنچا تو سکول کے پرنسپل اساتزہ کرام طلبا اور عمائیدین علاقہ نے ان کا پر تباک استقبال کیا ۔اس قابل فخر طالب علم کی شاندار کامیابی پر ان کے والدین سکول کے پرنسپل جغفریاد خان اور اسا تذہ اکرام کو مبارکباد دیا گیا ۔

 

 

 

chitraltimes iftikhar ahmad first position holder naat khawni 1

chitraltimes iftikhar ahmad first position holder naat khawni 3

chitraltimes iftikhar ahmad first position holder naat khawni 2 chitraltimes iftikhar ahmad first position holder naat khawni 4

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
96101

  دوغلے – شہذاد احمد خان

Posted on

  دوغلے – شہذاد احمد خان

 

 

چند روز قبل ایک نہایت ہی پڑھے لکھے اور معاملہ فہم دوست نے فرمائش کی کہ کچھ دور تک اُن کے ساتھ چہل قدمی ہو جائے۔تو میں نے بلا جھجک اس صحبتِ گراں قدر کے واسطے ہامی بھرلی ۔واپسی پر اُن کے ساتھ اِن فارمل سی گفگتو ہو رہ تھی کہ بات چل پڑی ہمارے معاشرے کے جنسی مسائل اور موجودہ دور کے زن و فرزندانِ اسلام کے جذباتی پن اور بے رہروی کی طرف۔ انھوں نے اپنے سر گزشتہ اور کچھ چشم دیدہ واقعات بتاۓ اور نشاندہی کی کہ ان واقعات کے پسِ منظر میں یہ یہ وجوہات اور خامیاں کار فرما ہیں۔ جن سے میں نے اتفاق کیا اور کہیں اختلاف۔ میں نے بھی کچھ اہم نکتوں کی پھیکی سی وکالت کی، جن میں معاشر ے کے بے تکے رسم و رواج، روایات اور اسلامی تعلیمات و احکامات سے لا علمی، جس کی وجہ سے نکاح مشکل اور زنا کا آسان ہونا، نوجوان اور دوشیزہ کی پسند نا پسند یا مرضی کے بر عکس بعض اوقات، والی کی ناجائز دخل اندازی شامل تھیں۔ العرض، جو باتیں اس حوالے سے میری کھوپڑیا میں یکجا ہوئیں ہیں، میں نے سوچا کہ اُنھیں چند سطور کی شکل میں لیکر آپ قارئین کرام کے سامنے رکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔حالانکہ اِن پیچیدگیوں کا ادراک کم و بیش سب کو ہوتا ہے لیکن کھل کر بحث نہیں ہوتی۔

 

 

ایک فلسفی کہتا ہے ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘ آپ غالِب، میر، داغ، جِگر، جون، پروین، وصی، اور دیگر اردو کے شُعرا کی کتابیں پڑھ لیں، یا ہمارے مقامی اکثر شعراء کو سن لیں تو اِنکا کثیر حِصہ وصل و ہجر و فراق، اَن کہے جذبات، حسرتوں، اور پچھتاووں کے موضوعات پر مُشتمل ہو گا۔ آپ گُوگل کے اعداد و شُمار کا تجزیہ بھی کر لیں، پاکستان کا شُمار اُن مُمالک میں ہوگا، جہاں فحش ویبسائیٹس دیکھنے کا رِواج سب سے زیادہ ہے۔ آپ خیبر سے کراچی تک کا سفر بھی کر لیں، عورت چاہے شٹل کاک بُرقعے میں ہی ملبُوس کیوں نہ گُزر رہی ہو، آس پاس موجود مَرد حضرات اُسے تب تک گُھورتے رہیں گے جب تک وہ گلی کا موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ دورانِ گُفتگو، ہر دو فقروں کے بعد ماں بہن کے جِنسی اعضا پر مُشتمل گالیاں بَکیں گے۔

 

آپ مذہبی مُبلغین و عُلما کے بیانات بھی سُن لیں، اِن میں بہتر72 حُوروں کے نشیب و فراز کے سائز پر سیر حاصِل روشنی ڈالی گئی ہوگی۔ آپ پاکستان کے ڈرامے، ناول، ڈائجسٹ، فلمیں بھی دیکھ لیں، یہ عِشق معشوقی، اور لو افئیرز کے اِرد گِرد گھوم رہے ہوں گے۔ آپ ہر روز اخبار بھی پڑھ کر دیکھ لیں، کِسی ن نے م بی بی کے ساتھ یا کِسی ف نے کِسی ش بی بی کے ساتھ زیادتی بھی کی ہوئی ہوگی، ننھے بچے حتیٰ کہ قبر میں زن کی عزت بھی محفوظ نہیں مِلے گی۔ آپ کو کہیں سائینسی ڈاکومنٹری، مریخ پر زندگی، یا روبوٹس کا تذکرہ نہیں مِلے گا، کوئی سیرت النبی(ص)، مجاہد کی آزاں، مسلم سائنسدان، آئینسٹائین، یا فلسفہ پر گفتگو کرتا نہیں مِلے گا۔۔۔۔یہ کیا ہے؟ یعنی انگریزی میں (زور دیکر اور کندھے اچکا کر)?WHAT. IS. THIS کیونکہ ہم “اُن”سے متاثر پاۓ جاتے ہیں لہذا اِس میں اثر بہت ہے۔

 

 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ «میرا دین تمام ادیان پر غالب ہونے کے لیے ہے»۔ لہذٰا خالص مسلم امت کو اقوام عالم کی امارت کرنا تھی۔ جس کی بنا پر درج زیل بیرونی پیدا کردہ اصول آج ہمیں فالو نہ کرنا پڑتا۔

ایک ایسا دور اور معاشرہ جہاں شادی کرنے کیلیے ایک مرد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہلے تعلیمی ڈگریوں کے انبار، نوکری، گھر، گاڑی، بینک بیلنس بنائے، تاکہ جب جوانی اختتام پذیر ہو، تب شادی کا سوچے، یعنی اپنی آدھی سے زیادہ عُمر کنوارا گھومتا رہے۔ لڑکیوں پر جہیز کا بوجھ الگ۔ اگر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جنسی تسکین ایک بُنیادی اِنسانی ضروت ہے، اور جب تک انسان کی یہ بنیادی ضروت پوری نہ ہو، انسان دیگر تخلیقی کاموں پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتا، ذہنی خلفشار کا شکار رہتا ہے، تو ہم یہ حقیقت ماننے سے انکاری کیوں ہیں؟ ہم کب تک نیوٹن، آئینسٹائین، بِل گیٹس کے بجائے شاعر، مجنوں، رانجھا، اور غمزدہ نسلیں پیدا کرتے رہیں گے؟ ہم کب تک زندگی کے چار میں سے دو دن آرزو اور باقی کے دو دن انتظار میں گزارنے پر نوجوانوں کو مجبور کرتے رہیں گے؟

 

 

ہم کِس سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ یہ کیسا نظامِ زندگی ہے جہاں بُنیادی اِنسانی ضروریات کے اظہار، اور تکمیل پر پابندی ہے، گھُٹن ہی گھُٹن ہے؟ جب سچائی اور حقیقتوں کے اظہار کے تمام دروازے بند کر دئے جائیں، تو ہوتا تو تب بھی سب کُچھ ہے، مگر مُنافقت کے پردہ میں، ہر شخص فرشتہ صفت ہونے کا دعویدار بن جاتا ہے، اور ڈھونڈنے سے بھی کہیں کوئی اِنسان دِکھائی نہیں دیتا۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96088

طوفان کے بیچ سفرِ شجاعت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

طوفان کے بیچ سفرِ شجاعت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

یہ کہانی ایک لڑکی کے سمندری سفر کی ہے جو ایک طوفانی رات میں خوفناک حالات کا سامنا کرتی ہے۔ کشتی الٹنے کے بعد وہ سمندر میں تنہا رہ جاتی ہے اور خطرناک شارک اور طوفانی لہروں کے درمیان اپنی ہمت اور حوصلے سے زندگی کی جنگ لڑتی ہے۔ کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد، وہ بچاؤ کشتی کی مدد سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہ تجربہ اسے سکھاتا ہے کہ زندگی کے مشکل لمحات بھی ہماری شخصیت کو مضبوط بناتے ہیں۔

رات کے گہرے سناٹے میں، جب سمندر کی لہریں اپنے عروج پر تھیں، وہ خود کو اس کے رحم و کرم پر محسوس کر رہی تھی۔ آسمان پر بجلی کی چمک، گہرے بادلوں کی گرج، اور پانی کی لہروں کی دہاڑ ایک خوفناک منظر تخلیق کر رہے تھے۔ مگر وہ لڑکی، جس کے دل میں نہ ختم ہونے والا تجسس تھا، اس طوفانی رات کو اپنی زندگی کے سب سے بڑے ایڈونچر کے طور پر دیکھ رہی تھی۔

 

nandini girl in river under water ocian

یہ سب اس وقت شروع ہوا جب وہ ایک کشتی پر اپنے دوستوں کے ساتھ سمندر کے وسط میں ایک معمولی سفر پر نکلی تھی۔ سب کچھ پرسکون تھا، ہوا نرم تھی، اور لہریں ہموار تھیں۔ لیکن وقت کا پہیہ اچانک بدل گیا۔ دور سے آتے بادلوں نے پورے آسمان کو ڈھانپ لیا، اور ان کے بیچ چھپی بجلی نے پانی کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا۔

کشتی، جو کبھی ان کے تحفظ کا ذریعہ تھی، اب بے قابو ہو چکی تھی۔ اچانک ایک بڑی لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور وہ پانی میں جا گری۔ اس کے دوست بکھر گئے، اور وہ خود سمندر کے بیچ اکیلی رہ گئی۔ پانی کا سرد لمس اور دل دہلا دینے والی گہرائی اس کے خوف کو اور بڑھا رہی تھی۔

اسی لمحے، اس نے اپنے قریب ایک شارک کی پشت دیکھ لی۔ یہ لمحہ کسی خواب سے کم نہ تھا۔ اس کی دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، مگر خوف پر قابو پا کر اس نے اپنی سانسوں کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔ سمندر کے بیچ تنہا، وہ جانتی تھی کہ ہار ماننے کا مطلب موت کو گلے لگانا ہے۔

اس نے خود کو سنبھالا اور فیصلہ کیا کہ اگر یہ رات اس کی آخری ہو، تو وہ اسے بہادری سے گزارے گی۔ طوفانی لہروں کے بیچ تیرتے ہوئے، اس نے نہ صرف اپنی جان بچانے کی کوشش کی بلکہ اس خوبصورتی کو بھی محسوس کیا جو طوفان کے ساتھ تھی۔ بجلی کی روشنی میں پانی کا چمکتا ہوا منظر اور لہروں کا شور جیسے ایک عجیب قسم کی موسیقی تخلیق کر رہے تھے۔

کئی گھنٹوں کی جدو جہد کے بعد، اسے دور سے ایک روشنی دکھائی دی۔ وہ روشنی کسی کشتی کی تھی جو اس کی طرف آ رہی تھی۔ اس نے پوری طاقت سے چیخنا شروع کیا اور اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ کشتی کے عملے نے اسے پانی سے نکالا اور اسے تحفظ دیا۔

اس رات نے اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ نہ صرف اپنے خوف پر قابو پا چکی تھی بلکہ اس نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے، چاہے وہ کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو۔ یہ سمندری سفر اس کی یادوں کا حصہ بن گیا، جو اسے ہمیشہ زندگی کی خوبصورتی اور ہمت کی اہمیت یاد دلاتا رہے گا۔

ایڈونچر ہمیں نہ صرف نئے تجربات سکھاتا ہے بلکہ ہماری شخصیت کو نکھارتا بھی ہے۔ زندگی کے سمندری طوفانوں سے نہ گھبرائیں، بلکہ ان کا سامنا کریں کیونکہ یہی لمحات آپ کی زندگی کو خاص بناتے ہیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96084

اسلام آباد کو شرپسندوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ردالفساد فورس بنانے کا فیصلہ

Posted on

اسلام آباد کو شرپسندوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ردالفساد فورس بنانے کا فیصلہ

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ)اسلام آباد میں امن وامان کے معاملہ پر وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا، اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی خصوصی شرکت کی۔وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وفاقی وزرا اور سکیورٹی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے بھی شرکت کی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد کو شرپسندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے رد الفساد فورس بنائی جائے گی، شرپسندوں کی نشاندہی کے لئے اسلام آباد میں فرانزک لیب قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔اجلاس میں سوشل میڈیا پر منفی پراپیگنڈہ پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، 24 نومبر کے بعد ہونے والی صورتحال کے ابعث شرپسند عناصر کیخلاف بھرپور قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ذرائع کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت تمام شرپسندوں کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں گے، اجلاس میں شرکا کو سکیورٹی کی مجموعی صورتحال کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔اجلاس میں خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کے حوالے سے کوئی تجویز زیرغور نہیں آئی۔

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں
96076

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا بھی ڈینٹل ڈگری 5 سالہ کرنیکا فیصلہ

Posted on

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا بھی ڈینٹل ڈگری 5 سالہ کرنیکا فیصلہ

لاہور( چترال ٹائمزرپورٹ)پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے بھی ڈینٹل کی ڈگری کو 5 سالہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے اس سلسلے میں تمام یونیورسٹیوں کو احکامات جاری کردیئے۔ترجمان پی ایم ڈی سی کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پہلے ہی بی ڈی ایس کی ڈگری 5 سال کی کردی ہے اور اب کونسل نے پاکستان کی تمام میڈیکل یونیورسٹیوں کو مراسلہ جاری کردیا ہے۔ترجمان نے بتایا کہ 4 سال کی ڈگری کی وجہ سے پاکستانیوں کو بیرون ملک تعلیم اور نوکریوں کے حصول میں مشکلات تھیں لہٰذا پانچواں سال کلرک شپ کا ہوگا جس کے بعد ایک سالہ ہاؤس جاب ہوگی۔ترجمان کے مطابق بی ڈی ایس 5 سالہ کرنے کا فیصلہ سیشن 25-2024 سے نافذ العمل ہو

توانائی کے شعبے میں بڑی پیشرفت،سندھ میں تیل و گیس کا نیا ذخیرہ دریافت

کراچی (سی ایم لنکس)پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) نے سندھ کے ضلع سجاول میں تیل و گیس کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت کیا ہے، جسے توانائی کے شعبے میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پی پی ایل کے ترجمان کے مطابق یہ ذخیرہ ریکارڈ وقت میں دریافت ہوا ہے، اور اس سے یومیہ 1 کروڑ 24 لاکھ اسٹینڈرڈ کیوبک فٹ گیس اور 196 بیرل خام تیل حاصل کیا جائے گا۔اس دریافت میں پی پی ایل کا حصہ 63 فیصد ہے، جبکہ ماڑی پیٹرولیم کا حصہ 32 فیصد ہے، اور سندھ اور وفاقی حکومتیں 2.5 فیصد کے حصے دار ہیں۔ پی پی ایل نے اس اہم کامیابی کے بارے میں اسٹاک ایکسچینج کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔ اس دریافت سے نہ صرف پاکستان کی توانائی کی ضروریات میں اضافہ ہوگا بلکہ ملک کی معیشت میں بھی بہتری کی توقع ہے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96073

پاک چین سرحد خنجراب کو 4 ماہ کیلئے عام آمدرفت کیلئے بند کردیا گیا – وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتہ کی تعطیل ختم

پاک چین سرحد خنجراب کو 4 ماہ کیلئے عام آمدرفت کیلئے بند کردیا گیا

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ)پاک چین سرحد خنجراب کو معاہدے کے تحت 4 ماہ کیلئے عام آمدرفت کیلئے بند کردیا گیا۔پاکستان اور چین کو زمینی آمدرفت کے ذریعے ملانے والی خنجراب سرحد کو دونوں جانب سے 30 مارچ تک بند کردیا گیا ہے۔ دو طرفہ معاہدے کے مطابق خنجراب سرحد کو تجارت سیاحت اور عام آمدرفت کیلئے ہر سال یکم اپریل سے 30 نومبر تک کھل دیا جاتا ہے۔اس سال ایک روز قبل اس لئے بند کیا گیا کہ ہفتہ اور اتوار کو معمول کی چھٹی ہوتی ہے۔ سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے 15 ہزار فٹ بلند خنجراب سرحد پر ماہ نومبر سے مارچ تک زیادہ برف باری کیوجہ سے ٹریفک کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

 

 

وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتہ کی تعطیل ختم

اسلام آباد(سی ایم لنکس  )وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتے کی تعطیل ختم کردی گئی۔وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتے کی چھٹی ختم کرنے کا نوٹفیکیشن جاری کردیا گیا۔ نوٹفیکیشن کے مطابق کئی روز سے تعلیمی ادارے بند رہنے کے باعث طلبا کی تعلیم کا حرج ہوا۔تعلیمی اداروں میں کل سے ہفتے کا دن ورکنگ ڈے ہو گا۔ چھٹی کے خاتمے سے متعلق فیصلے کا اطلاق 30 نومبر سے یکم فروری 2025 تک ہوگا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت دیگر علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے باعث تعلیمی ادارے بند کردئیے گئے تھے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستان
96080

دھرنے میں ہلاکتیں زیادہ ہیں فی الحال 12 کی تصدیق کرتے ہیں، تحریک انصاف

Posted on

دھرنے میں ہلاکتیں زیادہ ہیں فی الحال 12 کی تصدیق کرتے ہیں، تحریک انصاف

پشاور( چترال ٹائمزرپورٹ) پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنے میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے دعوے کے بعد ترجمان نے 12 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان وقاص اکرم شیخ نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے احتجاجوں کی تاریخ میں اس قسم کا رویہ نہیں دیکھا۔ اس وقت قوم اور ہر بچہ دکھ اور تکلیف محسوس کررہا ہے۔ پرامن مظاہرین پر تشدد کیا گیا اور حکومت شواہد چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہلاکتیں رپورٹ کرنے والوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ بہت سے لوگ تاحال لاپتا ہیں اور ہمیں کچھ پتا نہیں۔ کچھ تعداد پولیس دے رہی ہے جب کہ کچھ گرفتار افراد کا ڈیٹا ہم نے اکٹھا کیا ہے۔

 

وقاص اکرم شیخ نے کہا کہ 12 افراد دھرنے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ تعداد زیادہ ہے مگر ہم کنفرم میڈیا کے ساتھ شیئر کررہے ہیں۔ یہ ہمیں میت تک نہیں دے رہے تھے، ورثا کو میت 3 دن بعد دی گئی۔ حکومت شواہد اور میتیں چھپانے کی کوشش کررہی ہے مگر یہ چیزیں چھپ نہیں سکتیں۔پریس کانفرنس میں وقاص اکرم شیخ نے کہا کہ حکومت نام اور ثبوت مانگ رہی ہے۔ اسپتالوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ لسٹ میڈیا کے ساتھ شیئر نہ کی جائے۔نہتے لوگوں پر گولیاں چلانے کی اجازت کون سا قانون دیتا ہے؟۔ کس حکومت نے پرامن شہریوں پر گولیاں چلائی ہیں؟۔ ریاستی مشینری کو اپنے لوگوں کے خلاف کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ احتجاج اتنا بڑا گناہ تو نہیں ہے۔ اس کا حق تو آئین دیتا ہے۔ ہمارے کارکن آنسو گیس، ربڑ گولیوں کے لیے تیار تھے، مگر اصل گولیوں کے لیے نہیں۔ جنگ میں تو فوجیوں کو بھی گولیوں سے جان بچانے کی اجازت ہے۔وقاص اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، ریاست نے اپنے عوام کے ساتھ کیا کیا؟۔ وزرا کہتے ہیں ایک بھی گولی نہیں چلی تو یہ کس نے چلائی ہیں؟۔ ریاست کے صبر کا پیمانہ کیسے لبریز ہوا؟۔ اس طرح سے تو نفرتیں مزید بڑھیں گی۔ خود حکومتی وزرا کی باتوں میں بہت تضاد ہے۔

 

ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ بانی چیئرمین نے ڈی چوک تک جانے کی ہدایت کی تھی۔یہ دہشت گرد نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے کارکن تھے۔ یہ دلیر لوگ تھے، انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے بانی چیئرمین کی بیوی کو بچایا ہے تاکہ کل کوئی انہیں پختون ہونے کا طعنہ نہ دے۔ وزیراعلیٰ کی ذمے داری تھی کہ وہ خاتون کی حفاظت کرے، اس لیے وہاں سے واپس آئے۔وزیراعلیٰ کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی، ان کی گاڑی کو ہِٹ کیا گیا۔ روکنے کی کوشش کی گئی لیکن سی ایم کی گاڑی کے پی کے میں رْکی۔پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ساڑھے 5ہزار لوگوں کو دھرنے سے قبل اٹھایا گیا۔ ہم تمام گرفتار افراد کو سہولیات دیں گے۔ ہزاروں گاڑیاں اسلام آباد میں اب بھی کھڑی ہیں۔ سرکاری وردی میں گلوبٹ ذہن والے لوگ گاڑیوں کو تباہ کررہے ہیں۔ ریاست کی ذمے داری ہمارا تحفظ کرنا ہے مگر یہ تو نقصان پہنچا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کی قرار داد ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کی جائے۔ ہم بھی کے پی اسمبلی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر پابندی کی قرارد داد لائیں گے۔ کے پی میں گورنر راج کی باتیں ہو رہی ہیں، پختونخوا کے لوگ ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔

 

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ تمام متاثرہ افراد کو قانونی کراروائی کا آغاز کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ اندھیرے کا دور جلد ختم ہوگا، انہیں اس ظلم کا جواب دینا ہوگا۔ ہم جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات پر ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں پختونخوا کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو بانی چیئرمین کی ہدایت پر ڈی چوک پہنچے۔عمر ایوب نے کہا کہ وزیراعلی کا جو کردار رہا ہے جس طرح انہوں نے احتجاج کو لیڈ کیا علی امین داد کے مستحق ہیں، 8 فروری کو الیکشن نتائج تبدیل کیے گئے موجود حکومت غیر قانونی ہے، پاکستان کے سیکیورٹی اہلکار جو بارڈرز پر جو لڑرہے ہیں وہ قوم کے ہیرو ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈی چوک میں شدید شیلنگ کے ساتھ فائرنگ شروع ہوئی، لیڈر شپ قریبی فائرنگ کی وجہ سے نہیں ٹھہری، فائرنگ کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے؟ نماز پڑھنے والے کو 35 فٹ کنٹینر سے گرانے والے اہلکاروں کے خلاف کاروائی ہونے چاہییے،

 

چیف جسٹس آف پاکستان ڈی چوک میں ہونے والے مواقع کی جوڈیشل انکوائری کرائیں یہ ہمارا مطالبہ ہے، یہ حکومت غلط بنیادوں پر بنی ہے اسے گرایا جانا چاہیے، فورسز اس حکومت کو سپورٹ نہ کریں، ڈی چوک تک پہنچے کا ٹارگٹ ہم نے پورا کیا اور فائرنگ کے بعد ہم وہاں سے چلے گئے۔وقاص اکرم نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ کا استعفی منظور نہیں کیا گیا، وہ کل سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے، سلمان اکرم راجہ بطور جی ایس کام کررہے ہیں، پنجاب سے لوگ نہیں نکلے کیونکہ وہاں پر لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تھا، پنجاب سے لوگ نہیں نکلے ہم خود بھی دیکھ رہے ہیں کہ کیا وجہ تھے مگر ٹرانسپورٹ بند کی گئی اڈے بند کئے اور لوگوں کے خلاف کاروائی کی گئی۔

 

 

 

بشریٰ بی بی اور میرے درمیان اختلافات کی باتیں محض پروپیگنڈا ہیں، وزیراعلیٰ کے پی

پشاور(سی ایم لنکس) وزیراعلی خیبرپختون خوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ میرے اور بشریٰ بی بی کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں یہ محض افواہیں ہیں۔پشاور میں میڈیا سے بات چیت میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ میرے اور بشریٰ بی بی کے درمیان اختلافات کی باتیں پروپیگنڈا ہیں، ہمارا مقصد بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی ہے۔انہوں ں ے کہا کہ ہمارے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کیے گئے ہیں،آج خیبرپختونخوا اسمبلی میں خطاب کروں گا، خطاب میں جو کچھ ہوا، مستقبل میں کیا کرنا ہے وہ بتاؤں گا۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96070

دسمبر تک خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں کے پنشن بقایاجات کلئیر کردیں گے۔ خیبرپختونخوا یونیورسٹیوں کو مالی طور پر پائیدار بنانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں مشیر خزانہ

Posted on

دسمبر تک خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں کے پنشن بقایاجات کلئیر کردیں گے۔ خیبرپختونخوا یونیورسٹیوں کو مالی طور پر پائیدار بنانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم
خیبرپختونخوا نے تمام صوبوں سے زیادہ کلائمیٹ اور انوائرمنٹ پر کام کیا ہے اور تحریک انصاف بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کی مثالیں پوری دنیا میں دی جاتی ہے مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم کا شہید بے نظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب

 

 

پشاور (چترال ٹائمزرپورٹ ) وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکے مشیر برائے خزانہ و بین الصوبائی رابطہ مزمل اسلم نے جمعہ کے روز شہید بے نظیربھٹو ویمن یونیورسٹی کا دورہ کیا اور دوستی لٹریچر فیسٹیول کی اختتامی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ دسمبر تک خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں کے پنشن بقایاجات کلئیر کر دیں گے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ وفاقی حکومت یونیورسٹیوں کی فنڈنگ ختم کرنے پر کام کر رہی ہے جبکہ ہم خیبرپختونخوا میں یونیورسٹیوں کو مالی طور پر پائیدار بنانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ مزمل اسلم نے کہا کہ خیبرپختونخوا یونیورسٹیوں کی مالی گریڈنگ کریں گے تاکہ انکی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ مشیر خزانہ مزمل اسلم نے کہا کہ حکومت کی مشاورت سے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس فری مارک اپ لون اسکیم شروع کریں گے۔

 

انہوں نے کہا کہ خواتین کو ڈگری اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشرے کو پے بیک کرنا چاہیئے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے تقریب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوستی فیسٹیول کا عنوان کلائمٹ اور انوائرمنٹ کے بارے میں ہونا بہترین اقدام ہے پوری دنیا کلائمیٹ اور انوائرمنٹ کیلئے ریگولیشن قوانین بنانے کا سوچ رہی ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ خیبرپختونخوا نے تمام صوبوں سے زیادہ کلائمیٹ اور انوائرمنٹ پر کام کیا ہے اور تحریک انصاف بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کی مثالیں پوری دنیا میں دی جاتی ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ رواں سال دنیا کے 16 ممالک بلین ٹری منصوبے شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں اور بلین ٹری سونامی منصوبے سے 20 لاکھ لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت اگلے ہفتے کلین انرجی روڈز شو منعقد کرے گی اور یہ خصوصی روڈز شو کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں منعقد کیے جائیں گے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ پاکستان میں ویمن ایمپاورمنٹ پر مزید کام ہونا چاہیے اس خصوصی لٹرری فیسٹول میں صوبائی وزیر سوشل ویلفئیر سید قاسم علی شاہ، وائس چانسلر ڈاکٹر صفیہ احمد، پروفیسرز، لیکچرز اور طلباء و طالبات نے بھی شرکت کی۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96068

محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے غیر متعلقہ پوسٹوں پر تعینات سٹاف کو ان کے اصل شعبہ جات میں واپس بھیج دیا۔ احتشام علی 

Posted on

محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے غیر متعلقہ پوسٹوں پر تعینات سٹاف کو ان کے اصل شعبہ جات میں واپس بھیج دیا۔ احتشام علی

پشاور (چترال ٹائمزرپورٹ) وزیرعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیربرائے صحت احتشام علی کی ہدایت پر محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے سالوں سے ہیلتھ سیکرٹریٹ میں غیر متعلقہ پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں کو ان کے اصل شعبہ جات میں واپس بھیجنے کا عمل مکمل کر لیا ہے۔مشیر صحت نے واضح کیا کہ ہر ملازم اپنی اصل پوسٹ پر خدمات انجام دے گا اور ہر عہدے پر متعلقہ کوالیفیکیشن رکھنے والا اہلکار ہی تعینات کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ”یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ سیکرٹریٹ میں کوئی قابل فرد موجود نہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو ان پوسٹوں پر تعیناتی کے لیے انٹرویوز کے ذریعے میرٹ پر عمل درآمد کیا جائے گا۔”محکمہ صحت کے نوٹیفیکیشن کے مطابق، سترہ اہلکاروں کو ہیلتھ سیکرٹریٹ سے ری پیٹریٹ کیا گیا ہے، جن میں گریڈ 18 کے ایک، گریڈ 17 کے دو، گریڈ 16 کے چھ، اور گریڈ 11 کے آٹھ اہلکار شامل ہیں۔

 

نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ 18 کے ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے فارماسسٹ، جو ڈپٹی سیکرٹری ڈرگز اور سیکرٹری فارمیسی کونسل کے طور پر تعینات تھے، کو واپس ان کے اصل محکمے میں بھیج دیا گیا ہے۔اسی طرح گریڈ 17 کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور سپرنٹنڈنٹ کو بھی اپنے متعلقہ شعبوں میں ری پیٹریٹ کر دیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ 16 اور گریڈ 11 کے دو کمپیوٹر آپریٹرز، تین اسسٹنٹس، اور سات جونیئر کلرکوں کو بھی ان کے متعلقہ محکموں میں واپس بھیج دیا گیا ہے۔محکمہ صحت کا یہ اقدام سرکاری مشینری میں شفافیت اور میرٹ کے فروغ کی جانب اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96065

شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

پرتگال کی یخ بستہ شام میں گرم کافی کے ساتھ ایک میل موصول ہوئی، جس میں چترال ٹائمز کے ایک محترم ایڈیٹر نے ایک حساس مسئلے پر توجہ دلائی۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں 15 سے 30 سال کی لڑکیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ڈاکٹر شاکرہ نندنی یعنی مجھے، اس موضوع پر تحقیق کے لیے مجبور کر دیا۔

 

چترال اور شمالی پاکستان کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کی خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان نہایت تشویشناک ہے۔ میں، ڈاکٹر شاکرہ نندنی، اس موضوع پر بات کرنا چاہتی ہوں تاکہ اس کے پیچھے چھپی وجوہات کو سمجھا جا سکے اور ان کے حل تلاش کیے جا سکیں۔

 

وجوہات – میری تحقیق کی روشنی میں

ARY NEWS URDUNEWS TNN URDU گھریلو تشدد اور خاندانی تنازعات
میری تحقیق کے مطابق، گھریلو جھگڑے اور تشدد خواتین کے لیے سب سے بڑی پریشانیوں میں شامل ہیں۔ خاص طور پر کم عمری کی شادی اور حقوق کی پامالی جیسے مسائل ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

 

URDU NEWS URDU NEWS تعلیمی ناکامیاں

وہ نوجوان لڑکیاں جو تعلیمی میدان میں ناکامی کا سامنا کرتی ہیں، خاص طور پر جہاں والدین یا معاشرے کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں، خود کو تنہائی اور مایوسی کا شکار پاتی ہیں​۔

 

ARY NEWS ذہنی صحت کی سہولیات کا فقدان

چترال میں ماہر نفسیات کی غیر موجودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میری تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ذہنی صحت پر گفتگو کو معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کو مدد نہیں مل پاتی۔

 

ARY NEWS TNN URDU سماجی دباؤ اور ثقافتی روایات

 

روایتی رسوم و رواج، جیسے کم عمری میں شادی یا خواتین کو “بوجھ” سمجھنا، ان کی خودمختاری کو محدود کر دیتا ہے اور مایوسی بڑھتی ہے۔

 

ARY NEWS URDUNEWS موجودہ صورتحال اور اعداد و شمار

میری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پچھلے پانچ سالوں میں چترال میں خودکشی کے 63 کیسز میں سے 54 فیصد خواتین کی تھیں۔ زیادہ تر واقعات میں خواتین نے دریا میں چھلانگ لگائی یا خود کو پھانسی دی​۔

 

حل کے لیے میری تجاویز

ذہنی صحت کی سہولیات میں اضافہ

چترال جیسے علاقوں میں ماہر نفسیات کی تعیناتی اور کونسلنگ مراکز قائم کیے جائیں۔

تعلیمی اور روزگار کے مواقع

لڑکیوں کے لیے ہنر سکھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ خودمختار بن سکیں۔

سماجی رویوں میں تبدیلی
والدین اور کمیونٹی کے درمیان آگاہی مہم چلائی جائیں تاکہ خواتین کو درپیش دباؤ کم ہو اور وہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکیں​۔

قانونی تحفظ اور خواتین کے لیے خصوصی پناہ گاہیں
دارالامان جیسے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ گھریلو جھگڑوں سے متاثرہ خواتین کو محفوظ پناہ فراہم کی جا سکے​۔

آخرش میری تحقیق کے مطابق اس میں غیرت کے نام پر قتل کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے جسے خودکشی کا رنگ دیا جا سکتا ہے اس پر میرا پورا ایک آرٹیکل بھی ہے، یہ ایک پیچیدہ اور حساس اور تحقیقاتی مسئلہ ہے، جس کا حل حکومت، معاشرتی تنظیموں اور کمیونٹی کے تعاون سے ممکن ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مزید تحقیق اور مداخلتیں اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

 

اعلامیہ
یہ مضمون مکمل طور پر میری ذاتی تحقیق اور خیالات پر مبنی ہے، جسے مختلف میڈیا رپورٹس، تحقیقی مضامین، اور معتبر خبروں کے ذرائع سے اخذ کیا گیا ہے۔ میں نے اس مسئلے پر اپنی فہم و دانش کے مطابق روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس کے سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

 

 

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس مضمون کا کسی بھی نیوز چینل، میڈیا ادارے، یا خاص طور پر چترال ٹائمز سے کوئی تعلق یا وابستگی نہیں ہے۔ میں نے اس موضوع پر جو بھی لکھا ہے، وہ میری ذاتی رائے ہے اور اس کا مقصد صرف آگاہی اور مثبت مکالمے کو فروغ دینا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96061

بلوچستان اوربالائی علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش/پہاڑوں پر برفباری کی پیشگوئی

Posted on

بلوچستان اوربالائی علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش/پہاڑوں پر برفباری کی پیشگوئی

اسلام آباد ( چترال ٹائمزرپورٹ ) محکمہ موسمیات کے مطابق 28نومبر (رات) سے مغربی ہوائیں ملک کے مغربی علاقوں میں داخل ہو چکی ہیں۔ جس کے باعث 29 نومبر اور02 دسمبر کے دوران : کوئٹہ، پشین، قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی، موسیٰ خیل، بارکھان، زیارت، لورالائی اور ڈیرہ غازی خان میں جبکہ28 (رات) اور29 نومبر کو: گوادر، کیچ، پنجگور، آواران، قلات، خضدار اور لسبیلہ میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کےساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔

 

 

29 نومبر (شام/رات) سے 02 دسمبر کے دوران: وزیرستان، کرم، مہمند، خیبر، چترال، دیر، سوات، مالاکنڈ، بونیر، شانگلہ، مانسہرہ، ایبٹ آباد، کوہستان، استور، غذر، گلگت، ہنزہ، اسکردو، وادی نیلم، مظفرآباد، راولاکوٹ، کوٹلی، حویلی اور باغ میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کےساتھ ہلکی سے درمیانی بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔

 

 

• 29 نومبر(شام/رات) اور 02 دسمبر کو: خطہ پوٹھوہار، مری، گلیات، اسلام آباد، میانوالی، بھکر اور لیہ میں ہلکی بارش/بوندا باندی کا امکان ہے۔

 

ممکنہ اثرات اور احتیاطی تدابیر: پنجاب کے علاقوں میں جاری فضائی آلودگی میں کمی اور ہوا کامعیار بہتر ہونے کی توقع ہے ، جبکہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں آنے والے دنوں میں دھند کی شدت میں اضافے کی توقع ہے ، کسان حضرات موسمیاتی پیش گوئی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے معمولات ترتیب دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

اس سلسلے میں تمام متعلقہ اداروں کو ” الرٹ “رہنے اور کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96059

بیچارہ مرد – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

بیچارہ مرد – خاطرات :امیرجان حقانی

 

یہ دنیا کے رنگ عجیب ہیں۔ ایک طرف عورت کو مظلومیت کا تاج پہنایا جاتا ہے، دوسری طرف مرد کو ظالم اور بے حس بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت شاید ان کہانیوں سے کہیں مختلف ہے۔ اگر کسی نے کبھی غور کیا ہو، تو معلوم ہوگا کہ مرد ایک خاموش عاشق ہے، ایک محبت بھرا ہیرو، جو اپنی محبت، خاندان اور خوابوں کی تکمیل کے لیے ہر روز ایک نئی جنگ لڑتا ہے۔

 

یہ دور واقعی “خواتین کا میڈیائی دور” ہے۔ پوری دنیا کا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا خواتین کے حقوق کا علمبردار نظر آرہا ہے۔ ہر طرف یہی شور ہے کہ عورت مظلوم ہے، اور اسے اس کے حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ عورت کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن کیا کبھی کسی نے مرد کے دکھوں اور قربانیوں کی طرف بھی توجہ دی؟ شاید نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مرد کی بیچارگی ایک خاموش حقیقت بن چکی ہے، جسے سننے والا کوئی نہیں۔ خود مرد بھی نہیں!

 

مسلم معاشروں میں جہاں عورت کو بہت سے حقوق دیے گئے ہیں، وہاں یہ کہنا کہ وہ “مظلوم” ہے، ایک پوسٹ ٹرتھ بیانیہ بن گیا ہے۔ یہ وہ تصور ہے جس میں حقائق کی جگہ جذبات نے لے لی ہے۔ اگر ہم مرد کی قربانیوں پر غور کریں، تو عورت مظلوم کم اور مرد بیچارہ زیادہ محسوس ہوگا۔

 

ذرا سوچیے، ایک مرد جب نکاح کے بندھن میں بندھتا ہے، تو اس کے لیے یہ صرف محبت کا ایک عہد نہیں ہوتا، بلکہ قربانیوں کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ نکاح اور شادی کی رسومات پر خرچ ہونے والے لاکھوں روپے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ ایک غریب مرد کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس آگ سے گزرے۔

 

شادی کے بعد ایک مرد پر صرف اپنی بیوی کو خوش رکھنے کی ذمہ داری نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بچوں، خاندان اور ایک بہتر زندگی کے خوابوں کا بوجھ بھی آ جاتا ہے۔ وہ دن رات محنت کرتا ہے، اپنی خواہشات کو دباتا ہے، اور اپنے آرام کو قربان کر دیتا ہے، تاکہ اس کا خاندان خوش رہے۔

 

کبھی وہ پتھر توڑتا ہے، اور درجنوں، جسمانی و ذہنی مشقت پر مبنی کام کرتا ہے۔کبھی دفاتر کی ذلت سہتا ہے، اور کبھی اپنے دل کے ارمانوں کو دفن کر دیتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کی بیوی اور بچے کسی چیز کی کمی محسوس نہ کریں۔ اور پھر بھی معاشرہ کہتا ہے کہ مرد ظالم ہے، عورت مظلوم ہے۔

 

اگر مرد کو صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی، یا وہ صرف اپنی جنسی خواہشات پوری کرنا چاہتا، تو شاید وہ شادی جیسے مشکل عمل سے کبھی نہ گزرتا۔ وہ بہت آسان اور سستے راستے بھی اختیار کر سکتا تھا۔ مگر نہیں، مرد یہ سب کچھ محبت، خاندان بسانے، اور اولاد کی خوشیوں کے لیے کرتا ہے۔

 

یہ سچ ہے کہ مرد کے جذبات اتنے واضح نہیں ہوتے، لیکن اس کے عمل میں محبت جھلکتی ہے۔ وہ اپنی خوشیوں کو پس پشت ڈال کر اپنے خاندان کے لیے ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑا رہتا ہے۔ ایسی دیوار جو دیوار چین سے بھی مضبوط ہے۔

 

کیا ہم نہیں جانتے کہ بیچارہ مرد ایک پورے خاندان کے خوابوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے۔ بچوں کی تعلیم، ان کی خوشیاں، گھر کی ضروریات، اور ایک بہتر زندگی کی جستجو… یہ سب وہ دن رات محنت کر کے پورا کرتا ہے۔

 

ہر بار وہ اپنی خواہشات، اپنی خوشیاں، اور اپنی راحتیں قربان کر دیتا ہے، مگر اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہتی ہے۔ اس کے دل میں ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا خاندان خوش اور سکھی رہے۔

 

یہ کہنا کہ عورت ہمیشہ مظلوم ہے اور مرد ہمیشہ ظالم، شاید انصاف نہیں۔ ہر رشتہ ذمہ داریوں، قربانیوں اور محبت کے توازن پر قائم ہوتا ہے۔ جہاں عورت کی قربانیوں کو سراہا جانا ضروری ہے، وہیں مرد کی قربانیوں کو نظرانداز کرنا زیادتی ہے۔

 

مرد کی یہ محبت شاید الفاظ میں کم اور عمل میں زیادہ جھلکتی ہے۔ وہ محبت، عزت اور خاندان کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ہر قدم پر اپنی محبت کے لیے جیتا ہے، اپنی عزت کے لیے لڑتا ہے، اور اپنی اولاد کے لیے خواب دیکھتا ہے۔

 

کیا یہ انصاف ہے کہ مرد کی ان قربانیوں کو نظرانداز کر دیا جائے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ عورت کو ہمیشہ مظلوم اور مرد کو ہمیشہ ظالم دکھایا جائے؟ شاید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد ایک خاموش عاشق ہے، جو اپنے پیار کو خوش رکھنے کے لیے اپنی ہر خوشی قربان کر دیتا ہے۔

 

یہ وقت ہے کہ ہم اس خاموش محبت کو تسلیم کریں۔ مرد کا دل بھی محبت کرتا ہے، اور اس کی محبت بھی اتنی ہی گہری، سچی اور خالص ہے جتنی کسی عورت کی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے خاندان کے لیے ایک خاموش ہیرو ہے، جس کی قربانیاں شاید نظر نہ آئیں، مگر ان کی تاثیر ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔

 

یہ چند الفاظ، محبت کے اس ہیرو کو سلام پیش کرنے کے لیے لکھا ہے، جو ہر روز اپنی زندگی کی جنگ لڑتا ہے، اور پھر بھی مسکراتا رہتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کی محبت کا جہان خوش رہے۔

 

یہ تحریر ان تمام خواتین کے نام بھی ہے جن کے مرد اپنی زندگی، محبت، خاندان اور رشتوں کے لیے وقف کر دیتے ہیں، اور پھر بھی “ظالم” کہلاتے ہیں۔ حقیقت میں، وہ اس دنیا کے سب سے بڑے مظلوم ہیں، مگر خاموش! کیا آپ اس ہیرو کو سیلوٹ کریں گی؟

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96056

داد بیداد ۔ روم اور شاعر ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔ روم اور شاعر ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

 

شاعر، ڈرامہ نگار، اداکار اور فلسفی شیکسپئیرنے اپنی 52سال کی زند گی میں ایک دن کے لئے بھی اٹلی کا سفر نہیں کیا اس کے باوجود وہ روم اور وینس کے عشق میں مبتلا تھا اُس نے چھ المیہ ڈرامے روم کے پس منظر میں لکھے ایک طربیہ ڈرامہ لکھا وہ بھی قدیم روم سے تعلق رکھتا ہے المیہ ڈراموں میں رومیو اینڈ جو لیٹ، ٹیٹو س، جو لیس سیزر، قلو پطرہ، کوریولو نس کا پس منظر روم کی تاریخ سے ما خوذ ہے ایک ڈرامہ اوتھیلو کا پس منظر وینس کے شہر سے تعلق رکھتا ہے اس با ت کا ادراک کر کے حیرت ہوتی ہے کہ 800سال پہلے لندن میں بیٹھا ہوا فنکار، شاعر اور ڈرامہ نگار لندن سے 1800کلو میٹر کی دوری پر واقع روم کے ثقافتی پس منظر کو کس طرح اپنی تخلیقی صلا حیت سے کہا نی کا لباس پہنا تا ہے اور ان کہا نیوں میں اپنی شاعرانہ تخیل کے ذریعے جان ڈالتا ہے اور ایسے مکا لمے لکھتا ہے جو آنے والے زما نے میں لو گوں کے لئے ضر ب المثل بن جا تے ہیں

 

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اٹلی اور انگلینڈ اُس زما نے میں ایک دوسرے کے حریف تھے آج بھی حریف ہی ہیں انگریزی ایسی زبان ہے جس کو اٹلی میں پسند نہیں کیا جا تا مگر انگریزی کے سب سے بڑے ادیب کے یا د گار شہہ پا رے روم کے پس منظر میں لکھے گئے ان شہہ پا روں میں روم کی ثقافت، تہذیب اور تاریخ کے ساتھ پورا انصاف کیا گیا شیکسپئیرکا دور 1564ء سے 1616ء تک کا زما نہ ہے، وہ اپنے گاوں سٹریٹ فورڈ Stratford upon Avonسے روز گار کی تلا ش میں لند ن چلا گیا جہاں اس کو تھیٹر میں روز گار ملا، پہلے اس نے ادا کاروں کی خد مت کی پھر اس نے ادا کاری کی اور ادا کاری کے دوران اس نے خود ڈرامہ نگا ری پر توجہ دی اور اُس زمانے کے انگلینڈ کے گھسے پٹے مو ضو عات کو چھوڑ کر اٹلی کی ثقا فتی تاریخ سے نئے مو ضو عات کو چُن لیا رومی بادشاہ جو لنیس سیزر کی مشہور کہا نی کو لے لیا،

 

انتھو نی اور قلو پطرہ کی محبت کو ڈرامے کا مو ضوع بنا یا، روم کی تاریخ سے بروٹس کے کر دار کو چن لیا اور اس کو ایک المیا تی منظر پر چسپان کیا اور دکھا یا کہ ایک نمک حرام جب طاقت پا تا ہے تو اپنے محسن پر کس طرح وار کر تا ہے اور اس کو دشمنوں کی صف میں دیکھ کر محسن کو کس طرح حیرت ہو تی ہے؟ رومیوں اور جو لیٹ کاتعلق دو متحا رب خا ندانوں سے ہے دونوں خا ندانوں میں پرانی دشمنی چل رہی ہے کہا نی کا لطف یہ ہے کہ دو متحا رب خاندانوں میں سے ایک خاندان سے رومیوں دوسرے خاندان کے جو لیٹ آپس میں محبت کے رشتے میں بندھ جا تے ہیں، رومیو18سال کا بانکا نو جوان ہے جبکہ جو لیٹ کی عمر بمشکل 13سال ہے، بظا ہر یہ عشق و محبت کی عام سی کہا نی ہے تا ہم اس کہا نی کو شیکسپئیر کے شاعرانہ تخلیل نے فن کی بلندیوں تک پہنچا کر رومانوی ادب کا شاہکار بنا یا ہے

 

اس طرح ان کا طربیہ ڈرامہ وینس کا سوداگر (The marchant of venice) ان کے 17طر بیہ ڈراموں میں سے ایک ہے جس کا پس منظر قدیم رومن شہر وینس سے لیا گیا معمولی لین دین میں قرض اور سود کی ادائیگی میں نا کام ہونے والے شخص کی اس کہا نی کو شیکسپئیر نے اپنے جا ندار مکا لموں کے ذریعے ادبی شہکار کا درجہ دیدیا (Hath not a Jew eyes) بہت مشہور ہوا مساوات کے علمبرداروں نے اس ڈائیلا گکو بہت اچھا لا چنا نچہ حالت یہ ہے کہ روم کے تاریخی منا ظر کو دیکھ کر قدم قدم پر انگلینڈ کا با سی اور انگریز ی ادب کا نا مور ادیب، شاعر اور فلسفی ولیم شیکسپئیر یا دا ٓ تا ہے اور یہ
اُس کے قلم کا اعجا ز ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96054

بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی پر فوری طور پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش

Posted on

بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی پر فوری طور پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش

کوئٹہ( چترال ٹائمزرپورٹ)بلوچستان اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر فوری طور پر پابندی لگانے سے متعلق مشترکہ قرارداد صوبائی وزیر سلیم احمد کھوسہ نے پیش کردی۔قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت پی ٹی آئی پر فوری طور پر پابندی لگانے کو یقینی بنائے، پی ٹی آئی ملک کی تاریخ میں سیاسی انتشاری ٹولے کی شکل اختیار کر چکی۔پی ٹی آئی کی وجہ سے ملک بھر کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ کیا جائے۔قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی پر فوری طور پر پابندی لگائی جائے۔  اس قرارداد  کواتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔

 

 

 

اسلام آباد: سینئر صحافی مطیع اللہ جان دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

اسلام آباد(سی ایم لنکس)اسلام آباد پولیس نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتاری ظاہر کردی، انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد نے مطیع اللہ جان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یوجے)، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈ) اور سینئر صحافیوں نے مطیع اللہ جان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کردیا۔اس سے قبل مطیع اللہ جان کے بیٹے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے والد کو گزشتہ رات نامعلوم افراد نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) سے اغوا کرلیا ہے۔ اسلام آباد کے مارگہ تھانے میں درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف ائی آر) کے مطابق اسلام آباد میں مرگلہ روڈ پر پولیس نے ناکہ بندی کررکھی تھی کہ رات سوا 2 بجے ایف 10 کی جانب سے آنے والی انتہائی تیز رفتاری ایک گاڑی آئی جسے رکنے کا اشارہ کیا گیا، تاہم ڈرائیور نے پولیس اہلکاروں کو مارنے کی غرض سے ان پر گاڑی چڑھا دی۔

 

ایف آئی آر کے مطابق گاڑی میں سوار شخص نے باہر نکل کر پولیس کانسٹیبل مدثر کو زد و کوب کیا اور اس سے سرکاری ایس ایم جی رائفل چھین کر اہلکاروں پر تان لی اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ایف آئی آر کے مطابق موقع پر موجود اہلکاروں نے کار سوار کو قابو کرلیا جس کی شناخت مطیع اللہ جان ولد عبدالرزاق عباسی کے نام سے ہوئی۔ایف آئی آر کے مطابق گرفتاری کے وقت مطیع اللہ جان نشے کی حالت میں پایا گیا، اس دوران گاڑی کی تلاشی لی گئی تو ڈرائیونگ سیٹ کے نیچے سے ملنے والے سفید شاپر سے 246 گرام آئس برآمد ہوئی۔ایف آئی آر کے مطابق سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو ناکے پر گاڑی نہ روکنے، پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی نیت سے گاڑی بیریئر پر مارنے، سرکاری ملازمین کو کارسرکار سے روکنے، آئس رکھنے اور راہ گیروں کو خوف و ہراس سے مبتلا کرنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے،

 

مطیع اللہ جان کو آج مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔دریں اثنا، سینئر صحافیوں نے مطیع اللہ جان پر درج ایف آئی آر کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔سینئر صحافی عمر چیمہ نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’مطیع اللہ جان جو سگریٹ بھی نہیں پیتا اس پر نشے کا الزام لگا دیا ہے، آفرین ہے ان پر، یہ ایف آئی آر پڑھ کر مجھے اشتیاق پیدا ہوا ہے کہ اس ارسطو سے ملوں جن پر ایسے خیالات کی آمد ہوتی ہے اور پھر ان پر عملدرآمد ہوتا ہے، ان عقل کے اندھوں کو کسی دشمن کی بھی ضرورت نہیں‘۔سینئر صحافی اعزاز سید نے ایف آئی آر کو بے بنیاد اور مشکوک قرار دے دیا۔دریں اثنا، اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے صحافی مطیع اللہ جان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا،

 

عدالت نے اہلخانہ کو مطیع اللہ جان سے ملاقات کی اجازت دے دی۔اس سے قبل پولیس نے مطیع اللہ جان کو انسداد دہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا کے روبرو پیش کرکے 30 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی، عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔اس سے قبل صحافی مطیع اللہ جان کے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر صبح 5 بجکر 9 منٹ پر کی گئی پوسٹ میں ان کے بیٹے نے بتایا تھا کہ ’مطیع اللہ جان کو آج رات 11 بجے پمز کی پارکنگ سے نامعلوم اغوا کاروں نے ثاقب بشیر (جنہیں 5 منٹ بعد چھوڑ دیا گیا) کے ساتھ ایک نامعلوم گاڑی میں اغوا کر لیا‘۔پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’یہ واقعہ اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں کی ان کی جرات مندانہ کوریج کے بعد پیش آیا ہے‘۔مطیع اللہ جان کے صاحبزادے نے مزید لکھا کہ ’میں مطالبہ کرتا ہوں کہ میرے والد کو فوری طور پر چھوڑ دیا جائے اور ان کے اہل خانہ کو فوری طور پر ان کے ٹھکانے کے بارے میں مطلع کیا جائے

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96052

پی ٹی آئی احتجاج سے نمٹنے کیلیے وفاقی پولیس کے 33 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوگئے

Posted on

پی ٹی آئی احتجاج سے نمٹنے کیلیے وفاقی پولیس کے 33 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوگئے

 

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ) پی ٹی آئی کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے صرف اسلام آباد پولیس کے 33 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہو گئے۔پولیس ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کا 3 یوم کااحتجاج پولیس کو 33 کروڑ 28 لاکھ روپے میں پڑا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو 24 مختلف مقامات سے سیل کرنے کے لیے 800 سے زائد کنٹینرز لگائے گئے۔اسلام آباد پولیس کے کنٹینرز کی مد میں 7 کروڑ 28 لاکھ خرچ ہوئے۔ کنٹینرز کو لگائے ہوئے آج ساتواں روز ہوگیا جب کہ تاحال ان کنٹینرز کے اخراجات پولیس کے ذمے بڑھتے جا رہے ہیں۔گزشتہ 7 دنوں میں آج تک 7 کروڑ28 لاکھ روپے کے اخراجات بن چکے ہیں۔ احتجاج کے لیے پولیس نے 35 ہزار آنسوگیس کیشیلز کا بندوبست کیا تھا۔ اسلام آبادپولیس نے 3 یوم میں 15 کروڑ کے شیل استعمال کیے۔اسی طرح ربڑ کی گولیوں اور 2500 بندوقوں کی مد میں 11 کروڑ روپے کے اخراجات آئے۔ ان اخراجات میں راولپنڈی کے انتظامات شامل نہیں ہیں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96050

پمز اور پولی کلینک میں کوئی لاش یا گولی سے زخمی شخص نہیں لایا گیا، وفاقی وزرا کا غیر ملکی میڈیا سے گفتگو

پمز اور پولی کلینک میں کوئی لاش یا گولی سے زخمی شخص نہیں لایا گیا، وفاقی وزرا کا غیر ملکی میڈیا سے گفتگو

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ) وفاقی وزرا عطا اللہ تارڑ اور احسن اقبال نے کہا ہے کہ پمز ہسپتال اور پولی کلینک میں کوئی لاش یا گولی سے زخمی شخص نہیں لایا گیا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے سوشل میڈیا کی افواہ ساز فیکٹری احتجاج کی ناکامی پر ہونے والی شرمندگی سے توجہ ہٹانے کے لیے پروپیگنڈا کررہی ہے۔سرکاری ٹی وی کے ہیڈکوارٹرز میں غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ و ترقیات احسن اقبال نے کہا ہے کہ پْرتشدد احتجاج عمران خان کی مقدمات کے ٹرائل سے فرار کی کوشش ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان کے دور میں ہم سب پر مقدمات بنائے گئے تو امریکی کانگریس مین کے پاس رحم کی بھیک مانگنے نہیں گئے، ہم رحم کی بھیک مانگنے برطانوی ہاؤس آف لارڈ نہیں گئے، ہم اقوام متحدہ نہیں گئے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات لڑے اور کیسز کی جلد تکمیل کو پسند کیا کیوں کہ ہم جانتے تھے کہ مقدمات مکمل ہوں گے تو حقیقت اور سچ سامنے آئے گا، ہم ٹرائل سے بھاگے نہیں۔احسن اقبال نے مزید کہا کہ عمران خان نے عدالتوں میں مقدمات کا سامناکرنے کے بجائے چیخ و پکار کا راستہ اپنایا ہے،

 

ان کے مقدمات کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، مگر وہ خود کو سیاسی قیدی کے طور پر پیش کرکے دباؤ کے ذریعے شاید این آر او حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان ہم پر این آر او لینے کا الزام لگاتے تھے لیکن اب شاید وہ سیاسی قید کا واویلا کرکے خود این آر او کے متلاشی ہیں تاکہ انہیں معاف کردیا جائے۔احسن اقبال نے بین الاقوامی ناظرین کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہاکہ عمران خان پر کوئی ظلم و ستم نہیں ہورہا، وہ سیاسی قیدی نہیں ہیں، انہیں سنگین الزامات کا سامنا ہے جن کی بنیاد پر مغربی دنیا میں کوئی سیاستدان، کوئی عوامی نمائندہ اور کوئی معروف شخصیت آزادی سے نہیں پھرسکتی۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسے شخص کی رہائی کے لیے احتجاج کیا گیا جس پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں، پْرتشدد احتجاج پی ٹی آئی کا ٹریک ریکارڈ ہے، پی ٹی آئی نے2014میں بھی پارلیمنٹ اور سرکاری ٹی وی پر حملہ کیاتھا۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کارکنوں نے رینجرز اور پولیس کو تشدد کرکے شہید کیا، پی ٹی آئی نے9مئی کو سلامتی کیادارے کی تنصیبات پر حملہ آور ہوئی، پی ٹی آئی نے ایس سی او کانفرنس کو سبوتاڑ کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔

 

احسن اقبال نے کہاکہ کسی بھی جمہوری ملک میں پرتشدد احتجاج کی اجازت نہیں دی جاسکتی، پر تشدد احتجاج کیلئے خیبرپختونخوا کے سرکاری وسائل کو استعمال کیاگیا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ پْرتشدد احتجاج بانی پی ٹی آئی کی مقدمات کے ٹرائل سے فرار کی کوشش ہے۔ایک سوال پر احسن اقبال نے کہاکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی افواہ ساز فیکٹری احتجاج کی ناکامی پر ہونے والی شرمندگی سے توجہ ہٹانے کے لیے پروپیگنڈا کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کے رہنما بلند بانگ دعوے کرتے تھے کہ ہم عمران خان کی رہائی تک بیٹھے رہیں گے، عمران خان کی اہلیہ اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا جس طرح کارکنوں کو سیکیورٹی فورسز کے رحم و کرم چھوڑ کر بھاگے ہیں، اس شرمندگی سے توجہ ہٹانے کے لیے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، انہوں نے ہمیشہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کارکنوں کو استعمال کیا ہے۔اس موقع پر وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے غیر ملکی صحافیوں کے سوال پر کہاکہ محکمہ صحت نے پولی کلینک اور پمز ہسپتال سے دو بیانات جاری کیے ہیں کہ انہیں کوئی لاش موصول نہیں ہوئی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی لسٹ گردش کررہی ہے جسے محکمہ صحت نے جعلی قرار دیا ہے،

 

انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی اِدھر اْدھر لاشیں تلاش ضرور کررہی ہے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی ماضی میں عام افراد کے جنازوں پر اپنے جھنڈے رکھ کر انہیں اپنا دکھانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔عطا تارڑ نے غیرملکی صحافی کے سوال پر پھر دو ٹوک انداز میں کہا کہ پولی کلینک اور پمز ہسپتال کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی لاش یا گولی سے زخمی شخص موصول نہیں ہوا۔انہوں نے واضح کیا کہ مظاہرین کے خلاف آتشیں اسلحے کا استعمال نہیں کیا گیا، انہوں نے کہاکہ حکومت کی واضح پالیسی ہے کہ کسی احتجاج میں تعینات فورسز کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں ہوگا۔عطا تارڑ نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایک ایسی جماعت جو اپنے ہر کام کی وڈیو بناتی ہے، اسے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی کوئی ایک ویڈیو بھی نہیں ملی، حتیٰ کی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ بھی کوئی ویڈیو سامنے نہیں لائی گئی۔

 

ان کا کہنا تھا کہ پرتشدد احتجاج ایسے موقع پرکیاگیا جب بیلاروسی وفد دورہ پاکستان پر تھا، ہم نے سنگجانی میں پر امن احتجاج کی پیشکش کی لیکن پی ٹی آئی کے عزائم پرامن احتجاج کے نہیں تھے۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے شرپسند اپنے ساتھ آنسو گیس شیل اور ہتھیار لائیتھے،گرفتار کیے گئے شرپسندوں میں افغان باشندے شامل تھے، پی ٹی آئی سے سوال یہ ہے کہ افغان باشندوں کو احتجاج میں کیوں شامل کیاگیا؟انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کی اپنے صوبے میں امن و امان پر کوئی توجہ نہیں، دہشت گردی پھیلانے کے پیچھے ایک شرپسند جاعت کے لیڈر کا ہاتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اختلافات کا شکار ہے، عاطف خان، شہرام تراکئی، اسد قیصر، حماد اظہر اور شیخ وقاص اکرم سمیت کئی مرکزی رہنما احتجاج میں شریک نہیں تھے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان میں شدید اختلافات ہیں، کیوں کہ بشریٰ بی بی نے پارٹی پر قبضے کی کوشش کی ہے۔

 

 

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا پی ٹی آئی احتجاج کے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

اسلام آباد(سی ایم لنکس)اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج اور سویلینز پر طاقت کے استعمال کے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔اس سے قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈا پور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے،

 

مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔بدھ کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گندا پور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘۔ صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ریاست علی آزاد کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ڈی چوک پر سویلین پر طاقت کا استعمال انسانی، سیاسی اور معاشرتی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس کی شدید مذمت کرتے ہیں، طاقت کے استعمال میں ملوث حکام کے خلاف فی الفور کارروائی کی جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اعلامیہ میں سپریم کورٹ سے واقعے کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد مستعفی ہوجائیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96045

خیبرپختونخواکلچراینڈٹورازم اتھارٹی کے زیراہتمام 4×4 جیپ ریس یکم دسمبر کو منعقد ہوگی، جس میں 1935 سے 1980 تک کی قدیمی گاڑیاں دیکھنے کو ملیں گی

خیبرپختونخواکلچراینڈٹورازم اتھارٹی کے زیراہتمام 4×4 جیپ ریس یکم دسمبر کو منعقد ہوگی
کلاسک لینڈ روور کے باہمی اشتراک سے ونٹیج اینڈ کلاسک کار شو 30 نومبر بروز ہفتہکو پشاور سروسز کلب میں ہوگاجس میں 1935 سے 1980 تک کی قدیمی گاڑیاں دیکھنے کو ملیں گی۔

پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) خیبرپختونخواکلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی، فرنٹیئر4×4 کلب اور لینڈ روور کلب کے باہمی اشتراک سے 12ویں انڈس ریورکراس جیس ریس یکم دسمبر 2024 کو ہنڈ صوابی میں دریائے سندھ کے مقام پر منعقد ہوگی۔ریس میں اس مرتبہ 100 سے زائد 4×4 جیپیں لاہور، اسلام آباد، ایبٹ آباد اور پشاور سمیت مختلف شہروں سے گاڑیاں شرکت کرینگی جبکہ ونٹیج کلاسک کار شو 30 نومبر بروز ہفتہ کو پشاور سروسز کلب میں منعقد کیا جائیگاجس میں 1935 سے لیکر1980 تک اور دیگر ماڈلز کی 50 سے زائد گاڑیاں شریک ہونگیں۔ تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا کلچراینڈٹورازم اتھارٹی کے زیراہتمام جیپ ریس کیلئے تقریباً5 کلومیٹر کا ٹریک بنایا جائے گا جو کہ دریائے سندھ کے تیز پانی اور پتھریلے ٹریک پر مشتمل ہوگا۔ ریس صبح 10 بجے شروع ہوگی جسکا اختتام دوپہر 1 بجے ہو گاجبکہ ریس 3 مختلف کیٹیگریز پر مشتمل ہوگی۔کیٹیگری اے میں زیرو ٹو2500سی سی، کیٹیگری بی 2500 سی سی ٹو اوپن جبکہ کیٹیگری سی اوپن ہے۔

 

 

اس کے علاوہ پشاور کی عوام کیلئے ونٹیج کلاسک کار شو میں کراچی، لاہور، اسلام آباداورپشاور سمیت مختلف شہروں سے پرانی اورقدیمی گاڑیوں کے شوقین افراد اپنی گاڑیوں سمیت شریک ہورہے ہیں۔ کلاسک کار شو خیبرپختونخوا کلچر اینڈٹورازم اتھارٹی اورکلاسک لینڈروور کے باہمی اشتراک سے منعقد کیا جارہا ہے۔ 15ویں سالانہ ونٹیج اینڈ کلاسک کار شوکا انعقادپشاورسروسز کلب میں ہوگا۔ونٹیج کار شو پشاور میں شو کے بعد براستہ فیصل آباد، رحیم یار خان، مورو، تھر سحرا سے ہوتی ہوئی کراچی پہنچے گی۔ونٹیج کلاسک کار شو کی ریلی اگلے روز قلعہ بالاحصاراور اس کے بعد ہنڈصوابی جائے گی جہاں 4×4 جیپس کی ریس کا انعقاد ہوگا اور اس میں شریک ہوگی۔ ونٹیج کار شو میں مرسڈیز، جاگوار فورڈ، شیورلیٹ، منی، وی ڈبلیو، لینڈ روور،4×4 جیپ، موٹرسائیکل سمیت دیگرکلاسک گاڑیاں نمائش کا حصہ ہونگیں۔کار شو میں ملک کے مختلف شہروں سے قدیم اور کلاسک گاڑیوں کے شوقین افراد اپنی گاڑیوں کے ہمراہ شریک ہورہے ہیں۔کارشوکے دوران خٹک ڈانس اور روایتی رباب موسیقی کی محفل بھی منعقد ہوگی۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96042