
اپر چترال………بجلی ندارد………چراغ تلے اندھیرا……..تحریر: نور افضل خان
اپر چترال دس یونین کونسلوں پر مشتمل ضلع چترال کا سب ڈویژن مستوج ہے جسے حال ہی میں ضلعے کا درجہ دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے لیکن ابھی تک کوئی عملی قدم اس سمت نہیں لیا گیا ہے ۔ لگ بھگ دو لاکھ کی آبادی پر مشتمل پر اس تحصیل کے لوگ ضلعے کے قیام اور یہاں ڈپٹی کمشنر سمیت دوسرے افسران کی پوسٹنگ سے چندان دلچسپی نہیں رکتھے ہیں اور نہ ہی نئی ضلعے کے قیام کے لئے ان کے مطالبے میں کوئی شدت کبھی دیکھی گئی مگر بجلی کی فراہمی ان کا سب سے بڑ امسئلہ ہے جس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کا عز م صمیم لئے ہوئے ہیں۔
جولائی 2015ء کے تباہ کن سیلاب میں جب پیڈو کا 4.2میگاواٹ پیدواری گنجائش والا ریشن ہائیڈرو پاؤر اسٹیشن راتوں رات سیلاب برد ہوگیا اور اپر چترال کے دس یونین کونسلوں کے ساتھ ساتھ تحصیل چترال کا کوہ یونین کونسل بھی تاریکی میں ڈوب گئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے مالی مشکلات یا کسی اور مجبوریوں کی بنا پر بجلی گھر کی بحالی کاکام ابھی تک شرو ع نہ کرسکا لیکن ڈیڑھ دو ہزار تعداد میں سولر پینل تقسیم کئے لیکن یہ بجلی کا متبادل نہ ہوسکے اور نہ ہی تمام گھرانوں کو دستیاب کئے گئے جبکہ بجلی گھریلو ضرورت کی چیز ہے جس کی ہر گھر میں ضرورت ہوتی ہے جبکہ سولر سسٹم قرعہ اندازی کے ذریعے دئیے گئے جوکہ ایک تماشا سے ذیادہ کچھ ثابت نہ ہوا۔ امید کی کرن اس وقت پیدا ہوئی جب گزشتہ سال کے ماہ فروری میں گولین گول بجلی کا افتتاح کیا گیا جسے واپڈا نے 35ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا تھا ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس بجلی گھر سے چترال کے لئے 30میگاواٹ بجلی مختص کردی اور اس مقصد کے لئے جوٹی لشٹ کے مقام پر گرڈ اسٹیشن بھی قائم کیا گیا اور چترال تحصیل کے ان علاقوں میں اس بجلی گھر سے بجلی کی فراہمی شروع ہوگئی جنہیں پیسکوبجلی سپلائی کرتی تھی ۔ اس طرح اپر چترال اس بجلی سے محروم رہا ۔
حکومت وقت کو مستوج سب ڈویژن کے عوام کے غیض وغضب کا اندازہ اس وقت ہوا جب ان کا جم غفیر نے گولین گول کی طرف لانگ مارچ شروع کرتے ہوئے برنس تک پہنچ گئے جو کہ گولین گول بجلی گھر سے تین گھنٹے پیدل مسافت پر واقع ہے۔ صورت حال سے پریشان ہوکر ضلع ناظم مغفرت شاہ اور اس وقت کے ڈی سی ارشاد سوڈھر موقع پر پہنچ گئے اور صوبائی حکومت کی طرف سے ان کو ضمانت فراہم کردی جس پر جلوس منتشر ہوکر واپسی کی راہ لے لی اور جب وہ گھروں میں پہنچ گئے تو بجلی لگ چکی تھی۔ اس کے باوجود ان کی ازمائش کے دور کا احتتام نہیں ہوا اور بجلی کی آنکھ مچولی کا سلسلہ شروع ہوا اور پیڈوحکام کے ہاتھوں اب تک سزا کاٹ رہے ہیں اور مقامی لوگوں کے مطابق غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ، بریک ڈاؤن کی صورت میں ہفتوں ہفتوں تک ریکوری نہ ہونا، میٹرریڈنگ کے بغیر بل بھیجنا معمول بن گئے ہیں جبکہ روزانہ 15سے 20گھنٹے بجلی کی بندش سے وہ آشنا ہوچکے ہیں۔ مستوج سب ڈویژن کے عوام کی صبر کا پیمانہ فروری کے پہلے ہفتے میں دوبارہ لبریز ہوگیا اور تنظیم حقوق سب ڈویژن مستوج نے دوبارہ لانگ مارچ کی کال دے دی اور گاؤں گاؤں اس کی زبردست تیاری شروع ہوگئی لیکن ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے کے باوجود بھاگم بھاگ بونی پہنچ گئے اور حکومت کو درپیش اس سنگین مسئلے کو حل کو وقتی طور پر حل کردیا اور ان سے ایکماہ کی مہلت لینے میں کامیاب ہوگئے اور وہ 12جنوی سے لانگ مارچ کو 12 مارچ تک کے لئے فی الحال اگلے ماہ تک ملتوی کردیا ہے۔ مستوج سب ڈویژن کو بجلی کی بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے جوٹی لشٹ کے مقام پر موجود ہ 3میگاوولٹ ایمپیر کی بجائے 7میگاوولٹ ایمپیر کا طاقتور ٹرانسفارمر کی تنصیب، مختلف مقامات پر ڈسٹری بیوشن ٹرانسفارمروں کی تبدیلی اور مین ٹرانسمیشن لائنوں کی مرمت سمیت فیلڈ اسٹاف کی تعداد کو دگنا کرنا شامل ہیں لیکن مقررہ ڈیڈلائن تک یہ مطالبات پورا ہونا ممکن نہیں نظر آرہی ہے ۔ اپر چترال کے عوام کا کہنا ہے کہا کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی ان کا بغیر بجلی کے زندگی گزارنا مشکل ہے اوروہ اس بات کو برداشت نہیں کرسکتے کہ گولین گول میں بجلی کی وافر مقفدار میں دستیابی کے باوجود ان کو اس نعمت سے محروم رکھا جارہا ہے۔
اگرچہ چترال کے مختلف علاقوں میں اے کے آرایس پی اور ایس آر ایس پی اور صوبائی حکومت کی خصوصی پراجیکٹ کے تحت بونی ، مستوج، اویر، تریچ ، کھوت ، یارخون، لاسپور اور یارخون میں متعدد مقامات پر ہائیڈرو پاؤر کے منصوبے مکمل کئے گئے ہیں لیکن عوام کا اصرار ہے کہ انہیں بجلی گولین گول بجلی گھر سے دی جائے جبکہ مقامی طور پر انتظام کرکے ان مقامی بجلی گھروں سے سستی بجلی حاصل کرکے اسے کھانا پکانے اور گرم حاصل کرنے کے لئے لکڑی کا متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ صوبائی حکومت نے چترال میں 55مقامات پر چھوٹے پن بجلی گھروں کا منصوبہ شروع کیا تھا جن میں سے کئی ایک چالو بھی ہوگئے ہیں جبکہ کئی منصوبوں پر ابھی کام جاری ہے مگر ان کی ملکیت اور ان کے حوالے سے کوئی حکمت عملی ابھی تشکیل نہیں دی گئی ہے ۔ موجودہ صوبائی حکومت پچھلی حکومت کا تسلسل ہونے کی وجہ سے فیصلہ سازی میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں آنی چاہئے۔
چترال کے ضلعی حکومت سمیت بعض سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے ایک تجویز پیش کی جارہی ہے کہ این جی اوز اور خود صوبائی حکومت کی طرف سے تعمیر کردہ چھوٹے پن بجلی گھروں کا انتظام چلانے کے لئے ایک پاؤر کمپنی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ضلع کونسل چترال کے پلیٹ فارم سے کئی بار اس سلسلے میں قراردادیں پیش کی جاچکی ہیں لیکن ان پر کوئی کاروائی ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران ضلعے کے کونے کونے میں مختلف مقامات پرمختلف اداروں نے چھوٹے چھوٹے پن بجلی بن گئے جن میں کئی ایک کا اب نام ونشان بھی نہیں ہے جبکہ کئی ایک غیر فعال اور بند پڑی ہیں۔ ان بجلی گھروں کی تعمیر کے لئے فنڈنگ کرنے والے اداروں میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، بیرونی امداد سے صوبائی حکومت کے تحت چلنے والی چترال ایر یا ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ(سی اے ڈی پی ) ، سرحدرورل سپورٹ پروگرام قابل ذکر ہیں جبکہ یورپین یونین نے ملاکنڈ ڈویژن کی ترقی کے لئے PEACEکے نام سے پراجیکٹ ایس آر ایس پی کے تحت چلائی تھی۔ گولین کے مقام پر چترال ٹاؤن کو بجلی کی فراہمی کے لئے 40کروڑ روپے کی لاگت سے 2میگاواٹ بجلی گھر، بونی ، مستوج اور ایون کے مقامات پر ایک ایک میگاواٹ بجلی گھروں کی تعمیر اس میں شامل ہیں جبکہ اے کے آر ایس پی نے لاسپور اور یارخون کے مقامات پر تقریباً ایک ایک میگاواٹ کی بجلی گھر تعمیر کردی ہے جس میں سوئس ایجنسی فار ڈیویلپمنٹ اینڈ کواپریشن (ایس ڈی سی) کی مالی معاونت انہیں حاصل تھاجبکہ پاکستان غربت مکاؤ فنڈ کی مالی معاونت سے شوغور کے قریب 800کلوواٹ بجلی گھر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی ہے ۔ ان کے علاوہ پی ٹی آئی کی سابق صوبائی حکومت نے ضلعے کے مختلف 55دیہات میں چھوٹے چھوٹے پن بجلی گھر وں پر کام اے کے آرایس پی کے ذریعے شروع کیا ہے جن میں سے اکثر بخیر وخوبی پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں جبکہ کئی ایک زیر تعمیر ہیں اور اس سال جون تک مکمل ہوں گے۔ اے کے آرایس پی نے یارخون اور لاسپور میں بجلی گھروں کی انتظام و انصرام کو پائیدار خطوط پر استوار کرنے کے لئے یوٹیلیٹی پاؤر کمپنی کا قیام عمل میں لایا ہے جس کے تحت صارفین پری پیڈ کارڈ (Pre-paid card)کے زریعے بلوں کی ادائیگی کرتے ہیں اور انہیں 24/7بجلی مہیا ہوتی ہے اور ان علاقوں میں بجلی کی قلت کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ ا س تجربے کو سامنے رکھ کر ضلعی حکومت کے زیر اہتمام چترال پاؤر کمپنی کا قیام کوئی ناممکن بات نہیں ہے بلکہ ایک قابل عمل اور مفید مشق ہے اور اس کے ذریعے مایکرو اور منی ہائیڈل پاؤر اسٹیشنوں کا بہتر انتظام کرکے لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے چھٹکار ا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ضلع ناظم مغفرت شاہ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو پاؤر پراجیکٹ کے فیز ٹو میں منی ہائیڈل کی بجائے کم از کم دو میگاواٹ کے منصوبوں پر کام کرنا چاہئے جن کی افادیت چھوٹے پن بجلی گھروں سے بہت ذیادہ او ر انتظام کے لئے ذیادہ سہل تر ہے۔ انہوں نے کہاکہ دو میگاواٹ یاذیادہ پیدواری گنجائش کا ہائڈل اسٹیشن اپر چترال کے تمام گاؤں میں بنائے جاسکتے ہیں جن میں تریچ، کھوت، ریچ، بونی، یارخون، لاسپور، گولین، ارکاری، شیشی کوہ اور دوسرے دیہات میں یہ ممکن ہے۔ ضلع ناظم نے کہاکہ ان بجلی گھروں کی انتظام و انصرام کے لئے ضلعی حکومت چترال میں پاؤر ونگ کا قیام عمل میں لانا ناگزیر ہے تاکہ ایک طرف ضلعی حکومت کو آمدن کا ایک اہم ذریعہ دستیاب ہو ا تو دوسری طرف مقامی اسٹیک ہولڈروں کی وجہ سے بجلی کی ڈسٹری بیوشن اور جنریشن کا نظام ٹھوس بنیادوں پر استوار ہوسکے اور سستی قیمت میں بجلی کی دستیابی سے چترال کے جنگلات پر دباؤ بھی کم ہوسکے۔
جہاں تک فی الوقت اپر چترال میں بجلی کی فراہمی اور عوامی اضطراب کا تعلق ہے، اس کی حل کے لئے حکومت کو شارٹ ٹرم بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن میں پرانی ٹرانسمیشن لائنوں کی تبدیلی ، جوٹی لشٹ میں 7میگاواٹ ٹرانسفارمر کی تنصیب، لائن اسٹاف کی شدید کمی کو پورا کرنا ، مختلف دیہات میں ٹرانسفارمروں کی اپ گریڈیشن یعنی چالیس سالہ پرانی 50 کے وی اے کی بجائے اب 100کے وی اے کی نئی ٹرانسفارمر لگانا شامل ہیں ۔ یہ وہ اقدامات ہیں جوکہ چند مہینوں میں پورا ہوسکتے ہیں اور گولین گول بجلی گھر سے بجلی اپر چترال کے گھر گھر پہنچ جائے گی جبکہ لانگ ٹرم منصوبے کے طور پر کاغ لشٹ کے مقام پر گرڈ اسٹیشن کا قیام شامل ہے جس کے لئے سابق ایم این اے شہزادہ افتخار الدین نے بہت ہی تگ ودو کے بعد وفاقی حکومت سے اس کی منظوری دلواکر اسے سال 2018ء کے اے ڈی پی میں شامل کروایا تھا جسے پی ٹی آئی حکومت نے رواں مالی سال کی اے ڈی پی سے خارج کردیا ہے۔ ریشن بجلی گھر کی تعمیر اور بحالی پر کئی سال لگ سکتے ہیں اور کاغ لشٹ میں گرڈ اسٹیشن بھی انتظار طلب بات ہے لیکن اپر چترال کے پریشان حال لوگ اس انتظار کا متحمل شاید ہی ہوسکیں اور مرزا غالب نے تو اسی لئے کہا تھاکہ
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں، خون جگر ہونے تک