بزمِ درویش ۔ روحانی ہاتھ ۔ (حصہ اول) ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
بزمِ درویش ۔ روحانی ہاتھ ۔ (حصہ اول) ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
حضرت انسان کی تخلیق کیونکہ مٹی سے ہوئی ہے اور وہ اِس دھرتی ماں سے ہے اِس لیے کرہ ارضی پر اربوں انسانوں میں شاید ہی کوئی ایسا زی روح ہو جس کو فطرت کا سحر انگیز لازوال حسن اور قدرتی مناظر اپنے لافانی حسن کے سحر میں گرفتار نہ کرتے ہوں لیکن اربوں انسانوں کے ہجوم میں ایک گروپ ایسا ہے جس کو رب تعالی نے اپنے عشق کی خوشبو لگا کر تخلیق کیا ہے ایسے انسان دنیا کے کسی خدا یا مذہب میں پیدا ہوئے ہوں یہ شعوری بیدار ی کے ساتھ ہی کائنات میں ہر سو بکھرے خالق کے قدرتی مناظر دیکھ کر پہلے تو اُس قدرتی منظر یا حسن پر فدا ہو تے ہیں پھر یہ خالق کی طرف متوجہ ہو تے ہیں کہ اِس بے مثال لازوال حسن کا خالق کون ہے اور گر یہ زمینی منظر یا آسمانی وسعتیں اِس قدر حسین دل پذید ہیں تو خالق کتنا خوبصورت حسن مثال رکھتا ہو گا کیونکہ تخلیق میں عشق کی مٹی استعمال ہو تی ہے لہذا پھر جیسے ہی ہوش سنبھالتے ہیں یہ خالق کائنات کے حسن سحر گرفتار ہو کر ساری زندگی پروانے کی مثل خالق کے عشق میں گزار دیتے ہیں
اِس فرزانگی دیوانگی میں ہی بیچارے محو ہو تے ہیں کیونکہ اِن کے مٹی کے سانچے میں جو روح ڈالی جاتی ہے وہ بھی عام انسانوں کی نسبت زیادہ لطیف اور الہی رنگ میں رنگی ہوتی ہے اِس لیے یہ مادیت کے طلسم ہوشربا سے منہ موڑ کر فطرت کے حسین سحر انگیز مناظر میں کھو جاتے ہیں پھر یہ ایسے گوشوں کی طرف بھاگتے ہیں جہاں پر قدرتی مناظر اپنی رعنائیوں کی دلفریب کشش کے ساتھ بانہیں کھولے اِن کو خوش آمدید کہتی ہے قدرت بھی اِن کا شاندار استقبال کرتی ہے ساتھ ہی قدرت اِن کو ایسے مواقع مہیا کرتی ہے کہ یہ قدرت کے بہشت زاروں میں شب و روز گزار سکیں ایسی بہشت نما جنت نظیر وادیوں میں چاروں طرف اِن کو قدرت کے حسین مناظر جب نظر آتے ہیں تو یہ وہیں پر ڈھیرا جما کر خود کو قدرت کے حوالے کر دیتے ہیں یہ مادی دنیا کے ہنگاموں سے دور ہر طرف پھیلے قدرت کے صد رنگ نظاروں کے حوالے کر کے زندگی کے شب و روز کو گزارتے ہیں یہاں پر یہ قدرتی غذا استعمال کر تے ہیں سادہ قدرتی غذا لباس پہن کر غور و فکر زکر اذکار کر کے روحانی جسمانی باطنی سرشاری حاصل کر تے ہیں پھر یہ مادی دنیا کے ہنگاموں کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے کسی دریا کے کنارے یا جنت نظیر وادی کے اوپر کنارے یا کھوہ نیچے یا پہاڑ کی چوٹی پر کسی غار میں یا اپنی گھاس پھونس کی جھونپڑی میں الہی رنگ میں ڈوب کر ذکر اذکار عبادت میں زندگی کے مراحل گزارتے چلے جاتے ہیں
دنیا سے دور پھر یہ قدرت کے رنگ میں رنگے چلے جاتے ہیں پھر یہ خود کو مادی دنیا کے چھینٹوں سے دور رکھتے ہیں جب یہ خود کو قدرتی رنگ میں رنگ لیتے ہیں تو اِن پر قدرتی الٰہی رنگ غالب آجاتا ہے ظاہری باطنی تضاد ہو جاتا ہے پھر کثافت کی جگہ لطافت لے لیتی ہے پھر شیشہ قلب کا کاسہ دھل کر شیشے کی طرح ہو جاتا ہے پھر الٰہی جلوؤں کی شبنمی روحانی عرفانی پھوار کا سہ دل پر برس کر اُس کو اور بھی شفاف کر دیتی ہے پھر طالب الٰہی جلوؤں میں ڈوب ڈوب جاتا ہے اور دنیا و مافیا سے بے خبر ہو کر الہی جلوؤں میں غوطے لگاتا ہے جہاں پر چاروں طرف رب تعالی کے سحر انگیز دلفریب جلوے ہوتے ہیں اور طالب اِن جلوؤں میں غرق ہو کر اپنی منزل پا جاتا ہے پھر سالک ہو تا ہے اور اُس کا محبوب رب یہی ایک طالب کی منزل ہوتی ہے جس کے لیے وہ دنیا اور اِس کے ہنگاموں کو چھوڑ کر رب تعالی کی طرف راغب ہو تا ہے بلا شبہ یہ دنیا اِس کے ہنگامے رنگ بہت دل فریب ہیں دن رات ایک سے بڑھ کر ایک تماشہ دنیا کی سٹیج پر لگا ہوا ہے زندگی ایک میلے کی طرف اپنی طرف راغب کر تی ہے لیکن جن کے خمیر میں عشق الٰہی کی چنگاری ہو تی ہے اِن کے لیے یہ دنیا اور اِس کے ہوش ربا ہنگامے نظارے بے کشش ہیں وہ یہاں اور اِس کے ہنگاموں میں بے زرر ہو تے ہیں
آخر یہ لوگ کون ہو تے ہیں جو نہایت پر کشش زندگی کے ہنگاموں سر گرمیوں کو چھوڑ کر شہروں سے دور پہاڑوں دریاؤں جنگلوں میں پناہ لیتے ہیں دن رات ذکر اذکار مراقبہ جات روحانی اشغال کر کے محبوب کے جلوؤں کو تلاش اور رب تعالی کو اپنی طرف متوجہ کر نے کی کو شش کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے خمیر میں عشق الٰہی قرب الٰہی کی چنگاری سلگ رہی ہوتی ہے وہ مجبور کرتی ہے وہ جنون کی شکل اختیار کر کے مہاتمابدھ کی طرح جنگلوں کی راہ لیتی ہے مو سیٰ علیہ سلام کی طرح کو ہ طور کی طرف جاتی ہے پھر سردار الانبیاء غار حرا کو اپنا مسکن بناتے ہیں تاکہ اپنے رب کو پاسکے اُس کے جلوؤں کو دریافت کر سکیں عام بندے کو اگر کہا جائے جنگلوں میں جاؤ پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کر و کسی غار میں اپنا بستر لگاؤ تو وہ حیرت سے آپ کی طرف دیکھے گا کہ ہم تم کیوں کہہ رہے میں کیوں اِس دنیا کے دلفریب رنگوں ہنگاموں کو ترک کروں میں آبادی میں رہتا پسند کر تا ہوں لیکن اگر آپ کسی روحانی طالب کو مشکل ترین چلے وظیفے کے لیے جنگلوں میں سکونت کا کہیں تو وہ خوشی خوشی جنگل کارخ اختیار کر جائے گا ایسے لوگ لطافت عشق الٰہی کی دولت سے مالا مال ہو تے ہیں جو دنیا کو چھوڑ کر حق تعالی کی ذات کو چنتے ہیں
پھر ساری زندگی پروانے کی طرح محبوب کے طواف میں ہی گزار دیتے ہیں میں بھی اِن خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوں جن کے نصیب میں حق تعالی نے اپنا عشق رکھا پھر مجھے تربیت کے لیے کوہ مری کے پہاڑوں میں بھیج دیا جہاں پر چاروں طرف بہشت نما جنت نظیر وادی کے دل کش مناظر بکھرے ہوئے تھے جن کو دیکھ کر میری روح وجد میں آکر جھوم جھوم جاتی پھر وہیں پر میرا روحانی سفر ذکر اذکار روحانی مشقیں حبس دم تزکیہ نفس کے مراحل شروع کیا جب جسم کثافت سے لطافت کی طرف شروع ہوا تو جسم پر جذب سکر غالب آنے لگا سردی گرمی سے آزاد ہوا ہر وقت محبوب کی ایک نظر کی پیاس التجا دنیا مافیا سے دور ہو تا چلا گیا پھر خوب خوب قدرتی مناظر کا لطف اور ان کے ساتھ وقت گزار ا اُنہی دنو جب میں روحانی سفر پر مارا مارا پھر رہا تھا جس بزرگ کا پتہ چلتا وہ بہت نیک پہنچا ہوا ہے اُس کی چو کھٹ پر جا کر ماتھا رگڑتا اچانک کسی نے بتایا ایک سو سالہ نیک بزرگ ہے جس نے ساری زندگی آبادیوں سے دور جنگلات یا پھلوں کے باغات میں گزاری ہے اُس کے ہاتھ میں اِس قدر شفا ہے کہ جسم کے کسی حصے میں درد ہو تو وہ ہاتھ پھیر کر دم کر تا ہے بیمار مریض صحت یاب ہو جاتا ہے اُس کے ہاتھ میں خاص شفا ہے لہذا میں تیار تھاسارے کام چھوڑے کراُس بزرگ سے ملنے چل پڑا جس کے ہاتھ میں شفا تھی (جاری ہے)