برما کے مظلوم مسلمان …… میر سیما آمان چترال
حدیث نبوی ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ برما کے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا ہوجائے اور عالم اسلام خاموش رہے۔مگر کس قدر حیرت کی بات ہے کہ برما میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے لیکن عالم اسلام خاموش رہے۔ اسلامی ریاستوں کے حکمران غفلت کی نیند ایسے سوئے ہوئے ہیں کہ ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگ رہی۔ یوں لگتا ہے ہم اپنے افعال سے اسی حدیث کو نعوذباللہ مسترد کر رہے ہیں کہ ہم ایک جسم کی مانند ہیں۔۔
دوسرے ممالک کی بات چھوڑیں، ہم پاکستانی جو ہر معمولی بات پہ دھرنوں پر اتر آتے ہیں۔کہاں ہے ہمارے جوانوں کے جذبات،ہمارا آزاد میڈیا، ہما رے حکمران، علماء اور انسانیت کے نام پر قائم کئے گئے وہ تمام ادارے جو سوات کے علاقے میں ایک ملالہ کو گولی لگنے پر سڑکوں پر آتے ہیں۔ وہ تمام ممالک جو ایک ملالہ یوسفزئی کیس کی آڑ میں مسلم امہ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ایک ملالہ کو پناہ دینے کے لئے ایک صف میں کھڑے تھے۔آج روہنگیا کے مسلمانوں کی چیخ و پکار پر اندھے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں،، روہنگیا کیس ان تمام انسانیت کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ ان چند مسلمانوں کو نہ کوئی پناہ دینے کے لئے تیار ہے نہ ان پر ظلم و ستم روکنے کے لئے کوئی آواز اٹھانے کی جسارت کر رہا ہے ۔ اس ظلم و بر بریت پر اقوام عالم کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے ۔کیا ان کا قصور صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔یہ نہایت افسوس کا مقام ہے ۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اگر میڈیا بکاؤ مال ہے ، اگر ہمارے حکمران،سیاستدان، وکلاء، ہمارے نام نہاد لیڈرز اور علماء خود غرض ہیں تو عام انسان جو ان خودغرضوں کے ہر قسم کے جلسوں اور دھرنوں میں شرکت کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے، ان ایکیس۱۲ کڑوڑ کے عوام میں کیا چند ہزار بھی ایسے لوگ نہ تھے جو ان مسلمانوں کی خاطر سڑکوں پر آتے۔۔۔۔ اس جذباتی قوم میں کیا گنتی کے چند نوجوان بھی ایسے نہ تھے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے۔۔۔۔۔۔ ۲ستمبر کے روز پوری قوم عید کی خو شیوں میں مگن تھی ہمارے ٹی وی چینلزسارا دن عید کی سر گر میاں د کھا تے ر ھے لیکن کسی چینل نے بھی یہ بتا نے کی ز ہمت نہیں کی ٹھیک ا سی روز بر ما میں مسلما نو ں کی کیا حا لت زار تھی ،،،کسطر ح معصو م بچوں کے سر و ں کو کا ٹ کر ان کے سر وں سے فٹ بال کھیلا گیا،نو جوا نوں کے جسموں کو کا ٹ کر جا نو روں کا خو را ک بنا یا گیا ،عو ر تو ں کی آ برو ر یز ی کی گئی ، بو ڑ ھو ں کو بے د ر د ی سے قتل کیا گیا، اور تا حا ل یہ سلسلہ جا ر ی ہے،،،کر بلأ کے مید ان میں تو مسلما نو ں کو حضرت ا ما م حسینؐ کی بھی ڈ ھا رس تھی مگر ر و ہنگیا کے بد قسمت مسلما نو ں کو تو یہ بھی آ سرا نہیں وہ اﷲ کے نا م پر ا پنی جا نیں بچا کر بھا گ بھی آ تے ہیں تو پا کستا ن اور بنگلا د یش جیسے غر یب مما لک ا نہیں پنا ہ د ینے کے لیے تیا ر نہیں،ا یسے میں تر کی واحد ملک ہے جس نے تھو ڑی سی پیش قد می کی ہے ،مہا جر ین کے ا خر ا جا ت اٹھا نے کے سا تھ سا تھ میینما ر میں ا پنی فو ج بھجینے کی د ھمکی بھی د ی جس پر تر ک صد ر کو سلا م پیش کیا جا سکتا ہے،،،مگر محض تر کی کی پیش قد می سے با ت نہیں بنتی ،وقت ا س سے ز یا دہ کا تقا ضا کر تا ہے اس و قت ضر و رت ا س ا مر کی ہے کہ تما م مسلم مما لک متحد ہو جا ئیں ترک جیسا روئیہ اپنا ئیں اور ا قوا م متحد ہ ا س ظلم کے خلا ف ٹھو س ا قد ام ا ٹھا نے پر زور ڈ ا لیں،،اور نو جو ا نو ں کو چا ہئے کہ ر ضا کا رانہ طور پر کا م کر یں فنڈز ا کھٹا کر یں اور ا ن بے سر و سا ما ن مہا جر ین تک پہنچا ئیں اور ا یسی تحر یک چلا ٰ یں کہ ان بے ضمیر حکمر ا نو ں کے ضمیر جا گ سکے۔محض ڈپی لگا نے سے مسلہ حل نہیں ہوتا ،،،یاد ر کھیں کہ ظلم پر خا مو ش ر ہنا ا یما ن کا سب سے کمز ور د ر جہ ہے ۔
دوسرے ممالک کی بات چھوڑیں، ہم پاکستانی جو ہر معمولی بات پہ دھرنوں پر اتر آتے ہیں۔کہاں ہے ہمارے جوانوں کے جذبات،ہمارا آزاد میڈیا، ہما رے حکمران، علماء اور انسانیت کے نام پر قائم کئے گئے وہ تمام ادارے جو سوات کے علاقے میں ایک ملالہ کو گولی لگنے پر سڑکوں پر آتے ہیں۔ وہ تمام ممالک جو ایک ملالہ یوسفزئی کیس کی آڑ میں مسلم امہ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ایک ملالہ کو پناہ دینے کے لئے ایک صف میں کھڑے تھے۔آج روہنگیا کے مسلمانوں کی چیخ و پکار پر اندھے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں،، روہنگیا کیس ان تمام انسانیت کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ ان چند مسلمانوں کو نہ کوئی پناہ دینے کے لئے تیار ہے نہ ان پر ظلم و ستم روکنے کے لئے کوئی آواز اٹھانے کی جسارت کر رہا ہے ۔ اس ظلم و بر بریت پر اقوام عالم کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے ۔کیا ان کا قصور صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔یہ نہایت افسوس کا مقام ہے ۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اگر میڈیا بکاؤ مال ہے ، اگر ہمارے حکمران،سیاستدان، وکلاء، ہمارے نام نہاد لیڈرز اور علماء خود غرض ہیں تو عام انسان جو ان خودغرضوں کے ہر قسم کے جلسوں اور دھرنوں میں شرکت کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے، ان ایکیس۱۲ کڑوڑ کے عوام میں کیا چند ہزار بھی ایسے لوگ نہ تھے جو ان مسلمانوں کی خاطر سڑکوں پر آتے۔۔۔۔ اس جذباتی قوم میں کیا گنتی کے چند نوجوان بھی ایسے نہ تھے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے۔۔۔۔۔۔ ۲ستمبر کے روز پوری قوم عید کی خو شیوں میں مگن تھی ہمارے ٹی وی چینلزسارا دن عید کی سر گر میاں د کھا تے ر ھے لیکن کسی چینل نے بھی یہ بتا نے کی ز ہمت نہیں کی ٹھیک ا سی روز بر ما میں مسلما نو ں کی کیا حا لت زار تھی ،،،کسطر ح معصو م بچوں کے سر و ں کو کا ٹ کر ان کے سر وں سے فٹ بال کھیلا گیا،نو جوا نوں کے جسموں کو کا ٹ کر جا نو روں کا خو را ک بنا یا گیا ،عو ر تو ں کی آ برو ر یز ی کی گئی ، بو ڑ ھو ں کو بے د ر د ی سے قتل کیا گیا، اور تا حا ل یہ سلسلہ جا ر ی ہے،،،کر بلأ کے مید ان میں تو مسلما نو ں کو حضرت ا ما م حسینؐ کی بھی ڈ ھا رس تھی مگر ر و ہنگیا کے بد قسمت مسلما نو ں کو تو یہ بھی آ سرا نہیں وہ اﷲ کے نا م پر ا پنی جا نیں بچا کر بھا گ بھی آ تے ہیں تو پا کستا ن اور بنگلا د یش جیسے غر یب مما لک ا نہیں پنا ہ د ینے کے لیے تیا ر نہیں،ا یسے میں تر کی واحد ملک ہے جس نے تھو ڑی سی پیش قد می کی ہے ،مہا جر ین کے ا خر ا جا ت اٹھا نے کے سا تھ سا تھ میینما ر میں ا پنی فو ج بھجینے کی د ھمکی بھی د ی جس پر تر ک صد ر کو سلا م پیش کیا جا سکتا ہے،،،مگر محض تر کی کی پیش قد می سے با ت نہیں بنتی ،وقت ا س سے ز یا دہ کا تقا ضا کر تا ہے اس و قت ضر و رت ا س ا مر کی ہے کہ تما م مسلم مما لک متحد ہو جا ئیں ترک جیسا روئیہ اپنا ئیں اور ا قوا م متحد ہ ا س ظلم کے خلا ف ٹھو س ا قد ام ا ٹھا نے پر زور ڈ ا لیں،،اور نو جو ا نو ں کو چا ہئے کہ ر ضا کا رانہ طور پر کا م کر یں فنڈز ا کھٹا کر یں اور ا ن بے سر و سا ما ن مہا جر ین تک پہنچا ئیں اور ا یسی تحر یک چلا ٰ یں کہ ان بے ضمیر حکمر ا نو ں کے ضمیر جا گ سکے۔محض ڈپی لگا نے سے مسلہ حل نہیں ہوتا ،،،یاد ر کھیں کہ ظلم پر خا مو ش ر ہنا ا یما ن کا سب سے کمز ور د ر جہ ہے ۔