Chitral Times

Feb 9, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایل پی جی ٹینکروں میں دھماکوں کی بڑھتی ہوئی لہر – قادر خان یوسف زئی

شیئر کریں:

ایل پی جی ٹینکروں میں دھماکوں کی بڑھتی ہوئی لہر – قادر خان یوسف زئی

پنجاب کے مختلف علاقوں میں ایل پی جی (لیکوئیفائیڈ پیٹرولیم گیس) کے ٹینکروں میں ہونے والے دھماکوں کی خطرناک لہر نے عوام میں شدید خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ ان حادثات کے پیچھے ایک پیچیدہ اور غیر قانونی کاروبار چھپا ہوا ہے جو کئی سطحوں پر انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اس غیر قانونی کاروبار میں نہ صرف چوری اور دھوکہ دہی شامل ہے بلکہ یہ ایک ایسے منظم مافیا کی نشاندہی کرتا ہے جو حکومتی اداروں کی نظروں سے اوجھل رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایل پی جی کے ٹینکروں میں دھماکوں کے پے در پے واقعات کے بعد یہ سوال مزید شدت اختیار کر گیا ہے کہ آخر یہ حادثے محض اتفاق ہیں یا کسی سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کا حصہ۔ یہ محض غفلت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک خطرناک عمل ہے جس میں کچھ لوگ اپنی مالی منفعت کے لیے عوامی جانوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔

 

حال ہی میں ملتان کے صنعتی علاقے میں ایل پی جی باؤزر کے دھماکے نے کئی قیمتی جانوں کو نگل لیا اور ساتھ ہی بھاری مالی نقصان کا سبب بھی بنا۔ اسی روز ڈیرہ غازی خان کے انڈس ہائی وے پر کوٹ چھٹہ کے قریب ایک اور دھماکہ ہوا۔ ان دونوں واقعات میں ایک مشترک عنصر سامنے آیا، وہ ہے ایل پی جی باؤزرز میں چوری شدہ گیس کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کرنا۔ یہ طریقہ واردات اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب ایل پی جی کے کسی بھی ٹینکر کی اصلیت پر یقین کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایل پی جی ایک حساس ایندھن ہے جو خاص دباؤ کے تحت ذخیرہ اور منتقل کیا جاتا ہے۔ جب کسی ٹینکر میں گیس کی مطلوبہ مقدار کو چوری کر کے اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کر دی جاتی ہے تو دباؤ کا توازن بگڑ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں دھماکے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ایل پی جی کے ٹینکروں میں عام طور پر 100 سے 220 PSI تک دباؤ ہوتا ہے، لیکن جب گیس کی مقدار کم کر کے اس میں کاربن شامل کیا جاتا ہے تو یہ دباؤ غیر متوازن ہو جاتا ہے اور کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔

 

چوری کا یہ طریقہ نہایت منظم اور خفیہ انداز میں اپنایا جاتا ہے۔ ایل پی جی کے ٹینکروں کو مخصوص مقامات پر لے جا کر ان میں سے گیس نکالی جاتی ہے اور اس کے بدلے کاربن ڈائی آکسائیڈ یا دیگر غیر آتش گیر گیسیں داخل کی جاتی ہیں تاکہ دباؤ کو معمول کے مطابق ظاہر کیا جا سکے۔ یہ عمل خاص طور پر رات کے وقت یا سنسان علاقوں میں انجام دیا جاتا ہے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے۔ چونکہ کاربن بھاری گیس ہے، اس لیے یہ ٹینکر کے نچلے حصے میں جمع ہو جاتی ہے جبکہ اوپر کی سطح پر ایل پی جی موجود ہوتی ہے، جس سے کوئی بظاہر فرق محسوس نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی یہ ٹینکر کسی لاپرواہی یا معمولی رساو کا شکار ہوتا ہے تو ایک تباہ کن دھماکہ رونما ہو جاتا ہے۔ اس دھندے میں ملوث عناصر نہ صرف قومی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ عام شہریوں کی جانوں کے ساتھ بھی کھیل رہے ہیں۔

 

یہ امر تشویشناک ہے کہ ملک میں ایل پی جی کی ترسیل کے دوران ہونے والی ان بے قاعدگیوں پر کوئی مؤثر نگرانی کا نظام موجود نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو ان سرگرمیوں سے لاعلم ہیں یا پھر کسی مجبوری کے تحت ان پر کارروائی سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ایل پی جی کے کسی بھی ٹینکر کی مقدار، پریشر اور اس میں موجود اجزاء کی جانچ کے لیے کوئی باضابطہ اور مؤثر میکانزم موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کاروبار دن بدن پھیل رہا ہے اور اس کی تباہ کاریاں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ اگر حکومت اس مسئلے پر فوری اور سخت اقدامات نہیں اٹھاتی تو مستقبل میں مزید بڑے حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایل پی جی باؤزرز کی کڑی نگرانی کی جائے، ان کے دباؤ، مقدار اور اجزاء کو مکمل طور پر چیک کرنے کا ایسا نظام تشکیل دیا جائے جو کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو فوری طور پر پکڑ سکے۔

 

اس کے ساتھ ہی غیر قانونی ایل پی جی چوری میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے۔ ایسے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانا اور عبرتناک سزائیں دینا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اس خطرناک کاروبار کا حصہ بننے کی جرات نہ کرے۔ حکومت اگر اس معاملے پر سختی سے قابو پا لے تو نہ صرف عوام کی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ توانائی کے شعبے میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایل پی جی چوری اور اس میں کاربن کی ملاوٹ صرف ایک عام جرم نہیں بلکہ یہ ایک ایسے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے جو قومی سلامتی، معیشت اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ایل پی جی باؤزرز کی چوری اور ملاوٹ کے خلاف سخت ترین اقدامات کیے جائیں، ورنہ اس کے اثرات ہر طبقے پر مرتب ہوں گے۔ اگر ہم نے اس سنگین مسئلے کو نظر انداز کیا تو یہ مزید بڑے حادثات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
98763