بزمِ درویش ۔ بابا جی کا اسم اعظم ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
بزمِ درویش ۔ بابا جی کا اسم اعظم ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
قدرت اور قدرت کے حسین سحر انگیز مناظر کے ہمسفر بابا نور احمد کے اسم اعظم کا پتہ لگ گیا تھا کاسہ دل کی صفائی باطنی طہارت بابا جی سے ملاقات کا بہت مزہ آیا جب میں با با جی کے سامنے بیٹھا تھا اور بابا جی مجھ سے وظائف کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور میں ان کے حکم کی تعمیل کر رہا تھا تو بابا جی بولے اپنے ابتدائی زمانے میں میں بھی اِن اعمال اکبر کو کر تا رہا بیٹا جو کھوج تلاش تم کو میرے پاس لے کرآئی ہے میں بھی اِسی کھوج کی آگ میں دن رات سلگتا تھا میں بھی اس اسم اعظم وظیفے چلے کی تلاش میں ہر اُس با بے کے پاس پہنچ جاتا جس کے بارے میں کوئی میرے سامنے ذکر کر تا چہل کاف قصید ہ غوثیہ سورہ مزمل پہلا کلمہ تیسرا کلمہ آیت کریمہ اللہ کے بڑے نام قرآنی سورتوں کے بڑے وظائف میں بھی ساری ساری رات اِن وظیفوں پر لگا رہتا جنون اور تلاش اِس قدر بڑھ گئی تھی یا سوتا تھا
یا پھر وظیفہ کر تا تھا الگ کمرہ بنا لیا جہاں پر دن رات وظیفے کر تا ترک جمالی جلالی کی طرف آیا تو جو کے آٹے کی روٹی اُبلی سبزیوں کے ساتھ یا پھر مسلسل روزے رکھنے حبس دم کی طویل مشقیں ارتکاز مراقبے میں سر جھکائے گھنٹوں بیٹھے رہنا باطن کے گہرے تاریک اندھیروں کی چادر کے اُس پار روشنی کے جگنو تلاش کر نا لیکن اِن ساری کوششوں کے باوجود باطن کے اندر تنی اندھیرے کی چادر گہری سے گہری ہوتی جارہی تھی روشنی کی ایک کرن چنگاری نور کے سمندر کے ایک قطرے کے لیے میں دنیا چھوڑ کر پہلے ایک کمرے کا ہو کر رہ گیا پھر سادھوں مداریوں بابوں ملنگوں کے تعقب میں آبادیوں سے دور خانہ بدوشوں کی غلامی کر تا رہا گہرے تاریک جنگلوں میں دریاؤں کے کنارے پہاڑوں کی چوٹیوں پر سنیاسیوں کے ساتھ جڑی بوٹیوں کی تلاش پھر پہاڑوں کے دامن میں قیمتی پتھرو ں کی تلا ش جہاں مجھے روشنی کی کرن نظر آتی میں لگ جاتا میں فیصلہ کر چکا تھا کہ میں نے روشنی کو حاصل کر نا ہے شادی نہیں کر نی گھر بار چھوڑ کر بابوں ملنگوں کے ساتھ زندگی کے دن گزارنے لگا لیکن میں اپنی منزل سے دور کا دور تھا تم کسی وظیفے کا نام لو میں نے وہ کیا ہو گا مولا علی علیہ سلام کے ڈنکے منکے میں نے بہت سارے حفظ کئے ہوئے تھے لیکن میں طوطے کی طرح ٹر ٹر پڑھائی تو کر لیتا لیکن فیض نہیں تھا جو میں چاہتا تھا
وہ نہیں تھا لیکن میں اپنی تلاش میں مگن لگا ہو اتھا پھر رب جی کو مجھ گناہ گار پر ترس آگیا میں بابا فرید ؒ پاک پتن سرکار کے سالانہ میلے پر گیا ہوا تھا وہاں پر ایک باباجی سے ملاقات ہوئی جو سانپ کاٹے کا علاج مریض پر ہاتھ پھیر کر کرتے تھے ساتھ میں الفاظ کا تکرار بھی کرتے میں جس کرامت کی تلاش میں تھا وہ بابامجھے مل گیا تھا باباجی سنیاسی بھی تھے نوے سال سے زیادہ عمر کے تھے میں اب ان کا چیلا بن کے ان کے ساتھ رہنے لگا پہلے تو بابا جی نے مجھے دھتکارا کہ میں ان کی جان چھوڑ دوں لیکن میں ضد کا پکا تھا دن رات ان کی خدمت میں لگا رہا جب باباجی نے دیکھا کہ میں ان کی جان نہیں چھوڑ رہا تو اُنہوں نے مجھے وظیفوں پر لگا دیا ایک چلہ پورا ہوا تو اگلاشروع کرادیا وہ خود بھی سالوں سے پرہیز ترک جمالی جلالی کررہے تھے لہذا میں بھی اب جو کی روٹی اور ابلی سبزیوں پر آگیا ایک سال تک وہ مجھے یو نہی مختلف وظیفے کرواتے رہے میں جس وظیفے کا ذکر کر تا میں جب کسی عامل سے یا بابے سے کسی وظیفے کے بارے میں سنتا تو باباجی سے ذکر کرتا باباجی شاید وظیفوں کی پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی وہ مجھے اُس وظیفے کی ساری تفصیلات مکمل طور پر سمجھا دیتے جو لوگ وظیفوں چلوں کے ٹھرکی ہیں وہ میری بات سے اتفاق کریں گے کہ وظیفے چلے کر نا بھی ایک نشہ ہے جوانی میں میں جب کوئی عملیات کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو نشئی کی طرح گزرتے دنوں کے ساتھ نئے سے نیا وظیفہ چلہ کرتا چلا جاتا ہے
ہر مداری بابا ملنگ اپنے ہی طریقے کا وظیفہ چلہ بتاتا کوئی کہتا وہ دودھ کاپیالہ روزانہ پینا ہے کوئی کھجوروں کی اجازت دیتا کہ صرف پانچ کھجوریں روزانہ کھانی ہے جو کا آٹا تو مشہور ہے جو ہر عامل بتاتا ہے روزوں کی بھی مختلف قسمیں اور شرطیں پھر وظیفوں کی تعداد الگ مسئلہ ساری ساری رات بیٹھ کر کھڑے ہو کر وظیفہ کر نا ہے کھلے آسمان کے نیچے چاند راتوں کے ساتھ چاند کو دیکھ کر وظیفہ کر نا ہے نو چندی جمعرات سے شروع کر نا ہے کھانا کسی عورت کے ہاتھ کا نہیں کھانا بلکہ خود آٹا پیسنا ہے چکی میں پھر خود ہی روٹی سبزی بنا کر استعمال کر نی ہے پھر مٹھی بھر بھنے چنے اور گلاس کے ساتھ روزہ رکھ کر پھر اسی طرح افطاری کر کے پھر ایسے ایسے طریقے یہاں تک کہ دریا کے پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر رات بھر کونساوظیفہ چلہ ّ کرنا ہے میں بھی اگر اپنی پرانی ڈائریاں دیکھتا ہوں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے میں کیونکہ پڑھا لکھا تھا اِس لیے وظائف اکٹھے کرنے پر لگا ہو اتھاکہ بہت سارے وظیفے اکٹھے کروں گا اب میں پھر بابا نور کی طرف آتا ہوں وہ اپنی داستان سنا رہے تھے کہ مجھے باباجی خدمت کرتے کرتے پانچ سال ہوگئے وظیفے چلّے بھی بہت زیادہ ہو گئے اب بابا جی بڑھاپے کے بعد موت کے قریب آگئے تھے ایک دن مجھے پیار سے اپنے پاس بٹھایا اور بولے پتر تم نے میری بہت زیادہ خدمت کی ہے تم جس اسم اعظم کی تلاش میں ہو وہ چلّوں وظیفوں میں نہیں بلکہ خدا تعالی کی مرضی میں ڈھلنے کا نام ہے
عام مولوی مسلمان کہتا ضرور ہے کہ میں مسلمان ہو رب جی ہر بات مانتا ہوں لیکن وہ سچ میں نہیں مانتا اُس کے اندر جو فرعون نفرت غصہ تکبر جھوٹ بخل نفرت حقارت غرور دھوکہ دوسروں پر ظلم کرنے والے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان فرعونوں کو نہیں مارتا زبان اور عمل میں تضاد ہو تا ہے خدا کی مخلوق کو آرام کی بجائے نقصان پہنچاتا ہے جس دن تم نے اندر کے اِن سانپوں کو مار دیا تو صرف بسم اللہ پڑھ کر جس مریض پر ہاتھ رکھو گے وہ صحت یاب ہو جائے گا اب نفس کو کس طرح مارنا ہے باباجی نے بتا دیا اگلا پورا سال میں نے تزکیہ نفس میں گزارے تو میرا جسم دماغ دل ہر قسم کی خواہش سے پاک ہو گیا میں اب دنیا میں موجود تھا لیکن دنیا میرے اند ر نہیں تھی اُسی دن سے میرا وجود دوسروں کے لیے شفا بن گیا اسم اعظم یہی ہے کہ من کو صاف کر کے اللہ کی مخلوق سے محبت خدمت کرو تمہارا وجودنور بن جائے گا پھر تم جو کہوں گے وہ ہو جائے گا روحانی فیض وظیفوں چلّوں میں نہیں ہے بلکہ خدمت خلق اور خدا تعالی کو ظاہری اور باطنی طور پر ماننا ہے اُو کو تر جیح اول رکھنا ہے۔