اقتدار کے چڑھتے سورج کو سلام ؟………قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
ہم خیال گروپ کے سیاسی داؤ پیچ اور چوہدری نثار کی حلف برداری کے لئے بھاگ دوڑ سے پنجاب کی سیاست میں ارتعاش ہے۔ بادی ئ النظر تو سب کچھ ٹھیک، لیکن ویسا نہیں ہے جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کا وقت قریباََ گذر چکا ۔ پی ڈی ایم سمجھ چکی کہ پی پی پی و اے این پی کی علیحدگی سے انہیں سیاسی نقصان پہنچا، اس لئے (ن) لیگ میں اندرونی طور پر دو واضح بیاینے تشکیل پا چکے کہ حکومت قبل از وقت گرائی جاسکتی ہے یانہیں، کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان باہمی اختلافات اتنے بڑھ چکے کہ عدم اعتماد کی اس فضا کو صرف نواز شریف اور آصف علی زرداری ہی دور کرسکتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب میاں نواز شریف کے لئے پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک آنا ممکن نہیں اور آصف علی زرداری لندن جا نا نہیں چاہتے۔گمان یہی ہے کہ جب تک دونوں سیاسی شخصیات کے درمیان ملاقات نہیں ہوتی، اُس وقت تک کم ازکم منقسم پی ایم ایل (ن) کے لئے پی پی پی کے ساتھ دوبارہ چلنا مشکل امر دکھائی دیتا ہے، شاید پی پی پی اپنی سمت طے کرچکی یا پھر سیاسی مزاحمتی تحریک سے جداگانہ راستہ ان کی سیاسی مجبوری بن چکی ہو۔
سیاسی پنڈتوں نے چوہدری نثار کی اچانک عملی سیاست میں واپسی کو ہم خیال گروپ اور ن لیگ کے موجودہ بیاینے میں اختلافات و گروپ بندی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ عمران خان کے لئے پنجاب کی سیاست تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے، ایک تو انہوں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کے امکانات کو قریباََ ختم کردیا ہے۔شاید انہیں مشورہ دینے والوں کے نزدیک جو بھی مسائل اٹھ رہے ہیں انہیں کسی نہ کسی طرح حل کرلیا جائے گا، یہی وجہ ہے کہ بظاہر وزیراعظم اپنی حکومت گرانے والوں کی دھمکیوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے اور حزب اختلاف کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور میں ڈیڈ لاک کی بنیادی وجہ یہی قرار دی جاتی ہے کہ وزیراعظم، حزب اختلاف کے مینڈیٹ پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں، دونوں ایوانوں میں حزب اقتدار و اختلاف کے درمیان ایسے کئی مواقع آئے کہ سنجیدہ سیاسی عناصر نے معاونت کی لیکن جب بالائی سطح پر کوئی خاص دلچسپی نہ دکھائی جائے اور مسلسل بات چیت سے کنی کترایا جائےء تو مذاکرات کے لئے ساز گار ماحول کا بننا آسان نہیں رہتا۔ تصور کریں کہ اپوزیشن لیڈر سے قائد ایوان کی آج تک ایک بھی باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی، قانون سازی و آئین میں اصلاحات کے لئے دونوں رہنماؤں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے، یہاں تک کہ حزب اختلاف کے پارلیمانی لیڈروں سے بھی قائد ایوان سے باقاعدہ میٹنگ نہ ہونا،جمہوری روایات کے دعویٰ کرنے والوں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔
حکومتی وزرا ء کے سخت بیانات اپنی جگہ، تاہم سنجیدہ حلقہ اس اَمر کو اہمیت دیتا ہے کہ جب کسی بھی سیاسی رہنما کے خلاف، کسی بھی آزاد ادارے میں مقدمات زیر سماعت ہوں تو پھر حکومت کا کام ختم ہوجاتا ہے، پھر جو کرنا ہے احتساب و انصاف کے اداروں نے کرنا ہے، سیاسی طور پر تمام معاملات میں ذاتی جذبات کا اظہار انصاف کے تمام عمل کو مشکوک بنادیتا ہے۔ اس لئے صاحب اقتدار کو روز اول سے یہی مشورہ دیا جاتا رہاہے حکومت اپنے اُس منشور پر توجہ مرکوز رکھے، جن وعدوں پر انہیں اقتدار ملا، صاحب اقتدار پہلے اپنے موقف کو یکساں اور ہم آہنگ کرلے، اس کے بعد اپنے اتحادیوں کے ساتھ سچے و کھلے دل کے ساتھ ملک کی ترقی و معاشی استحکا م کے قیام میں ضرورت کا احساس اور ادارک جتنا جلدی کرلے اُتنا ہی بہتر ہے۔ عوام اس وقت شدید کوفت و ذہنی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں، کوئی مصر کی طرز پر تحریک چلانے اور عوام کو راغب کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تو کوئی موجودہ پارلیمانی نظام کو ہی تبدیل کرنا چاہتا ہے، کئی درجن اختلافی تصورات کے ساتھ سیاسی عدم استحکام میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بظاہر تو مصر ی طرز کی تحریک چلائے جانے اور عوام کی شرکت کے امکانات نہیں، تاہم محسو س کیا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت اپنی پالیسیوں و اقدامات سے مطمئن ہے تو ایسے اقدامات کیوں سامنے آرہے ہیں، جو حکومت کے مستقبل پر غیر محفوظ قرار دیتے ہیں۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اب بھی سوچ، رویے اور پالیسیوں میں تبدیلی لاکر انہیں لچک دار نہ بنایا تو اس کی سزا عوام کو بھی بھگتنا ہوگی۔
دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ افغانستان سے امریکہ و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد مملکت کو بدترین دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا ہوسکتا ہے، اگر اس حوالے سے ٹھوس اقدامات میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز و عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور سیاسی انتقام و تعصب کی عینک اتار کر حالات و واقعات کا جائزہ لینے میں سستی برتی تو وطن عزیز بدترین مشکلات کا خدانخواستہ شکار ہوسکتا ہے۔تمام سیاسی رہنماؤں کو پاکستان پر انگلی اٹھانے والوں کے معاملات کی طرف بھی دیکھنا چاہیے،جن کی وجہ سے پورے خطرے کا امن خطرے سے دوچار ہے، الیکٹرونک میڈیا میں ترجمانی کرنے والے رہنما ہوں یا تجزیہ نگار، اپنی آرا میں اعتدال و تحمل کا مظاہرے کے ساتھ شائستگی کی روایات کو دوبارہ واپس لائیں، بے بنیاد و لغو بیانات و بے معنی جوش خطابت کے ذریعے ملک کا سیاسی ماحول خراب کرنے سے گریز کیا جائے، جس کا جو کام ہے اُسے کرنے دیا جائے۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق تخت لاہور ہل رہا ہے، اگر وفاق اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا تو وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے اپنی مدت پوری کرنا ناممکن ہوسکتا ہے، پنجاب میں نمبر گیم جس شخصیت نے بناکر تخت لاہور پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالا تھا، وہ سیاسی مفادات کے لئے اپنی ڈوریں کسی کے بھی ہاتھ میں دے سکتاہے، چوہدری نثار کی پارلیمانی سیاست میں واپسی کی کوشش کو ہلکا نہیں لیا جاسکتا، ن لیگ میں ان کا اپنا ایک خاص اثر رسوخ ہے، حکومتی اتحادیوں و الیکٹبلز نے ہمیشہ اقتدار کے چڑھتے سورج کو سلام کیا ہے۔ آنے والا وقت پی ٹی آئی کے لئے سخت امتحان ثابت ہوگا، شاہ محمود قریشی کی وائرل ویڈیو میں حکومتی جماعت کے اندرونی اختلافات کی شدت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مقصود صرف یہی ہے کہ عوام کے صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے، کمزور کی صدا سے تو عرش ہل جایا کرتے ہیں، مرے کو مزید سو درے مارنے سے گریز ہم سب کے حق میں بہتر ہے