Chitral Times

Oct 14, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آج کی دنیا – تحریر: اقبال حیات اف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

آج کی دنیا – تحریر: اقبال حیات اف برغذی

 

اللہ رب العزت  کی اس کائنات کے رنگ وبو بدل گئے ۔شب وروزگھٹ گئیں زندگی میں برکت ختم ہوئی۔ اس میں بسنے والوں کی زندگی کے اسلوب اور اطوار میں فطری آثار غائب ہوئے ۔ پرندوں کے چہچہانے کی لذت مقصود ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے انسانوں سے انیست خوف وہراس میں بدل گئیں ۔ انسانی لباس مین تضع کا رنگ چھاجانے کے ساتھ ساتھ شکل وصورت میں قدرتی نکھار مصنوعیت کے رنگ میں ڈھل گئے ۔ ہر کوئی قدرتی حسن  رنگ میں ڈھل گئے ۔ ہر کوئی قدرتی حسن کو رنگ وپالش کرنے کے مرض کا شکار ہے ۔ نہ بچپن کاحسن اور نہ جوانی کی مستانی میں حلاوت ہے۔ خوراک خوشبو،دل آویزی اور قدرتی لذت  سے عاری ہوگئے ۔ رکھ رکھاو  کی کیفیت میں متانت او سنجیدگی کا فقدان ،کردار اور گفتار حقیقی خوشبو سے خالی ۔قناعت پسندی ہوس پرستی کے رنگ میں ڈھل جانے کی وجہ سے مطمئن اور پرسکون زندگی تصنع  اور بناوٹ کے دلدل میں پھنس گئی ۔ رواداری اور وضع  داری مفاد پرستی اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔ ایک دوسرے کا سہار ا بننے والے انسان ایک دوسرے سے خوف محسوس کرنے لگے۔ خاندانوں رشتوں اور ناطوں کی لذت باہمی منافرت ،چپقلش اور سردمہری کا شکار ہوئے ۔

 

حکمت اور دلفریب الفاظ سے مذہبی پرچار جارہانہ اور تشدد آمیز انداز مین بدل گئے ۔ آزان کی روح بلاوے کی جگہ دکھاوے کی صورت اختیار کی۔ حکمرانوں کی جزبہ خدمت کو مفادات کی ہوس نے دبوچ لی۔ علم کے چراغ تلے جہالت کی تاریکی رقصان ہے۔ والدین سے محبت کے جذبات آلات جدیدہ سے وابستگی میں منتقل ہوئے۔ مادہ پرسی نے ازھان کو دبوچ کر رکھدی۔ ہر کوئی خود غرضی کا شکا ر ۔ایک دوسرے کے لئے دھڑکنے والے دل باہمی منافرت اور بیگانگی کی کیفیت سے دوچاروالدین جیسے عزیز رشتوں کی موت پر بھی محبت اور عقیدت کے آنسووں سے نہ اولاد کی آنکھیں نم ہوتی ہیں اور نہ خویش واقارب کے چہروں پر صدمے کے آثار نظر آتے ہیں۔ نہ معصوم بچے کی حرصی وہوس  اور لالچ  سے ناآشنائی او ر بیگانگی کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے  اور نہ جوانی میں متانت اور سنجیدگی کے آثآر ملتے ہیں ۔ اولاد اور والدیں کی ایک دوسرے کی طرف اٹھنے والی نظروں میں  بھی مطلب  اور غرض کا عنصر غالب رہتا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے اور حق مارنے والوں کے ہاتھ میں کوڑا دیکھ کر دم بخود ہونے کے سبب انسانیت دم توڑنے اور حیوانیت نشونماپانے کی کیفیت سے دوچار ہے ۔

 

سفلی پنی کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ یہ احساس نہیں ہوتاکہ خالق نے ہمیں احسن تقویم پر پیدا کیا تھا۔ جہاں شریعت دبتے  اور غنڈے دندناتے ہیں خوشامد، چابلوسی،ضمیر فروشی، چغل خوری ، ابن الوقتی،بے ایمانی ،خیانت ،حرام خوری کے اوصاف رزیلہ سے دنیامتعفن ہے ۔پوری قوم بکاو مال کی منڈی بن گئی ہے۔ زندگی کا ماحول اس قدر سفلہ پرور ہوا ہے ۔کہ خریدنے والا کسی شرم کے بغیر آدم ذاد کو خریدتا ہے اور بکنے والا کسی حیا کے بغیر بکنے لگتا ہے۔ خدمت سے وابستہ لوگ علم وشعور کے باوجود ضمیر نام سےنا آشنا ہیں ۔انصاف اشرافیہ کی لونڈی بن گئی ہے۔ خاتوں خانہ زینت بازار بن گئی۔ایسے ماحول اور حالات کے اندر کسی قسم ک بھلائی اور اچھائی کی امید اور توقع رکھنا  دیوانے کے خواب کے مماثل ہے۔ اور دلوں کے اندر مچلنے ہوئے خواہشات کا اظہار سر د آہوں کی صورت میں حلق سے نیچے ہی جمود کا شکار ہونا یقینی امر ہے جس کا حقیقی رنگ روزگار کے طلبگار قوم کی نوجوان تعلیم یافتہ نسل کے چہرون پر وقتاً فوقتاً برائے نام ٹیسٹ اور انٹرویو کے مراحل سے گزرنے کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان حالات وکیفیات کے عالم میں ایک ہی ارزو اور خواہش دل میں مچلتی ہے کہ     ” کوئی لوٹا دے مجھے میرے بیتے ہوئے دن ” کیونکہ اُن دنوں پیٹ خالی مگر دل ایمان کے سرور سے لبریز ہوتے تھے۔

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92891