ارطغرل خلافت عثمانیہ کا بنیادی پتھر – مشرقی اُفق – میر افسر امان
بسم اللہ الرحمان الرحیم
ارطغرل خلافت عثمانیہ کا بنیادی پتھر – مشرقی اُفق – میر افسر امان
کائی قبیلے کوپہلے سے موجود جگہ پر جانوروں کا چارہ اور خوراک کے لیے اشیاء کی تنگی کی وجہ سے خانہ بدوش اوغوز ترکوں نے کسی اور جگہ آباد ہونے کے لیے سفر شروع کیا۔ قبیلے کے سردارسلیمان شاہ سفرکے دوران دریا فرات پار کرتے ہوئے گھوڑے سے گھر کر اللہ کو پیارا ہو گیا تھا۔ اس موت کو نیک شگون نہ سمجھتے ہوئے قبیلے میں تکرار پیدا ہوئی کہ سفر جار رکھا جائے یا نہیں۔اور قیام کہاں کیا جائے۔ بحث مباثے میں قبیلے کے لوگ تین حصوں میں بٹ گئے۔ ایک شام میں رہ گیا۔ دوسرا انطولیہ چلاگیا۔ تیسرا گروہ جعیر کے قریب آباد ہوا۔ سلیمان شاہ کے چاروں بیٹوں میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ارطغرل اور اس کا بھائی دوندارایشائے کوچک کی جانب روانہ ہوئے۔ ارطغرل جب اپنے قبیلے کے ساتھ نئے مقام پر آباد ہونے کے لیے جارہا تھا۔ اس دوران ایک مشہور واقع پیش آیا۔ ارطغرل نے دو افواج کو ایک دوسرے سے لڑتے دیکھا۔
ایک فتح کی طرف کامزن تھا دوسرا شکست کی طرف۔ ارظغرل نے اپنی فطری ہمدردی سے کمزور فوج کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا۔ اپنے ساتھیوں اور ہارنے والی فوج کے ساتھ مل کر فاتح ہونے والی فوج کو شکست فاش دی۔ بعد میں پتہ چلا کی یہ کمزور فوج سلجوقی سلطان علاؤالدین کیقباد کی ہے۔ جو منگولوں کے ساتھ لڑ رہا تھا اور اس کی شکست یقینی تھی۔ ارطغرل کی بروقت جنگ میں مدد سے سلجوق سلطان بہت خوش ہوا۔ مشکل وقت مدد کرنے کی وجہ سے سلجوقی سلطان کیقباد اور ارطغرل دونوں کے درمیان دوستی کی بنیاد بنی۔ ارطغرل کو مدد کے وقت معلوم نہیں تھا کی فریقین کو ن ہیں۔ غیر متوقع جنگ کے عین موقع پر، جب سلطان شکست کے قریب تھا، مدد کی وجہ سے سلجوقی سلطان علاؤالدین کیقباد نے ارطغرل کو انگورہ اور اس کے قریب علاقے جس میں سغوت بھی شامل تھا، جاگیر کے طور پر عطا کیے۔ اس علاقے میں قرہ چہ داغ نامی علاقہ بھی شامل تھا۔ یہی علاقہ، کائی قبیلے عثمانی ترکوں کی پہلی آبادی بنی۔ یہ علاقہ بازطینی حدود سے قریب تھا۔ رومی سلجوقیوں سے لڑتے رہتے تھے۔ اوغوزترکوں کے آنے سے ان کے کان کھڑے ہوئے۔
اللہ کا کرنا کہ ارطغرل کو اپنے قبیلے کو آباد کرنے لیے زمین ملی گئی، جس کی تلاش میں وہ تھے۔ دوسری طرف اس علاقے کی سلطنت سلجوق کے سلطان علاؤالدین کیقباد سے دوستانہ تعلوقات بھی قائم ہو گئے۔ سلجوقیوں اور رومیوں یعنی عیسائیوں کی لڑائیوں کی جہ سے سلجوقی سلطنت کمزور ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ایشائے کوچک کے شمالی مغربی علاقوں پر رومیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ جنوب و مشرق کے علاقے مغلوں کے وجہ ے ہاتھ چلے گئے تھے۔ سلطنت قونیہ دو پاتوں کے درمیان پس رہی تھی۔ بلکہ کمزور ہو کر ختم ہونے کے قریب تھی۔ ارطغرل نے آباد ہونے کے بعد رومیوں کے ساتھ لڑ کر انہیں شکست دی۔ اس پر خوش ہو کرسلجوقی سلطان نے ارطغرل کو اپنی سلطنت کے مذید علاقے بھی دیے۔ اس سے ارطغرل کے زیر قبضہ علاقہ روم کے سرحد تک پہنچ گیا۔ سلجوق سلطان نے ارطغرل کے علاقے کا نام”سلطانوی“ رکھ دیا گیا۔ ارطغرل کو اپنی فوجوں کے مقدمہ الجیش کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔
ارطغرل کے آباؤ اجداد کے حوالے سے بھی قبیلہ کے اُوصاف کا چرچا ہر جگہ ہونا شروع ہوا۔ سلجوقی بادشاہ کی مہربانیوں کے وجہ سے ارطغرل کا قبیلہ باشاہ کا وفادار بن گیا۔ سلجوقی سلطنت بچانے کے لیے منگولوں اور رومیوں کے خلاف کا علم بند کیا۔ رفتہ رفتہ مہاجر اوغوز ترکوں نے انا طولیہ کے ایک حصہ پر قدم جمانا شروع کیے۔ ارطغرل ایک بہادر مجاہد اور اسلام کا شیدائی تھا۔ اوغوز ترکوں نے جس طرح ہجرت کی اس میں ارطغرل کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس نے سلیمان شاہ کے دریائے فرات میں ڈوب جانے سے لے کر اپنے دور کے آخری وقت تک جو کرادر ادا کیا وہ اس نوجوان ترک سرادر ارطغرل کا ہی ایک کارنامہ ہے۔ بہترین منتظم ہونے کے وجہ سے اپنے ساتھیوں کو ایک جماعت میں منظم کیا۔ کسی خون خرابے سے قبیلے کو بچائے رکھا۔سلجوقی حکومت کی بہادری سے مدد کی۔ اپنی سرحد کے برابر رومیوں سے لڑ کر اپنے علاقے کو وسط دی۔سلجوق سلطان ارطغرل کی حکومت وسط سے خوش تھا۔ اس طرح ارطغر ل نے خلافت عثمانیہ کا بنیادی پتھر رکھا۔ارطغرل کی کامیابی کاراز سلجوق سلطنت کو بچانے،منگولوں اور رومیوں سے لڑنے کی وجہ سے مستحکم ہوئی۔ اس کے علاوہ ہ دیگر ترکی ریاستوں سے سلجوقی سلطنت کو تحفظ دینا ارطغرل کے بے مثال کارنامے ہیں۔
ارطغرل کی ان کامیابیوں کے وجہ سے اِرد گرد آباد اوغوز ترک اناطولیہ کے مختلف حصوں میں جمع ہونے لگے۔ اوغوز ترکوں کا ایسا آباد ہونا سلجوق سلطان کو اچھا لگا۔ اس لیے کہ اوغوز ترکوں کا سردار ارطغرل سلطنت سلجوق کا محافظ تھا۔ ارطغرل نے ہر قدم پر سیاسی بصیرت اورفہم و فراست سے کام لیا۔ منگولوں اور رومیوں کے طوفان کو بڑے تدبر اورحکمت و بہادری سے روکا۔ ایک عظیم لیڈر ہوتے ہوئے سلجوق سلطان سے تعلوقات قائم کرتے وقت فہم فراست سے کام لیا۔ کسی بھی موقعہ پر غلطی یا نا اہلی کا مظاہر نہیں کیا۔ بہادری سے معاملات طے کیے۔ اس سے عثمانی خلافت کے لیے راستے صاف ہوئے۔خلافت عثمانیہ نے بعد میں سات سو سال 1924ء تک تین براعظموں میں کامیابی سے شاندار حکومت کی۔ارطغرل نے نوروارد ترک سرادر کی حیثیت سے سلجوقی علاقہ میں داخل ہو کر تھوڑے ہی دنوں میں اپنی شجاعت کا سکہ نہ صرف سلجوقی سلطان پر بٹھایا، ملکہ ترکی عوام کے دلوں میں اس کی شہرت گھر کر گئی۔ترک بہادر سپاہیوں نے بھی اس کی عزت بڑھائی کہ اسے امینی سلطان(ناصیہ سلطانی) کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔
ارطغرل کی شجاعت بہادری سے قائم کی گئی سلطنت بعد میں اس کے بیٹے عثمان خان غازی اور اس کے بیٹے خان اور پھر دیگر جانشینوں نے آگے بڑھایا۔ لیکن اوّل کارنانہ ارطغرل ہی کا تھا۔ تاریخ کے اس بہادر سپوت نے 1288ء میں 90 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ارطغرل ایک سچا بہادر مسلمان تھا۔رحم دل اور متواضع بھی تھا۔ اس کی زندگی سادہ تھی۔ اس کا دامن کسی عزیز و اقارب کے خون سے پاک رہی۔ اس نے اپنے قابلیت و صلاحیت سے سب کچھ حاصل کیا۔ اپنے قبیلے اور خاندان میں یکجہتی پیدا کی۔ بہادر نڈر اور شجاع تھا۔ جس کا ثبوت اس کی منگولوں، رومیوں اور ترکی ریاستوں سے سلجوقی سلطنت کو تحفظ فراہم کرنا تھا، ترکی کے موجودہ حکمران طیب اردگان تعریف کے قابل ہیں کہ اس نے اس بہادر ارطغرل کی زندگی پر”ارطغرل ڈرامہ“ بنا کر دنیا کے سامنے ارطغرل کے کارنامے پیش کیے۔ آج پوری دنیا اور مسلم ملکوں میں لوگ ارطغرل ڈرامے کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔راقم نے رات رات بھر جاگ کر ارطغرل ڈرامے کو بڑے شوق سے مکمل دیکھا۔ اے کاش! کہ ترکی سے کوئی صلاح الدین ایوبی جیسا بہادر ارطغرل اُٹھے اور فلسطین کے مظلوموں کی مدد کرے۔ مسلمانوں کے ازلی دشمن یہود جو اللہ کے دھتکارہ ہوا ہے کو شکست فاش دے۔