آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا – میری بات/روہیل اکبر
آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا – میری بات/روہیل اکبر
آوارہ کتوں نے سندھ کے بعد پنجاب میں بھی ات مچارکھی ہے اور انکاآسان شکار وہ غریب لوگ ہیں جو سائیکل بھی نہیں خرید سکتے کچھ عرصہ پہلے سندھ سے ایسی خبریں تواتر سے آتی تھی کہ فلاں شہر میں اتنے افراد کو آوارہ کتوں نے کاٹ لیااب اسی طرح کی خبریں پنجاب سے آنا شروع ہوچکی ہیں بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ کہ سندھ کے آوارہ کتوں نے پنجاب کا رخ کرلیا ہے شائد اسی لیے راوالپنڈی میں ایک ہی دن میں 6افراد کو کتوں نے کاٹ لیا کتوں کے کاٹنے کے بعداسکی دوائی بھی نہیں ملتی اور غریب لوگ دیسی علاج اور ٹوٹکے کرکے وقت گذار لیتے ہی لاہور میں بھی آوارہ کتوں کی کثرت ہے لیکن اس طرف کسی کا بھی دھیان نہیں ہے پہلے کبھی ہماری کارپوریشنوں والے آوارہ کتوں کو گولیاں دیتے ہیں جن کی وجہ سے آوارہ کتوں کی تعداد کسی حد تک کم تھی لیکن جب سے کمیٹی والے مال پانی اکٹھا کرنے میں مصروف ہوئے ہیں
تب سے ہر چیز آوارہ ہی ہو چکی ہے ہماری گلیاں اور بازار وں پر بھی آوارہ لوگ قابض ہو چکے ہیں جو ہر دونمبر اشیاء کھلے عام فروخت کرنے میں مصروف ہیں اور تو اور ایک چھوٹے سے درجے والا انسپکٹر بھی بازاروں میں اپنی مرضی سے تھڑے اور فٹ پاتھوں پر قبضے کرواتا ہے اب تو ان قبضہ گروپوں سے بھی کیا گلاشکوہ اس وقت پورے ملک پر چند لوگ قابض ہیں جنہوں نے نیچے قبضہ گروپوں کو بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے شائد اسی لیے ہم ہر کام میں دنیا کے آخری نمبروں پر ہیں اور ہمارے اداروں کا تو کوئی نمبر ہی نہیں رہا ہاں مجھے یاد آیا کہ ہم ابھی کچھ دنوں سے دنیا کو مات دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور بڑی کوششوں سے پہلا نمبر حاصل کیا ہے جس میں ہمارا پہلا نمبر آیا ہے
اسکا تعلق ہماری صحت اور زندگی سے بڑا گہرا ہے اور یہاں تک پہنچنے میں بلاشبہ ہمارا اپنا کردار،ہمارے اداروں کا کام اور ہماری حکومت کی پالیسیوں کا بڑا عمل دخل ہے جس کام میں ہم پہلے نمبر پر آئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی سے پیار ہے اور نہ ہی ہمیں کسی اور کا خیال ہے بلکہ ان اداروں کا بھی بیڑہ غرق ہوگیا ہے جنہوں نے ہمیں شعور،آگاہی اور حکمت عملی دینا ہوتی ہے ان اداروں میں قبضہ مافیا بیٹھا ہوا ہے اور انکی سرپرستیوں میں وہاں کے ملازمین کی ترقیوں کا سلسلہ کئی کئی سالوں سے رکا ہوا ہے جو ان اداروں کے سربراہ ہیں وہی اداروں کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان اداروں میں کام کرنے والے بے یقینی کا شکار ہیں رہی بات حکومت کی جسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے اگر پرواہ ہے تو اپنے بندوں کو کہیں نہ کہیں لگوانے کی فکر ہے جبکہ صوبائی وزیر تعلیم نظام کی تبدیلی کی بجائے اساتذہ کو ہی تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وسیع تعداد میں یہاں بھی اپنے بندوں کو نوکریوں سے نوازا جائے صحافیوں کو دھمکیاں دینے والی وزیر کے اپنے اداروں میں تباہی مچی ہوئی ہے
بلخصوص ڈی جی پی آر میں باہر سے بندوں کو لا لاکراس ادارے کی شناخت اور حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس ادارے پرپہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا کہ کیسے باہراور اندر والوں نے اس ادارے کی شناخت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیااور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی خیر اب تو میں پوری قوم بلخصوص زندہ دلان لاہور کو مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا کہ ہم دنیا بھر کے 195ممالک میں پہلے نمبر آچکے ہیں یہ نمبر بے شک گندگی،آلودگی اور جہالت کی شکل میں ہی ملا ہو لیکن ہیں ہم پہلے نمبر پرملک کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور کے بعد ملتان دوسرے، اسلام آباد تیسرے، پشاور چوتھے، راولپنڈی پانچویں، ہری پور چھٹے اور کراچی ساتویں نمبر پر ہے بلا شبہ ہم نے یہ درجہ بندی بڑی محنت اور مشقت سے حاصل کی ہے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارا میڈیا،ہمارے ادارے اور ہماری سرکار دنیا میں یہ نمایا ں مقام حاصل کرنے پر خوشی نہیں منا رہی اور نہ ہی اس حوالہ سے لوگوں کو بتایا جارہا ہے جبکہ فضول سی بحثوں میں صبح سے شام تک لوگوں کو الجھایاہوا ہے کبھی گنڈا پور کے بیان پر تیر اندازی کے لیے حکومت کی پوری ٹیم مصروف ہوجاتی ہے تو کبھی پکڑ دکڑ میں سارے ادارے مصروف ہوجاتے ہیں اور کچھ نہ ملے تو پھر قیدی نمبر804 کی کردار کشی میں سب کچھ جھونک دیا جاتا ہے
اب دنیا تبدیل ہوچکی ہے اور پاکستان میں بھی لوگوں کے ذہن بریانی کی پلیٹوں سے باہر نکل رہے ہیں شائد اسی لیے پنجاب کے وزیر تعلیم کے سوال کہ 76 سال ہوگئے 4 لاکھ اساتذہ ہیں لیکن تعلیم نہیں کے جواب میں پوچھا گیا ہے کہ 76 سال ہوگئے ہیں سیاستدان ہیں لیکن جمہوریت نہیں بیوروکریسی ہے لیکن مینجمنٹ نہیں،پولیس ہے لیکن امن نہیں،ہسپتال ہیں لیکن علاج نہیں،ادارے ہیں لیکن سیکیورٹی نہیں،عدالتیں ہیں لیکن انصاف نہیں اس وقت پاکستانی عدالتوں میں تقریباً دو ملین کیسز زیر التوا ہیں صرف پنجاب کی عدالتوں میں 1.4 ملین کیسز زیر التوا ہیں قابل احترام وزیر صاحب اگر واقعی ہی آپ انقلابی ہیں اور آپ میں اتنی اخلاقی جرات ہے توپھر کھل کر یہ بھی بتا دیں کہ آپ نے جو الیکشن لڑا ہے وہ قانون کے مطابق لڑا ہے جتنا خرچہ الیکشن کمیشن نے لکھا تھا آپ نے اس سے بڑھ کر ایک پائی بھی خرچ نہیں کی کیا فارم 47والے حکومت کرنے کے اہل ہیں اور یہ بھی بتا دیں کہ کیا واقعی ملک میں جمہوریت کا راج ہے اوریہ بھی بتا دیں کہ گذرے ہوئے 76 سال میں میرٹ پر ترقیاں اور تعیناتیاں ہوئی ہیں اور اگر یہ بھی بتادینگے تو احسان ہوگا کہ جو جو وزیربنائے گئے ہیں انکے سفارشی کون ہیں اورکیا وہ ان اداروں کے میرٹ پر پورا اترتے ہیں جہاں انہیں لگایا گیا ہے اور یہ بھی بتادیں کہ ایک استاد کوایک ہی سکیل میں پڑھاتے ہوئے ریٹائر ہونا پڑتا ہے اور اسکی ترقی کیوں نہیں ہوتی اور دوسرے اداروں میں بیٹھے ہوئے دن دگنی اور رات چوگنی ترقیاں کرتے رہتے ہیں
کیا ہم اتنے ہی محسن کش،بے وفا اور دوسروں میں کیڑے نکالنے والے بن چکے ہیں کہ ہمیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا جبکہ دوسروں کی آنکھ کا تنکا ہم ڈھونڈ نکالتے ہیں اساتذہ اپنے حق کے لیے سڑکوں پر آئیں تو آپ انہیں مار مار کر انہیں سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں نوکریوں سے فارغ کرنے کی دھمیاں دیتے ہیں اور پولیس کے غنڈوں کے زریعے انہیں تھانوں میں بند کروادیتے ہو اگر76سالوں میں آپ نے صرف اساتذہ کا حق انہیں دیا ہوتا تو آج پوری قوم آپ کو کھل کر بتا رہی ہوتی کہ آپ لوگوں نے 76سالوں میں کیا کیا آپ نے صرف لوگوں کے حقوق غضب کیے انہیں جاہل رکھا اور ایک پلیٹ بریانی کے لیے انہیں مجبور بنا دیا شائد اسی لیے آج ہم ہر برے کام میں دنیا کے پہلے اور ہر اچھے کام میں آخری نمبروں پر ہیں اور یہ باتیں آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا۔