بزمِ درویش ۔ سید علی ہجویری ؒکی محبت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
بزمِ درویش ۔ سید علی ہجویری ؒکی محبت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
شہر لاہور کی آن شان نگری داتا دی‘ تاریخ تصوف کے سب سے بڑے بزرگ سید علی ہجویری ؒ کے عرس مبارک پر میں بھی دیوانوں پر وانوں کی قطاروں سے گزرتا ہوا آخر کار شہنشاہ لاہور سید علی ہجویری ؒکے مزار اقدس کے بلکل سامنے پہنچ گیا تھا مزار سے ملحقہ وسیع و عریض پر شکوہ مسجد کا صحن زائرین دیوانوں کے ہجوم سے لبالب بلکہ ابل رہا تھا دنیا جہاں اور پاکستان کے چپے چپے سے دیوانے ایک غیر مرئی ریشمی زنجیر میں بندھے غلاموں کی طرح مزار اقدس کے اطراف میں لہروں کی طرح حرکت میں تھے جو قریب تھے وہ اپنی قسمت پر رشک کر رہے تھے جوفاصلے پر تھے وہ اپنی نظروں سے باطن کے نہاں خانوں کے بعید ترین گوشوں کو روحانی سرشاری سے ہمکنار کر رہے تھے جو اور بھی دور تھے وہ اِسے نشاط انگیز سرور میں غرق تھے کہ اُس دیوانوں کے سمندر کا حصہ ہیں جو اپنے مرشد کو سلام عقیدت پیش کر نے آئے تھے لوگ ہاتھوں میں پھولوں موتیے کے گجروں کے ساتھ سر پر گلاب کے ٹوکرے اٹھائے اپنے لجپال کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے آئے تھے جو مسجد اور مزار کے احاطے میں داخل ہو جاتے
وہ فاتح عالم کے جزبے سے سر شار ہو جاتے جب کے ہم مزار اقدس کے اطراف بڑھ رہے تھے تو میلوں دور مختلف شہروں دیہاتوں قصبوں محلوں گلیوں سے دیوانوں کے جلوس مختلف ٹولیوں قطاروں میں زری ریشمی چادروں پھولوں مٹھائی کے ٹوکروں کے ساتھ دھمال ڈالتے ہوئے شہنشاہ کے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے میں خوشگوار حیرت سے اِن دیوانوں کو دیکھ رہا تھا جو میلوں دور پیدل اپنے مسیحا کی طرف سر جھکائے غلاموں کی طرح بڑھ رہے تھے سید علی ہجویری ؒ جو اِس شہر کا بھی نہیں تھا یہاں سے سینکڑوں میل دور محلہ ہجویر سے مرشد کے حکم پر تقریبا ً ہزار سال ہونے کو آیا پید ل اِس شہر لاہو رکا مقدر سنوارنے آکر جلوہ گر ہو جاتا ہے مسجد بنائی لنگر لگایا اور بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا شروع کر دی نہ اولاد نہ بیوی نہ رشتہ دار اکیلا درویش خدمت خلق کے عظیم مشن پر مگن ہو جاتا ہے جب اِس دنیا فانی سے گیا تو نہ وراثت نہ اولاد نہ رشتہ دار لیکن ہزارو ں عقیدت مند وں کو چھوڑ گیا پھر قافلہ شب و روز کا بے راس گھوڑا چلتا رہا صدیوں پر صدیاں کروٹ لیتی چلی گئیں بادشاہ گورنر جاگیر دار دولت مند آئے گئے مٹی کی چادر پہنتے چلے گئے گمنامی کی غار میں بے نام ہو چلے گئے لیکن عشق الٰہی میں رنگا یہ لجپال ایسا کہ صدیوں کا غبار جس کی شہرت کو دھندلا تو دور کی بات یہ گزرتے دن کے ساتھ نکھارتا چلا گیا وقت کی بے نیازی اِس درویش باکمال کا کچھ نہ بگاڑ سکی بلکہ شہرت دیوی ہر گزرتے
دن کے ساتھ اور بھی مہربان ہو تی چلی گئی اہل دنیا شہرت اور امر رہنے کے لیے اشتہار بازی کرتے ہیں سخاوت کے ڈرامے رچاتے ہیں لیکن یہ بے نیاز درویش نہ اولاد نہ اشتہار بازی نہ ڈرامے بازیاں لیکن سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود دیوانوں کی دیوانگی میں اور بھی شدت آتی جارہی ہے دیوانوں کا جنون عشق بڑھتا چلا جا رہا ہے ہر سال جب بھی شہنشاہ کا عرش مبارک آتا ہے تو اشتہار بازی نہیں ہوتی لیکن دیوانے سارا سال عرس مبارک کا انتظار کر تے ہیں اور پھر عرس والے دن اپنے اپنے انداز سے اپنی محبت کا ظہار کر تے ہیں روحانیت کے منکرین کو میرے الفاظ بلکل بھی اچھے نہیں لگے گیں کہ یہ کیا بات ہوئی ایک شخص دنیا سے چلا گیا صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی کروڑوں دلوں پر حکمرانی کر رہا ہے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے ساری زندگی الٰہی رنگ عبادت عقیدت میں گزاری ہر سانس خدا کی مرضی کے مطابق گزار ی ساری زندگی وہی کیا جو حق تعالیٰ کا فرمان تھا اِس طویل ریاضت کا پھر رب تعالیٰ انعام دیتے ہیں کہ صدیوں کو اِن کا غلام بنا دیتے ہیں
آنے والے انسانوں کے دلوں کو اِن کی محبت سے بھر دیتے ہیں ہر آنے والا دن اِن کی محبت شہرت میں اضافہ کر تا چلا جاتا ہے جب یہ باکمال لوگ اِس دنیا میں عشق الٰہی میں بقا کا جام پی کر عرفانی ہو جاتے ہیں اِن کے وجود کثافت سے لطافت میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر اِن کے منہ سے بلھے شاہؒ کے عشق کے جام وارث شاہؒ سے ہیر رانجھے کی پر سوز صدائیں میاں محمد بخشؒ سے رشتوں محبتوں کے موتی بکھرتے ہیں شاہ حسینؒ سے راتوں کے ویرانے جگمگاتے ہیں بابا فریدؒ روحوں کو سرشار کر تے ہیں مولانا روم حکمت کے سمندر بہاتے نظر آتے ہیں غزالی ؒ دانش و حکمت کے چراغ روشن کرتے ہیں جو لوگ اِن باکمال درویشوں کو جاہل قرار دیتے ہیں وہ درج بالا بزرگوں کے افکار سے آشناہوں تو انہیں پتہ چلے کہ یہ کیسے باکمال لوگ تھے جو الٰہی رنگ میں رنگنے کے بعد عرفانی ہو کر دانش و حکمت کے چشمے چلا کر چلے گئے ایسے معرفت کے چشمے جن سے کروڑوں لوگوں نے فیض پایا اور قیامت تک یہ عمل جاری رہے گا میرے سامنے بھی سید علی ہجویری ؒ کا چشمہ معرفت اہل رہا تھا میں بت بنا شہنشاہ کے مزار کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کسی نے آکر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میں نے دیکھا باجی ہاجرہ عقیدت بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی بولی سر آپ بھی عرس پر آئے ہوئے ہیں
میری بوڑھی ماں بھی آئی ہیں ا آپ کو ان سے ملاتی ہوں میں رش کی بھیڑ سے اُس کے ساتھ اُس کی ماں تک آگیا وہ دیوانے کے ساتھ وہیل چئیر پر مزار کی طرف ٹکٹکی باندھے عقیدت کا بت بنی ہوئی تھیں میں جاکر سلام کیا تو ہاجرہ بولی سر اِن کو فالج ہوا ہے بول نہیں سکتیں یہ پچھلے ساٹھ سال سے لگاتار عرس مبارک پر آرہی ہیں ہر جمعرات کو ننگے پاؤں گھر سے نیاز کا دیگچہ بنا کر لاتی تھیں کچھ عرصہ سے فالج کی وجہ آدھا جسم اور زبان پتھر کے ہو گئے ہیں لیکن اِن کی خواہش اور عقیدت کو دیکھتے ہوئے میں اِن کو وہیل چئیر پرلائی ہو ں میں ماں جی کے قدموں بیٹھ گیا اِن کے بے جان ہاتھ کو پکڑا اور کہاماں جی آپ داتا جی کو سلام کر نے آئی ہیں آپ سرکار سے بہت عشق کرتی ہیں وہ بھی آپ سے پیار کرتے ہیں میں سید علی ہجویری ؒ کی باتیں کر رہا تھا ماں کی دھندلی آنکھیں روشن ہو رہی تھیں پھر اِن کی آنکھیں سے عقیدت کے موتی جھڑنے لگے وہ ایسے لجپال کو عقیدت کے موتی پیش کر رہی تھیں میں دیوانوں کے سیلاب کو دیکھ رہا تھا کہ کس طرح ہر دیوانہ اپنی محبت کا اظہار اپنے ہی انداز سے پیش کر رہا تھا اور یہ محبت کا اظہار اپنے ہی انداز سے پیش کر رہا تھا اور یہ محبت کا یہ اظہا رکا سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔