بلے کے بغیر پی ٹی آئی کا مستقبل – الہی بخش
بلے کے بغیر پی ٹی آئی کا مستقبل – الہی بخش
چند دن پہلے سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو الیکشن کمیشن کی اپیل پر منسوخ کرکے پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان “بلا” چھین لیا. سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی قانونی اور سیاسی تجزیہ کار اس بنیاد پر مذمت کر رہے ہیں کہ اس فیصلے نے نا صرف آئین کے آرٹیکل سترہ کے تحت کسی سیاسی جماعت کو حاصل فعال رہنے کا حق پی ٹی آئی پارٹی سے چھین لیا ہے، بلکہ اس نے لاکھوں ووٹرز کو بھی اپنی حق رائے دہی سے محروم کر دیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کے امیدوار مایوسی کے عالم میں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔ ایک سے زیادہ بیلٹ پیپرز کے لیے مختلف نشانات کا ہونا یقینی طور پر ایک پارٹی کے ناخواندہ ووٹروں کو الجھن میں ڈال دے گا، اور اس سے پارٹی کی جیت کے امکانات بہت کم ہوجائیں گے۔
یہاں تک کہ اگر پارٹی اپنے آزاد امیدواروں کے ذریعے بھرپور آگاہی مہم چلا کر انتخابات میں بڑی تعداد میں نشستیں جیت بھی لیتی ہے، تب بھی اسے اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں میں کوئی حصہ نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ آئین کے آرٹیکل اکیاون کے تحت مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو دی جاتی ہیں. اور سیاسی جماعت کی تشریح الیکشن ایکٹ نے یوں کی ہے کہ وہ جماعت جو ایک ہی انتخابی نشان کے زریعے انتخابات میں حصہ لے۔ مزید برآں، آزاد حیثیت میں جیتنے والے پارٹی کے ارکان مخالفین کے دباؤ میں لانے اور لالچ دینے کے ہتھکنڈوں کا بھی آسانی سے شکار ہوں گے. اس کی وجہ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل تیراسٹھ اے کے تحت پارٹی سے انحراف کی وجہ سے آزاد امیدوار کو اسمبلی میں اپنی نشست سے ہاتھ دھونا نہیں پڑے گا۔ ان تمام امکانات نے پی ٹی آئی کو عملی طور پر غیر فعال کر دیا ہے۔
ان سب کے باوجود پی ٹی آئی کے حکومت بنانے کے امکانات برقرار ہیں بشرطیکہ اس کے آزاد سیٹ جیتنے والے ارکان استقامت اور پارٹی کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کریں۔ آرٹیکل اکیاون ایسی کسی متاثرہ پارٹی کو اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ مخصوص نشستوں میں سے اپنے ارکان کی تعداد کے حساب سے حصہ حاصل کر سکے۔ اس صورت میں متاثرہ پارٹی کسی اسمبلی کے اپنے ارکان کو ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی ہدایت کر سکتی ہے جس کے ساتھ اس نے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہوں۔ نتیجے کے طور پر پارٹی (مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے معاملے میں جماعت اسلامی) اپنے اراکین کے علاوہ پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کے تناسب سے مخصوص نشستیں حاصل کر لے گی۔ اس طرح وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے اور دونوں جماعتیں ایم او یو کی دفعات کے مطابق مخصوص نشستیں آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ تاہم یہ سب کچھ متاثرہ پارٹی کے آزاد اراکین اور اس کے اتحادی جماعت کے رہنماؤں کے اعصاب پر منحصر کریگا کہ وہ ان سیاسی حکمت عملیوں کے نتیجے میں پڑنے والے ممکنہ دباؤ کو جذب کر سکتے ہیں کہ نہیں.
الہی بخش
لکچرر سیاسیات
گورنمنٹ کالج چترال