استقبال رمضان – از: کلثوم رضا
استقبال رمضان – از: کلثوم رضا
سویرے سویرے ایک روزگار سکیم کے حوالے سے الخدمت فاؤنڈیشن ویمن ونگ ضلع مالاکنڈ کی صدر بہن کا فون آیا۔ضروری کام کے علاوہ خیر وعافیت پوچھنے پر بتایا کہ سوات میں بعض لوگوں نے آج روزہ رکھ لیا ہے۔۔۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ 28 شعبان کو؟ 29 30 ابھی باقی ہیں۔۔۔ جبکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا عید منائی ورنہ مہینے کے تیس پورے کیے۔۔۔ کہا ہاں یہ تو ایسے ہی ہیں سعودی عرب کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ عید مناتے ہیں۔۔۔ کچھ کہو تو کہتے ہیں پاکستان والے ایک روزہ کھا جاتے ہیں۔۔۔ یہ بھی عجیب بات تھی یہی ایک روزہ کھانا انہیں ناگوار گزرتا ہے جبکہ پاکستان میں کسی کا پورے کا پورا حق کھایا جاتا ہے اس کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔۔۔ اور مذید دلچسپ بات یہ بھی بتائی کہ ان لوگوں کی عید بھی دو ہوتی ہیں ایک سعودی عرب کے ساتھ دوسری حکومت پاکستان کے ساتھ۔۔۔ یعنی سعودی عرب کے ساتھ عید مناتے ہوئے صرف روزہ کھاتے ہیں وہاں کے عید گاہ جا نہیں سکتے یہاں کے لوگوں کا روزہ ہوتا ہے۔۔۔ اب دوسرے دن یہاں کے لوگوں کے ساتھ عید گاہ بھی نہیں جاتے کیوں کہ ان کی عید ایک دن پہلے تھی۔۔۔ اس طرح نماز عید سے بھی محروم رہے۔۔۔
خیر اس سے یاد آیا کل نہیں تو پرسوں ہمارا بھی روزہ ہو گا۔۔۔ سوچنا یہ ہے ہم اپنا رمضان کیسے گزاریں؟
ویسے تو اس کے لیے شیڈول مدارس اور سوشل میڈیا سے تیار ملتا ہے۔۔۔ کہ فلاں فلاں وقت سحری اور افطاری کے۔۔۔ فلاں فلاں سونے اور جاگنے کے۔۔۔ فلاں فلاں فرض اور نوافل کے۔۔۔ اور فلاں فلاں وقت ذکرو اذکار کے۔۔۔
اچھی بات ہے کہ ہر چیز ریڈی میڈ ملتی ہے۔۔۔ اب اس پر عمل کرنا آسان ہو گیا۔۔۔ لیکن پھر سوچتی ہوں کہ ہر گھر کی روٹین اور حالات ایک جیسے تو نہیں ہوتے۔۔۔ کسی کے گھر میں بیماری، کسی کے گھر میں ذیادہ بچے، کسی کے گھر میں بڑے بوڑھے ہو سکتے ہیں۔۔۔ اب ان بیماروں کی تیمارداری ،بچوں کی دیکھ بھال ،بڑے بوڑھوں کی ادویات و کھانے کے اوقات۔۔۔ انہیں اچھے انداز میں کرنے سے بھی تو ثواب ملتا ہوگا۔۔۔ ہمسایوں کی مزاج پرسی، تعزیت کے لیے جانا ،کسی کا سودہ سلف لا دینا ۔۔کسی کا غم بانٹنا، کسی کی تلخ باتوں کا جواب مسکرا کر دینا بھی باعث اجر ہو سکتا ہے۔۔۔ مومن کا سونا جاگنا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے اگر قرآن و سنت کے مطابق ہے تو ایسے بھی ہم اجر پا سکتے ہیں۔۔۔
عام دنوں میں بھی تلاوت قرآن جتنا ممکن ہو آسانی اور دلجمعی کے ساتھ پڑھنے کا حکم ہے تو رمضان میں بھی اسے اسانی اور دلجمعی کے ساتھ جتنا ممکن ہو سکے ہڑھ لیا جائے۔۔۔ کیا ہی بہتر ہے کہ فرض عبادات کو خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھا جائے اور قرآن کی تلاوت کم مگر لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ، لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ پر غور کر کے کی جائے۔۔۔ یعنی تقوی، ہدایت اور شکر کے مواقع تلاش کر کے خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ڈھونڈا جائے۔۔۔ اب ان تین کاموں کے حصول کا کام کرتے ہوئے بھی سوچنا عبادت ہی تصور ہو گا۔۔۔ کیوں نہ ہم دین کو اپنے لیے آسان بنائیں تعین شدہ عبادات کے ساتھ گھر کے کاموں مثلاً کپڑے اور برتن دھوتے وقت گناہوں کی دھلائی کا سوچیں۔۔۔ آٹا گوندھتے اور کھانا بناتے وقت درود شریف کا اہتمام کا سوچیں۔۔۔ صفائی ستھرائی کو دلوں کی صفائی سمجھتے ہوئے کریں۔۔۔ روزے کی حالت میں کھانے پینے کی چیزوں سے اجتناب کے ساتھ گالی، جھوٹ، طنزو غیبت سے بھی اجتناب کا سوچیں۔ اور عمل کریں ۔۔تو ہو سکتا ہے روزے کی افادیت بہتر انداز میں حاصل کر سکیں۔۔۔
ہم روبورٹ تھوڑی ہیں کہ جو حکم ادھر ادھر سے ملے مانتے اور کرتے جائیں ۔۔۔ہم تو اپنے خالق کے بنائے جیتے جاگتے انسان ہیں ہماری سوچوں کا بھی کوئی زاویہ ہونا چاہیئے۔۔۔ کیا خیال ہے؟#