آغا خان سوم: ایک روشن و تابندہ ورثہ – ازسجاول احمد
آغا خان سوم: ایک روشن و تابندہ ورثہ – ازسجاول احمد
کچھ رہنما وقت سے بالاتر ہو کر ایک ایسی وراثت چھوڑ جاتے ہیں جو آنے والی نسلوں کو دنیا کو، اس وقت کے مقابلے میں، بہتر جگہ کے طور پر چھوڑنے کی ترغیب دیتی ہے، جب وہ خود آباد تھے۔ سر سلطان محمد شاہ، آغا خان سوم، ایک ایسے دور اندیش شخص تھے، جن کی سیاست، تعلیم اور سماجی اصلاح میں خدمات نے بیسویں صدی پر انمٹ نشانات چھوڑے ہیں۔ ایک بااثر سیاستدان کی حیثیت سے اُن کے کام نے برصغیر اور اُس سے باہر کے مسلمانوں کے لیے تاریخ کا رخ متعین کیا۔ اُن کی خدمات کسی یادگار سے کم نہیں ہیں? یہاں تک کہ اکثر الفاظ اپنی حقیقی گہرائی تک پہنچنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔مؤرخہ 2 نومبر، 1877ء کو پیدا ہونے والے آپ شیعہ امامی اسماعیلی مسلمانوں کے 48 ویں روحانی پیشوا تھے جو ہمیشہ زندگی کے مختلف شعبوں میں پیش پیش رہے۔
1946ء میں،علی گڑھ یونیورسٹی کے دربار سے خطاب کرتے ہوئے آغا خان سوم نے جلد ہی سائنس کے میدان میں واقع ہونے والی پیشرفت پیش گوئی کی تھی۔انہوں نے مسلمانوں کو سائنسی ترقی کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ ”مستقبل کی دنیا سائنس پر منحصر ہے۔“ انہوں نے ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا جہاں سائنس لامحدود امکانات کو کھولے گی اور جنوبی ایران، افغانستان اور مشرقی افریقہ کے طالب علموں کی خدمت کے لیے کراچی میں ایک تحقیقی ادارہ قائم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ قیام پاکستان کے بعد، انہوں نے مزید کہا کہ ادارے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی پر توجہ دیں۔ اُن کی دور اندیشی نے آنے والی نسلوں کے لیے سائنس کے میدان میں آگے بڑھنے کی بنیاد رکھی، اس خواب کوبعد میں اُن کے پوتے پرنس کریم آغا خان چہارم نے 1983ء میں آغا خان یونیورسٹی کے قیام کی صورت میں پورا کیا۔ سر سلطان محمد شاہ کے نزدیک سائنس اسلام میں داخل تھی جسے انہوں نے ایک فطری مذہب قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ فطرت کے قوانین میں خدا کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ جدید دنیا میں پھلنے پھولنے کے لیے سائنسی فکر کا مطالعہ کریں اور اس میں مہارت حاصل کریں۔
آغا خان سوم کا وژن تعلیم اور سائنس سے آگے بڑھ کر مسلم دنیا کے سماجی و سیاسی تانے بانے کا احاطہ کرتا ہے۔1934ء میں عالم اسلام کے نام اپنے پیغام میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلم تاریخ ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ قرون وسطیٰ کا دور ختم ہو چکا ہے اور مسلمانوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپناتے ہوئے اور سائنس،علم اور سماجی ترقی میں آگے بڑھ کر مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پربھی زور دیا کہ اسلام کا مستقبل اصلاح میں مضمر ہے اور اگر اسلام آگے نہ بڑھا تو اس کے تاریخ میں گم ہونے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے سائنسی ترقی کو صنعت میں ضم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ صنعت کاری کے عمل کی بنیاد زرعی کوششوں پر ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ سائنس کو زراعت سمیت صنعت کا حصہ بنانا چاہئے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ سائنسی طریقوں کے اطلاق اور زرعی طریقوں کو جدید بنانے سے نہ صرف خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ وسیع تر معاشی ترقی میں بھی مدد ملے گی۔ ایک اور اہم پہلو اُن کا معاشی خود کفالت کو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑنے کا وژن تھا جو اپنے وقت سے آگے تھا، جس میں انہوں نے اس بات کا خاکہ پیش کیا تھا کہ کس طرح قومیں بڑھتی ہوئی باہم مربوط دنیا میں پھلنے پھولنے کے لیے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
سر سلطان محمد شاہ کی بڑی خدمات میں سے سب سے بڑی خدمت خواتین کی ترقی کے سے اُن کی وابستگی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہاں معاشرے خوشحال ہوتے ہیں جہاں تعلیم اور مساوات کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنایا جاتا ہے۔ اُن کے نزدیک قومی ترقی اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک خواتین کو مکمل سیاسی اور سماجی شرکت کے ساتھ معاشرے میں اپنا جائز کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
مزید برآں، آغا خان سوم امن کے چیمپئن بھی تھے، ایک ایسی قدر جس نے زندگی بھر اُن کے اعمال کی رہنمائی کی۔ عالمی ہم آہنگی کے لیے اُن کی لگن نے انہیں لیگ آف نیشنز کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے پر آمادہ کیا، جو اقوام متحدہ کا پیش رو ادارہ تھا۔ 1946ء میں دارالسلام کلچرل سوسائٹی میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا: ”خواہشات، خواب اور اُمیدیں، اِن سب کا آئیڈیل، جو انسانی روح میں سب سے بہتر ہے، امن ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام اور تمام عظیم مذاہب کا جوہر امن ہے?افراد کے درمیان امن، سوچ میں امن اور عمل میں امن۔ انہوں نے دنیا کو یاد دلایا کہ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طے کردہ پرامن اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ”جیو اور جینے دو“ کی کوشش کرنا ہے۔
آج،اُن کے پوتے پرنس کریم آغا خان چہارم،آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این) کے ذریعے اپنے دادا کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے ترقیاتی اداروں میں سے ایک کی حیثیت سے، اے کے ڈی این پورے ایشیا اور افریقہ میں برادریوں کے درمیان افراد کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے وقف ہے۔ خواہ تعلیم ہو، صحت کی دیکھ بھال ہو، اقتصادی اور دیہی ترقی، یا ثقافتی ورثے کا تحفظ، اے کے ڈی این ترقی پذیر دنیا میں ترقی اور عمدگی کو فروغ دینے والاعالمی رہنما ہے۔ مزید برآں، آغا خان چہارم نے ثقافتوں کے مابین تفہیم کو فروغ دینے کے ذریعہ کے طور پر تکثیریت کی وکالت بھی کی ہے،جس کی مثال گلوبل سینٹر فار پلورلزم کا قیام ہے۔ مسلم اور مغربی دنیا کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کے عزم کے ساتھ انہوں نے ”تہذیبوں کے تصادم“ کو ”جہالت کا ٹکراؤ“ قرار دیا تھا۔
سر سلطان محمد شاہ کی بصیرت افروز قیادت کے ذریعے آغا خان سوم نے فکری، سیاسی اور سماجی ترقی کی ایک ایسی وراثت چھوڑی ہے جو نسلوں کو متاثر کرتی ہے۔ تعلیم،سائنس اور تمام لوگوں کو، اور خاص طور پر خواتین کو بااختیار بنانے پر، اُن کے غیر متزلزل یقین نے زیادہ منصفانہ اور ترقی پسند معاشرے کی بنیاد رکھی۔ امن اور اصلاح کے لیے اُن کا لازوال پیغام آج بھی اُتنا ہی اہم ہے جتنا اُن کی زندگی میں تھا اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ آگے بڑھنے کا راستہ ترقی، تعلیم اور مشترکہ بھلائی کے عزم پر مرکوز ہو۔ آج، اُن کے یوم پیدائش پر، ہم اُن کی پائیدار وراثت کا احترام کرتے ہیں اور جشن مناتے ہیں۔