بزمِ درویش ……..عارفہ حق……… تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
حق تعالیٰ کو رابعہ بصری ؒ کی عبادت ریاضت مجاہدہ سجدہ ریزی اِس قدر پسند آئی کہ رات کو جب رابعہ کے ظالم مالک نے رابعہ کو عبادت کر تے ہو ئے دیکھا تورابعہ کے چاروں طرف نور پھیلا ہوا تھا جو رابعہ کی عبادت ریاضت اور خدا کے قرب کا نتیجہ تھا ۔ صبح رابعہ کے سامنے آکر دوزانو ہو کر بیٹھ گیا اور ادب سے کہنے لگا ‘ اے نیک لڑکی میں تیرے مقام شان عبادت خدا کا تجھ پر کرم اِس سے محروم تھا ‘ مجھے افسو س ہے میں تیرے مقام سے واقف نہیں تھا میں جو تجھ سے کام خدمت کراتا رہا‘ ظلم کر تا رہا ‘ مجھے تو تمہاری خدمت کر نی چاہیے تھی مجھے اپنی حماقت نا لائقی کا افسوس ساری عمر رہے گا کہ تجھے پہچان نہ سکا ‘ اب اِس کا کفارہ یہی ہے کہ تو چاہے تو آزاد ہو جائے یا اِسی گھر میں مالکن کی طرح رہو ‘ آج سے میں اے نیک لڑکی ایک غلام کی طرح تمہاری خدمت کروں گالیکن رابعہ جو مدتوں سے پنجرے میں بندتھی اب نکل کر علم کے زیور سے آراستہ ہو نا چاہتی تھی اس عہد کے جید صوفیاء کرام کی روحانی مجالس میں شریک ہو کر اپنی روحانی پیاس بجھانا چاہتی تھی ‘ مالک سے آزادی پانے کے بعد آپ علوم ظاہری کے لیے بصرہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہو گئیں جو اُس وقت علم و فن کا بہت بڑا مرکز تھا جہاں پر نابغہ روزگار علما ء کرام ہر وقت موجود رہتے تھے ‘ دنیا بھر سے متلاشیان علم اِس شہر میں جمع ہو گئے تھے ‘ حضرت رابعہ بصری ؒ فطری طور پر بہت ذہین فطین تھیں بہت کم مدت میں آپ ؒ نے قرآن مجید حفظ کر لیا پھر حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اِن دونوں علوم میں آپ ؒ کی مہارت دسترس کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے محدث فقیہہ بھی آپ ؒ کا وعظ سن کر حیران رہ جاتے پھر جب خدا کی خاص تجلی رابعہ ؒ پر پڑی تو غور و فکر مجاہدے کے لیے جنگل کی راہ لی ‘ اُس دن سے عبادت ریاضت کی ایسی مثال قائم کی کہ رہتی دنیا تک کو ئی آپ ؒ کا ثانی نہیں بن سکا نوافل کا یہ عالم کہ ایک دن میں ہزار نوافل ادا کرتیں ‘ ایسی عبادت کے بعد خدا نے وہ مقام عطا کیا کہ شیخ فرید الدین عطار ؒ نے آپ ؒ کو مریم ثانی خاصانِ خدا کہا آپ ؒ کے مقام مرتبے کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے اولیاء کرام ؒ آپ ؒ کی حاضری دیتے تھے خدا سے عشق کا یہ عالم تھا کہ رات کے سناٹے میں چھت پر جاکر کھلے آسمان کے نیچے آسمان کو حسرت سے دیکھتیں اور کہتیں اے میرے پروردگار رات نے پو ری دنیا کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے ‘ زمانہ نیند کے جھو لے لے رہا ہے ۔ حبیب اپنے حبیب سے محو راز و نیاز ہے لیکن میں رابعہ ؒ تیرے سامنے کھڑی ہوں اور تیرے عشق کی آگ میں جھلس رہی ہوں ‘ مجھے ایک بوند ایک جھلک کب ملے گی ‘ میری بے قرار روح کو چین کب ملے گا ۔ آپ ؒ کی عبادت ریاضت چہرے کے نور کی شہرت چاروں طرف پھیل چکی تھی یہاں تک کہ بصرہ کے مشہور لوگ آپ ؒ سے شادی کی درخواست کرنے لگے ‘ آپ ؒ کا نورانی حسن ایساتھا کہ جو بھی ایک نظر دیکھ لیتا شادی کی خواہش کر تا ۔ا یک دن والی بصرہ محمد بن سلیمان ہاشمی اپنی شاہی سواری کے ساتھ رابعہ ؒ کے گھر کے سامنے آکر رکا ‘ محلے میں سناٹا چھا گیا لوگ حیرت و رشک سے رابعہ ؒ کے دروازے کی طرف دیکھنے لگے ‘ والی بصرہ کے نوکر نے آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دی ‘ حضرت رابعہ بصری ؒ نے دروازے کے پیچھے آکر پو چھا کون ہے میرے دروازے پر کس لیے آئے ہو تو والی بصرہ آگے بڑھ کر بولا ‘ رابعہ ؒ میں والی بصرہ محمد بن سلیمان ہا شمی ہوں لوگ صبح سے شام تک اپنی حاجتیں پو ری کرانے کے لیے میری چوکھٹ پر آکر دست سوال دراز کرتے ہیں لیکن آج اتفاق دیکھو کہ شہر کا والی سوالی بن کر تیرے در پر آیا ہے تو رابعہ نے سن کر کہا اے نادان احمق اپنا دامن مراد خدا کے سامنے جا کر پھیلا تو اُس مالک کا در چھوڑ کر میرے دروازے پر کیوں آیا ہے میں تو خود اُس کے در کی سوالی ہوں تو والی بصرہ بولا میری کما ئی دس ہزار درہم ماہانہ ہے میں یہ ساری کمائی تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دیا کروں گا تو رابعہ نے پوچھا اِس کے بدلے تو مُجھ سے کیا چاہتا ہے تو والی بصرہ بولا میں تم سے شادی کر نا چاہتا ہوں ‘ شادی کے بعد تمہاری ہر خواہش پو ری کروں گا ‘ سونے چاندی ہیرے جواہرات کے ڈھیر تمہارے قدموں میں لاکر رکھ دوں گا تو قلندرہ ادائے بے نیازی سے بولی اے بصرہ کے حاکم جب تک تو دنیا سے محبت دل میں رکھے گا اداس پریشان رہے گا یاد رکھ بے نیاز ی اور زہد دنیا میں باعث راحت ہیں ‘ رغبت رنج ملال پیدا کر تی ہے تو اپنی آخرت کی فکر کر اور اسے آگے روانہ کردے ‘ اپنا وارث تو خو دبن ‘ دوسروں کو اپنا والی ہر گز نہ بنا ‘ خدا پر سب کچھ چھوڑ دے ورنہ تیری موت کے بعد تیری جائیداد تیرے وارث تقسیم کر کے خوب عیاشیاں کریں گے ‘ عذاب تیرے حصے میں آئے گا ہمیشہ روزے رکھ عبادت کر اور رہا معاملہ تیری پیش کش کا تو اگر رب کائنات مجھے تیری آفر سے زیادہ بھی عطا کردے تو بھی میرا دل مطمئن نہ ہو گا کیونکہ میں اپنے محبوب خدا کی یاد سے ایک پل بھی غافل نہیں رہنا چاہتی ‘ میں زندگی کا ہر سانس اُس کی یاد میں گزارنا چاہتی ہوں ایسی ہر چیز جو مجھے اُس کی یاد سے غافل کر دے میرے لیے پتھر مٹی سے زیادہ قیمتی نہیں ہے ۔حضرت رابعہ بصری ؒ کی ساری زندگی ہجر کے عالم میں گزری ‘ اہل دنیا نے بار بار آپ ؒ پر اعتراض کیا کہ خود کو نیک ولیہ اور عارفہ کہتی ہیں جب نبی دوجہاں ﷺ کی شادی کی سنت پر عمل نہیں کرتیں تو عارفہ وقت فرمایا کر تیں مجھے تین باتوں کا خدشہ ہے اگر تم مجھے اُن سے نجات دلا دو تو میں آج اِسی وقت شادی کر لوں گی ‘ پہلا فکر یہ ہے کہ مرتے وقت ایمان سلامت لے جاؤں گی یا نہیں ؟تو میںآج ہی نکاح کے بندھن میں بندھنے کو تیار ہوں دوسرا یہ کہ میرا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا با ئیں ہاتھ میں ‘ تیسری بات قیامت کے دن ایک گروہ کو دائیں طرف سے جنت میں داخل کیا جائے گا اور دوسرے کو بائیں طرف سے دوزخ میں تو آپ لوگ بتاؤ میں کس گروہ میں ہوں گی دائیں یا بائیں تو لوگ جواب دیتے ہم نہیں جانتے یہ تو خالقِ کائنات ہی جانتا ہے تو عارفہ حق پرست خدا کے عشق میں مست دنیا سے بے نیاز سوختہ دل و جگر حضرت رابعہ بصری ؒ دل سنوار لہجے میں فرمایا کرتیں تم خود ہی بتاؤ جس عورت کو اِس قدر غم ہوں وہ اِس عارضی دنیا میں خاوند کی خواہش کس طرح کر سکتی ہے ‘ آپ ؒ کی زبان سے اکثر حکمت و معرفت کے ایسے پھول جھڑتے کہ سننے والوں کے ایمان اُن کی خوشبو سے مہک اُٹھتے ‘ ایک بار کسی نے آپ کی گوشہ نشینی پر اعتراض کیا اور کہا ذرا باہر نکل کر نظارہ کریں کیسی بہار آئی ہے تو عارفہ حق قلندرہ ؒ نے بے نیاز سرشاری حق سے مست فرماتیں میرا کام صانع کو دیکھنا ہے اُس کی صنعت کو نہیں ‘ ایک بار ایک شخص آپ ؒ کی مجلس میں حاضر ہوا تو سر پر پٹی بندھی ہو ئی تھی ‘ عارفہ حق ؒ نے پوچھا تیری عمر کتنی ہے تو اس شخص نے جواب دیا تیس سال تو مجذوبہ مست خدا ؒ نے پھر پوچھا اِس عرصے میں کتنا عرصہ بیمار رہا تو وہ بولا کبھی بھی نہیں توآپ ؒ نے فرمایا اتنے سال تم تندرست رہے لیکن تم نے شکرانے کے طور پر ایک بھی دن سر پرپٹی نہیں باندھی مگر آج تھوڑی سی بیماری کیا آئی کہ مالک سے شکایت کے طور پر سر پر پٹی باندھ کر احتجاج کر رہے ہو ۔ آپ ؒ کی بات سن کر وہ شخص بہت زیادہ شرمندہ ہوا اور رومال اتار دیا ‘ خدا کا عشق آپ ؒ پر ہر وقت غالب رہتا ‘ عشق کی تپش اتنی بڑھ گئی کہ خوشی غمی سردی گرمی کے ہر احساس سے عاری ہو گئیں آپ ؒ عبادت میں خوف اور طمع سے بے نیاز ہو کر اپنے محبوب کو پکا رتی تھیں ‘ ایک بار غلبہ عشق اِس قدر بڑھا کہ ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے میں پانی لیے بھاگی چلی جارہی ہیں ‘ لوگوں نے پوچھا اے نیک خاتون یہ تم پاگلوں کی طرح کدھر جارہی ہو تو عارفہ قلندرہ نے جذب کے عالم میں کہا میں اِس پانی سے دوزخ کی آگ بجھا دوں گی اور اِس آگ سے جنت کو بھسم کر ڈالوں گی تاکہ لوگ جنت دوزخ کے چکر میں خدا کی عبادت نہ کریں ‘ صرف خدا کو پانے کے لیے اس کی عبادت کریں ۔