امجد ندیم: امید کی کرن – خاطرات :امیرجان حقانی
امجد ندیم: امید کی کرن – خاطرات :امیرجان حقانی
خدمت خلق ایک ایسا عمل ہے جس کی جڑیں دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ یہ انسانیت کے جذبے کی عکاسی کرتی ہے اور سماج میں محبت، ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دیتی ہے۔ جو لوگ خدمت خلق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں، وہ دوسروں کی مشکلات کو اپنی مسرت میں بدلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی محنت، ایثار اور قربانی معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کے لیے ایک نیا اُجالا اور امید کی کرن ثابت ہوتی ہے۔ خدمت خلق کرنے والے افراد انسانیت کے حقیقی ہیرو ہیں، جو اپنی خودی کو بھلا کر دوسروں کی خدمت کو مقصدِ حیات بنا لیتے ہیں۔ ان کی بے لوث محبت اور انتھک محنت معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لانے کا باعث بنتی ہیں اور انہیں ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھتی ہیں۔
آج کی محفل میں ایسے ہی ایک شخص کی کہانی بیان کرنی ہے جس نے خدمت خلق کے ذریعے ہزاروں غریبوں، معذوروں اور کمزوروں کے دل جیتے ہیں. بلکہ مجھ جیسے ناقدین کو بھی اپنا گرویدہ بنایا ہے. اور اس نے خود بھی انتہائی کسمپرسی کے دن گزارے ہیں اور معذوری کی حالت میں معذوروں کا سہارا بنے ہیں.
میری ان سے صرف دو ملاقاتیں ہیں مگر میں ان کے کام کا کئی سالوں سے باریک بینی سے جائزہ لیتا آرہا ہوں.
آئیے! آج کالے کالے پہاڑوں، برف پوش چوٹیوں اور بہتے پانیوں کی سرزمین گلگت بلتستان کے ایک عظیم شخص امجد حسین عرف امجد ندیم کی داستان حیات سن لیں. شاید اس میں ہمارے لئے بہت کچھ کرنے کا راز پوشیدہ ہو.
امجد ندیم کا نام گلگت بلتستان کی سرزمین پر امید کی کرن کے طور پر جگمگاتا ہے۔ ان کا تعلق نپورہ گلگت سے ہے۔ وہ کبھی شاعری بھی کرتے اور شاعر کی حیثیت سے ندیم تخلص اختیار کیا، یوں امجد ندیم کے نام سے معروف ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول نپورہ اور میٹرک سرسید احمد خان ہائی سکول گلگت المعروف ہائی سکول نمبر ایک سے حاصل کی۔ ان کے والد کا نام رجب علی تھا جو پی ڈبلیو ڈی میں ملازم تھے اور 9 جولائی 1997 کو دوران ڈیوٹی الیکٹرک شاک لگنے سے وفات پا گئے۔ تب امجد ندیم شاید آٹھویں کے طالب علم تھے. والد کی وفات کے بعد امجد ندیم اور اس کی فیملی کی مشکلات شروع ہوئیں. بطور بڑے بھائی امجد ندیم کے لیے یہ وقت انتہائی کٹھن تھا کیونکہ وہ ایک کم عمر طالب علم تھے اور نو چھوٹے بہن بھائیوں کے سربراہ بن گئے۔
دن گزرتے گئے اور امجد ندیم کی باہمت والدہ نے انہیں تعلیم کے لیے پشاور بھیجا، جہاں انہوں نے ایف ایس سی کی اور انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا۔ امجد ندیم نے تعلیم کے ساتھ ساتھ کالج کے کینٹین میں ملازمت بھی کی۔ لیکن ابھی تعلیم مکمل ہونے میں کچھ ہی وقت باقی تھا کہ کسی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنے اور ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔
یہ شاید 2007 کا سال تھا، معذوری کے بعد امجد ندیم گلگت واپس آئے اور پھر کمر کی تکلیف کی وجہ سے کراچی شفٹ ہوئے۔ وہاں انہوں نے ریڑھی لگا کر اپنے خاندان کی کفالت کی اور اپنے بہن بھائیوں کو بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی۔ انہی دنوں ہاشو گروپ میں بطور سب انجینئر ملازمت کی اور ساتھ شادی بھی کی، شادی کے بعد ان کی بیٹی کی پیدائش نے ان کی زندگی میں خوشیوں کی بہار بھر دی۔ بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور اس کی پیدائش کے بعد امجد ندیم کے دن بدل گئے اور ان کی زندگی میں شاندار تبدیلی آئی، بیٹی کی عظمت، رحمت اور برکت کا امجد ندیم کو شاندار تجربہ ہوا۔
2013 میں امجد ندیم نے معذوروں کی بحالی اور رفاہ کے لیے عبدالستار ایدھی اور رمضان چھیپا کے ساتھ کام شروع کیا اور بھرپور محنت کی۔ 2017 میں کچھ دنوں کے لئے اپنے آبائی شہر گلگت واپس آئے، کچھ دن رہ کر واپس کراچی جانا تھا مگر انہی دنوں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے ساتھ ملاقات ہوئی اور حافظ حفیظ نے انہیں گلگت میں اپنا کام جاری رکھنے کی دعوت دی، یوں گلگت بلتستان میں ان کے تعاون سے معذوروں کی فلاح و بہبود کے کام شروع کیے۔ اور آگے بڑھتے گئے. وہ آج بھی حافظ حفیظ الرحمن کو اپنا محسن سمجھتے ہیں. بیٹی کی پیدائش اور حفیظ سے ملاقات، امجد ندیم کی زندگی کے ٹرننگ پوائنٹ تھے.
امجد ندیم نے گلگت بلتستان کے ہر ڈسٹرکٹ میں معذوروں کی تنظیمیں بنائیں اور انہیں ایک لڑی میں پرویا۔ ان کی کوششوں سے، حفیظ دور میں گلگت اسمبلی سے معذوروں کے لیے قانون سازی بھی ہوئی۔
2020 میں امجد ندیم فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور پورے گلگت بلتستان میں معذوروں اور یتیموں کی مدد کا سلسلہ شروع کیا۔ کرونا کے دنوں میں بہت سارے غریبوں اور مستحق لوگوں میں اشیائے خوردونوش تقسیم کیں۔ امجد ندیم فاؤنڈیشن کے ذریعے بہت سے پروجیکٹ متعارف کرائے گئے اور ایک انڈیپینڈنس لیونگ سینٹر قائم کیا گیا۔ اس سینٹر میں معذوروں اور خواتین کو کئی ہنر سکھائے جارہے ہیں۔ امجد ندیم کا یہ سینٹر اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن، ہینڈزپاکستان اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی معاونت اور اشتراک سے کام کرتا ہے. اس سینٹر میں300 سے زیادہ غریب بچوں کو کمپیوٹر سکلز، بیسک ایجوکیشن، فری لانسنگ، فیزیوتھراپی، سلائی کڑھائی اور دیگر ہنر سکھائے جارہے ہیں۔
امجد ندیم نے اپنی ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذریعے گلگت بلتستان کے علاقے تانگیر سے غذر تک لوگوں کی مدد کی، کاروبار کے لیے چھوٹے چھوٹے قرضے دیے اور ہزاروں بیساکھیاں اور ویل چیئرز تقسیم کیں۔ وہ نہ صرف معذوروں اور غریبوں کی رفاہ کے لیے کام کرتے ہیں بلکہ مسلکی ہم آہنگی اور سماجی رواداری کے فروغ کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ وہ اہل تشیع ہیں لیکن اہل سنت کے تبلیغی اجتماعات میں شرکت کرکے محبت اور اتحاد کا پیغام دیتے ہیں۔ چلاس تبلیغی اجتماع سے واپسی پر چکر کوٹ میں ایک جنازے پر ان سے ملاقات ہوئی تھی. ان کا یہ عمل نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ پورے گلگت بلتستان میں مسلکی ہم آہنگی کے فروغ کا باعث بنا ہے، جب وہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لئے چلاس گئے تو انتظامیہ اور اہلیان چلاس نے انہیں بہت عزت دی اور ان کی کاوشوں کو دل سے سراہا۔چلاس کے سفر میں ان کے یار غار عبدالرحمن بخاری بھی تھے. امجد ندیم کی کامیابی میں محسن گلگت بلتستان جنرل ڈاکٹر احسان محمود کا بھی بڑا ہاتھ ہے.
امجد ندیم نے معذوری کو بہانہ بناکر کمزوری دکھانے کی بجائے معذوری کو ایک موقع کے طور پر لیا اور معذوروں کی بحالی کے لیے عظیم الشان کام شروع کیے۔ وہ کمزوروں، بیماروں، معذوروں اور بے ہمت لوگوں کے لیے امید کی کرن ہیں۔ ان کی داستان ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ مشکلات کے باوجود عزم و حوصلے سے بھرپور زندگی گزارنا ممکن ہے۔ امجد ندیم کی زندگی کا ہر لمحہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انسان اپنی محنت، لگن اور عزم سے کسی بھی چیلنج کو شکست دے سکتا ہے۔
امجد ندیم کی زندگی ان کے عظیم عزم، محبت، اور خدمت کی مثال ہے۔ وہ نہ صرف معذوروں کے لیے ایک رہنما ہیں بلکہ وہ معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے فروغ میں بھی پیش پیش ہیں۔ ان کی خدمات نہ صرف معذوروں بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک مثال ہیں۔ امجد ندیم کی کاوشیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ حقیقی کامیابی اور خوشی دوسروں کی خدمت میں ہے۔ ان کا سفر ایک مشعل راہ ہے، جو ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے اور امید کی کرن بن کر ہمارے دلوں کو روشن کرتا ہے۔
امجد ندیم کی داستان ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کی مشکلات اور مصائب کے باوجود، حوصلہ اور عزم کبھی کم نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو مثال بنا کر یہ ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو اور مقصد بلند، تو کوئی بھی رکاوٹ آپ کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔ ان کی محنت، لگن اور انسانیت کی خدمت کے جذبے نے انہیں ایک حقیقی ہیرو بنا دیا ہے۔ امجد ندیم کی فاؤنڈیشن آج بھی معذوروں، غریبوں اور یتیموں کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔ ان کی یہ کاوشیں ہمیں مسلسل یہ پیغام دیتی ہیں کہ ہم بھی اپنی زندگی میں کچھ ایسا کریں جو دوسروں کے لیے مفید ہو، ان کی مشکلات کم کرے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرے۔
امجد ندیم کی زندگی ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ مشکلات میں گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ان کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ ان کی محنت، عزم اور خدمت کے جذبے نے انہیں امید کی کرن بنا دیا ہے جو ہر دل میں روشنی بکھیرتی ہے اور ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیتی ہے۔ ان کا سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی کامیابی دوسروں کے لیے جینے میں ہے، اور یہی وہ سبق ہے جو امجد ندیم کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے۔
امجد ندیم کی شخصیت خدمت خلق کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ان کی ہمت و عزم کی داستان ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو تاریک راتوں میں روشنی بکھیرتا ہے۔ ان کے دل میں انسانیت کے لیے محبت کا دریا موجزن ہے، جس کی موجیں ہر محتاج اور مجبور شخص کی تشنگی بجھاتی ہیں۔ ان کا عزم فولادی، ارادے بلند اور نیتیں پاکیزہ ہیں۔ وہ ایک ایسے مسیحا ہیں جو دوسروں کی مشکلات کو اپنی خوشی میں بدلنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کی بے لوث خدمت، ایثار اور قربانی کے جذبے کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، کیونکہ ان کی ہر مسکراہٹ، ہر قدم اور ہر لمحہ انسانیت کے نام وقف ہے۔ امجد ندیم کی خدمات ہمیشہ تاریخ کے سنہری اوراق پر جگمگاتی رہیں گی اور ان کا نام ہمیشہ خدمت خلق کی عظیم مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
انہیں خدمات کے عوض حکومت گلگت بلتستان و پاکستان نے انہیں 23 مارچ 2024 کو تمغہ امتیاز سے نوازا. پاکستان میں امجد ندیم پہلا شخص ہے جو خود معذور ہیں اور معذوروں کی رفاہ اور خدمت خلق کے عوض تمغہ امتیاز سے نوازا گیا. اسے پہلے کسی معذور شخص کو تمغہ امتیاز نہیں دیا گیا. یہ تمغہ امجد کو دے کر تمغہ کا وقار بڑھایا گیا ہے ورنہ تو ہمیشہ ایسے تمغوں کی بے توقیری کی گئی ہے.