
اشرافیہ کی مکاری اور عوام کی احساس کمتری – تحریر:محب العارفین
اشرافیہ کی مکاری اور عوام کی احساس کمتری – تحریر:محب العارفین
انسان کی خودی، عظمت و وقار کا انسانی کامیابی اور نا کامی میں کلیدی کردار ہے ۔جب تک انسان کی خودی، عظمت و وقار محفوظ رہتا ہے وہ آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کر پاتا ہے سہی اور غلط کا فرق کرتاہے تخلیقی سوچ کے مالک ہوتا ہے ہر چیز کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ظلم و جبر زیادتی کے خلاف ڈٹ جاتا ہے ۔اس لئے طبقاتی طور پر تقسیم معاشرہ جہاں دولت و اقتدار، طاقت چند ہاتھوں میں محدود ہو وہاں اس بات کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ انسانی عظمت و وقار کو اس طرح کچلا جائے کہ لوگ کسی طور پر بھی سر نہ اٹھا پائے کیونکہ اسی صورت وہ لوگوں کی قوت اور اپنے خلاف مزاحمت کو کمزور کر دیتے ہیں اپنی طاقت و حکمرانی کو دوام دیتے ہیں ۔
یہ ہر وہ زرائع اور طریقے اپناتے ہیں جس سے ایک عام انسان کو اس حد تک احساس کمتری کا احساس دلائے کہ وہ خود کو ان سے کمتر سمجھنے لگے انکے اندر حکمران طبقے کا ڈر و خوف بھر جائے وہ حکمران یا طاقتور طبقے کی عزت و تکریم کرنے کو اپنے لیے باعث شرف سمجھنے لگے جابر حکمرانوں کے سامنے سر جھکائے ہر ستم سہنے کو تیار ہو اوف تک نہ کریں اور اسے حب الوطنی کا نام دیں ۔پرانے زمانے میں حکمران اپنے درباروں میں خود کو سجدے کرواتے تھے اپنے رسومات میں ایسے ایسے رسمیں شامل کرتے تھے کہ ان رسومات کے نام پر لوگوں کی عظمت و وقار کو ختم کیا جاسکے ۔بادشاہوں کے درباروں میں ننگے پاؤں سر جھکائے جانا آنکھیں نیچے رکھنا ہاتھ جوڑنا حکمرانوں کو مختلف القابات سے نوازنا یہ سب چیزیں انسانی عظمت و وقار کو ختم کرنے کے لیے تھے ۔ آج کے دور میں بھی ویسے ہی طبقاتی تفریق جاری ہے امیر طاقتور اور عام شہری کے درمیان لباس سے لیکر قبرستان میں دفن ہونے تک اسے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کمتر ہے ۔ انسانی عظمت و وقار کی پامالی تیسری دنیا میں آج بھی رائج ہے جیساکہ پاکستان ۔
پاکستان میں پوری منظم منصوبہ بندی کے ساتھ 1947 سے لیکر اب تک طبقاتی تقسیم رائج ہے پاکستان وجود میں آتے ہی اس ملک کی حکمرانی جاگیر داروں اور صنعت کاروں تک محدود رہا وہ اسمبلیوں میں اپنے مفادات کے لیے قانون سازی کرتے رہے ایسے ایسے قانون بنائے گئے جو کہ انکی مفادات کو دوام بخشنے میں مددگار ثابت ہو ۔لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات انسٹال کردی گئی ہے کہ حکمرانی ایک مخصوص طبقے کا ہی کام ہے صاف شفاف گلیاں، سیکورٹی ،بہترین سڑکیں، بہترین ہسپتال انصاف، بہترین تعیلم اشرافیہ کے لیے ہی ہے ۔آج اگر پاکستان میں مختلف ناموں جیسے کہ بحریہ ٹاؤن،ڈی ایچ اے وغیرہ وی آئی پی ہوسینگ سوسائٹیز بنائے جارہے ہیں جہاں غریب داخل بھی نہیں ہوسکتے اصل میں یہ آپ کی عظمت و وقار کو ختم کرنے کی سازش ہے آپکو کمتر ہونے کا احساس دلایا جارہا ہے کہ تم ایسے آسائشوں کے حقدار نہیں ہو تمہارے بچے ٹاٹ سکولوں میں ہی پڑھیں گے تمہارے ہسپتال اور شہروں میں گندگی کے ڈھیر ہونگے تم ڈاکوؤں دہشت گردوں کے ہاتھوں مر جاؤ تو کوئی بات نہیں کیونکہ تم کمتر ہو تمہارے جانوں کی کوئی اہمیت نہیں اور عام عوام یہ تسلیم کئے ہوئے ہیں۔
افسر شاہی اور حکمران طبقے کا خوف پیدا کرنے کے لیے انہیں بڑے بڑے محلات گاڑیاں نوکر چاکر سیکیورٹی دئے جاتے ہیں انکے دفتر جائے تو مہنگے صوفے چمکتے ٹائیلز اور اونچے کرسی پر مخصوص برقی قوم قوموں کی روشنی میں بیٹھا شخص فرعونیت کا روپ دھار لیتا ہے اسکا خوف ایک عام غریب پر ایسا طاری ہوتا کہ وہ وہ خادم کو حاکم سمجھنے لگ جاتا ہے وہ ان سے اپنی بنیادی حق مانگتے ہوئے اپنے لئے درخواست گزار فدوی سائل خاکسار عین نوازش ہوگی وغیرہ الفاظ لکھتا ہے اگر کوئی کام کر بھی دے تو انکی تعریفوں کا پل باندھ نے لگ جاتا ہے یہ سب آپکی عظمت و وقار کی پستی کے علامت ہے کیونکہ آپ آپکو ماں کے گود سے قبر تک یہی سیکھایا جاتا ہے کہ تم کمتر ہو ۔ اب یہ آپکی زمہ داری ہے کہ آپ اپنی عظمت و وقار کی حفاظت کر پاتے ہیں کہ نہیں کیونکہ آپ کے ملک کا مخصوص طبقہ ستر سالوں میں آپکے زہن میں یہ بات ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ تم کمتر ہو ۔