پاکستان کی جوابی کاروائی، ایران میں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ٹھکانوں کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا، آئی ایس پی آر
پاکستان کی جوابی کاروائی، ایران میں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ٹھکانوں کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا، آئی ایس پی آر
راولپنڈی( چترال ٹائمزرپورٹ)آئی ایس پی آر نے ایران میں جوابی سرجیکل اسٹرائیک پر کہا ہے کہ ایران میں صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔اپنے بیان میں آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پاک فوج کے ایران کی حدود میں کیے گئے آپریشن کو‘مارگ بار سرمچار’کانام دیا گیا ہے جس میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو انٹیلی جنس اطلاع کے ساتھ مبنی آپریشن میں کامیابی سے نشانہ بنایا گیا، نشانہ بنائے گئے ٹھکانے یہ بدنام زمانہ دہشت گرد استعمال کر رہے تھے۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ کولیٹرل نقصان سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی، درست حملے ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور اسٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے کیے گئے۔پاک فوج کے مطابق حملوں میں مارے گئے دہشت گردوں میں دوستا عرف چیئرمین، بجر عرف سوغت، ساحل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی شامل ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے ایران کے اندر ان ٹھکانوں کے خلاف موثر حملے کیے جو پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں کے زیر استعمال تھے، دونوں ہمسایہ برادر ممالک کے درمیان دوطرفہ مسائل کے حل میں بات چیت اور تعاون کو سمجھ داری سمجھا جاتا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق ہم پاکستانی عوام کی حمایت سے پاکستان کے تمام دشمنوں کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں، پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام اور کسی بھی مہم جوئی کے خلاف تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے، پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف پاکستانی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
نگران وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بعد کی پیش رفت کی روشنی میں غیر ملکی دورے مختصر کر دیئے ہیں، ترجمان دفتر خارجہ
اسلام آباد(سی ایم لنکس)دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے پاکستان کی جانب سے ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بعد ہونے والی پیش رفت کی روشنی میں اپنے غیر ملکی دورے مختصر کر دیئے ہیں۔ جمعرات کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی کارروائی ایران کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تھی، پاکستان اپنے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ پرامن تعلقات کا خواہاں ہے اور ہمیشہ بات چیت کے ذریعے چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے۔ آج کی کارروائی کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کا تحفظ ہے جو کہ سب سے مقدم ہے اور اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ترجمان نے پاکستان کی جانب سے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں ”انتہائی مربوط“ اور ”خاص ہدف پر مبنی“ فوجی حملوں کے کچھ ہی دیر بعد جاری کیے گئے اپنے بیانات کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اس وقت ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کے لیے ڈیووس میں ہیں جبکہ وزیر خارجہ غیر وابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس اور تیسری ساؤتھ سمٹ میں شرکت کے لئے یوگنڈا کے دورے پر ہیں،
انہوں نے ”موجودہ صورتحال کے پیش نظر“ اپنے دوروں کو مختصر کر دیا ہے۔ترجمان نے جاری صورتحال میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی بارے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ انہیں ایسی کسی پیش رفت کا علم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایرانی عوام کو دوست اور بھائی سمجھتا ہے اور صورتحال کو مزید بگاڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، امید ہے کہ دوسرا فریق بھی اس بات کا ادراک کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کے راستے کا انتخاب کیا ہے اور وہ قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے ایران سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطے جاری رکھے گا۔ترجمان نے کہا کہ ”مرگ بر سرمچار“ایک انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن تھا جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے۔ ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان نے مسلسل اپنے سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے اور ایران کے اندر خود کو سرمچار کہنے والے پاکستانی نڑاد دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کے بارے میں ٹھوس شواہد کے ساتھ متعدد ڈوزیئر شیئر کئے ہیں۔ تاہم، ہمارے سنگین تحفظات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے، یہ نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔آج صبح کی کارروائی ان نام نہاد سرمچاروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں مصدقہ انٹیلی جنس کی روشنی میں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ تمام خطرات کے خلاف اپنی قومی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کی بھی مظہر ہے۔پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا، پاکستان کبھی بھی اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو کسی بھی بہانے یا صورتحال میں چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ترجمان نے کہا کہ عالمی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد بشمول رکن ممالک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا ایران نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے سے پہلے پیشگی اطلاع دی تھی، ترجمان کا جواب تھا ”بالکل نہیں“۔ انہوں نے مند پشین بارڈر مارکیٹ اور پولان گبد ٹرانسمیشن لائن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ تجارت اور توانائی جیسے متعدد موضوعات پر رابطے میں رہا ہے لیکن ”دو دن پہلے جو ہوا وہ حیران کن تھا“۔ غزہ کی صورتحال پر انہوں نے کہا کہ 14 جنوری 2024 انسانی ضمیر کے لیے ایک تکلیف دہ دن تھا۔یہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جنگ کا 100 واں دن تھا، جس نے غزہ میں 24,000 سے زیادہ جانیں لے لی ہیں، یہ تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اسرائیل کی جانب سے مظالم کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو فلسطینی عوام کو وحشیانہ کارروائیوں سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے جنوری 1990 کے دوران بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں ہندوستانی افواج کی طرف سے کئے گئے قتل عام کا بھی تذکرہ کیا جس میں تقریباً 100 لوگ شہید ہوئے تھے۔ قتل عام کے شہدا کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ترجمان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان جموں و کشمیر تنازعہ کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ اور پرامن حل کے لیے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
ایران سے پاکستانی سفیر مدثر ٹیپو واپس اسلام آباد پہنچ گئے
اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ)ایران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو اسلام آباد پہنچ گئے۔پاکستانی سفیر مدثر ٹیپو نے ایران کے دارالحکومت تہران میں پاکستانی سفارتی عملے سے گزشتہ روز الوداعی ملاقاتیں کرلی تھیں۔یاد رہے کہ ایران کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد پاکستان نے تہران سے اپنا سفیر واپس بلانے کا فیصلہ کیا تھا