
این ایف سی ایوارڈ کے تحت چھ سالوں میں صوبے کو 600 ارب کی جگہ صرف 132 ارب روپے ملے، وفاق کی اس عدم توجہی کی وجہ سے ضم اضلاع کے عوام میں بد اعتمادی جنم لے رہی ہے۔وزیراعلی
این ایف سی ایوارڈ کے تحت چھ سالوں میں صوبے کو 600 ارب کی جگہ صرف 132 ارب روپے ملے، وفاق کی اس عدم توجہی کی وجہ سے ضم اضلاع کے عوام میں بد اعتمادی جنم لے رہی ہے۔وزیراعلی کا ینشنل فنانس کمیشن سے متعلق سیمنار سے خطاب
پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) محکمہ خزانہ خیبر پختونخوا کے زیر اہتمام پیر کے روز اسلام آبادمیں نیشنل فنانس کمیشن سے متعلق ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان “پالیسی ڈائیلاگ آن این ایف سی اینڈ وے فارورڈ” تھا۔ ملک بھر سے نامور ماہرین امور معاشیات و اقتصادیات، سابق وزرائے خزانہ، بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں، پارلیمنٹیرینز اور میڈیا کی کثیر تعداد نے سیمینار میں شرکت کی۔ ان ماہرین میں شبر زیدی، شوکت ترین، اشفاق احمد، قیصر بنگالی، حسن خاور، ثاقب شیرانی، اسد عمر، عمر ایوب، ڈاکٹر احمد زبیر، لوئے شبانے، مسٹر ٹوپیس، مزمل اسلم اور دیگر شامل تھے۔
سیمینار کے شرکاءاور ماہرین نے گفتگو کرتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کےلئے اپنی تجاویز پیش کیں اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ میں موجود خامیوں کی نشاندھی کرتے ہوئے جلد سے جلد نئے این ایف سی ایوارڈ کی ضرورت پر زور دیا۔ شرکاءنے ملک کی معاشی استحکام کےلئے سیاسی استحکام کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ماہرین اور شرکاءنے اس اہم موضوع پر سیمینار کے انعقاد پر خیبر پختونخوا حکومت کی کاوش کو سراہتے ہوئے اسے صحیح وقت میں ایک صحیح اقدام قرار دیا۔
سیمینار سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے اس سیمینار کے انعقاد پر محکمہ خزانہ کے حکام کو خراج تحسین کیا اور بڑی تعداد میں شرکت کرنے پر ماہرین اور دیگر شرکاءکا شکریہ ادا کیا۔ اپنے خطاب میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ آئین ریاست اور لوگوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جو لوگوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دیتا ہے، اگر لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی نہ ہو تو لوگوں میں اعتماد کا فقدان ہوتا ہے اور یہ بالآخر نفرت کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے ملک میں آئین کو بار بار توڑا گیا، لیکن کسی کو سزا نہیں ملی، آج ملک میں جس طرح کے حالات ہیں ایسے حالات کی وجہ سے ایک دفعہ ملک دو لخت ہوا، ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ان غلطیوں کو دوہرا رہے ہیں۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا عوام کے اعتماد کےلئے ضروری ہے کہ ریاست لوگوں سے کئے ہوئے اپنے وعدے پورے کرے، سابقہ قبائلی علاقوں کا صوبے میں انضمام پوری قوم کا متفقہ فیصلہ تھا، انضمام کے وقت وہاں کے عوام کے ساتھ کئی ایک وعدے کئے گئے لیکن وہ وعدے چھ سال گزرنے کے باوجود پورے نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ قبائلی علاقوں کے انضمام سے صوبے کی آبادی میں 57 لاکھ یعنی تین فیصد کا اضافہ ہوا، اسی طرح صوبے کے رقبے میں بھی 22 ہزار مربع کلومیٹر یعنی 3.8 فیصد کا اضافہ ہوا، آبادی اور رقبے کے حساب سے این ایف سی میں خیبر پختونخواہ کا شیئر 14 فیصد سے بڑھ کر 19.6 فیصد ہوگیا لیکن یہ شیئر صوبے کو نہیں مل رہا، این ایف سی میں خیبر پختونخواہ کے شیئر کو بڑھانا ہمارا حق اور آئین کا تقاضا ہے، انضمام کے وقت ان علاقوں کی تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کے تحت سالانہ 100 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا، چھ سالوں میں صوبے کو 600 ارب کی جگہ صرف 132 ارب روپے ملے، ضم اضلاع کے آپریشنل اخراجات کی مد میں ہمیں سالانہ 88 ارب کی بجائے صرف 66 ارب مل رہے ہیں اور وفاق کی اس عدم توجہی کی وجہ سے ضم اضلاع کے عوام میں بد اعتمادی جنم لے رہی ہے۔
علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت اپنے قلیل وسائل سے ضم اضلاع پر وسائل لگا رہی ہے، موجودہ صوبائی حکومت نے اپنی آمدن میں 55 فیصد کا اضافہ کیا، ہم نے گزشتہ حکومت کے 75 ارب روپے کے بقایاجات کلیئر کردئےے، خیبر پختونخوا حکومت ڈیبٹ منیجمنٹ فنڈ قائم کرنے والا ملک کا پہلا صوبہ ہے، ہم نے ڈیبٹ منیجمنٹ فنڈ میں 30 ارب روپے ڈالے ہیں جسے بڑھاکر 150 ارب کردیا جائے گا۔وزیر اعلیٰ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد ابھی تک نئے این ایف سی ایوارڈ دینے کی زحمت نہیں کی گئی، وفاقی حکومت غیر آئینی آرڈیننس کے ذریعے نئے این ایف سی ایوارڈ سے مزید راہ فرار اختیار نہیں کر سکتی، ہمارا مطالبہ ہے کہ نیا این ایف سی جلد سے جلد ہونا چاہئے، وفاقی حکومت اس سال اپریل تک نیا این ایف سی ایوارڈ دے دے ورنہ ہم مئی میں سرپرائز دیں گے۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا کے عوام کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام ملک کےلئے اپنے سینے پیش کر رہے ہیں، ہماری قربانیوں کی وجہ سے باقی ملک دہشتگردی سے محفوظ ہے لیکن ہمیں اس کا صلہ زیادتیوں کی صورت میں مل رہا ہے۔ ماحولیات کے شعبے میں خیبر پختونخواہ کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کے 45 فیصد جنگلات خیبر پختونخوا میں ہیں جو پورے ملک کےلئے کاربن سنک کا کام کر رہے ہیں، اتنے رقبے پر جنگلات کی دیکھ بھال پر سالانہ 330 ارب روپے کا خرچہ آتا ہے اور خیبرپختونخوا حکومت نے جنگلات کے فروغ اور تحفظ کےلئے 650 ارب روپے خرچ کئے ہیں، پڑوسی ملک بھارت میں جنگلات کےلئے این ایف سی کا مخصوص شیئر ملتا ہے، پاکستان میں بھی جنگلات کے رقبوں کے لحاظ سے این ایف سی میں صوبوں کو شیئر ملنا چاہئے۔
توانائی کے شعبے میں صوبے کے کردار کے حوالے سے علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ یہ صوبہ ملک کو سستی بجلی اور گیس دے رہا ہے لیکن مہنگی خریدنے پر مجبور ہے اوپر سے پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے دو ہزار ارب روپے بھی واجب الادا ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان واجبات میں سے ایک روپیہ بھی معاف نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ صوبے کے عوام کا پیسہ ہے، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت زراعت صوبوں کو منتقل ہوا ہے لیکن وفاق خیبر پختونخوا سے ٹوبیکو سیس کی مد میں سالانہ 200 ارب روپے وصول کر رہا ہے اور صوبے کو کچھ بھی نہیں مل رہا ہے جو اٹھارہویں آئینی ترمیم کے روح کے منافی ہے۔ علی امین گنڈاپور نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ صوبے کے حقوق کےلئے ہر محاذ پر لڑیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے، اگر صوبے کو اس کے یہ آئینی حقوق نہ ملے تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا جس کےلئے کیس بھی تیار کیا گیا ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ یہ کیس دائر ہونے کے بعد وہ اس کیس کا جلد اور میرٹ پر فیصلہ دے تاکہ صوبے کے لوگوں کو ان کے آئینی حقوق مل سکیں۔ علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ انہوں نے سیاسی معاملات پر گولیاں کھائیں اور برداشت کی، لیکن صوبے کے حقوق کےلئے ایسا کھبی برداشت نہیں کریں گے، صوبے کے عوام حقوق لینے کےلئے تیار رہیں، میں خود آپ کو لیڈ کروں گا اور اگر اس جدوجہد میں گولی چلی تو گولی چلوانے والے نقصان کے خود ذمہ دار ہونگے۔