ایل جی بی ٹی (LGBT)کی نظریاتی جڑیں اور ہمارے معاشرے میں اس کی یلغار- غزالی فاروق
ایل جی بی ٹی (LGBT)کی نظریاتی جڑیں اور ہمارے معاشرے میں اس کی یلغار- غزالی فاروق
جنس کے تعین کے حوالے سے حالیہ دہائیوں میں مغرب نے ایک نیا نکتہ نظر اپنا لیا ہے۔ عیسائی چرچ اور اس کے ظالمانہ نظریات کی وجہ سے خواتین کے خلاف صدیوں سے ظالمانہ امتیازی سلوک کے ردعمل کے نتیجے میں مغرب نے جنس کی تعریف کے طور پر صنف پرستی genderism)) کا سہارا لیا۔ فطری اور حیاتیاتی (biological) طور پر الگ الگ یعنی مذکر اور موئنث پر مبنی جنس کے تصور کی بجائے مغرب نے صنف پرستی کا تصور اختیارکر لیا۔ صنف پرستی کے نظریہ کے تحت، جنس کی شناخت حیاتیاتی بنیاد کی بجائے کسی فرد کے خود اپنی ذات کے بارے میں تصور اور میلان کے مطابق کی جاتی ہے۔ جیسا کہ فرانس کی فیمنسٹ (feminist) فلسفی سمن ڈی بووار (Simone de beauvoir) اپنی معروف کتاب ” دوسری جنس” (The Second Sex ) میں لکھتی ہے، “عورت پیدائش سے نہیں ہوتی بلکہ وہ عورت بن جاتی ہے”۔
درحقیقت، صنف پرستی کا فلسفہ مردوعوت کی الگ الگ فطری شناخت کی بنا پر جنسی تفریق کو ختم کرنے کی کوشش میں فیمنزم (feminism)کی تحریک کی دوسری لہر کے جزو کے طور اُبھرا تھا۔ لہٰذا صنف پرستی کا فلسفہ کسی کی جنس کی حیاتیاتی طور پرشناخت کا تعین کرنے کو ختم کرنے کا تقاضا کرتا ہے یعنی یہ جنس کا کردار اور جنس کے دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے کا تقاضا تھا جو کہ ظالمانہ تصور کئے جاتے تھے۔
ابتدا میں صنف پرستی کا نظریہ مردوں کی جانب سے عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو روکنے کے لئے اپنایا گیا تھا۔ تاہم، یہ نظریہ حقوق نسواں کی حمایت سے بڑھتا بڑھتا ہم جنس پرست مرد وں کے حقوق کی حمایت تک چلا گیا۔ ہم جنس پرستی کا پرچار کرنے والوں کی جانب سے نظریہ صنف پرستی کی پُرزور حمایت کی گئی۔ پس اس طرح اب اس نظریہ کا مقصد محض خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنا نہ رہ گیا بلکہ نظریہ صنف پرستی اب بڑھ کر ان لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک کو بھی ختم کرنے کیلئے استعمال ہونے لگا جو حیاتیاتی خصوصیات سے قطع نظر خود اپنے ذاتی میلان کی بنا پر اپنے جنس کا انتخاب کرتے ہیں۔
“شخصی آزادی”(Personal Freedom) کے تصور کے ذریعے مغرب نے افراد کو یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ خود اپنے ذاتی میلان کی بنا پر اپنی جنس مقرر کر لیں۔ چنانچہ نظریہ صنف پرستی کے مطابق، ایک مرد، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ مردوں جیسے حیاتیاتی خدوخال رکھتا ہے، وہ خود یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔ اس جنس میں منتقل ہونے کے لئے، جو اس نے اپنے لئے منتخب کی ہے، وہ سرجری اور ہارمون کے علاج کے مرحلے سے بھی گزر سکتا ہے۔اسی طرح وہ انسان اپنی مردانہ ہیئت کو چُھپا سکتا ہے اور نسوانی ہئیت کو اختیار کر سکتا ہے۔ ایسے انسان جنہوں نے طبی مدد کو استعمال کر کے خود اپنی جنس تبدیل کروائی ہو وہ مخلوط الجنس( transsexual )کہلاتے ہیں۔ اسی طرح ایک عورت خود یہ احساس کرسکتی ہے کہ وہ ایک مرد ہے۔ اس طرح کا ایک مشہور کیس ایک عورت ایلن پیج (Ellen Page) کا ہے جو کہ ہارمون کی تبدیلی اور سرجری کے بعد ایلیٹ پیج (Elliot Page) بن گیا تھا۔ چنانچہ مغربی نکتہ نظر میں ایسے مخلوط الجنس انسان موجود بھی ہیں جو ایسی جنسی شناخت رکھتے ہیں جو ان کی پیدائشی حیاتیاتی جنس سے مختلف ہے۔
پاکستان کے ٹرانسجنڈر پروٹیکشن ایکٹ(Transgender Protection Act) کے معاملہ میں، ترامیم کے بعد، اب یہ قانون مغربی نظریہ صنف پرستی کی ہی بنیاد پر ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ: ” ایک مخلوط الجنس انسان کو اپنی خود ساختہ جنسی شناخت کے طور پر پہچانے جانے کا مکمل حق ہونا چاہئے”۔ چنانچہ اسلام کے تقاضے کے مطابق فقط حیاتیاتی خدوخال کو مدنظر رکھتے ہوئے جنس کی شناخت کرنے کی بجائے پاکستان کے حکمرانوں کے مطابق، جنس کا تعین خود اپنی سمجھ کے مطابق ہونا چاہئے جس کی مغرب وکالت کرتا ہے۔ جوائے لینڈ(Joyland) فلم کی بنیاد بھی ہمارے معاشرے میں اسی قبیح نظریہ کے فروغ اور اس کو نارملائز کرنے پر ہے اور اس فلم کی مکمل فنڈنگ مغرب کی جانب سے ہے اور مغرب کی طرف سے ہی اس کو بہت زیادہ پزیرائی دی گئی ہے۔
لیکن اس سب کے بر عکس اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿وَ لَيۡسَ الذَّكَرُ كَالۡاُنۡثٰى﴾ ” اور مرد، عورت کی مانند نہیں ہے” (آل عمران: 36)۔ اسلام میں بنیادی طور پر دو ہی جنس ہیں۔ دونوں جنسوں کا تعین صرف حیاتیاتی خدوخال کو مدنظر رکھ کرہی کیا جاتا ہے۔ جنس کا تعین کسی فرد کے ذاتی فیصلہ کردینے سے یا ذاتی میلان کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ مبہم جنس کا تعین ماہرین کے ذریعہ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں میں سے درست جنس کا تعین کیا جا سکے۔ پھر جنس کے کردار کا تعین وحی کی بنیاد پر اس سے متعلق شرعی احکامات سے ہوتا ہے۔ . اسلام میں تمام انسانوں کے لئے مشترک شرعی احکامات بھی ہیں چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، جبکہ ایسے شرعی احکامات بھی موجود ہیں جو کسی ایک جنس کے ساتھ مخصوص ہیں۔لہٰذا اسلام مرد وعورت، دونوں کو نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے فرائض دیتا ہے۔ پھر اسلام صرف خواتین کے لئے حیض و نفاس، حمل اور بچے کی پیدائش جیسے معاملات کے حوالے سے شرعی احکامات دیتا ہے۔ اسلام عورت کو روزی کمانے کا حق بھی دیتا ہے اور اس کے شوہر کو عورت کی کمائی پر کوئی حق نہیں دیتا، جبکہ اسلام مرد پر فرض عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی کفالت کرے۔
عورت یا مرد پر ظلم کرنے کی بجائے شرعی قوانین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مرد اور عورت ایک مضبوط خاندانی نظام اور اس خاندانی نظام پر مبنی ایک مستحکم معاشرہ تشکیل دینے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ آج ظلم و جبر کو روکنے والی اسلامی ریاست خلافت کی غیرموجودگی میں بھی مسلم دنیا کا خاندانی نظام، ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جو مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی کے بعد اس کے بھیانک نتائج بُھگت رہے ہیں۔
عربی زبان میں لفظ” خُنْثَى” ایسے فرد پر لاگو ہوتا ہے جس کو حیاتیاتی خدوخال کے پیشِ نظر آسانی سے مرد یا عورت کے طور پر شناخت نہ کیا جا سکے۔ یہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کے خدوخال ہوتے ہیں یا پھر ایسا انسان جس میں ان میں سے کوئی خدوخال نہیں ہوتے۔ اسلام میں طبی ماہرین ہی غیر واضح جنس کی حیاتیاتی حقیقت کا مطالعہ کرنے کے بعداس کیلئے مرد یا عورت میں سے کسی ایک جنس کا تعین کرتے ہیں۔ مشہور فقیہہ ابن قدامہ (م620ھ) مبہم جنس کے حوالے سے اپنی کتاب المغنی میں بیان کرتے ہیں،(وَلَا یَخْلُو مِن أَنْ یَکُونَ ذَکَرًا أَوْ أُنْثَی ،قَالَ الله تعالي وَاَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوۡجَيۡنِ الذَّكَرَ وَالۡاُنۡثٰىۙ، وَقَالَ تعالي وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالاً كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً فَلَیْسَ ثَمَّ خَلْقٌ ثَالِثٌ) “یہ مرد یا عورت ہونے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿وَاَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوۡجَيۡنِ الذَّكَرَ وَالۡاُنۡثٰىۙ﴾” اور وہی جوڑے پیدا کرتا ہے ، نر اور مادہ “( سورۃ نجم : 45) اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالاً كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً﴾ “اور دونوں سے کثرت سے مردوعورت پھیلا دئے “( النساء :1) اور اس طرح کوئی تیسری جنس نہیں ہوتی”۔اس طرح، اسلام کسی تیسری جنس کو معین نہیں کرتا۔
لہٰذا ،جب کسی قابل اعتماد ڈاکٹر کی جانب سے جوپیدائشی بے ضابطگیوں، جنسیاتی اعضاء ، جینیات اور صنفی میلان کے امور میں مہارت رکھتا ہو، جنس کا تعین ہوجائے تو اس کے بعد اس شخص کے ساتھ ،اس کےتعین کردہ جنس کے مطابق، پورے معاشرے میں بغیر کسی تفریق و امتیازی سلوک کے، عام انسانوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔پھر وہ مرد یاعورت اسلامی معاشرے کے ایسے قابل قدر رکن کی طرح مربوط ہوتا ہےجس سے تمام شرعی فرائض کی ادائیگی ہوتی ہے جبکہ اسے تمام شرعی حقوق میسر ہوتے ہیں۔
ابن عباس ؓ سے مروی ہے،( لَعَنَ رسول اللہﷺالْمُتَشَبِّھِینَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ) “اللہ کے نبی ﷺ نے ان مردوں پر لعنت کی جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں ” (بخاری )۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا،﴿ ثَلَاثَةٌ لاَ یَنْظُرُ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ إِ لَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِالْعَاقُّ لِوَالِدَیْهِ وَلْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ وَالدَّیُّوثُ﴾” تین لوگ ایسے ہیں جن پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ روز قیامت نگاہ بھی نہ ڈالیں گے : ایک وہ جو اپنے والدین کی نافرمانی کرتا ہے ، مردنما عورت اور دیوث (بے غیرت مرد)”( نسائی) ۔
یہاں کسی جنس کی مشابہت کرنا عمومی معانی میں آیا ہے جیسے شناخت، کردار، لباس اور مزاج کے لحاظ سے مشابہت ۔ یہ بغیر کسی حد یا تفریق کے مطلق آیا ہے لہٰذا اس میں اپنی جنس تبدیل کرانا بھی شامل ہے۔ اسلام میں نفسانی خواہش اور شہوت افعال کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ شرعی قوانین ہی مردوعورت کے باہمی تعلقات کے ساتھ ساتھ ان کے متعلقہ طرزِعمل، مزاج اور کردار کا بھی تعین کرتے ہیں۔ اسلام کے باہمی تعلقات کی تفصیل متعین کردینے کے بعد مرد اور عورت میں محبت اور جسمانی تعلقات، نکاح کے بندھن ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
یوں پیدائش کے وقت کے حیاتیاتی حقائق کونظرانداز کرکے خود ساختہ ادراک سے کسی جنس کا تعین نہیں ہوتا۔ مرد سے عورت میں یا عورت سے مرد میں کسی فرد کی جنس کو تبدیل کردینا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنا سمجھا جاتا ہے جو کہ حرام ہے۔ اس میں دونوں طرح کے طریقے ہی شامل ہیں چاہے ہارمون کے علاج سے ہو یا پلاسٹک سرجری کے ذریعے ہو ۔ لہٰذا تبدیل ہونے سے پہلے کی اس کی اصل جنس یعنی مرد ہونے کے مطابق ہی اسلام کے احکامات اس پر لاگو ہوں گے۔ کسی دوسرے مرد کے لئے ہرگز جائز نہیں کہ وہ ، جنس کی تبدیلی سے قطع نظر،کسی پیدائشی مرد پیدا ہونے والے کے ساتھ نکاح کے رشتہ میں منسلک ہو ۔
مغرب اپنے خاندانی نظام اور خاندانی اقدار کو برباد کردینے کے بعد اب مسلم دنیا میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ثقافتی جنگ برپا کئے ہوئے ہے۔ مغرب میں خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے نتیجے میں فطری ربط، برادری اورکسی اجتماعی فعل کے فقدان کے باعث، مغربی حکومتیں کسی نہ کسی طرح اپنے لوگوں کو قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ فکری و نظریاتی لحاظ سے اسلام کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے بعد مغربی حکمران اشرافیہ اب مسلمانوں سے بھی یہی چاہتی ہے۔ مسلمانوں کے مضبوط خاندانی و برادری اور سماجی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی خواہش کے ساتھ وہ اب مسلمانوں میں صنف پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ کسی طرح مغرب مسلمانوں کو قابومیں رکھ سکے۔ اب یہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی حفاظتی ڈھال یعنی اسلامی ریاست خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات و ثقافت سے اپنے آپ کو مضبوطی سے منسلک رکھتے ہوئے اس گندگی کی یلغار کا مقابلہ کریں۔