آغا خان رورل سپورٹ پروگرام چترال اورآغاخان فاونڈیشن کے باہمی اشتراک سے نوجوانوں میں مثبت رویوں کو فروغ دینےکے حوالے سے سیمنار کا انعقاد
آغا خان رورل سپورٹ پروگرام چترال اورآغاخان فاونڈیشن کے باہمی اشتراک سے نوجوانوں میں مثبت رویوں کو فروغ دینےکے حوالے سے سیمنار کا انعقاد
چترال (چترال ٹائمزرپورٹ )آغا خان رورل سپورٹ پروگرام چترال،آغاخان فاونڈیشن،لوکل سپورٹ پروگرام آرگنائزیشن کے باہمی اشتراک سے (F4HE)پراجیکٹ کے زیراہتمام کینیڈین حکومت کی مالی معاونت سے لوئرچترال کے مقامی ہوٹل میں نوجوانوں میں مثبت رویوں کو فروغ دینے اور انکی زہنی صحت بہتر بنانے” کے موضوع پرایک روزہ سمینار کاانعقاد کیاگیا۔سمینار میں سرکاری اورغیرسرکاری اداروں کی خواتین وحضرات نے کثیرتعداد میں شرکت کی۔تقریب میں نظامت کی فرائض آغا خان فاؤنڈیشن کی قدسیہ مہتاب نے انجام دئے۔سمینار کے شروع میں پینل ڈسکشن کاانعقاد کیاگیا۔
پینل ڈسکشن میں آغا خان یونیورسٹی کراچی کے برین اینڈ مایئنڈ انسٹیٹیوٹ کے ماہرین نفسیات کے پینلسٹ ڈاکٹرمحبوب علی شاہ،ڈاکٹرمراد موسیٰ خان،ڈاکٹرروزینہ اور ڈاکٹرزول،میر علی نے حاضرین کو نوجوانوں کی زہنی صحت کے متعلق تفصیل سے آگاہی دی۔اس موقع پر ڈاکٹر محبوب نے کہا کہ آج کا نوجوان اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتا جسکی وجہ سے بلڈ پریشر،شوگر اور دل کی بیماریوں کا شکار ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا بہت تیز گرم چائے میدے میں سوجن کا باعث بنتی ہے جبکہ نمک کا زیادہ استعمال بھی صحت کے لئے مفید نہیں۔انہوں نے اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئیکہا کہ گلگت بلتستان میں خواتین کی شرح خودکشی کافی زیادہ ہے جسکی ایک وجہ بے جوڑ رشتہ،پسند کی شادی نہ ہونا اور سسرال والوں کا تششدد ہے۔ڈاکٹر زول نے بتایا کہ اموشنل انٹیلیجنس کسی بھی انسان کو دوسروں کے جزبات کو سمجھنے اور مسائل کو ہمدردی سے حل کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔جبکہ زہنی امراض کا مسئلہ عالمی مسئلہ ہے۔ڈاکٹر روزینہ نے کہا حکومت نے آغا خان فاؤنڈیشن اور آغا خان یونیورسٹی کراچی کے ساتھ مل والدین کی تربیت کا مینوئل بنایا ہے جو جلد ہی ہر ضلع کی سطح پر شائع کیا جائے گا۔
ڈسٹرکٹ پراسکیوٹرایاززرین، نیازاے نیازی ایڈوکیٹ،آسیہ منیجر دالامان، ماہر نفسیات چائیلڈ پروٹیکشن یونٹ کلثوم اور لوکل تنظیم کی نمائیندہ نازیہ حسن نے مینٹل ہیلتھ،بلوغت کے مراحل، والدین کے مثبت رویے اور نوجوانوں کے لئے بناۓ گئے قوانین پرحاضرین سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ہمارے روزمرہ زندگی کے بارے میں رویے درست ہیں تو ذہنی صحت بھی درست ہے لیکن ہم عام طور پر اسی وقت ذہنی صحت کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں جب دماغی بیماریوں کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور واقعی ذہنی خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔تشویش، پریشانی، اضطراب، ڈپریشن،موجودہ زندگی میں بہت بڑھ گئی ہیں۔ جن لوگوں کو تناؤ اور پریشانی سے نمٹنے میں دشواری ہوتی ہے یا خراب دماغی صحت کی علامات ظاہر ہوتی ہیں انہیں ماہر سے ملنا چاہیے۔۔پینلسٹ نے کہاکہ ہمارے ملک کا مستقبل جو یقینی طور پر نوجوانوں پر منحصر ہے انھیں ہر طرح سے اور ہر میدان میں مدد دی جائے اور ایسے پلیٹ فارم مہیا کیے جائیں جہاں یہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔نوجوان نسل کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنا اور انوائرمنٹ کو بہتر رکھنے کے لیے اقداما ت کرنے کی ضرورت ہے۔اے کے ڈی این چترال میں نوجوانوں کے لئے مختلف موضوعات پر بے شمار تربیتی کورسز کروائے جا رہے ہیں جن سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جس سے سینکڑوں نوجوانوں کو اپنا ذاتی کاروبار کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد ملے گی۔شرکاء نے پینلسٹ سے مختلف موضوعات پر سوالات بھی کیے جن کا پینلسٹ نے تفصیلی جواب دے کر سامعین کو مطمئن کیا۔
اس سے قبل منیجرمینٹل ہیلتھ پروگرا م آغاخان ہیلتھ سروس گلگت بلتستان اورچترال کاشف اللہ خان نیا پنے پریزٹیشن میں کہاکہ بچوں اوربچیوں کے لائف اسکل،منٹیل ہیلتھ،خود اعتمادی بھی پیداکرنے، اپنی ذہنی و جسمانی صحت کا خیال رکھنے،قدرت کی طرف سے عطا کی گئی صلاحیتوں کوصحیح معنوں میں استعمال واُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہ اے کے ایچ ایس پی نے چترال کے مختلف بیسک ہیلتھ سنٹر میں ڈیجیٹل ہیلتھ کلینک کے ذریعے مینٹل ہیلتھ کے مریضوں کو آغاخان میڈیکل سینٹربرائے گلگت اورآغاخان ہسپتال کراچی میں موجودڈاکٹرزکے ساتھ لنگ کرتے ہیں وہ براہ راست طبی امداد لیتے ہیں اورچترال کے کونے کونے میں ذہنی صحت کے حوالے سے آگاہی پہنچانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔
اس موقع پر منیجر ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن اے کے ار ایس پی چترال امتیاز احمدکہاکہ اے کے ار ایس پی کے زیر اہتمام اپر اور لوئر چترال میں 58 ایڈولسنٹ فرینڈلی سینٹر زقائم کئے ہیں جس میں 82مینٹور،28تربیت یافتہ سہولت کار کے زریعے 13سے 19سال کے 1465لڑکے اور1640لڑکیوں کوعمر کے مطابق معلومات دی فراہم کیے ہیں کہ ان کے نفسیاتی، سماجی اور ذہنی طرز پر آنے والے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ سکھایاگیاتاکہ ان کے اند ر احساس کمتری کو دور کرکے احساس برتری پیدا کی جاسکیں۔