بزمِ درویش ۔ پیر مہرعلی شاہ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
بزمِ درویش ۔ پیر مہرعلی شاہ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
چشمِ فلک فلک حیرت سے یہ منظر پہلی اورآخری بار دیکھ رہی تھی کہ نوجوان شاگرد گھوڑے پر سوارہے اور اس کا استاد اپنے شاگرد کے احترام اور محبت میں گھوڑے کے آگے آگے پیادہ پا دوڑ رہا ہے نوجوان شاگرد بار بار درخواست کر رہا تھا کہ استادِ محترم یہ سب بڑی گستاخی ہے خدارا مجھے گھوڑے سے اترنے دیں لیکن یہ استاد محترم کا حکم تھا کہ تم گھوڑے پر ہی سوار رہو اگر تم گھوڑے سے نیچے اترے تو میں تم کو شاگردی سے خارج کر دوں گا نوجوان درویش بعد میں جب بھی اِس واقعہ کا ذِکر کرتا تو کہتا کہ میں سخت شرمندہ تھا مگر قہرِ درویش بر جانِ درویش تعمیل حکم کی آخر اِسی طرح کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد استاد محترم بھی گھوڑے پر سوار ہو گئے اور فرمانے لگے ایک دفعہ اثنائے سفر سیال شریف اِسی مقام پر آپ میرے گھوڑے کے آگے دوڑے تھے۔جس کا میرے دل پر سخت بوجھ تھا۔ جیسے میں بے ادبی محسوس کرتا رہا الحمدللہ کہ آج اِس کی تلافی ہو گئی۔اِس واقعہ سے چند سال پہلے دوران تدریس نوجوان طالب علم نے ایک رات قوالی سنی تو اس کی شکایت استادِ محترم کو کی گئی
جب استاد محترم نے طالب علم سے پوچھا تو مسجد کے قریب ہی ایک عابدہ مائی رہتی تھی جو سلطان باہو کی حضوری سے مشرف تھیں انہوں نے استادِ محترم سے کہا آج جس سید زادے کو تم ٹوک رہے ہو۔ کل جب اِ س کے مقام اور مرتبے سے تم واقف ہو گے تو اِس کے تم پاؤں تک چومو گے۔ یہ سید زادہ بہت کمال کا بچہ ہے اور اللہ کے نزدیک بلند مقام والا ہے۔ خدا کی شان اس عابدہ مائی کی پشین گوئی کا ظہور اِس طرح ہوا کہ جب ہندوستان سے تعلیم مکمل ہو نے کے بعد خواجہ شمس الدین سیالوی سے مجاز ہوئے تو ایک مرتبہ عرس سیال شریف کے موقع پر یہ واقعہ پیش آیا۔اِس نوجوان سید زادے کی ولادت با سعادت کے متعلق آپ کے خاندان میں پہلے سے ہی بشارتیں چلی آرہی تھیں آپ کے خاندان کے بڑے بزرگ سید فضل دین صاحب جو آپ کے والد ماجد کے ماموں اور شیخِ طریقت بھی تھے اور اس وقت خاندان شریف قادریہ کی سندِ ارشاد پر بھی جلوہ فِگن تھے وہ اِس بات سے آگاہ تھے کہ اِس گھر میں چشمہ معرفت جلوہ افروز ہونے والا ہے نیز اِس پیدائشی ولی کی پیدائش سے چند روز پیشتر ایک اہل حق مجذوب آپ کی خاندانی خانقاہ میں آکر ٹہر گیا وہ روزانہ عنقریب پیدا ہونے والے مقبول خدا کی زیارت کا ذکر کرتا وہ شدید انتظار میں تھا۔
جیسے ہی یہ اللہ کا ولی دنیا میں ظاہر ہو ا تو مجذوب حرم سرائے کی ڈیوڈھی میں پہنچا اور آپ کو منگوا کر زیارت کی ہا تھ پاؤں چومے اور رخصت ہو گیا۔یہی بچہ جوان ہو کر پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوا۔آپ یکم رمضان المبارک ھ مطابق 14اپریل 1859 میں راولپنڈی سے گیارہ میل کے فاصلہ پر قلعہ گولڑہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید نذر دین شاہ ایک صاحب کمال مجذوب بزرگ تھے آپ کا پیدائشی نام مہر منیر تھا مگر آپ نے مہر علی کے نام سے پوری دنیا میں شہرت پائی۔سید مہر علی شاہ صاحب چار سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم شروع کی۔ آپ نے عربی فارسی اور صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی بچپن سے ہی ذہانت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو پارہ ایک روز پڑھتے وہ اگلے روز ازبر ہوتا اِس طرح آپ نے قرآن حکیم بہت جلد حفظ کر لیا۔ دوران تدریس ایک بار قصیدہ غوثیہ کا عامل آپ کے مدرسے میں آیا تو تمام طلبا اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے مگر آپ ہنوز بیٹھے رہے یہ دیکھ کر عامل قصیدہ غوثیہ کو بہت غصہ آیا اور وہ مہر علی شاہ صاحب سے مخاطب ہو کر بولا پڑھوں قصیدہ غوثیہ کہ تم تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہو۔ تو جوابا مہر علی شاہ صاحب بولے تم قصیدہ پڑھو اور میں قصیدے والے کو بلاتا ہوں۔
یہ سن کر عامل آپ کے جلال معرفت کی تاب نہ لا تے ہوئے بے ہوش ہو گیا۔بچپن سے ہی آپ کی پیشانی سے سعادت و انوار کے آثار نظر آتے تھے۔ یہ آپ کی ذہانت اور درویشی کا روشن ثبوت تھا کہ اِس قدر نو عمری میں ہی وہ مشکل مراحل طے کر لیے جن سے اکثر انسان جوانی میں بھی نہیں گزر پاتے زمانہ طالب علمی میں ہی آپ معرفت کے اس مقام پر تھے جہاں پہنچ کر نظر کے سامنے بہت سارے حجاب اٹھ جاتے ہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ جگہ جگہ گئے اکثر مالی مسائل بھی تنگ کرتے۔لیکن آپ اِس قدر غیرت مند تھے کہ کسی آنکھ نے آپ کے دستِ طلب کو دراز ہوتے نہیں دیکھا آپ کسی دولت مند کے در پر آواز دینے سے بہتر یہ سمجھتے تھے کہ اتنی دیر اپنے خدا کو پکار وں اس سے مزید صبر و استقامت طلب کروں کیونکہ وہ یقینابے نیا ز ہے اور اپنی اِس صفت عالیہ کے صدقے عنقریب وہ مجھے امیروں کے کرم سے بے نیاز کر دیگا دنیا سے بے نیازی کی یہ روش ساری عمر آپ کا خاصہ رہی۔مسجد میں لوگوں سے ملاقاتیں ہوتیں تو زائرین کی طرف سے نذرانہ اور ہدایا کا سلسلہ بارش کی طرح جاری رہتا لیکن آپ گھر جانے سے پہلے سارے کا سارا غریبوں میں بانٹ دیتے۔1911 میں دہلی میں منعقد ہونے والے بر طانوی شاہی دربار میں شمولیت کی جب آپ کو دعوت دی گئی تو آپ نے صاف انکار کر دیا۔ حکومت نے بے ادبی سمجھتے ہوئے شروع میں آپ کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔
لیکن جب انگریز سرکار کی ایذا رسانی آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکی تو بعد ازاں حکومت نے آپ کو سینکڑوں مربع اراضی بطور جاگیر دینا چاہی تو قلندرِ وقت نے انکار کر دیا۔پیر مہر علی شاہ صاحب کی زندگی کرامات سے بھری پڑی ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی اِ سکی اجازت نہیں دیتی۔مرزا غلام احمد قادیانی کذاب و دجال فتنہ جب پورے عروج پر تھا جس نے نبوت کا جھوٹا دعوی کر رکھا تھا۔ وہ اپنی ذہانت چرب زبانی اور دلائل بازی سے بے شمار لوگوں کو زچ کر چکا تھا ہندوستان کے مسلما ن بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے کہ اشارہ غیبی کے تحت شاہ گولڑہ میدان میں آئے اور غلام احمدقادیانی کو مناظرے کو چیلنج کیا 25ور 26 اگست 1900کو لاہور شاہی مسجد میں مناظرہ طے پایا پیر مہر علی شاہ صاحب لاہور آگئے لیکن مرزا غلام احمد قادیانی آپ کے جلال معرفت سے ڈر گیا مختلف بہانے بناتا رہا وہ نہ آیا۔ قادیانی با ربار مرزا غلام قادیانی کو بلاتے رہے لیکن وہ نہ آیا۔شاہ گولڑہ نے کہا اگر تم سچے ہو تو ہم دونوں جلتے ہوئے تندور میں چھلانگ لگاتے ہیں جو سچا ہوگا وہ بچ جائے گا اور جو جھوٹا ہو گا وہ جل جائے گا۔
لیکن مرزا غلام احمد فرار ہو گیا اور کبھی آپ کے سامنے مناظرے کے لیے نہیں آیا اِسی لیے آپ کو فاتح مرزایت بھی کہا جاتا ہے۔ روحانیت شناس ابنِ عربی کی فتوحاتِ مکیہ اور فصوص الحکیم سے بخوبی واقف ہیں ہر دور میں لاکھوں میں کوئی ایک ایسا صاحب علم ہوتا ہے جو مندرجہ بالا کتب کو سمجھ سکے پیر مہر علی شاہ صاحب مذکورہ دونوں کتب کو اپنے دور میں سب سے زیادہ جانتے اور سمجھتے تھے۔آپ اپنے حج کے احوال میں بیان فرماتے ہیں کہ وادی حمرا میں ڈاکوؤں کے خوف سے میں نے عشا کی سنتیں وجہ مجبوری موقوف کر دیں تو رات کو مسجد نبوی میں خود کو پایا اور دیکھا کہ نبی کریم ﷺ تشریف لاتے ہیں اور مجھ کو نہیں بلاتے تو میں درخواست کرتا ہوں کہ حضور ؓ میں تو آپ کے دیدار کے لیے اتنی دور سے آیا ہوں لیکن آپ مجھے اپنے لطف و کرم سے محروم رکھ رہے ہیں تو آپ ؓ نے فرمایا تم نے میری سنتیں ترک کر دیں تو پھر لطف کا مطالبہ کیسا۔اسی وقت آنکھ کھل گئی فورا دوبارہ نماز ادا کی اور حضور پاک ؓ سے عشق و محبت کی والہانہ لہر اور جذبات پیدا ہو گئے کامل استغراق طاری ہو گیا جذب اور مستی جب حد سے بڑھ گئی تو اپنی مشہور نعت اسی شکر و جذب کی خاص حالت میں کہی کہ قیامت تک آپ امر ہو گئے۔محترم قارئین جب بھی کوئی تلاش حق کا مسافر اللہ کی توفیق سے عبادت و ریاضت،ذکر اذکار مجاہدے اور روحانی اشتعال کے بعد بہت ساری منزلیں طے کر لیتا ہے تو خالقِ کائنات اپنے اِس بندے کو قیامت تک کے لیے امر کر دیتا ہے دیدارِ مصطفی ﷺ کے بعد حالتِ جذب جو نعت آپ نے کہی ا سکے چند اشعار:
اج سک مِتراں دی ودھیری اے
کیوں دِلڑی اداس گھنیری اے
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں
کِتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں کِتھے جا اڑیاں