آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ میں “تمباکو نوشی سے اجتناب” کا عالمی دن کے حوالے سے تقریب
آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ میں “تمباکو نوشی سے اجتناب” کا عالمی دن کے حوالے سے تقریب
چترال (چترال ٹائمزرپورٹ ) 31 مئی دنیا بھر میں تمباکو نوشی سے اجتناب کا عالمی دن کے طور پر منایا جارہا ہے ۔ اسی سلسلے میں ایک اہم تقریب آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول کوراغ کے آڈیٹوریم ہال میں منعقد کی گئی ۔ اس تقریب میں کوراغ اور چرون کے عمائدین اور مذہبی حلقوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی جو کہ کافی تعداد میں لوگوں نے شرکت کیں اس تقریب کی صدارت پرنسپل سلطانہ برہان الدین نے کی ۔ تقریب میں تمباکو نوشی اور نسوار خوری کے نقصانات اور تباہ کاریوں سے متعلق طالبات اپنی تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں سے محفل کی رونق میں رنگ بھر دیئے ۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سلطانہ برہان الدین نے معاشرے میں نسوار خوری اور تمباکو نوشی کی بڑھتی ہوئی رجحانات پر سیر حاصل گفتگو کی اور علاقے کے عمائدین اور مذہبی حلقوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان مضر صحت اور تباہ کن عناصر کی بیخ کنی اور انسداد کے لئے کمیونٹی اور مذہبی حلقوں کو مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے ماحولیاتی آلودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف سوسائٹی کے لوگوں کو خود کھڑا ہونا ضروری ہے ورنہ باہر کے مفاد پرست عناصر ہمارے اس صحت بخش قدرتی ماحول کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیں گے ۔
تقریب کے آخر میں کمیونٹی کو صحت مند ماحول کے حوالے آگاہی دینے پر علاقے کے عمائدین نے پرنسپل سلطانہ برہان الدین اور سکول انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا ۔
رفیق علی قتل کیس ۔
تحریر ؛ شہزاد الحسن
چترال اپنی آمن اور پُرسکون ماحول کی وجہ سے پورے دنیا میں اہمیت کا حامل تھا ۔خاص کر کہ اپر چترال انتہائی پُرامن اور پُرسکون علاقہ تھا ۔دوسرے جگون کے باسی بھی چترال کی پرامن ماحول کے لیے دل میں ارمان رکھتے تھے۔کچھ مہینے پہلے طلب علم رفیق علی آف ریشن راغیں کی موت نے پورے علاقے میں خوف اور دشمنی کو اُجاگر کردیا۔رفیق علی انتہائی طبع دار اور قابل طالب علم تھا جو سکاس یونیورسٹی پشاور میں انجنیرنگ کی ڈگری حاصل کررہا تھا۔
رفیق علی کچھ مہینے پہلے اپنے گھر سے رات کے کھانے کے بعد زندہ سلامت باہر نکلا تھا اور صبح سویرے رفیق علی کی لاش کڑوم شغور بمقام ریشن برآمد ہوئی۔
ابتدائی تفتیش کے بعد قتل نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور ابھی جیل میں موجود ہے۔
یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا کوئی ایک بندہ باآسانی سے ایک مظبوط نوجوان کو باآسانی موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے؟
کیا کوئی ایک بندہ رات کی تاریکی میں بیبان جگہ میں جا کر با آسانی کسی کو قتل کرسکتا ہے؟
ظاہر سی بات ہے کہ رفیق علی کے قاتل نے اکیلے خود قتل نہیں کیا بلکہ کوئی اور گروہ بھی قاتل کے ساتھ شامل ہیں اور قاتل کے شانہ با شانہ اس کی مدد کی اس قتل میں برابر کے شریک ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ رافیق علی کا تعلق ماژے قوم سے تھا جبکہ قاقل کا بٹیکے قوم سے یہ دو الگ قوم ہیں اور نا ان کا کوئی زمیں کی دشمنی ہے اور نا کسی قومی اعتبار سے کوئی جھگڑا تھا۔
میرے خیال سے یہاں کوئی اور تیسرا فریق موجود ہے کہ جس نے قاتل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور خود کو پیچھے دھکیل دیا اور اس طرح سے ایک تیر سے دو شکار کیے ۔
ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں لیکن افسوس یہاں جنگل کا قانون چل رہا ہے ۔
کیون پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟
کیوں سیاسی دباؤ ڈالی جارہی ہے ؟
کیوں اس تیسرے فریق کو سامنے نہیں لایا جارہا ہے؟
اگر پولیس اس طرح خاموش تماشائی بنی رہی گی تو چاروں طرف سے خون بہہ سکتے ہیں یہ دشمنی خاندانی دشمنی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
میں ایک بار پھر اپر چترال کے پولیس سے گزارش کرتا ہوں کہ مہربانی کر کہ اس تیسرے فریق کو سامنے لایے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اور اصل مجرموں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے ۔